چہرے سے جھاڑ پچھلے  برس کی کدورتیں

ڈاکٹر افتخار برنی

سال 2024ء کا آغاز ہوچکا ہے۔ اگرچہ وقت کے حوالے سے جدید اور قدیم کی تقسیم بے معنی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ گزرتے ہوئے لمحوں کے بیچ خط تفریق کھینچنا کا رعبث ہے ۔ ہم عصر رواں کے سحر میں کھو جاتے ہیں اور باقی زمانوں کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ وہ زمانے ، جو ہماری جانی بوجھی تقویم کی حد سے پرے ہوتے ہیں۔ یادر ہے، یہ تقویم کوئی اور ہے، جس کی جانب علامہ اقبال نے اپنی معرکہ آراء نظم مسجد قرطبہ میں اشارہ کیا۔ وہ کہتے ہیں۔

عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا

اور زمانے بھی ہیں، جن کا نہیں کوئی نام

 ہم جس لمحہ موجود میں سانس لیتے ہیں، وہ فوراً ہی ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ان گزرتے لمحوں کے بارے میں ایک مرد نجیب نے بڑی خُوب صورت بات کہی تھی ، ہر آن گزر کر ماضی بنتی چلی جارہی ہے اور ہر آن آکر مستقبل کو حال اور جا کر حال کو ماضی  بنارہی ہے (تفہیم القرآن ، جلد ششم، صفحہ نمبر ۴۴۹) ۔

 غالباً یہی وہ معروضی حقیقت ہے، جس کے زیر اثر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے بڑی دلچسپ بات کہی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارا حال و ماضی دونوں دور مستقبل میں موجود ہوتے ہیں ۔ ہم مستقبل کی طرف خدشات و امکانات کے سائے میں سفر کرتے ہیں۔ یہ سفر ہمیشہ بے یقینی کا شکار رہتا ہے ۔ یہ معلوم سے نامعلوم کا سفر ہوتا ہے۔ وہ ہے ناں

بس ایک باب  تجسس کتاب عمر میں تھا

کہ ڈھونڈتے ہی رہے ہیں جہانِ نا معلوم

 بہر کیف ، گمان کوتیقن میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور آنے والا لمحہ حال میں تبدیل ہو کر ماضی میں پیوست ہو جاتا ہے۔ ہمارے روزو شب کی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔ یہ ایک مسلسل رو ہے، جس میں دن ورات کوئی معنی نہیں رکھتے ۔ اقبال کے بقول  سلسلۂ روز و شب ہمیں پر کھتا رہتا ہے اور یہ پرکھنا ہی کائنات کا حُسن اور سچائی ہے، مگر اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ ہر وجود کا انجام فنا ہے۔ مسجد قرطبہ ہمیں پھر آواز دیتی ہے

اوّل و آخر فنا باطن وظاہر فنا

نقش کہن ہو کہ نو منزل آخر فنا

 ہر وجود کے فانی ہونے کی گواہی ، جب قرآن کی جانب سے آتی ہے، تو وہ پوری کائنات کے لیے لازوال صداقت بن جاتی ہے ۔ اور اللہ کے ساتھ اور کسی معبود کو نہ پکار، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے ۔ (سورۃ القصص آیت نمبر ۸۸)۔

