فلسفہ حقیقت
فلسفہ حقیقت کے بانیوں میں ارسطو (ARISTOTLE)کا
نام سر فہرست ہے گو کہ ارسطو افلاطون کا شاگرد تھا مگر اس نے اپنے استاد کے فلسفہ
تصوریت کی نفی کی اور اپنے فلسفہ کی بنیاد حقیقت پر رکھی۔ ارسطو تصورات کے بجائے
مادے کو اہمیت دیتا ہے ۔ یہ تصوریت کے رد عمل کے طور پر سامنے آیا۔ اس فلسفہ کے
حامیوں میں ''ہولٹ'' ''پیری'' مور اور برٹرنڈ رسل کا نام بھی شامل ہے ۔ موجودہ دور
میں بھی فلسفہ حقیقت اپنی جدید شکل میں موجود ہے ۔
فلسفہ حقیقت کا مرکزی خیال:
فلسفہ حقیقت کی بنیاد ''مادے '' پر
رکھی گئی ہے سائنسی تجربات اور مشاہدات کے مطابق مادہ حقیقت ہے ۔ مادے کے بغیر
تصورات کا وجود ممکن نہیں مادہ اپنی شکل بدلتا رہتا ہے ۔ اور وہ فنا نہیں ہوتا اس
لئے اس فلسفہ کو کائناتی سائنس بھی کہا جاتا ہے ۔ حقیقت مادی اور غیر مادی اشیاء
میں فرق کو واضح کرنے کا نام ہے ۔
وضاحت:
ارسطو کا فلسفہ حقیقت اشیاء کی مادی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے ' مادے کی ظاہری شکل و
صورت بدلتی رہتی ہیں لیکن اصل ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ مادہ اور مادی
چیزیں معاون یا صرف ایک اظہار ہیں مادی چیزوں کے ذریعے ہی خالق کائنات کی معرفت
حاصل ہوتی ہے یہی وہ ذریعہ ہے جو خالق کائنات کے قریب لاتا ہے ۔ مادے کی اہمیت
ارسطو کے فلسفے کو زیادہ حقیقت پسندانہ بنادیتیہے ۔ مادّہ ہماری ضرورت ہے مادی
چیزوں کے ذریعے ہی خدا کو پہچانا جاتا ہے یہی وہ ذریعہ ہے جو بندوں کو خدا کے قریب
لاتا ہے ۔ مادہ کی اہمیت ارسطو کے فلسفہ کو حقیقت پسندی کا روپ دیتی ہے ۔
ارسطو کا فلسفہ اس اصول کی دلالت کرتا ہے
کہ حقیقت اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور تصورات و روایات کی قید سے آزاد ہوتی ۔یہ
محسوس کی جاسکتی ہے ' وجود کا یقین کیا جاسکتا ہے ،استعمال میں لایا جاسکتا ہے ۔
فوائد اور نقصانات سے عہد بر آ ہوا جاسکتا ہے ۔ حقیقت کے بارے میں کوئی حتمی رائے
بھی قائم کرلیتے ہیں۔ مادی حقیقتیں انسان کی وضاحت و تشریح کی محتاج نہیں ہوتیں۔
ہر چیز عیاں ہوتی ہے ۔ اسی کی بدولت دنیا کی خوبصورتی دلکشی قائم ہے۔یکسانیت کے
بجائے تنوع موجود ہے ۔
ارسطونے اپنے فلسفہ کی عمارت اس بنیاد
پر رکھی کہ حقیقت ہی مادہ ہے مادہ ایک حقیقی قوت ہے اس کے ذریعے جو کچھ ظاہر ہوتا
ہے وہ حقیقت پرمبنی ہوتا ہے ۔ مادہ تبدیل ہونے کی خاصیت رکھتا ہے ۔ یہ فنا نہیں
ہوتا بلکہ اپنی شکل بدلتا رہتا ہے اور بدلتے بدلتے ایک قوت بن جاتاہے جو حقیقی
ہوتا ہے مثلاً ایک درخت کی حقیقت ایک معمولی سے بیج سے شروع ہوتی ہے وہ ننھا پودا
بنتاہے ۔ اور نشو ونما پاتے پاتے ایک مضبوط تن آور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے
اور جب وہ اپنی طبعی عمر پوری کر لیتا ہے تو سوکھی لکڑیوں میں بدل جاتا ہے لوگ اسے
کاٹ کر ایندھن بنالیتے ہیں ۔ ایندھن بننے کے بعد وہ درخت کی مادی حیثیت ختم نہیں
ہوجاتی بلکہ وہ مختلف گیسوں اور اجزاء میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ درختوں
کی لکڑی سے مختلف قسم کے فرنیچر بھی بنا لئے جاتے ہیں جو اپنا مادی وجود قائم رکھتے
ہیں۔ غرض کہ مادّہ قوت حاصل کرنے کے بعد کبھی فنا نہیں ہوتا البتہ اپنی شکل اور
