فلسفہ تصویریت یا عنیت

تعارف:

 فلسفہ تصوریت کا نام آتے ہی سب سے پہلے اذہان میں افلاطون (PLATO)کا نام آتا ہے ۔ یہ فلسفہ عینیت اور مثالیت کے ناموں سے بھی جانا جاتاہے۔ افلاطون اپنے استاد سقراط کے فلسفیانہ افکار سے بہت متاثر تھا۔ جس کی جھلک اس کے افکار میں واضح طورپرمحسوس ہوتی ہے ۔

فلسفہ تصوریت کی اہمیت اور افادیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر صدی کے فلسفہ کے ماہرین اس سے متاثر ہوئے اور''فلسفہ تصوریت'' کو مزید ترقی دے کر نکھارتے رہے۔ ان عظیم فلسفیوں میں آگسٹائن'ڈیکارٹ' برکلے 'کانت' ہیگل ' برگساں ' ٹی ایچ گریٹ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

فلسفہ تصوریت کا مرکزی خیال یہ ہے کہ یہ کائنات اور اس کی تمام اشیاء حقیقت نہیں بلکہ حقیقت کی پرچھائیں ہیں ۔ یہ کائنات اور دنیا حقیقت کا مظہر ہیں ۔حقیقی کائنات اور دنیا کہیں اور ہے جسے تصوراتی یا روحانی دنیا کہہ سکتے ہیں جس کا ادراک عقل و فہم اور غورو فکر کے ذریعے کیاجا سکتا ہے ۔ یہ ظاہری دنیا اس تصورات اور روحانی دنیا کا عکس ہے اس دنیا میں جو چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں وہ در اصل ان حقیقتوں کی پر چھائیں ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے اسی نکتہ کی بناء پر افلاطون کا نظریہ " تصوریت" سے موسوم ہوا ۔ Shri Nikunja Ranjan Dash اس کی وضاحت کچھ یوں کرتے ہیں:

Idealism is the philosophical theory that maintains that the ultimate nature of reality is based on mind or ideas. It holds that the so-called external or real world is inseparable from mind, consciousness, or perception. Idealism is any philosophy which argues that the only things knowable are consciousness or the contents of consciousness; not anything in the outside world, if such a place actually exists. Indeed, idealism often takes the form of arguing that the only real things are mental entities, not physical things and argues that reality is somehow dependent upon the mind rather than independent of it. Some narrow versions of idealism argue that our understanding of reality reflects the workings of our mind, first and foremost, that the properties of objects have no standing independent of minds perceiving them.[1]

فلسفہ تصوریت یا مثالیت دو مختلف دنیاؤں کی بات کرتا ہے ایک ظاہری دنیا ہے جس میں انسان رہتے ہیں اس دنیا کو مظاہرات کی دنیا قرار دیا جاسکتاہے ۔ دوسری دنیا جو حقیقی ہے لیکن ہمیں نظر نہیں آتی لیکن ہمارے تصورات میں موجود ہے ۔ تصورات کی مدد سے اس حقیقی دنیا کو پہچانا جاسکتا ہے ۔ حقیقت عالم بالا ہے اور یہ کائنات اس کا عکس ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز فانی ہے ۔ فنا ہونے والی چیزیں حقیقی نہیں ہو سکتیں ۔

اس فلسفہ کے مطابق جو مادی اشیاء اس کائنات میں ہمیں نظر آتی ہیں ان کا تصور ان چیزوں کے بنانے والے کے ذہن میں پہلے سے موجود ہوتا ہے مثلاً کوئی مکان بناناہے تو پہلے اس کے ذہن میں مکان کا تصور آتا ہے ۔ کمرے 'دالان' کھڑکیاں غرض کہ مکان کی ہر چیز میں پہلے سے ذہن میں تصورات قائم ہو جاتے ہیں ۔موجودہ دور میں مکان کا نقشہ بھی تصورات کی مدد سے بنایا جاتا ہے ۔جس کی تفصیلات کاغذوں میں محفوظ کر لی جاتی ہے اور جب مکان بنتا ہے تو درحقیقت وہ ان تصورات کا عکس ہوتا ہے جو مکان بننے سے پہلے نقشہ بنانے والے کے ذہن میں موجود تھا ۔

