موجودہ سائنس،ٹیکنالوجی اورجدید ذرائع ابلاغ کے دورمیں جہاں زندگی میں بہت سی آسانیاں فراہم ہوئیں ہیں وہیں آج والدین کے لئے فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔بچوں کی تربیت بہت ہی صبر آزما ،طویل المیعاداور کل وقتی کام ہے جو مہینوں نہیں بلکہ برسوں پر محیط ایک جہد مسلسل سے عبارت ہے۔تعلیم وتربیت والدین سے ہمہ وقت تحمل، بردباری اور برداشت کے ساتھ جس اہم قیمتی شے کی متقاضی ہے وہ" وقت" ہے۔ والدین اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر بچوں کے ساتھ گزاریں کیونکہ اگر بچوں سےتعلق وربط قائم ہوجائے گاتو تربیت کاعمل آسان اورموثرہوجائے گا ۔ بچہ موم(Plastic) کی طرح ہے اس کو جیسا ڈھالیں گے ویسا ہی نقش بن جا ئے گا اوریہ ذہن نشین رہے کہ بچپن کے نقوش گہرے اوردیر پا ہوتے ہیں ۔ یہ ایسے انمٹ نقوش ہوتے ہیں جو بڑھاپے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ لہذاکوشش کی جائے کہ ابتداء ہی سے بچوں کی تعلیم وتربیت صحیح خطوط پر استوار ہو جائے۔بعداز خرابی بسیار خواہ کسی کو بھی الزام ٹھہرایا جائے یہ لاحاصل بحث ہوگی۔ وہ وقت واپس نہیں آئے گا اور کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لازوال
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو
بہرحال بچوں کے برے رویوں یا خراب تربیت کی ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوگی۔اور اس پچھتاوا ،ندامت اورحسرت کا عفریت قبر تک والدین کا تعاقب کرتا رہے گا۔ والدین کو دیانتداری سے اپنے رویہ پر غور کرنا چاہئے۔ بچہ جو کچھ بنتا ہے اس میں وراثت سے زیادہ اس کے ماحول اوروالدین کی تربیت کا دخل ہوتاہے۔ ذیل میں چند مفیدبلاگ پیش خدمت ہیں ۔
Post a Comment