قوت بدلتا رہتا ہے ۔
ارسطو کے فلسفہ حقیقت کے تحت تصور سے پہلے مادہ وجود رکھتا ہے ۔ مادہ کے وجود کے
بعد ہی تصورات اور خیالات قائم ہوتے ہیں۔ چیزوں کو سامنے دیکھ کر ہی ان کے بارے میں
حقیقت کا علم ہوتا ہے ۔ دیکھنے والے حقیقت کے قریب آنے لگتے ہیں اور ان ہی مادی
چیزوں سے خدا کی معرفت بھی حاصل ہوتی ہے اسی وجہ سے ارسطو مادے کو حقیقت کا عکس
'قرار دیتا ہے اسی وجہ سے مادی چیزوں کا علم پہلے ضروری ہے ۔ اس کے مطابق مادہ ایک
ایسی حقیقت ہے جو ہمیں خالق کائنات کا قرب عطا کرتا ہے اور ابدی حقیقتوں سے آشکار
کرتا ہے ۔
ارسطو کے فلسفہ حقیقت کو اس کے حامی
فلسفیوں نے کائنات کے شہری اصولوں سے تعبیر کیا ہے اس فلسفہ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ
اس میں احساسات 'تصورات اور خیالات کے بجائے مکمل مادہ پرستی پر زور دیا ہے اس کے
بعد ہی احساسات 'تصورات اور خیالات کی باری آتی ہے ۔ ارسطو کا یہ فلسفہ سائنس کی
بنیاد بھی فراہم کرتا ہے کیونکہ سائنس بھی مادہ پر زور دیتی ہے ۔ ارسطو نے طبیعات
کے نام سے جو کتاب لکھی اس کی وجہ سے اسے سائنس کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے
۔ارسطو تعلیم کا مقصد خودشناسی قرار دیتا ہے جو صرف تجربات و مشاہدات اور عمل کے
ذریعے ہی پورا کیا جاسکتا ہے ارسطو کے فلسفہ حقیقت کو بلاشبہ سائنسی قرار دیا
جاسکتا ہے ۔
ارسطو کے فلسفہ حقیقت کو دو حصوں میں
تقسیم کیا جاتا ہے جس میں ایک حصے کا تعلق ما بعد الطبعیات سے ہے اور دوسرے حصے
میں مادی امور کی تشریح موجود ہے ۔ یہ فلسفہ اشیاء کی ماہیت اور ان کی حقیقت کی
وضاحت کرتا ہے ۔ جو خالصتاً سائنسی طریقہئ کار ہے۔ ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کے
فلسفہ تصوریت کی سخت مخالفت کی اس کے خیال میں تصور خیالات اسی وقت سمجھ میں آتے
ہین جب ہم اس کو مادی حیثیت سے جانچیں ۔ ارسطو کے فلسفہ کی بڑی خوبیوں میں ایک اس
کا سائنسی ہونا بھی ہے جو مادے ' احساسات اور تصورات کو ایک کڑی کا حصہ بناتا ہے ۔
اور اپنے مشہور استقرائی طریقے کو سامنے لاتا ہے۔ سائنسی علوم کی اہمیت کو اجاگر
کرتا ہے اور تجربات و مشاہدات کو مادے کی حقیقت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا ۔
ارسطو کے افکار و تجربات سے آج بھی دنیائے سائنس میں رہنمائی لی جاتی ہے ۔
فلسفہ حقیقت کے اصول
ارسطو کا فلسفہ حقیقت روحانی اشیاء کو
تصوراتی چیزوں کو عدم وجود کی وجہ سے تسلیم نہیںکرتا وہی چیزیں اور اشیاء حقیقی
تسلیم کرتا ہے جن کا اپنا وجود ہو یہ خالصتاً سائنسی نظریہ ہے۔ اس کا یہ فلسفہ
حقیقت کے لئے روحانیت و تصوریت کا محتاج نہیں ہے ۔ کائنات کی جو چیزیں جیسی ہیں ان
کو بالکل اسی طرح سے سمجھنے پر زور دیتا ہے اس کے فلسفہ کے نتیجے میں جو اصول قائم
کئے گئے وہ آج بھی سائنس کی دنیا میں مشعل راہ ہیں ۔ وہ اصول درج ذیل ہیں ۔
اس کائنات میں موجود تمام اشیاء اور افراد اپنا حقیقی وجود رکھتے ہیں ۔ البتہ یہ
ایک دوسرے سے بنیادی طور پر لاتعلق ہوتے ہیں ۔ عم حاصل کرنے کے بعد اشیاء اور
افراد کے درمیان تعلق و ربط قائم کیا جاسکتا ہے ۔ اشیاء اور افراد کے درمیان تعلق
اور ربط قائم ہوجانے سے ہی چیزوں اور افراد کی پہچان ہوتی ہے جو اتفاقی اور خارجی