فناء وبقاء(تصورات فانی نہیں ہوتے ):

افلاطون کے نزدیک مادہ تغیر پذیر ہوتا ہے اور تغیر پذیر اشیاء کے متعلق زیادہ سے زیادہ محض رائے قائم کی جاسکتی ہے جوصحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی۔لیکن ان کے ذریعے یقین حاصل نہیں کیا جاسکتا اسی وجہ سے ذہنی رائے بدلتی رہتی ہے لہٰذا ایسے علم پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔مظاہرات کی دنیا کو عام افراد آسانی سے سمجھ لیتے ہیں ۔ جو چیزیں ہمیں نظر آرہی ہیں محسوس کی جارہی ہیں ان کا علم آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ حقیقت اور صداقت کی تلاش عام افراد نہیں کر سکتے ہیں افلاطون ان خاص آدمیوں کو ''فلسفی'' کہتا ہے ۔ فلسفیوں کے پاس ایسی قوت ہوتی ہے جو اعلیٰ بصیرت کی حامل ہوتی ہے ۔ امام غزالیؒ اعلیٰ بصیرت حاصل کرنے کا ذریعہ چھٹی حِس کو قرار دیتے ہیں ۔

افلاطون کے نزدیک ظاہری دنیا مادی ہے اور دیکھنے میں خوبصورت اور پر کشش بھی لگتی ہے مگر ظاہری دنیا اصل دنیا نہیں ہے اس کی نقل ہے ۔ مادی دنیا لوگوں کو خوشیاں تو دے سکتی ہے مگر روحانی سکون ابدی اطمینان نہیں دیتی سکون اور اطمینان تصوراتی اور روحانی دنیا سے مل سکتا ہے۔ تصوراتی وروحانی دنیا کے حقیقت اور صداقت کو حاصل کرنے کے لئے انسان نیکی اور اچھائیوں کو اپناتا ہے اپنے معاشرے کو بہتر اور مثالی بنانا چاہتا ہے ۔ K.K. Shrivastava اپنی کتاب اس فلسفہ تصوریت کے تصورات کو ظاہری مادی چیزوں پر کچھ یوں اہمیت دیتاہے۔

As a philosophical doctrine, idealism recognizes ideas, feelings and ideals more important than material objects and at the same time emphasizes that human development should be according to moral, ethical and spiritual values so that he acquires knowledge of unity in diversity. [2]

افلاطون کا یہ فلسفہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ ہر فرد ایک دوسرے سے مختلف اور اور افراد کو ان کی صلاحیتوں کی مناسبت سے ذمہ داریاں دینی چاہئیں اس کے نزدیک علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہر فرد میں نہیں ہے ۔ خالق نے علم کے لئے ذہین افراد تخلیق کئے ہیں جبکہ کم ذہین افراد دوسرے کاموں کے لئے ہیں یہ علم حاصل نہیں کرسکتے ۔ یہ صورت حال معاشرے اور اس کے افراد کے درمیان ہم آہنگی کے لئے ضروری ہے ۔ افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام ودیعت کئے جائیں تاکہ افراد کے درمیان خوشگوار تعلقات سے بھی قائم رہ سکیں اور کسی کی کمی بھی محسوس نہ ہو۔ افلاطون اس کو انصاف کا نام دیتا ہے یعنی ہر فرد کے ساتھ انصاف کیا جائے تو فرد اور معاشرہ دونوں ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں ۔

As a philosophical doctrine, idealism recognizes ideas, feelings and ideals more important than material objects and at the same time emphasizes that human development should be according to moral, ethical and spiritual values so that he acquires knowledge of unity in diversity. [3]

فلسفہ تصوریت کی خصوصیات

 افلاطون کو فلسفہ تصوریت کا باوا آدم کہا جاتا ہے ۔ اس کے مطابق علم وہی ہوگا جو خالق کی پیداوار ہو انسانی ذہن کوئی نئی حقیقت معلوم نہیں کرسکتا کیونکہ وہ پہلے سے تصورات میں موجود ہوتی ہے انسانی ذہن اس کی مثال یا نقل پیش کرتا ہے ۔ اسی فلسفہ کے اثرات ہر دور میں زندگی کے ہر شعبے پر مرتب ہوئے اس فلسفہ کی گوناگوں خصوصیات میں سے اہم خصوصیات مختصر طور پر درج ذیل ہیں ۔

