عجزوانکساری

سوال 1:عجز وانکساری کا معنی ومفہوم کہ عاجز ی یا انکساری کیا ہے ؟

عجزوانکساری : قلب و جان سے خود کو کمتر و حقیر سمجھتے ہوئے اپنے قول و فعل سے اس عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا ۔ فیض القدیر میں ہے:

لوگوں کے لئے ان کی طبیعتوں اور مقام و مرتبے کے اعتبار سے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور خود کو حقیر و چھوٹا خیال کرنا عاجزی و اِنکساری کہلاتا ہے۔(فیض القدیر،ج 1،ص599، تحت الحدیث: 925)

عجزو انکساری کے حصول کا طریقہ

اپنی تخلیق پر غوروفکر کرنے والا ہر ذی شعور عاجزی و انکساری کا پیکر ہوگا۔قرآن مجید میں ہے:

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانْ مِنْ نُّطْفَۃٍ اِمْشَاجٍ (الدھر:2) بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطقے سے پیدا کیا ہے۔

اب اس تخلیق کے مرحلے سے گزرنے والا اور اس کا شعور رکھنے وال شخص بھلا کیونکر تکبرکامظاہرہ کرسکتاہے۔ وہ شخص قلب و جان سے خود کو کمتر و حقیر سمجھتے ہوئے اپنے قول و فعل سے اس امر کا ضروراظہار کرے گا۔  اگر وہ دوسروں پرنیکی و تقویٰ، علم و عمل، مال و دولت، جاہ ومنصب  اور عزت و شہرت میں   فضیلت و برتری رکھتا ہوتو اپنی برتری کے اظہار کے بجائے اپنی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے خودکوکمتر سمجھے۔(اعمال کی قبولیت سے ناواقفیت رکھنے کی بناپر کوئی بھی شخص نیکی اور تقویٰ  کا دعویٰ تو کربھی نہیں سکتا)۔ لہذا بھلائی اسی میں ہے کہ افضل ہو کربھی خود کو معمولی ظاہر کیا جائے، اعلیٰ ہو کر بھی خود کو ادنیٰ ظاہر کیا جائے، عالم ہو کربھی خود کو طالبعلم سمجھا جائے، نیک و پار سا اور متقی و پرہیزگاربننے کی ہرممکن کوشش کے باوجود بھی خود کو گنہگارسمجھا جائے، ۔

سوال 2:عجز وانکساری سیرت طیبہ اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں؟

نبی کریم ﷺ کی ساری زندگی تواضع ومسکنت اور عجز وانکساری کا واضح اور بے مثل نمونہ تھی۔ آپ نے عوامی معیارِ زندگی سے ہٹ کر اپنے لئے کوئی خاص اور امتیازی شکل اپنانے کے روادار نہ ہوئے۔حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں:

قال خرج علينا رسول الله ﷺ متولئا علی عصا فقمنا له فقال لا تقوموا کما تقوم الا عاجم بعظهم بعضهم بعضا وقال انما انا عبد آکل کما ياکل العبد واجلس کما يجلس العبد.سنن ابی داؤد، 5/ 398) (سنن ابن ماجه، 2/ 1661)

رسول اللہ ﷺ عصا مبارک کا سہارا لئے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم سب آپ کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا عجمیوں کی طرح اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو اس لئے وہ یونہی ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔ اس منع کرنے کی وجہ یہ بیان کی میں تو ایک بندہ ہوں میں اسی طرح کھاتا ہوں جیسے کوئی عام آدمی کھاتا ہے اور اسی طرح بیٹھتا ہوں جیسے کوئی عام آدمی بیٹھتا ہے۔

ایک اورمقام پر آپ ﷺ فرماتے ہیں:

اِنَّ اللّٰہَ اَوْحٰى اِلَيَّ اَنْ تَوَاضَعُوا حَتّٰى لَا يَفْخَرَ اَحَدٌ عَلَى اَحَدٍ ۔ اللہ پاک نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم لوگ عاجزی اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی بھی دوسرے پر فَخْر نہ کرے۔(مسلم، ص 1174، حدیث:7210)

عجزو انکساری پر چند احادیث طیبہ:

1.      عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو اللہ کریم کی بارگاہ میں بڑے مرتبے کے حامِل بندے بَن جاؤ گے اور تکبّر سے بھی بَری ہوجاؤ گے۔(کنزالعمال،جزء3،ج 2،ص49، حدیث: 5722)

