فلسفہ فطریت
تعارف:
فلسفہ فطرتیت کے سلسلے میں ''روسو''(Jean-Jacques Rousseau (1712—1778) )کا
نام قابل ذکر ہے۔ روسو کا تعلق فرانس کے شہر جینوا سے تھا ۔ سو لہویں صدی میں یورپ
اور فرانس کے معاشرتی ماحول میں خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں ۔ برائیوں کا دور دورہ
تھا۔ مغربی حکومتوں پر عیسائی مذہب کے روحانی مرکز کلیسا کی حکمرانی تھی جو مذہب
کو غلط طریقے سے استعمال کر رہے ہیں اور مذہب کی آڑ میں انسان کی انفرادی و
اجتماعی خواہشات اور تقاضوں کو نظر انداز کیاجانے لگا۔ بچے کو مذہبی طور پر گناہ
گار سمجھاجاتا تھا اس لئے اس کو گناہوں سے پاک کرنے کے لئے سزاؤں اور دیگر جبر کے
طریقوں پر عمل کیاجاتا تھا۔ اس معاشرتی بگاڑ اور برائیوں کی روک تھام کے لئے بیک (BACON)کو
مینسیں(COMENTUS)ہابس(HOBES)اور
روسو (ROUSSEAU)
نے آواز بلند کی اور تعلیم کے عمل میں فطری اصولوں کے استعمال کی حمایت کی انہوں
نے یہ نعرہ بلند کیا کہ
بچہ پیدائشی نیک اور معصوم ہوتا ہے اسی
وجہ سے تعلیم بچے کی فطری تقاضوں کے مطابق انجام دی جانی چاہیئے۔
فلسفہ فطرتیت کا مرکزی خیال :
فلسفہ فطرتیت میں مرکزی محور''فطرت''
کو قرار دیا گیا ۔ حقیقت ' نیکی اور سچائی فطرت میں ہی پوشیدہ ہے ۔ فطرت زندگی کے
تمام پہلوؤں پر حاوی ہے ۔ بچوں کی تعلیم ایسی ہونی چاہیئے جو اس کے فطری تقاضوں
اور ضروریات کی تکمیل اور تشفی کر سکے ۔ تعلیم میں بچے کی فطرت کو ہی بنیاد بنانا
چاہیئے۔ یعنی تعلیم میں فطرت کی تقلید کرنی چاہیئے بچوں کو فطرت پر آزاد چھوڑ دینا
چاہئیے وہ خود بخود سیکھتے رہیں گے ۔ بچوں کو کتابی تعلیم نہ دی جائے انہیں
الفاظوں کے ہیر پھیر میں نہ الجھایا جائے بلکہ عمل اور تجربات اور فطری چیزوں کے
مشاہدات کے ذریعے سکھایا جائے ۔ روسو کے اس قسم کے افکار سے نہ صرف فرانس میں
انقلابی تبدیلی آئی بلکہ برطانیہ تک میں اس کے مثبت اثرات رونما ہوئے اور مشہور
تعلیمی مفکر پیستالوزی اور فروبل بھی ان نظریات سے متاثر ہوئے ۔
وضاحت :
روسو کا فلسفہ'فطرتیت' فرانس کے
معاشرتی ماحول کے رد عمل کے نتیجے میں سامنے آیا۔ وہ اپنے وطن کے خراب ماحول خاص
طور سے بگڑے ہوئے تعلیمی ماحول سے سخت بیزار تھا۔ بچوں کی ناقدری اور ان پر تشدد
عروج پر تھا۔ بچوں کو آزاد ماحول نصیب نہ تھا۔ تعلیمی ادارے جیل خانے اور سزا کے
مراکز سمجھے جاتے تھے بچوں کے فطری تقاضو ں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔تعلیم میں
کتابوں کے رٹنے رٹانے پر زور دیاجاتا تھا۔ مضامین کی بھرمارتھی۔ تعلیمکا مقصد بچوں
کو کتابی بنانا اور حکومت کی فرمانبرداری سکھانا رہ گیا تھا۔ بچوں کی اپنی کوئی
حیثیت نہ تھی ۔ بچوں کو کتابوں اور استاذہ کے لئے تیار کیاجاتا تھا۔ اساتذہ بھی
بچوں کی فطرت کو سمجھے بغیر زبردستی علم ذہن میں ٹھونسنے میں مصروف رہتے ۔
روسو نے کافی غور و خوض کے بعد ان فرسودہ طریقوں کے خلاف آواز بلند کی
اور اپنے فلسفہ فطرتیت کو پیش کیا جس میں انسان کی انفرادیت اور عظمت کو بلند کیا