افلاطون کے فلسفہ کا تمام تر محور و مرکز تصورات پر مبنی ہے ۔ اس کے نزدیک مادی اشیاء سے پہلے ان کے تصورات موجود تھے یعنی حقیقی تصور پہلے تھا اورتخلیق کار نے یہ چیزیں بعد میں تخلیق کیں ۔ تصورات غیر مادی ہیں اس لئے وہ غیر مرئی اور غیر محسوس معلوم ہوتے ہیں ان کا ادراک عقل و جدان کے ذریعہ ہوسکتا ہے ۔ اورغوروخوض سے حقائق تک پہنچا جاسکتا ہے ۔

انسان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے استعمال سے حقیقت کا علم حاصل کر سکتا ہے ۔ یعنی عقل و فہم ادراک ' وجدان' جستجو اور تلاش سے روحانی بلندیوں تک پہنچا جاسکتاہے۔ اخلاق حسنہ انسانی کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔روحانیت انسان کی جبلی اور فطری تسکین کا باعث ہے ۔افلاطون تصور کو نیکی سے تعبیرکرتا ہے جو مادے سے بڑھ کر ہے روحانیت تصورات پر مبنی ہوتی ہے جو غیر مادی ہے اور کبھی فنا نہیں ہوتی۔افلاطون ان ہی تصورات کی مدد سے خالق کائنات کو بھی پہچانتے ہیں ۔ خالق کائنات بھی غیر مادی اور لافانی ہے ۔

 کائنات کی تمام اشیاء درحقیقت عکس ہیں یہ حقیقی اشیاء کی نقل ہیں۔ان کی حقیقت صرف تصورات ہیں جو لافانی حیثیت رکھتے ہیں۔ مادی چیزیں ناپائیدار ہیں ان میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں۔ان کی خوبصورتی اور دلکشی بھی عارضی ہے جو بالآخر فنا ہوجاتی ہے۔ تصوراتی اور روحانی اشیاء پائیدارہیں ۔ اس میں نہ تغیر ہوتا ہے اور نہ ہی فنا کا مرحلہ آتا ہے ۔

افلاطون انسانوں کا معیار اورمرتبہ عقل ، بہادری' اور خواہشات نفس کی بنیاد پر مقرر کرتا ہے۔ فلسفی عقل سے کام لیکر حقیقت کو حاصل کر لیتے ہیں اور بہادر شجاعت کے ذریعے اپنی اور ریاست کی حفاظت کرتے ہیں۔تعلیمی عمل میں عقل و فہم ' غورو فکر ' سوچ وبیچار کا کام زیادہ ہے ۔ تعلیم کے ذریعے کائنات کی معلومات اور ثقافت کی ترسیل ممکن ہوتی ہے ۔ تعلیم کے ذریعے روحانی اقدار کا بھی علم ہوتا ہے ۔ اس لئے فلسفہ تصوریت تعلیمی عمل کے لئے لازمی حیثیت رکھتا ہے۔

علم و تصورات کے درمیان لازمی رشتہ ہے ۔ تصورات قائم کئے بغیر اور ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کئے بغیر علم حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ علم تصور اور ذہن کی پیداوار ہے اور سیکھنے کے لئے تجربہ بھی ضروری ہے ۔

افلاطون کا یہ فلسفہ اخلاقی قدروں کی بنیاد پر قائم ہے ۔ نیکی ' صداقت حسن کا علمبردار ہے ۔ جبکہ نفسانی خواہشات انسان کی دنیاوی مادی چیزوں کے حصول کی طرف راغب کرکے اسے بدنما اورپستی کی طرف لاتے ہیں ۔ فلسفہ تصوریت مادیت و روحانیت کے درمیان ایک توازن قائم کرتا ہے ۔یہ توازن معاشرے میں ہم آہنگی اور عدل و انصاف قائم کرنے میں مدد دیتا ہے ۔