2.      علم سیکھو، علم کے لئے سکینہ (اطمینان) اور وَقار سیکھو اور جس سے علم سیکھواس کے لئے تواضُع اور عاجزی بھی کرو۔(معجمِ اوسط،ج4،ص342، حدیث: 6184)

3.      تم پر لازم ہے کہ عاجزی اختیار کرو اور بے شک عاجزی کا اَصْل مقام دل ہے۔(کنز العمال،جزء3،ج 2،ص49، حدیث: 5724)

4.      جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضُع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو اُس پر بلندی چاہتا ہے، اللہ پاک اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔(معجمِ اوسط،ج5،ص390،حدیث:7711)

5.      مَجلس میں اَدنیٰ جگہ پر بیٹھنا بھی اللہ پاک کے لئے عاجزی کرنا ہے۔(معجمِ کبیر،ج 1،ص114، حدیث: 205)

سوال 3:عجز وانکساری کے برعکس جورو یہ ہے وہ غرور و تکبر ہے تو عجز وانکساری کی فضیلت اور غرور و تکبر کے رذائل پر روشنی ڈالیں؟

عجزو وانکساری  ہر لحاظ سے بہت اچھی خوبی ہے۔ جو آدمی اپنی حیثیت کو دوسرے سے کم سمجھے گا وہ ہمیشہ تکبر ،غرور،فخراور گھمنڈسے بچا رہے گا ،اور عاجزی کی وجہ سے اسے عظمت و عزت حاصل ہوگی۔

1.      رسولِ اکرمﷺ کا فرمانِ معظّم ہے: جس نے اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے تواضُع اختیار کی تو اللہ کریم اسے بلندی عطا فرمائے گا، جو خود کو بڑا سمجھتے ہوئے غُرُور کرے تو اللہ جَبّار اسے پَسْت کردے گا۔(کنزالعمال،جزء3،ج 2،ص50، حدیث: 5734)

2.      حضور نبیِّ کریم ﷺ نے فرمایا:ہر آدمی کے سَر میں ایک لگام ہوتی ہے جسے ایک فِرِشتہ تھامے ہوتا ہے جب وہ تواضُع اختیار کرتا ہے تو اللہ اس لگام کے ذریعے اسے بلند فرما دیتا ہے اور فِرِشتہ کہتا ہے: بلند ہوجا! اللہ  تجھے بلند فرمائے۔ اور جب وہ (اَکَڑ کر) اپنا سَر اُوپر اٹھاتا ہے تواللہ اسے زمین کی طرف پھینک دیتا ہے اور فِرِِشتہ کہتا ہے : پَسْت ہو جا! اللہ تجھے پست کرے۔(معجمِ کبیر،ج 12،ص169، حدیث: 12939)

3.      حضرت ابی سعید ﷜سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عزت میری ازار ہے اور کبریائی میری رداء ہے جو مجھ سے ان صفات کو چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔ (مسلم ، کتاب البر والصلۃ )

4.      حضرت عیاض ﷜سے روایت ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ وحی کی ہے کہ عاجزی اختیار کرو، کوئی شخص فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے۔(مسلم، باب جہنم )

عجزو انکساری وجمال میں فرق

5.      حضرت ابوہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ ایک حسین و جمیل شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول! میں ایک ایسا شخص ہوں کہ مجھے جمال بہت پسند ہے اور جس قدر مجھے عطا ہوا وہ بھی آپ کے سامنے ہے حتی کہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص میرے جوتے کے تسمے برابر بھی مجھ سے زیادہ خوبصورت ہو ۔ کیا یہ سوچ اور فکر بھی تکبر میں سے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں لیکن تکبر تو یہ ہے کہ جس نے حق کا انکار کردیا اور لوگوں کو حقیر سمجھا۔(سنن ابی داوُد، کتاب اللباس جلد سوئم :4092)

6.      حضرت عبداللہ بن مسعود ﷜سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے عمدہ ہوں اس کا جوتا بھی اچھا ہو تو کیا یہ غرور اور گھمنڈ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق بنائے (یعنی اپنی انا کی وجہ سے حق بات کو رد کردے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔ٖ (جامع ترمذی، جلد اول باب البر والصلۃ :1999) (مسلم ، کتاب الایمان)

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post