اسباب کے تحت ممکن ہوتا ہے۔ کائنات کی اشیاء اور افراد کو مکمل بقا اور دوام حاصل
نہیں ہے ہر مادے اور اس کے وجود کو کسی نہ کسی مرحلے پر فنا ہوجانا ہے۔ کائنات کی
اشیاء مکمل آزاد اور با اختیار نہیں ہیں۔ جبکہ انسان جسم اور روح کا مرکب ہے یہ
بھی آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔ اسے بھی بالآخر فنا ہونا ہے۔ مادیت کو اہمیت دی
جاتی ہےں۔ روحانیت پر مکمل بھروسہ نہیںکیا جاتا البتہ روحانیت کو بھی مادّیت کے
طریقے پر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔روحانی اور خیالی دنیا کی نفی کی جاتی ہے ۔
لوگوں کو حقیقت پسند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ فلسفہ حقیقت افراد کو خود شناسی
سکھاتا ہے اور یہ تجربات اور مشاہدات کے نتیجے میں ہی ممکن ہوتا ہے ۔ارسطو کے
فلسفہ حقیقت کی خصوصیت
ارسطو کی اہم تصانیف میں ''سیاسیات اور اخلاقیات'' کامطالعہ کرنے سے اس کے
فلسفیانہ نظریات کا علم ہوتاہے جس کو ماہرین ما بعد الطبعیات اور خصوصی سائنسی
علوم میں تقسیم کرتے ہیں۔ما بعد الطبیعات کا تعلق کائنات کی سائنس اور خصوصی سائنس
کا تعلق مادی علوم سے قرار دیا جاتا ہے مادیت کی اہمیت کی وجہ سے ارسطو کے فلسفہ
کو حقیقت پسندانہ کہا جاتا ہے ارسطو کے فلسفہئ حقیقت کی اہم خصوصیت مندرجہ ذیل
ہیں۔
فلسفہ حقیقت میں مادے کے بغیر تصور
اور روح کا وجود نا ممکن ہے ۔ مادہ تغیر پذیر رہتا ہے ۔ اور اپنی شکل بدلتا رہتا
ہے ۔ فلسفہ حقیقت خیالی اور خوابوں کی دنیا کے بجائے مظاہراتی' خوبصورت اور دلکش
دنیا کو اہمیت دیتا ہے ۔ لوگوں کو حقیقت پسند بناتا ہے ۔اس فلسفہ کے مطابق اشیاء
اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہیں ۔خواہ ان کو سمجھنے والا ذہن موجود ہو یا نہ ہو۔علم
حاصل کرنا تخلیقی عمل نہیں بلکہ تحقیقاتی عمل ہے ۔ جستجو اور تلاش کے نتیجے میں ہی
علم حاصل ہوتا ہے ۔ فلسفہ حقیقت مادی دنیا کی اٹل حیثیت کو تسلیم کرتا ہے ۔ مادی
اشیاء کو علم کے بعد ہی قابل استعمال بنایا جاتا ہے ورنہ ان کا مصرف ہو ہی نہیں
سکتا ۔ سائنسی نظریات بھی مادیت اور حقیقت پر قائم کئے جاتے ہیں تجربات اور
مشاہدات کے نتیجے میں ان کو پرکھا جاتا ہے اس فلسفہ کے مطابق تصورات کی بنیاد
مادیت پر ہی ہوتی ہے ۔ اس فلسفہ کے مطابق ذہنی صلاحیتیں ہوں یا نہ ہوں اشیاء کا
وجود برقرار رہتا ہے چاہے اس کے بارے میں علم حاصل کرے یا نہ کرے مادی اشیاء قائم
رہتی ہیں۔ فلسفہ حقیقت کے تحت چونکہ مادے کو محسوس کیا جاسکتا ہے اور تجربات اور
مشاہدات کے ذریعے نتائج بھی برآمد کئے جاتے ہیں نتائج کے نتیجے میں ہی حقیقت کا
تعین کیا جاتا ہے ۔ فلسفہ حقیقت خیالات تصورات کے بجائے انسانی حواس اور قوت
استدلال کو علم کی بنیاد قرار دیتا ہے ۔ حواس خمسہ اور عقل و فہم کے ذریعے ہی
حقیقت کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔ارسطو کے فلسفہ کے تحت خدا کے وجود اور روحانیت کی
حقیقت بھی مادیت پر کار بند رہ کر بھی کی جاسکتی ہے ۔
فلسفہ حقیقت اور تعلیم
ارسطو جو حقیقت میں افلاطون کا شاگرد
تھا مگر اپنے استاد کے اکثر افکار سے اختلافات بھی رکھتا تھا۔اس نے تصوریت کے
فلسفہ کو بدلنے کی کوشش نہیں کی بلکہ دنیا کے سامنے تصور اور حقیقت کے اصل تعلق