گیا تھا۔ روسو کے مطابق انسان فطری طور پر نیک اور معصوم واقع ہوا ہے اور آزادی کا
ماحول ملنا اس کا فطری حق ہے ۔ لہٰذا اس کی نشو ونما کے لئے آزاد ماحول فراہم کرنا
ضروری ہے ۔ معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج کو ختم کرنا ضروری ہے تبھی معاشرے کا
ماحول خوشگوار بنایا جاسکے گا۔ بچے کی تعلیم کے سلسلے میں بھی روسو نے آزاد انہ
تعلیمی ماحول کی حمایت کی اور کہا کہ فطرت تعلیم کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے بچے کو
محض کتابی تعلیم نہ دی جائے بلکہ عمل و تجربات کے ذریعے سکھایا جائے ۔ فطری چیزوں
اور ماحول میں اسے آزاد کردیا جائے ۔ وہ اپنی جبلت تجسس کے تحت علم کا حصول ممکن
بنائے گا۔
''روسو''نے اپنے فلسفہ کے ذریعے بچوں کو
تعلیم کا محور و مرکز بنانے کی حمایت کی کہ سارا تعلیمی عمل بچے کی ذات اور اس کی
فطرت کے حساب سے مرتب کیا جانا چاہیئے۔ روسو سے پہلے کسی نے بھی بچے کو تعلیم کا
مرکز بنانے کی حمایت نہیں کی تھی ۔ اس کے افکار ''نفسیات'' کے قریب تر قرار دئیے
جاتے ہیں ۔ نفسیات بھی انسانی فطرت کے مطالعے کا علم ہے اور روسو بھی فطرت پر زور
دیتا ہے ۔ وہ ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتا تھا جس میں انسانیت کی علمبرداری ہو 'ہر
فرد کو آزادانہ نشو و نما کے مواقع حاصل ہوں ۔ معاشرتی اقدار کو عروج حاصل ہو ۔
روسو نے تعلیم بذریعہ عمل و تجربات پر زور دیا۔اسی بنیاد پر فلسفہ عملیت بھی سامنے
آیا جو امریکی مفکر جان ڈیوی نے پیش کیا۔
فلسفہ فطرتیت کی اہم خصوصیات
ماہرین کے مطابق فلسفہ فطرتیت کی اہم خصوصیات
مندرجہ ذیل ہیں ۔ روسو کے فلسفہ کے مطابق فطرت ایک مکمل حقیقت کے روپ میں سامنے
آتی ہے ۔ گویا کائنات میں موجود تمام اشیاء کی سرگرمیاں فطرت کے تابع نظر آتی ہیں
۔ روسو کے نزدیک اصل برائیوں کی جڑ تو معاشرہ ہے ۔ بچہ فطری طور پر برا نہیں ہوتا
کیونکہ اس کی تخلیق کا باعث فطرت ہی ہوتی ہے ۔ بچہ فطرت کا عطیہ ہے ۔ وہ گناہ گار
نہیں ہے بلکہ فطری طور سے نیک اور معصوم ہے ۔ روسو کے نزدیک بچہ فطرت کا عکس ہے اس
لئے اس کی تعلیم و تربیت فطری اصولوں کے مطابق ہی ہونی چاہیئے۔ روسو کے نزدیک
کائنات کی تمام حقیقتیں فطرت میں پوشیدہ ہیں اس میں روح یا تصوریت کا کوئی عمل دخل
نہیں ہے۔ روسو کے مطابق انسانی اعلیٰ اوصاف صرف کتابوں اور لیکچر سے نہیں ذاتی
تجربہ اور مشاہدے کے ذریعے اپنائے جاسکتے ہیں ۔ انسان کے ابتدائی دور یعنی بچپن
میں فطرت ہی بچے کی استاد ہوتی ہے ۔ بچے کتابوں کے بجائے فطرت سے زیادہ سیکھ لیتے
ہیں اور اسطرح سیکھنا ذاتی بن جاتا ہے ۔ روسو بچوں کی فطری نشو ونما کا حامی ہے اس
کا نعرہ تھا''فطرت کی طرف واپس چلو'' اس کا مطلب یہ تھا کہ بچوں کی فطری خواہشات
کا احترام کر کے ان کو فطرت کے مطابق ابھارنے کے مواقع دئیے جائیں ۔روسو کے فلسفہ
فطرتیت میں کھیل کے ذریعہ تعلیم کا تصور بھی موجود ہے کیونکہ بچے مستقبل کی فکر