فلسفہ تصوریت اور تعلیم

افلاطون کا فلسفہ تصوریت نہ صرف فلسفہ کی دنیا کی بنیاد بنا بلکہ اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔ بالخصوص تعلیم کے شعبہ میں اس فلسفے نے نمایاں طور پر اثرات مرتب کئے ۔ تعلیم میں اس فلسفے کے ذریعے اہم تبدیلیاں اور اصلاحات ممکن ہو سکیں ۔ تعلیم انسان کی روحانی تسکین کا ذریعہ ہے ۔ اس لئے فرد کے روحانی تقاضوں کی تسکین و تشفی ضروری ہے ۔ یہ فلسفہ تعلیمی عمل کو روحانی بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور تعلیم کی ابدی حقیقت 'تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیتا ہے ۔بایں طور فلسفہ تصوریت کی روحانی اہمیت بھی ہے ۔

افلاطون نے اپنے فلسفہ میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اشیاء کی حقیقت ان کے نفس میں پوشیدہ ہے ۔ یعنی اشیاء کا جس پر دارومدار ہے وہ ''فطرت'' ہے اور فطرت چیزوں کے نفس میں موجود ہے ۔ نفس کی پہچان اپنی پہچان ہے اور اپنے آپ کو پہچان کر ہی خدا اور اس کی روحانیت کو پہچانا جاتا ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا: ''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔کیونکہ انسان خدا کا عکس ہے ۔ انسان اپنی خوبیوں اور خامیوں کو عقل و فہم سے پہچان سکتا ہے اور علم کو عقل کی کسوٹی قرار دیا جاتا ہے ۔ علم کو عقل سے حاصل کر کے انسان انسانیت کی بلندیوں کو ھاصل کر لیتا ہے ۔ حقائق پہلے سے موجود ہوتے ہیں یہ خارجی عمل سے تخلیق پاتے ہیں۔ انسان خود ان کو تخلیق نہیں کرتا مثلاً جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو دنیا میں موجود حقائق کے درمیان ہی آنکھ کھولتا ہے اور وہ ماحول اور دیگراشیاء کو اپنی مرضی سے منتخب نہیں کرتا ۔

افلاطون کا فلسفہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ سائنسی طریقوں سے حاصل کیا جانے والا علم بہت محدود ہوتا ہے ۔ اکثر اشیاء کی ظاہری شکل و صورت سے دھوکا ہوتا ہے جبکہ ان اشیاء کا اصل جوہر کچھ اور ہی ہوتا ہے جو نظر نہیں آتا۔سائنسی طریقوں سے دھوکے کا بھی امکان رہتا ہے اسی وجہ سے سائنسی نظریات و تجربات بھی تغیر پذیر رہتے ہیں اسی وجہ سے افلاطون نے ٹھوس مادّی چیزوں کو تصور کا عکس قرار دیا ہے عکس کبھی بھی اصل جیسا نہیں ہوسکتا۔ جس طرح مادی اشیاء کا وجود غیر یقینی ہے اسی طرح حواس کے ذریعے سیکھا جانے والا علم بھی جامع نہیں ہوسکتا۔ اصل اور صحیح علم عقل و فہم 'ادراک اور وجدان سے حاصل ہوتا ہے ۔

 فلسفہ تصوریت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے یہ تعلیم معاشی تقاضوں کے بجائے ایک روحانی تقاضہ ہے بے شک تعلیم سے معاشی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے ۔ مگر ایسی تعلیم فرد کے روحانی تقاضوں کی تسکین و تشفی کا باعث نہیں بنتی۔ تعلیم پہلے فرد کے روحانی تقاضوں اور ضرورت کی تکمیل کرتی ہے۔انسان کو بااخلاق اور باکردار بناتی ہے ۔ حقائق کا علم دیتی ہے 'عقل و فہم کا استعمال سکھاتی ہے ۔اسکے بعد ہی معاشی تقاضوں اور ضروریات کی باری آتی ہے ۔ معاشرے میں افراد کے اجتماع کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان بین العمل بھی ضروری ہے اسی بین العمل اور تعلقات کے نتیجے میں اداب و اخلاق' علوم و فنون اور مختلف ثقافتیں اور تہذیب وجود میں آتی ہیں ۔ یہ تمام چیزیں روحانیت کا مظہر ہیں جو تصورات کی بنیادوں پر قائم ہو جاتی ہیں ۔ یہ فلسفہ طالبعلم کو ابدیت کی راہیں دکھاتا ہے ۔ علم کو ایک جاری رہنے والا سلسلہ قرار دیت اہے ۔ جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں طالب علم کو حقیقت اور صداقت کی منزل تک پہنچادیتا ہے جو خالق باری تعالیٰ کی پہچان کرادیتا ہے ۔