وربط کو پیش کرنے کی کوشش کی جس کی مہلت افلاطون کو نہ مل سکی تھی۔
ارسطو کے افکار نے ذہنی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیااور فلسفہ حقیقت کو بھی
لافانی حیثیت حاصل ہوگئی ۔جو اس کے استاد کے فلسفہ کو بھی حاصل ہے ۔ تعلیمی عمل
میں بھی حقیقت کو اہمیت دی جاتی ہے اس لئے ارسطو کے افکار تعلیمی دنیا کے لئے بھی
رہبر و رہنمائی کا باعث بنتے ہیں۔
ارسطو کے فلسفہ حقیقت کا تعلق عملی میدان
سے زیادہ ہے یہ دنیا کے خیالی وجود کے بجائے حقیقی وجود کو اہمیت دیتا ہے ۔ اسی
مناسبت سے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے پر زور دیتا ہے ۔ یہ تصورجذبات کے بجائے عقل
و فہم اور غور و فکر سے کام لینے کا حامی ہے ۔ جذبات عقل کو اندھا کردیتی ہے جبکہ
غور و فکر کرنے سے حقیقی طور پر عملیت پیدا ہوتی ہے ۔یہ طریقہ عقل کو جلا بخشا ہے
اور ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے ۔ تمام مادے 'اقدار اور معیارات کو جانچنے
کے لئے سائنسی طریقہ استعمال کرنے پر زور دیتا ہے ۔ ارسطو مذہب اور روحانیت کا
مخالف نہیں بلکہ وہ ان کو بھی ٹھوس حقائق کے نتیجے میں تسلیم کرنے کا حامی ہے ۔
ارسطو اپنی کتابوں سیاسیات اور
اخلاقیات میں افراد اور معاشرے کے مابین تعلقات اور فرد کے انفرادی کردار کے
اصولوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے وہ ریاست اور مملکت کی اصلاح ' استحکام اور
ترقی کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ وہ اخلاقیات کو بھی عملی سائنس کا درجہ
دیتا ہے وہ نیکیوں کے حصول کے لئے تعلیم کاعمل ناگزیر قرار دیتا ہے ۔ انسان ایک
معاشرتی حیوان ہے اور وہ معاشرے اور افراد کے بغیر مطابقت حاصل نہیں کرسکتا۔
معاشرے میں تعاون' اتحاد اور یک جہتی ضروری ہے اس کے بغیر معاشرہ خوشحال نہیں
ہوسکتا ۔ تعلیم کے ذریعے معاشرتی تربیت بھی آسان ہوجاتی ہے اسی وجہ سے نصاب کو
معاشرے کی مناسبت سے ترتیب دیا جاتا ہے ۔
فلسفہ حقیقت اور تعلیم کے مقاصد
ارسطو کا فلسفہ حقیقت مادیت کی اہمیت
کو تسلیم کرتا ہے کائنات کی اشیاء کی جو حقیقی حیثیت ہے وہ اسی وجہ سے اہم ہیں
معاشرہ تغیر پذیر ہے اور انسان بھی معاشرے کے لئے اہمیت کا حامل ہے ۔ افراد کی
تعلیم و تربیت کےلئے حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کردہ تجربات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
فلسفہ حقیقت کے مطالعے سے تعلیم کے مندرجہ ذیل مقاصد سامنے آتے ہیں۔
اس فلسفہ کے تحت فطری ماحول میں بچوں
کی ذات' شخصیت کی نشو ونما کرنا تعلیم کا ہم مقصد ہے ۔افراد کو ان کی صلاحیتوں اور
استعداد کے مطابق تعلیم فراہم کرنا۔تاکہ تعلیم ان کے لئے کار آمد ثابت ہو سکے
۔افراد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ تربیت بھی فراہم کرنا تاکہ افراد اپنی
عملی زندگی میں پیشہ ورانہ تعلیم سے فائدہ اٹھا سکیں ۔بچوں کی صحت کا خیال رکھنا
کیونکہ صحت مند جسم ' صحت مند ذہن کا باعث ہوتا ہے ۔تعلیم کا مقصد افراد کی
ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل بھی ہے ۔افراد کو معاشرتی مطابقت کے لئے تیار کرنا
تاکہ معاشرہ ترقی کرسکے۔ طالب علم کو مرکزی حیثیت دینا۔ تعلیمی عمل طلبہ کی