نہیں کرتے وہ صرف حال میں دلچسپی لیتے ہیں اور مستقبل کا تصور نہ ہونے کی بنا پر
کھیلوں کو نہیں چھوڑتے اس لئے ایسا ذریعہ تعلیم اپنایا جائے جو کھیلوں پر مبنی ہو
۔ روسو کے مطابق بچے بڑوں کے احکامات اور روک ٹوک پسند نہیں کرتے اسلئے انہیں آزاد
اور فطری ماحول میں چھوڑ دیا جائے ۔ فطرت بچوں کی تربیت میں مدد کرتی ہے ۔روسو کی
تصانیف سے اس کے بگڑے ہوئے معاشرے کا اندازہ لگایاجاتا ہے روسو کے مطابق ''خالق کی
ہر تخلیق جب اس کے ہاتھوں سے نکلتی ہے تو حسین ہوتی ہے اور جب وہ انسانوں کے
ہاتھوں میں پہنچتی ہے تو بدصورت ہو جاتی ہے '' یعنی معاشرہ ہی انسانوں کے بگڑنے کا
سبب ہے ۔ جو فطری تعلیم سے ہی سدھارا جاسکتا ہے ۔
فلسفہ فطرتیت اور تعلیم
روسو کا فلسفہ فطرتیت نے فرد کی اہمیت
کو واضح کیا اور اس کی قدر و منزلت پر زور دیا اس کے فلسفیانہ خیالات اس کے بگڑے
ہوئے معاشرتی ماحول کا نتیجہ ہیں ۔ روسو کے معاشرتی ماحول میں فرد کی کوئی اہمیت
نہ تھی افراد پر جبر و سختی سے کام لیا جاتا تھا۔ بچے کو والدین کے گناہوں کا
نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔ بچے کی فطرت کو برا اور خراب تصور کیا جاتا تھا روسو نے
ایسے ماحول میں اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے نزدیک دنیا کا جوہر مادہ
ہی ہے اور انسانی دماغ بھی مادے جیسی خصوصیت رکھتا ہے انسانی جسم بھی مادہ ہے اور
ایک ایسی مشین کی مانند ہے جو تغیر پذیر رہتی ہے ۔ قدریں وقت حالات اور ماحول کی
وجہ سے وجود میں آتی ہیں ۔قدرت نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے رکھا ہے
انسان کا یہ اعلیٰ درجہ اس کے ساتھ بہتر سلوک کا متقاضی ہے۔ انسان معاشرے کو بناتا
ہے ۔ حکومت کرتا ہے فلاح وبہبود کا باعث بھی ہے اس لئے معاشرے میں افراد کو زیادہ
اہمیت کا حامل ہونا چاہیئے۔
روسو کا فلسفہ فطرتیت کی روشنی میں تعلیم
کو ایک ایسا عمل قرار دیا جاتا ہے ۔ جو بچوں کے فطری صلاحیتوں 'ضروریات اور تقاضوں
کے تحت انجام پائے۔فطرت اس پوری کائنات پر پھیلی ہوئی ہے اور اسی کو صداقت اور
حقیقت کا درجہ حاصل ہے ۔ اس لئے بچوں کو انکے فطری ماحول میں لے جاکر سکھانا ہی
اصل تعلیم کہی جاسکتیہ ے ۔ اس فلسفہ کے تحت بچوں پر خارجی اثرات کے بجائے داخلی
اثرات مرتب کرنے چاہئیں۔ خارجی اثرات اور بیرونی دباؤ بچوں پر ناگوار اثرات مرتب
کرتے ہیں اور اس طرح انکی صلاحیتیں بیدار نہیں ہوتیں بلکہ اور مسخ ہونے لگتی ہیں ۔
فلسفہ فطرتیت معاشرتی اثرات کو بھی اہمیت
نہیں دیتا اور بچوں میں تقلید کرنے اور کسی بھی قسمکی عادتوں کو پروان چڑھانے کی
نفی کرتا ہے بچوں کو فطرت کی جانب لے جانا چاہتا ہے اور فطرت اس کے لئے تجربہ گاہ
کا کام انجام دیتی ہے ۔ بچے تجربے سے سیکھتے ہیں اور تجربات ان کی پختگی کا باعث
بن جاتے ہیں بچے اس طریقے سے خود بخود سیکھتے رہیں گے ۔ استاد صرف رہنمائی کا کام
انجام دے گا۔ بچوں کو ابدی اور برائیوں سے روکنے سے وہ خود بخود نیکی اور اچھائیوں