فلسفہ تصوریت اورمقاصدِ تعلیم

 دنیا کا کوئی کام بھی بغیر مقصد کے انجام نہیں پاتا۔ مقصد سے منزل کے راستے کے تعین میں آسانی ہوجاتی ہے ۔ تعلیم کے مقصد کے سلسلے میں فلسفہ سے ہی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ۔ فلسفہ تصوریت فرد کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں مندرجہ ذیل مقاصد کا تعین کرتا ہے ۔
حقیقت کی پہچان کرانا تاکہ فرد اپنی ذات کی روحانیت کو پہچان سکے ۔ تمام جانداروں میں انسان کو فضیلت
حاصل ہے اسی لئے تعلیم کا مقصد فرد کی شخصیت کی مکمل نشو ونما قرار دیا جانا چاہیئے۔تعلیم کے ذریعے فرد کی فطری صلاحیتوں کو ابھارنا چاہیئے۔فلسفہ تصوریت صحت مند معاشرے کی تشکیل پر زور دیتا ہے ۔ صحت مند معاشرے کے ذریعے ہی فرد اپنی صلاحیتون کو بروئے کار لاسکتا ہے ۔افلاطون کا یہ فلسفہ تعلیم کو ایسا ذریعہ قرار دیتا ہے جس کے ذریعے فرد بحیثیت ایک اچھے شہری کے اپنے حقوق و فرائض کو ایمانداری کے ساتھ نبھا سکتا ہے۔فرد کو تعلیم کے ذریعے ہی زندگی کے مقاصد سے آگاہ کیا جاسکتاہے ۔ زندگی کے مقصد سے آگاہ ہونے کے بعد تہذیب و ثقافت پر کار بند ہو کر ہی معاشرے کے ماحول کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔تعلیم کے ذریعے طلباء میں اپنے وطن سے محبت کا جذبہ پیدا کرنا تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہوسکیں ا ور ضرورت پڑنے پر وطن کی خار قربانی سے بھی دریغ نہ کریں ۔

فلسفہ تصوریت کیونکہ روحانیت کا علمبردار ہے اس لئے تمام مذاہب کے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہ روحانی اور مذہبی اقدار کا تحفظ کے لئے تعلیم کو ہی وسیلہ قرار دیتا ہے ۔ تعلیم مقصد ہی مذہبی اور روحانی اقدار کا تحفظ کرنا اور ان کی اشاعت کرنا ہے ۔ فلسفہ تصوریت ذہنی اور شعور کی سرگرمیوں کو تسلیم کرت اہے ۔ تعلیم طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرتی ہے ۔ فلسفہ تصوریت کائنات اوراُس کی اشیاء پر غورو فکر ضروری سمجھتا ہے ۔ اس وجہ سے بھی فرد کی ذہنی اور جمالیاتی ذوق کی نشو نما بھی ضروری ہے ۔ فلسفہ تصوریت فرد کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بھی اُجاگر پر زور دیت اہے ۔ اس میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کے مناسب استعمال کے موقع بھی ملنے چاہئیں۔تاکہ اس کی صلاحیتیں معاشرے کے لئے مفید اور فائدہ مند ثابت ہو سکیں ۔

فلسفہ تصوریت اور نصاب

فلسفہ تصوریت روحانی اور روایتی اقدار کا حامی ہے اس لئے تعلیم کے نصاب کو ان کی تعداد کے تحفظ کا ذریعہ قرار دیتا ہے ۔ اس کے نزدیک تعلیم کا مقصد سچائی اور حقیقت کی تلاش ہے اس لئے نصاب بھی ان ہی موضوعات پر مبنی ہوتا ہے ۔ افلاطون کا یہ فلسفہ نصاب کے لئے ایسے علوم موضوعات کا حامی ہے جن کے ذریعے فرد کے عقل و فہم کی صلاحیتوں کی نشونما کی جاتی ہے ان میں فلسفہ ریاضی،سائنس،معاشرتی علوم اور فنون لطیفہ کے مضامین کوضروری قرار دیا جاتاہے۔ ثقافت ہی قوموں اور معاشروں کی پہچان ہوتی ہے ۔ ثقافت تعلیم کے ذریعے آسانی سے منتقل بھی ہوجاتی ہے ۔ ثقافت کے علاوہ کائنات تہذیب و تمدن، جسمانی تربیت اور موسیقی کو بھی نصاب کا حصہ بنانا چاہیئے۔ نصابی سرگرمیاں عملیت پر مبنی ہونی چاہئیں۔ تعلیم کے ذریعے اخلاقیات پر عمل در آمد آسان ہوجاتا ہے ۔ نصاب ایسا ہو جو بچوں کو محنت کی عظمت کا احساس دلائے اور ذہنی اور جسمانی دونوں کی نشو ونما کے باعث بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

