رجب المرجب ساتواں اسلامی مہینہ ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس ماہ کو مقدس اور حرمت کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ اسےرجب الاصم بھی کہا جاتا ہے۔ اس ماہ  مبارک میں عمرہ ادا کیا جاتا تھا اور جنگ حرام سمجھی جاتی تھی۔ قریش اور قیس کے قبیلہ میں ایک جنگ اسی مہینے میں ہوئی تھی جس کو جنگ فجار  کہتے ہیں اس جنگ میں حضور اکرم ﷺ بھی شریک ہوئے تھے لیکن آپ نے کسی پر تلوار نہیں چلائی۔ اس مہینہ کی 13 تاریخ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی ولادت بھی ہوئی۔ اوراسی ماہ کی ستائیسویں شب کو واقعہ معراج ہوا جس کی بنا پرمسلمان اسے متبرک ماہ سمجھتے ہیں اور 27 رجب کی رات  کو شب  معراج مناتے ہیں۔

ماہِ رجب چونکہ  حرمت والا مہینہ ہے،ا س بنا پر حُرمت والے مہینوں سے متعلق وارد عمومی فضائل بھی اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں، لیکن بعض خصوصی فضائل کا بھی ثبوت ملتا ہے، جس سے اس ماہ کی  اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ماہ کے کئی نام وارد ہیں اور  ابن دحیہ نے اس مہینہ کے اٹھارہ نام ذکر کیے ہیں۔ لہذا قاعدہ یہ ہے کہ ناموں کی کثرت مسمٰی کے شرف وفضیلت کی دلیل ہے۔

ماہِ رجب حُرمت والا مہینہ:

ماہِ رجب اُن چار بابرکت مہینوں میں سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بناتے وقت ہی سے بڑی عظمت، احترام اور فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

"حرمت والے مہینے" کی فضیلت:

اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں کو عظمت اور حرمت عطا فرمائی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ التوبہ میں فرماتے ہیں:
"إِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ مِنْہَآ أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ"۔ (التوبۃ:36(
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے، جو اللہ کی کتاب ( لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا، ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ یہی دین سیدھاہے۔

اس آیتِ مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قمری اسلامی سال کے بارہ مہینے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمائے ہیں، جس سے قمری  سال اور اس کے مہینوں کی قدر وقیمت اور اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت، عظمت اور احترام والے ہیں، ان کو ’’اَشْہُرُ الْحُرُم‘‘، ’’حرمت والے مہینے‘‘  کہا جاتا ہے۔

حرمت والے مہینے کی فضیلت کا تقاضا:

 ان چارمہینوں ( ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب)کی عزت وعظمت اور احترام کی بدولت ان میں ادا کی جانے والی عبادات کے اجر وثواب میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ گناہوں کے وبال اور عذاب میں بھی زیادتی ہوتی ہے۔اس لئے لازم  ہے کہ ان مہینوں میں عبادات کی ادائیگی اور گناہوں سے بچنے کا بخوبی اہتمام کیا جائے ۔ اہلِ علم  وفضل فرماتے ہیں کہ جو شخص ان چار مہینوں میں عبادت کا اہتمام کرتا ہے، اس کو سال کے باقی مہینوں میں بھی عبادات کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتاہے تو سال کے باقی مہینوں میں بھی اسے گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے۔ (احکام القرآن للجصاصؒ، سورۃ التوبہ، آیت: 36(

رجب سے متعلق چند روایات و اقوال

حضرت سیِّدُنا انس بن مالک سےروایت ہے :جنت میں ایک نہر ہے جسے رجب کہا جاتا ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جس نے رجب کے ایک دن کا روزہ رکھا اللہ پاک اسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا۔( شعب الایمان،باب فی الصیام،3/367 ،حدیث:3800)

مشہور تابعی بُزرگ حضرت سیِّدُنا ابو قِلابہؒ فرماتے ہیں:رَجَب  کے روزہ داروں کیلئے جنت میں ایک محل ہے۔(شعب الایمان،باب فی الصیام،3/368،حدیث:3802 )

صوفیاءفرماتے ہیں کہ رجب تخم یعنی بیج بونے کا مہینا ہے، شعبان پانی دینے اور رمضان کاٹنے کاکہ رجب میں نوافل میں خوب کوشش کرو،شعبان میں اپنے گناہوں پر روؤ اوررمضان المبارک میں رَبّ تعالیٰ کو راضی کرکے اس کھیت کو خیریت سے کاٹو(مراٰ ۃ المناجیح،2/330)