انفرادیت کی نشو ونما کےلئے تیارکرنا۔ طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں کو تعلیم کے ذریعے
بیدار کرنا تاکہ وہ اصل حقائق سے آگہی حاصل کر سکیں:۔
افراد میں اجتماعی اصلاح کی سوچ پیدا کرنا تاکہ وہ مل جل کر معاشرے کی خوشحالی کا
باعث بن سکیں۔ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں اتحاد اور فرد کے عمدہ اخلاق کی تعمیر
کرنا۔
فلسفہ حقیقت اور نصاب تعلیم
ارسطو کے فلسفہ حقیقت کائنات کے مادی
اقدار کو قابل توجہ قرار دیتا ہے وہ مادی اور غیر مادی دونوں اقدار کی تعلیم کو
ضروری دیتا ہے اور تعلیم کو معاشرتی تقاضوں کا تابع قرار دیتا ہے ۔ ارسطو کے
تعلیمی نصاب میں حقیقت پسندانہ رجحان ملتا ہے ۔ ان علوم کی تدریس کی حمایت کرتا ہے
جو انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور ایسے علوم بھی مادی حقیقتوں کے
زیادہ قریب تر ہوتے ہیں ان میں کیمیاء ' طبیعات 'حیاتیات اور ریاضی وغیرہ ۔ زبان
کی تعلیم کو بھی عملی زندگی کی ضروریات کی تکمیل کے لئے ضروری قرار دیت اہے ۔
تصوراتی 'رومانی اور محض خیالات پر مبنی تعلیم کی مخالفت کرتا ہے ۔ ایسی تعلیم سے
صرف وقت کا زیاں ہوتا ہے ۔ کارآمد ثابت نہیں ہوتی۔ ارسطو تعلیم میں ان مضامین کے
علاوہ زراعت ' باغبانی ' غذائیت 'آمدورفت کے مسائل ُ زرعی پیداوار اور نقل و حمل
کے ذرائع جیسے موضوعات اور ان جیسی عملی سرگرمیوں کو بھی نصاب کا حصہ بنانے کا
حامی ہے اس کے ذریعے طلبہ کو ہنر اور مہارتوں کو عبور حاصل ہوگا تو دوسری جانب
ایسی تعلیم انہیں معاشرتی مسائل سے نمٹنے کے لئے تیار کرتی ہے ۔
پیشہ ورانہ مجامین کوبھی نصاب کا لازمی حصہ بنانا چاہئیے۔
فلسفہ حقیقت اور طریقہ تدریس
ارسطو نے جہاں سائنسی مضامین کو نصاب
میں شامل کر کے مادیت کی اہمیت کو منوایا وہیں ایک مؤثر طریقہ تدریس جسے
''استقرائی طریقہ'' کہتے ہیں ۔ اساتذہ کے لئے ضروری قرار دیا۔ استقرائی طریقہ میں
سئن مضامین کو مؤثر انداز میں سمجھایا جاتا ہے اس میں مشاہدات 'تجربات اور استدلال
کے ذریعے حقائق تک پہنچا جاتا ہے اور نتیجے کو پرکھا جاتا ہے اور پھر اس پر عمل در
آمد ممکن بنایا جاتا ہے۔ ارسطو نے تعلیمی نظام کو ایک سائنسی تدریسی طریقہ فراہم
کیا جو آج بھی کامیابی سے رائج کیا جاتا ہے ۔ وہ تعلیم میں ذہنی سوچ و بچار ُ
غوروفکر کو بھی ضروری قرار دیتاہے کیونکہ علم تحقیقات ہوتا ہے جس کے لئے جستجو اور
تلاش ضروری ہوتی ہے ۔
فلسفہ حقیقت اور نظم و ضبط
ارسطو ایسے نظم و ضبط کا حامی ہے جو
افراد خود سے قائم کریں اور خود ہی اس پر دل سے عمل کریں وہ خارجی قوانین اور
اصولوں کی مخالفت کرتا ہے ۔ کیونکہ خارجی نظم و ضبط تعلیم کے لئے مشکلات کا باعث
بھی بن جاتا ہے جبکہ داخلی نظم و ضبط سے تعلیم کی راہیں محدود نہیں رہتیں ۔ارسطو
اساتذہ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے نظم و ضبط پر عمل
کرائیں اور تعلیم و تدریس فراہم کریں ۔ طالب علم کو تعلیمی نظام میں محور و مرکز
کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اس ل ئے ستاروں کو طلبہ سے کام لینے اور مسائل حل کرانے کا
سلیقہ آنا چاہیئے۔ جبر اور سختی کا استعمال بہت ہی ناگزیر حالات میں کیا جانا