فلسفہ تصوریت اور معلم

فلسفہ تصوریت معلم کو سب سے زیادہ اہمیت دیتاہے یہ اُستاد کو منتظم کی حیثیت نہیں دیتا بلکہ روحانی مقام عطا کرتا ہے ۔ معلم کا ہم کام طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو پہچاننا اور ان کی نشو و نما کرنا ہے طالب علم کی مناسب رہنمائی اور مدد فراہم کرنا ہے ۔ تاکہ طلباء خود بخود ترقی کے منازل طے کرتے رہیں ۔بچے ماں باپ کے بعد اُستاد کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔اسی لئے اُستاد کو بھی ان کی توقعات پر پورا اُترنا چاہیئے۔ علم میں مہارت کے ساتھ ساتھ طالب علم کی ذہنی اور پوشیدہ صلاحیتوں سے واقفیت بھی ضروری ہے تاکہ تعلیم میں آسانی ہو سکے ۔ یہ اسی طرح کا کام ہوتا ہے جو ایک مالی اپنے باغ کی نگہداشت کے لئے انجام دیتا ہے ۔ مالی اپنے علم کے مطابق باغ کے ننھے پودوں کی نشو ونما کا خیال رکھتا ہے ان کی ضروریات اور تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور ان کو ایک تن آور درخت بننے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔ فلسفہ تصوریت معلم کے اس سنجیدہ کردار کا حامی ہے ۔ استاد کی شخصیت اعلیٰ اقدار اور روحانیت سے مکمل ہونی چاہیئے۔ بچے تقلیدی جبلت کے تحت کرداری خصوصیات اور روحانی اقدار کو اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیتے ہیں ۔جو ان کے سامنے اساتذہ پیش کرتے ہیں ۔ معلم خود مادیت پرست نہ ہو اس طرح وہ طلبہ کو اخلاق و روحانیت کی جانب نہیں لے جاسکتا۔

فلسفہ تصوریت اور طریقہ تدریس

فلسفہ تصوریت سوچ و بچار اور غور فکر پر زور دیت اہے اس لئے وہ ایسے طریقہئ تدریس کی حمایت کرتا ہے جس میں عقل وفہم کا استعمال کیا جائے ۔ حقیقت تک رسائی عقل شعور کے ذریعے ممکن ہوتی ہے ۔ اکثر حواس کی مدد سے حاصل کردہ علم پائیدار نہیں ہوتا۔ اس لئے فلسفہ تصوریت حواس کے بجائے انسانی عقل و فہم کا علمبردار ہے بحث و مباحثہ ' سوال و جوابات بچوں کی ذہنی صلاحیتوں میں وسعت دینے کا سبب بنتے ہیں ۔ اس لئے ایسے طریقہئ تدریس اپنانے چاہیں جن میں یہ خصوصیات موجود ہوں ۔ موجودہ دور میں کنڈر گارٹن طریقہ کار فلسفہ تصوریت کے عین مطابق نظر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایسے طریقہئ تدریس جو ''کل ''سے اجزاء کی جانب سے بڑھتے ہیں ان کو اپنانا چاہئیے۔ کیونکہ صرف اجزاء کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ ''کل''ضروری اجزاء کی تدریس کل کے بعد کی جانی چاہئیے۔