نیک عمل کے اجر میں اضافہ اور برائی کی شناعت میں زیادتی

لہذاان مہینوں میں بطور خاص گناہوں سے بچنے اور نیک اعمال کا اہتمام کیا جانا چاہیے، اللہ رب العزت نے جس طرح بعض کوبعض پر فوقیت وفضیلت سے نوازا ہے، یہ ایام بھی اللہ کی عطا ہیں، جس کے سبب ان ایام کو خاص فضیلت بخشی ہے، اور ان میں گناہوں کے وبال میں اضافہ ہے، اور یہ متفقہ ضابطہ ہے کہ زمان یا مکان کی خصوصیت سے اس عمل میں شدت پیدا ہوجاتی ہے، چنانچہ آیتِ کریمہ ’’فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ أَنْفُسَکُمْ‘‘، ’’سو ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا‘‘ کے تحت حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے موقوف روایت ہے، فرمایا:

لَا تَظْلِمُوْا أنْفُسَکُمْ فِيْ کُلِّہِنَّ، ثُمَّ اخْتَصَّ مِنْ ذٰلِکَ أرْبَعَۃَ أشْہُرٍ فَجَعَلَہُنَّ حُرُمًا، وَعَظَّمَ حُرُمَاتِہِنَّ، وَجَعَلَ الذَّنْبَ فِيْہِنَّ أعْظَمَ، وَالْعَمَلَ الصَّالِحَ وَالْأجْرَ أعْظَمَ۔

سال کے تمام مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم سے خود کو محفوظ رکھو، خصوصاً ان چار مہینوں میں، ان کو اللہ رب العزت نے قابلِ احترام بنایا ہے، اور ان کی حرمت کو عظمت و بڑائی سے نوازا ہے، ان میں گناہ کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے، نیز نیک عمل اور اس کے اجر میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر، دارالکتب العلمیۃ،4/130)

روزے رکھنے کی ترغیب 

 قال: صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك، صم من الحرم واترك". وقال باصابعه الثلاثة، فضمها ثم ارسلها.

آپ ﷺ  نے فرمایا: حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو، حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑ دو۔آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ کیا، پہلے بند کیا، پھر انگلیوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا۔یعنی تین دن روزے رکھو پھر تین دن نہ رکھو، پورے مہینوں میں اسی طرح کرتے رہو۔(سنن أبي داؤد، کتاب الصوم، باب في صوم أشہر الحرم، حدیث نمبر :2428)

آغازِ مہینہ پر دعا کا اہتمام

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  کی شعب الایمان کی روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

کان رسول اللہ ﷺ إذا دخل رجب قال: اللّٰہم بارک لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان۔( شعب الإیمان، امام بیہقي، تخصیص شھر برجب، حدیث نمبر:3534)

رسول اللہ ﷺ   کا معمول تھا کہ جب رجب کے مہینہ کا آغاز فرماتے تو یہ دعا مانگتے: اے اللہ! رجب وشعبان کے مہینہ میں ہمارے لیے برکتیں عطا فرما، اور رمضان کے مہینہ تک پہنچا۔

اس دعا کی وضاحت کرتے ہوئے ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں

اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا أيْ: فِيْ طَاعَتِنَا وَعِبَادَتِنَا، فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، أيْ: إِدْرَاکَہٗ بِتَمَامِہٖ، وَالتَّوْفِيْقَ لِصِيَامِہٖ وَقِيَامِہٖ۔(-مرقاۃ المفاتیح، باب الجمعۃ:3/1022، حدیث نمبر:1369، دار الفکر، بیروت)

اے اللہ! ماہِ رجب وشعبان میں ہماری طاعت وعبادت میں برکت عطا فرما، اور ہمیں رمضان المبارک کے مبارک لمحات کے حصول، اور اس میں روزے وتراویح کی توفیق خاص نصیب فرما ۔

ماہِ رجب میں روزے رکھنے سے متعلق حضور اکرم  ﷺ  کا معمول:

حضرت عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ  حضوراکرم ﷺ (ماہِ رجب میں) روزے رکھا کرتے تھے، حتیٰ کہ ہم سمجھتے کہ حضورﷺ ناغہ نہیں فرمائیں گے، اور (ماہِ رجب میں ) روزے نہ رکھتے، حتیٰ کہ ہم سمجھتے کہ حضورﷺ  روزے نہیں رکھیں گے۔(صحیح مسلم)


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post