چاہیئے۔ اکثر جبر و سختی کی زیادتی تعلیم کی ضد بھی بن جاتی ہے ۔
فلسفہ حقیقت اور طالب علم
فلسفہ حقیقت میں طالب علم کو محض ایک علم حاصل
کرنے والا سمجھا جاتا ہے ۔ استاد کا کام یہ ہے کہ وہ اسے علم کے حصول میں مدد کرے
۔ اصل مضمون سے آگاہ کرے اپنی مرضی طالب علم پر زبردستی نہ ٹھونسے ۔ طالب علم کو
غیر متعلقہ امور میں بھی نہیں الجھانا چاہیئے۔ استاد کو دوران تدریس اپنے طے شدہ
مواد سے بھٹکنا نہیں چاہیئے۔ طلبہ کی اخلاقی تربیت پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت رہتی
ہے ۔ استاد نصابی موضوعات تک محدود رہے ۔ نفس مضمون اگر طلبہ کے ذہن نشین ہوجائے
تو طلبہ اس کا اطلاق خود ہی کر لیتے ہیں۔
فلسفہ حقیقت کی تعلیمی خصوصیات
ارسطو کا فلسفہ افلاطون کے فلسفہ کے
رد عمل میں سامنے آیا ۔ جس نے سیاسیات ' سائنس اور تعلیم پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔
ماہرین اس کے فلسفہ کی اہم تعلیمی خصوصیات مندرجہ ذیل قرار دیتے ہیں۔
فلسفہ حقیقت میں بچوں کی تعلیم سے
پہلے جسمانی صحت پر توجہ کی حمایت کرتا ہے ۔ابتداء میں ورزش اور جسمانی صحت کی
تعلیم کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ارسطو کے مطابق انسان جسم اور روح کا مرکب ہے ۔ روح
دو قسم کی ہوتی ہے ایک فعالی اور دوسری انفعالی۔ اچھی اور معیاری تعلیم وہ ہے جو
ان دونوں روحوں کی تربیت کر سکے۔ روح فعالی کےلئے سائنسی مضامین اور فلسفہ ضروری
ہیں جبکہ انفعالی روح کی تربیت موسیقی ادب اور اخلاقیات سے ممکن ہے۔نصاب تعلیم کو
زندگی اور معاشرے سے مربوط بنانے کی ضرورت ہے جبھی انسان اور معاشرے کے مسائل کم
ہوں گے ۔ بچوں میں تعمیر سیرت کی ذمہ داری والدین اور حکومت دونوں پر عائد کی جاتی
ہے ۔ ورزش اور موسیقی کی تعلیم سے بھی بچوں میں جذبہ تعمیر اور با اخلاق ہونے میں
مدد ملتی ہے ۔تدریس میں اساتذہ کا رویہ ہمدردانہ اور مشفقانہ ہونا چاہیئے۔ارسطو کے
خیال میں عورتیں مردوں سے مختلف ہیں اس لئے ان کے لئے اعلیٰ تعلیم بیکار ہے
۔معاشرے میں کچھ انسان فطرتاً آزاد یا غلام ہوتے ہیں تعلیم صرف آزاد شہریوں کو
ملنی چاہیئے اور تعلیمی عمل بھی آزاد اور ذہنی سرگرمیوں پر مبنی ہونا چاہیئے۔چھوٹے
بچوں کو کھیل کودُجسمانی ورزش اور کہانیوں کے ذریعے تعلیم دی جائے اور ان کے اخلاق
کی نشوونما کی جائے ۔ تجرباتی اور استقرائی طریقے سے سائنسی اور قدرتی مضامین
آسانی سے سیکھے جاسکتے ہیں ۔تعلیم میں جذباتی انداز اختیار نہیں کرنا چاہیئے بلکہ
مواد کی معروضیت جانچنے کے لئے سائنسی اور تجرباتی طریقے اپنانے چاہیں۔ تعلیم کے
دوران ٹھوس معلومات کا حصول ضروری ہے ٹھوس معلومات اخلاق وعادات اصل حقائق'
حیاتیاتی نمونوں اور تہذیب و ثقافت سے حاصل کی جاسکتی ہےں ۔
فلسفہ حقیقت پر تبصرہ
ارسطو کا فلسفہ حقیقت کو روایات کے
مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے ۔ روایات پسند فلسفی تصوریت جیسے قدامت افکار کے گرد
ہی محدود رہتے ہیں جبکہ حقیقت کو جدیدیت کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے ۔ جدیدیت کے
افکار محدودیت کے حامل ہوتے ہیں ارسطو نے بھی روایات شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