کی جانب راغب ہونے لگیں گے انہیں براہ راست نیکی اور سچائی کا علم نہ دیا جائے
بلکہ پہلے بدی اور برائیوں کے نقصانات اور خرابیوں سے آگاہ کیا جائے اس طرح وہ خود
اچھائیوں اور نیکیوں کی جانب مائل ہونے لگیں گے ۔ اسکے ساتھ ساتھ بچوں کو فطرت کے
رحم و کرم پر چھوڑ دینا بھی بچے کی شخصیت کے لئے سود مند ثابت ہوتا ہے کیونکہ فطرت
کا بچوں کی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے تعلیم میں وقت کو اہمیت دینے کے بجائے انہیں
بیرونی اثرات سے بچانا ضروری ہے ۔
فلسفہ فطرتیت کے تحت تعلیم کے اصول
فلسفہ فطرتیت کے تحت تعلیم کے مندرجہ
ذیل اصول قرار پاتے ہیں۔
تعلیمی عمل میں بچے کو محورو مرکز بنانا ضروری
ہے ۔بچے کو مرکزی حیثیت دینے سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔تعلیم بچوں کی
فطرت کے مطابق انجام دی جائے ۔ فطرت کا مطالعہ دراصل نفسیات کا موضوع ہے اس لئے
تعلیم میں طلبہ کے نفسیاتی تقاضوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔
٭ فلسفہ فطرتیت کے تحت استاد کا کام محض رہنمائی کرتا ہے نقصان دہ چیزوں سے بچاتا
ہے ۔ بچوں کے جذبات ُاحساسات کو مد نظر رکھنا ہے ان کے ساتھ جبر اور سختی سے کام
نہیں لینا چاہیئے۔ بچوں کو فطرت اور اس کے تجربات کے ذریعے خود سیکھنے کو موقعہ
دینا چاہیئے زبردستی سکھانے کی کوشش نہ کی جائے ۔بچوں پر مرضی ' پابندیاں مسلط نہ
کی جائیں اور نہ ہی سزاؤں سے کام لیا جائے ۔فطرت کے مشاہدے کے مواقع فراہم کئے
جائیں کلاس روم کے ساتھ ساتھ فطری ماحول میں بھی بچوں کو لے جاکر تعلیم دی جائے ۔ بچوں
کی جسمانی صحت کو ممکن بنایا جائے اور جسمانی اعضاء کی کارکردگی اور ذہنی صلاحیتوں
پر نظر رکھی جائے ۔ بچوں کے کاموں 'سرگرمیوں اور تجربات کی حوصلہ افزائی کی جائے
حوصلہ شکنی کرنے سے آگے بڑھنے کا عزم کمزور پر جاتا ہے ۔
فلسفہ فطرتیت کے تحت تعلیم کے مقاصد
فلسفہ فطرتیت کی روشنی میں تعلیم کے
مندرجہ ذیل اہم مقاصد متعین کئے جاتے ہیں۔
بچوں کے جسمانی اعضاء اور حواس خمسہ کی تربیت
کرنا۔ حواس خمسہ سیکھنے میں مدد کرتے ہیں اور جسمانی اعضاء سے کارکردگی اور
صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے ۔بچے کی فطری صلاحیتوں کی نشو ونما کرنا۔ اکثر صلاحیتیں
پوشیدہ ہوتی ہیں تعلیم کے ذریعے انہیں اجاگر کرنے کے مواقع ملتے ہیں ۔بچے کی
موجودہ ضروریات کی تکمیل کرنا تاکہ سیکھنے کے سلسلے میں رکاوٹ نہ پیدا ہو جائے بچے
کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا۔ بچے فطری تعلیم کے ذریعے اپنے مسائل
پر قابو پانا بھی سیکھ لیتے ہیں تعلیم سے بچے کے مسائل اور الجھنیں حل ہوسکیں۔ بچوں
کی فطرت کے مطابق خوشگوار ماحول فراہم کرنا تاکہ انکی بہتر نشو ونما میں مدد مل
سکے ۔بچوں کی انفرادیت کی نشو ونما کرنا۔ جس کی بنا پر کارنامے اور ایجادات منظر
عام پر آتے ہیں۔ بچوں کے فطری تقاضوں اور رجحانات کی تسکین کرنا تاکہ ان کی تعلیم