فلسفہ تصوریت اور نظم و ضبط

فلسفہ تصوریت ایسے نظم و ضبط کا حامی ہے جو معاشرتی اقدار اور اُصولوں سے مطابقت رکھتے ہوں ۔ا فلاطون تعلییم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت پر بھی زور دیتا ہے ۔ اس لئے بچوں کی اجتماعی تعلیم ضروری ہے ۔ اجتماعی تعلیم و تدریس کے لئے نظم و ضبط بھی لازم ہے اخلاقی تربیت میں بھی آسانی رہتی ہے اور اس طرح روحانی اقدار کا بھی تحفظ ممکن ہوجاتا ہے ۔فلسفہ تصوریت مرکزی تعلیمی اداروں کی حمایت کرتا ہے ۔ نجی اداروں کو نقصان دہ قرار دیتا ہے ۔یہ طبقاتی تقسیم کا باعث بن جاتے ہیں ۔ طلباء کے اداروں کا نظم و نسق روحانی اور سچائی کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہئیے۔ اُستاد کا کام نظم و ضبط کی نگرانی اور رہنمائی کرنا ہے۔طلبہ کو خود احتساب کرنے پر مجبور کرے ۔ تب ہی آزاد نظم وضبط جنم لیتاہے ۔ ایسے نظم و ضبط میں بچوں کی خواہشات اور دلچسپیوں کا احترام بھی موجود رہتا ہے ۔

Idealism does not believe in a discipline of external control of the military type. To idealism strict obedience to commands is offensive and distasteful. It want to give free choice to the student in a self-initiated and self-directed manner. Idealism believes in that type of discipline which may make the pupil the captain of his own soul. [4]

فلسفہ تصوریت پر تبصرہ

افلاطون کا فلسفہ تصوریت کائناتی تعلیم کے نظرئیے کا قائل ہے ۔ اس کے فلسفہ کے مطابق ہر فرد کو بلا لحاظ رنگ و نسل تعلیم ملنی چاہئیے۔ مگر اعلیٰ تعلیم انکو دینے کا حامی ہے جو اس کے اہل ہوں جو عقل و فہم اور ادراک کی قوتوں سے مالا مال ہوں ۔ ہر فرد کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق تعلیم فراہم کی جائے ان سے ان کی صلاحیتوں سے مطابقت رکھنے والے کام اور ذمہ داریاں دی جائیں ۔ جو وہ اصانی سے انجام دے سکتے ہوں ۔ فلسفہ تصوریت سے تعلیم کو ریاست کے استحکام کے ذریعہ بھی سمجھاتا ہے ۔عورتوں کی تعلیم کی بھی حمایت کرت اہے انہیں مردوں کے برابر تسلیم کرتا ہے ۔فلسفہ تصوریت کی گوناگوں خوبیوں کے باوجود اس پر چند اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں جن کا اندازہ کوبیوں کے جائزے کے بعد لگانا آسان ہوجاتا ہے ۔
فلسفہ تصوریت کی اہم خوبیاں

فلسفہ تصوریت اپنی جن خوبیوں سے تعلیم نظام پر اثر انداز ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں ۔

بچوں کی انفرادی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے پر زور دیا جاتا ہے ۔ یہ فلسفہ بچے کے رجحان اور صلاحیتوں کے مطابق تعلیم دینے کا حامی ہے تاکہ بچوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مدد ملے۔اعلیٰ تعلیم مخصوص لوگوں کے لئے مقرر کی گئی ۔ اعلیٰ تعلیم ذہین افراد ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ ذہین بچوں کو شروع میں ہی پہچان لیا جائے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے منتخب کر لیا جائے تو باقی بچوں کو ان کی ذہانت اور استعداد کے مطابق تعلیم دی جائے ۔