جدید فلسفہ حقیقت کی بنیاد رکھی۔ اس کے فلسفہ کے مطابق تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق
ہے مگر وہ عورتوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتا۔ صرف معمولی تعلیم کا حامی ہے ۔
عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتا ہے ۔
ارسطو انسانی زندگی کے نصب العین مسرت
، خوشی اور شادمانی کو قرار دیتا ہے اس کے خیا ل کے مطابق ہر فرد خوشی اور مسرت
حاصل کرنے کے چکر میں رہتا ہے عقل سے غور و فکر کرنا انسان کا مخصوص عمل قرار دیتا
ہے ۔ یہ انسانی زندگی کی رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔ا رسطو کے مطابق اخلاقی نیکیاں کئی
قسم کی ہوتی ہیں ۔ مرد کے لئے حکومت اور عورت کے لئے فرمانبرداری اخلاقی نیکیوں
میں شامل ہے۔ معاشرے میں غلام ، بچوں اور عورتوں میں بصیرت کی کمی ہوتی ہے ان میں
صرف فطری نیکیاں پائی جاتی ہیں صرف آزاد مرد ہی بصیرت کے حامل ہوتے ہیں اور دو اس
صلاحیت کے استعمال کرکے ریاست کی فلاح و بہبود کو ممکن بناتے ہیں ۔ارسطو کے فلسفہ
حقیقت کی ان گنت خوبیوں نے اسے منفرد مقام بخشا ہوا ہے ان خوبیوں میں اہم خوبیاں در
ج ذیل ہیں۔
فلسفہ حقیقت کی خوبیاں
اچھی اور مثبت عادتوں کی تعمیر :
ارسطو کے مطابق تعلیمی عمل میں پہلے
مثبت عادتون کی تعمیر پر زیادہ زور دیا جانا چاہیئے۔ عقل و فہم پر بعد میں زور دیا
جائے کیونکہ عقل کی صلاحیت دیر میں آتی ہے اس طرح مثبت عادتوں کی تعمیر اخلاقی
تعلیم میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔
تحقیقاتی رجحان کو فروغ دینا:
ارسطو نے نصاب میں تعلیم میں سائنسی
علوم 'ادب 'ریاضی' منطق و فلسفہ ' علم ہندسہ'حیاتیات 'طبیعات اور دیگر معاشرتی
علوم کو شامل کیا تاکہ بچوں میں تحقیقاتی رجحان کو فروغ دیا جائے ۔ کیونکہ تلاش اور
جستجو بچوں کی فطرت میں شامل ہوتی ہے۔
جدید سائنسی طریقہئ تدریس:
ارسطو نے استقرائی طریقہ تدریس کوپیش
کیا جو سائنسی مضامین میں آج تک استعمال کیا جارہا ہے ۔ استقرائی طریقے میں
مشاہدات ' تجربات اور عملی سرگرمیوں کے ذریعے نفس مضمون سکھایا جاتا ہے ۔ ان
تجربوں اور مشاہدات کے ذریعے مادی اشیاء کی حقیقت معلوم ہو جاتی ہے ۔
موضوعی کے بجائے معروضیت کو اہمیت دی :
فلسفہ حقیقت محض موضوعی یا خالص روایات پر زور
نہیں دیتا بلکہ اشیاء اور مادے کی حقیقت پر زور دیتا ہے اور اسی بنیاد پر ان کے
وجود کو تسلیم کرتا ہے ۔ موضوعی طریقے میں محض لفاظی ہوتی ہے جبکہ معروضیت میں
مشاہدات تجربات اور عملی سرگرمیوں کے ذریعے علم حاصل کیا جاتا ہے ۔
نظری علوم کے مقابلے میں سائنسی علوم کو اہمیت دی :
فلسفہ حقیقت چونکہ نظریات اور تصورات پر یقین
نہیں رکھتا اس لئے وہ تعلیم میں بھی سائنسی مضامین کو زیادہ سے زیادہ نصاب کا حصہ
بنانے کا حامی ہے سائنسی مضامین نظریات کے بجائے منظّم اور ٹھوس حقائق کو پیش کرتے
ہیں اسی وجہ سے کیمیاء طبیعات اور حیاتیات جیسے مضامین نصاب میں شامل کرنے کی
حمایت کی۔
انفرادی صلاحیتوں کو اہمیت دینا:
فلسفہ حقیقت کے تحت تعلیم کرنے والا طالبعلم
اہمیت رکھتا ہے اس لئے تعلیم کو اس کی انفرادی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے کا
وسیلہ بنانا چاہیئے اس کی خواہشات کا احترام کرناچا ہیئے۔اس کی استعداد کے مطابق