انسان کے فانی وجود کے بارے میں ایک اور تلخ حقیقت کا اظہار اس وقت ہوتا ہے، جب اللہ تعالی زمانے کی قسم کھا کر فرماتا ہے انسان سراسر خسارے میں ہے۔ اور اس خسارے سے بچنے کا طریقہ بھی رب کریم نے سورۃ العصر میں بیان فرمادیا ہے۔ یہ سورت تین آیات پر مشتمل ہے، جو دریا نہیں، سمندر کو کوزے میں بند کر کے انسانی زندگی کا منشور سامنے رکھ دیتی ہے۔ سورۃ العصر کا ترجمہ ہے زمانے کی قسم، انسان در حقیقت بڑے خسارے میں ہے ، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔ امام شافعی نے کہا تھا کہ اگر لوگ سورۃ العصر پر غور کریں تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے۔ غور کرنے کے لیے عقل سلیم کی ضرورت ہوتی ہے اگر بد قسمتی سے انسانوں کی اکثریت عقل کا درست استعمال نہیں کرتی ۔ امام رازی ایک بزرگ کا قول نقل کرتےہیں ، میں نے سورۃ العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا، جو بازار میں صدا لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ۔ " ہمارا وقت اس سے بھی زیادہ تیزی سے گزرتا ہے جتنی تیزی سے برف گھلتی ہے۔ وقت کی تیز رفتاری کا اندازہ گھڑی کی سوئی کی حرکت سے ہوتا ہے۔ ہر سیکنڈ پر سوئی کی تھر تھراہٹ انسانی شعور کے دروازے پر ہونے والی دستک کا دوسرا نام ہے، جس نے اس دستک پر شعور کا دروازہ کھول دیا، اُس نے وقت کی حقیقت سمجھ لی۔ اور جس نے وقت کی حقیقت کو جان لیا، وہ کام یابی کا گر بھی مان جائے گا۔ یہ گُر اس چار نکاتی منشور میں پوشیدہ ہے، جو سورۃ العصر میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایمان، عمل صالح ، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ۔ یہ منشور ہر دور کے لیے ہے اور ہر نیا سال اس منشور کے مطابق زندگی گزارنے کا پیغام لے کر ہمارے پاس آتا ہے۔ نیاسال ، یہی پیغام لے کر ہمارے پاس آیا اور2023 ، جاتے جاتے ہمیں یہی پیغام دے کر گیا ۔

اصل میں ہماری زندگی آرزوؤں کے ہجوم میں گھری رہتی ہے ۔ عمر رواں آرزوؤں اور خواہشوں کا تعاقب کرتے ہوئے گزر جاتی ہے اور کثرت کی دوڑ ہمیں قبر کی دہلیز پر پہنچا دیتی ہے ۔ قرآن حکیم میں اس صورتِ حال کی عکاسی ان الفاظ میں کی گئی ہے ، " تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دُنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ اسی فکر میں تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو ۔ “ (سورۃ التکاثر کیآیت نمبر ۱ ، ۲)۔

معروف شاعر افتخار عارف نے بھی کیا خُوب کہا ہے:

آرزوؤں کا ہجوم اور یہ ڈھلتی ہوئی عمر

سانس اکھڑتی ہے، نہ زنجیر ہوس ٹوٹتی ہے

منہدم ہوتا چلا جاتا ہے دل سال بہ سال

ایسا لگتا ہے، گرہ اب کے برس ٹوٹتی ہے

پیغام:

 سالِ نو کی آمد پر ہونے والی نام نہاد تفریحی سرگرمیاں ہمارے ضمیر کو تھپک تھپک کے سلادیتی ہیں۔ ضمیر کی بیداری کے لیے ہر نیا سال ہمیں اجتماعی اور انفرادی اصلاح کی دعوت دیتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے ، جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں ، وہ تباہ ہو گیا۔ یہ حدیث ہم سے خود احتسابی کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہمیں مسلسل اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔

 آئینے دھندلا جاتے ہیں ، صُورتیں بکھر کر خواب بن جاتی ہیں اور جسم منتشر ہو کر رزق خاک ہو جاتے ہیں، مگر ہمارے اعمال ہمارا پیچھا کرتے ہیں۔ ہمارے حروف زندہ رہتے ہیں اور صدا بن کر ہمارا تعاقب کرتے ہیں ۔ اگر ہم نئے سال میں کام یابی اور فلاح کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں ، تو ہمیں اپنے رویے تبدیل کرنے ہوں گے، نفرت اور تعصب سے نجات حاصل کرنی ہوگی ۔ بغض ، کینے اور حسد کو پیچھے چھوڑ نا ہوگا ۔ نیا سال محبت ، خوشبو اور روشنی لیے ہمارا منتظر ہے ۔ ہمیں پوری دُنیا کو محبت کا پیغام دینا  ہے خوشبوؤں کے جھونکوں سے گھٹن کی ساعتوں کو معطر کرنا ہے اور شب مسافت کی دہلیز پر اپنے حصے کا چراغ ہے:

چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں

دیوار سے پرانا کلینڈر اتار دے

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post