 اس فلسفہ کے تحت تعلیم کے ادوار مقررکئے گئے اور ہر دور کے تعلیمی مقاصد کا بھی تعین کیا گیا۔ ان کے لئے نصاب بھی مرتب کیا گیا اور مرد اور عورت دونوں کو تعلیم کے لئے ضروری قرار دیا ۔ تعلیم کی سب سے اعلیٰ منزل فلسفیوں کی تعلیمی کو قرار دیا گیا ۔ فلسفی وہ قرارپایا جس میں عقل و فہم 'شعور 'ادراک اور وجدان کی کیفیت عام افراد کی نسبت زیادہ ہو اور یہ اپنی چھٹی حس کو بھی استعمال کر سکتے ہوں۔اسی فلسفہ کے تحت فلسفی حکومت بہترین طریقے سے کر سکتے ہیں۔ یہ فلسفہ طریقہئ تدریس میں بھی عقل و فہم کے استعمال کے حامی ہے ۔ بحث و مباحثہ اور سوالات کے ذریعے تدریس کرنے سے بچے حقائق تک جلد پہنچ جاتے ہیں ۔  یہ فلسفہ ایسا نظام تعلیم تشکیل دینا چاہتا ہے جس کے ذریعے مثالی اور صحت مند معاشرے کی تعمیر و تشکیل ہو سکے ۔ ایسے معاشرے میں ہی فرد کی ہمہ گیر نشو و نما ممکن ہوتی ہے ۔یہ فلسفہ تعلیم کی اعلیٰ انسانی اوصاف و خصوصیات کی منتقلی کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ روحانی اقدار' روایات اور ثقافت کا تحفظ بھی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہوتا ہے ۔

 فلسفہ تصوریت تعلیم میں استاد کو مرکزی حیثیت دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے استاد کےلئے یہ فلسفہت تعلیمکے ذریعے نیکی' سچائی' حسن و اخلاقی اقدار کو نئی نسل میں منتقل کرنے کا حامی ہے تاکہ مثالی معاشرہ کے قیام میں مدد مل سکے۔فلسفہ تصوریت بچے کے ابتدائی سات سال تعلیم کےلئے مقرر کرتا ہے ۔ یہ تعلیم اخلاقیات پر مبنی ہونی چاہئیے۔ تاکہ بچوں میں انسانی و اخلاقی خوبیاں ظاہر ہوجائیں ۔یہ فلسفہ تعلیم کے لئے آزادانہ اور مثالی نظم و ضبط پر زور دیتا ہے تاکہ وہ مضبوط اور بااصول انسان ثابت ہوسکیں اور عملی زندگی میں بھی نظم و ضبط پر عمل کر سکیں ۔

فلسفہ تصوریت پر اعتراضات

فلسفہ کی گوناگوں خوبیوں کے باوجود اس پر کچھ اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں جن میں سے ہم اعتراضات درج ذیل ہیں ۔
 اس فلسفہ پر پہلا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ طبقاتی نظام کو فروغ دینے کا باعث ہے یہ فلسفہ تعلیم سب کےلئے ضروری نہیں قرار دیتا بلکہ ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اعلیٰ تعلیم کا حق صرف اعلیٰ ذہانت والے بچوں کو دیتاہے اور دوسرے بچوں کو مختلف دوسرے پیشوں کو اپنانے کے لئے چھوڑ دیتا ہے ۔ افلاطون کے فلسفہ تصوریت کو بہت سے ماہرین عمل قرار نہیں دیتے ان کے نزدیک یہ فلسفہ صرف تصوراتی دنیا تک محدود ہے ۔  فلسفہ تصوریت کے تحت طالبعلموں کو مرکزی حیثیت نہیں دی گئی بلکہ استاد کو دی گئی ہے جو اکثر استاد کو سخت گیر اور جابر بنادیتا ہے ۔
 افلاطون کے فلسفہ تصوریت میں مادیت کی نفی کی جاتی ہے زیادہ اہمیت روحانیت اور مثالیت پر دی جاتی ہے ماہرین کے نزدیک مادی اقدار بھی انسان کےلئے لازمی ہیں ۔ اس فلسفہ کے تحت افراد کی انفرادی ضروریات 'خواہشات اور تقاضے نظر انداز ہوجاتے ہیں ۔ اس فلسفہ میں حواس خمسہ کی اہمیت کو نظر انداز کر کے صرف ذہن کی صلاحیتوں پر زور دیا گیا ہے جو حواس خمسہ بھی تعلیم کے لئے لازمی ہیں۔



[1] PHILOSOPHICAL FOUNDATION OF EDUCATION, Shri Nikunja Ranjan Dash, pg 61

 

[2] Philosophical Foundations of Education, K.K. Shrivastava, KANISHKA PUBLISHERS, New Delhi pg 103

[3] Philosophical Foundations of Education, K.K. Shrivastava, KANISHKA PUBLISHERS, New Delhi pg ???

[4] Philosophical Foundations of Education, K.K. Shrivastava, KANISHKA PUBLISHERS, New Delhi pg 103

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post