آگے بڑھنے کے علوم کی رہنمائی بھی کرنی چاہیئے۔
پیشہ ورانہ تعلیم کو اہمیت دینا:
ارسطو انسان کو معاشرے کے لئے ضروری
قرار دیتا ہے اسی وجہ سے ایسی تعلیم کی بھی حمایت کرتا ہے جو اس کی پیشہ ورانہ
ضروریات اورتقاضوں کی تکمیل میں اس کی مدد کر سکے ۔ہنر اور مہارتیں سیکھنے سے
معاشرہ کی ضروریات اور تقاضوں کی بھی تکمیل ہوتی ہے ۔ پیشہ وارانہ تعلیم کو فلسفہ
حقیقت میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔
حواس خمسہ کی اہمیت تسلیم کی:
ارسطو نے تعلیم حاصل کرنے میں حواس
خمسہ کے کردار کو بھی تسلیم کیا خاص طور پر ابتدائی علم اور مہارتیں حواس خمسہ کی
مدد سے ہی سیکھی جاسکتی ہیں۔ حواس کے ذریعے حاصل کئے جانے والے علم کو صحیح قرار
دیا۔ حواس خمسہ کی تربیت بھی علم کے حصول کے لئے ضروری قرار دی گئی ۔
تجربات کو اہمیت دی گئی :
ارسطو نے یہ فلسفہ قبل مسیح میں پیش
کیا۔ جس میں تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سیکھنے کو اہم قرار دیا گیا۔ آج کے جدید
دور میں بھی ارسطو کے فلسفہ کی اس خوبی کو اوّلین مقام حاصل ہے آج تعلیمی عمل میں
تجربات اور مشاہدات کے بغیر کسی موضوع کی تدریس ممکن نہیں ۔تمام ماہرین تجرباتی
تعلیم کو ناگزیر قرار دیتے ہیں ۔
فلسفہ حقیقت پر اعتراجات
ارسطوکے فلسفہ حقیقت پر اکثر ماہرین
کچھ اعتراضات بھی کرتے ہیں ۔ لیکن اعتراضات اس فلسفہ کی اہمیت اور افادیت کو کم
نہیں کرتے یہ صرف مطالعے کی غرض سے کئے جارہے ہیں ۔ یہ اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں ۔
روحانی و اخلاقی تعلیم نظر اندا:
ارسطو کے فلسفہ کے متعلق ایک اعتراض
یہ کیا جاتا ےہ کہ اس میں روحانی اور اخلاقی تعلیم اور تربیت کی گنجائش کم سے کم
رکھی گئی ہے ۔ جبکہ تعلیم کا مقصد بچے کی شخصیت و کردار کی تعمیر و تشکیل قرار دیا
جاتا ہے ۔ جو روحانی اور اخلاقی تعلیم کے بغیر ممکن نہین ۔ اسطرح نظر انداز کرنے
سے تعلیم کا اہم مقصد بھی نظر انداز ہوجاتا ہے ۔ محض معلومات اور تجربات پر زور
دیا جاتا ہے ۔
روحانیت کی نفی کی جاتی ہے :
ارسطو کا فلسفہ حقیقت روحانیت اور
روحانی اقدار کی نفی کرتا ہے روحانیت کو بھی ممادیت سے سمجھنے پر زور دیتا ہے
۔تجربات کو اہمیت دیتا ہے ۔ انسان کی روحانیت کی تسکین اور تشفی کا کوئی انتظام
اُنہیں یہ فلسفہ روحانیت کو مکمل طور پر نظر انداز کردیتاہے ۔
معاشرتی و مذہبی اقدار نظر انداز:
فلسفہ حقیقت کلی طور پر مادیت پر مبنی
ہے جس میں اجزاء کی اہمیت زیادہ ہے ۔ اس وجہ سے اکثر مذہبی اور معاشرتی اقدار نظر
انداز ہوجاتی ہے ۔ ارسطو مذہب اور روحانیت پر بھی مادیت کا عنصر غالب رکھنا چاہتا
ہے جس کی وجہ سے معاشرتی و مذہبی اقدار کا تحفظ بھی ممکن نہیں رہتا ۔
عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت:
ارسطوعورتوں کی واجبی تعلیم کی حمایت
کرتا ہے ۔ عورتوں کو ناقص العقل قرار دیتاہے ۔ جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل
کرنے میں ناکام رہتی ہیں اس نظریہ کے تحت وہ اعلیٰ تعلیم میں خواتین کی شمولیت کو
غیر ضروری قرار دیتا ہے اس کے علاوہ وہ نوکر' غلام اور بصیرت نہ رکھنے والے ببھی
عام افراد کی بھی تعلیم کی مخالفت کرتا ہے ۔
Post a Comment