کا سلسلہ جاری رہ سکے ۔تعلیم میں معاشرے کے بجائے عالمگیر سچائیوں کو اہمیت دی
جائے جو کائنات میں جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔بچوں کو فطری تعلیم کے ذریعے کار آمد
اور کامیاب انسان بنانے کی کوشش کی جائے ۔
فلسفہ فطرتیت اور تعلیم کا نصاب
روسو بچوں کے لئے روایتی نصاب کی مخالفت کرتا
ہے۔ یہ غیر ضروری مضامین اور کتابوں کا بھی مخالف ہے ۔ چھوٹے بچوں کے نصاب میں صرف
ایک کتاب ''روب بن کروسو''کو شامل کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ تعلیم میں تمام مہارتیں
مضامین اور ہنر کو بغیر کتاب کے فراہم کرنا چاہتا ہے ۔ نصاب میں بچوں کی دلچسپی
اور خواہشات کا احترام بھی لازمی ہے۔خواہشات اور دلچسپی کے بغیر تعلیم جاری نہیں
رکھی جاسکتی ۔ روسو صرف جسمانی تربیت اور حواس خمسہ کے ذریعے علم حاصل کرنے پر زور
دیتا ہے ۔ زبانی رٹنے کی مخالفت کرتا ہے عملی تجربات اور سرگرمیوں کا حامی ہے۔
فطرت کے مشاہدہ کے لئے کائنات اور ان میں موجود اشیاء کو کتاب قرار دیتا ہے ۔ بچوں
کے لئے زبان کا علم 'جغرافیہ کا علم 'کاشتکاری کے طریقے اور لکڑی کا کام جاننا اور
سیکھنا بھی ضروری ہے جو صرف عمل اور تجربات کے ذریعے سکھایا جائے ان کے لئے جاننا
اور سیکھنا بھی ضروری ہے جو صرف عمل اور تجربات کے ذریعے سکھایا جائے ان کے لئے
نصابی کتب کی ضرورت نہیں وہ موضوعات میں ربط و تسلسل کا حامی ہے ۔ مضامین کی جدا
جدا حیثیت بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ مذکورہ موضوعات کے علاوہ
'سائنس'ریاضی 'دستکاری'معاشرتی تعلقات'تجارت' موسیقی اور ڈرائنگ بھی بچوں کے لئے
لازمی تصور کئے جاتے ہیں۔
فلسفہ فطرتیت اور تعلیم کے طریقہ
تدریس
فلسفہ فطرتیت چونکہ کتابی تعلیم کا مخالف ہے
اس لئے طریقہ تدریس میں تجرباتی طریقہ'انکشافی طریقہ اور استقرائی طریقہ کی حمایت
کرتا ہے ۔ بچوں کو عمل تجربات اور مشاہدہ کے ذریعے سیکھنے کے مواقع دئیے جائیں۔
کھیل ہی کھیل میں انہیں زندگی کے حقائق سے واقف ہونے کا موقعہ دیا جائے ۔ استاد پس
منظر میں رہے صرف ضرورت پڑنے پر ہنمائی کرے روسو کے فلسفہ کے مطابق جہاں تک ممکن
ہو عمل کے ذریعے تعلیم دو ۔ الفاظوں کا استعمال صرف اس وقت کیا جائے جب عمل کا
سوال ہی پیدا نہ ہو۔ بچوں کو صرف مناسب موقعوں پر اشیاء دکھانے پر اکتفا کرو اور
جب دیکھو کہ بچے کا ذاتی جستجو کافی تیز ہوگیا ہوتو چند چھوٹے چھوٹے سوالات کے
ذریعے اس صحیح راستے پر لگادو''۔روسو کے طریقہئ تدریس سے متعلق تصورات اس کی مشہور
کتاب ایمیل(Emile)کے
ذریعے منظر عام پر آئے جس میں اس نے منفی تعلیم کے تصور کو بھی واضح کیا کہ نیکی
اور سچائی پر لیکچر دینے کا کام تعلیم نہیں ہے بلکہ دل و دماغ کو غلط کاموں اور
برائیوں سے بچانے کا نام تعلیم ہے ۔
فلسفہ فطرتیت اور نظم و ضبط
روسو کے فلسفے کے مطابق تعلیمی نظم و
ضبط کو بھی فطرت کے اصولوں کے مطابق مرتب کیا جانا چاہیئے۔ استاد کو جبر و سختی کی
اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ضرورت پڑنے پر رہنمائی کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ استاد کا
کام مطلبہ کے لئے فطری نشو ونما کے مناسب حالات اور مواقع پیدا کرنا ہے ۔ تعلیمی
نظم و ضبط میں آزادی کا ماحول ضرور ہونا چاہیئے غیر ضروری پابندیاں بچوں کو خلاف
ورزی پر مجبور کردیتی ہے ۔ استاد کا کام صرف مشاہدہ کرنا ہے اور بچوں کی فطری
تربیت میں مدد فراہم کرنا ہے ۔ روسو کے نزدیک کائنات کی چیزوں پر غور کرنا' تجربات
و مشاہدات سے سیکھنا' اصل تعلیم ہے جس کے لئے سخت قسم کے نظم و ضبط کی ضرورت نہیں
رہتی وہ بچے کو اسکول سے باہر لے جاکر قدرتی اور پُرفضا مقام پر لے جاکر آزاد ماحول
میں تعلیم کی بھی سفارش کرتا ہے ۔
روسو کے فلسفہ تعلیم کی خصوصیات
روسو کی تصانیف میں ''معاہدہ
عمرانی''اور ''ایمیل''کو بے پناہ عروج حاصل ہوا۔ روسو کا فلسفہ فطرتیت اور تعلیمی
خصوصیات ان دونوں کتابوں کے مطالعے کے بعد ظاہر ہوتی ہےں جن میں اہم خصوصیات درج
ذیل ہیں۔سمجھدار ماں باپ خواہ وہ جاہل ہی کیوں نہ ہوں ' دنیا کے ماہر ترین استادوں
سے بہتر ہیں۔ کیونکہ جذبہ' قابلیت کی جگہ لے سکتا ہے لیکن قابلیت' جذبہ کی جگہ
نہیں لے سکتی اس لئے روسو والدین کو فطری استاد قرار دیتا ہے ۔روسو نے تصورات کے
بجائے مادی دنیا کو تسلیم کیا خیالی دنیا کے بجائے ظاہری دنیا اور اس کے موجودہ
مسائل کو اہمیت دیتا ہے ۔روسو کے مطابق فطرت ہی حقیقت اور سچائی ہے زندگی کے مادی
اجزاء پر فطرت کا انحصار ہوتا ہے ۔روسو کا فلسفہ انسانی زندگی کو فطرت سے علیحدہ
قرار نہیں دیتا۔ فرد کی ذات کے تحفظ کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔روسو کے فلسفہ کے
مطابق معاشرے کا وجود مصنوعی ہے جبکہ افراد وجود کے اعتبار سے حقیقت میں شمار ہوتے
ہیں ۔
٭ فلسفہ فطرتیت بچوں کو ان کے فطری ماحول میںتعلیم دینے کا حامی ہے خارجی اثرات کے
بجائے داخلی اثرات کو ضروری قرار دیتا ہے ۔ داخلی اثرات بچے کی صلاحیتوں اور
کارکردگی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔یہ فلسفہ تعلیم بذریعہ عمل و تجربات کا حامی
کیونکہ تقلید سے صلاحیتیں اجاگر نہیں ہوتیں۔ روسو کا فلسفہ بچوں میں عادات کی
تشکیل کا حامی نہیں بلکہ جب بچے عمل و تجربات سے گزرتے ہیں تو خود بخود ابھی
عادتیں کردار کا حصہ بننے لگتی ہیں ۔روسو کے فلسفے کے مطابق بچوں کی فطرت میں نیکی
موجود ہے ۔ اسلئے بچوں کو نیکی کی تعلیم دینے کے بجائے انہیں برائی سے روکنا
چاہئیے۔ اس طرح نیکی خود بخود اپنا لی جاتی ہے ۔ تعلیم کے ذریعے فرد کی فطری
صلاحیتوں کی نشو ونما کی جائے اور عمل و تجربات کے ذریعے فطری تقاضوں کی تسلی
وتشفی کو ممکن بنایا جائے۔بچوں کو دوران تعلیم عظمت کے مواقع دئیے جائیں اس طرح ان
کی انفرادیت کی نشو ونما ممکن ہوتی ہے ۔روسو کا یہ فلسفہ عورتوں کی اعلیٰ تعلیم کی
مخالفت کرتا ہے کیونکہ فطری طور پر عورتوں کی ذمہ داریاں مردوں سے مختلف ہوتی ہے
عورتوں کی اعلیٰ تعلیم انہیں فطری ذمہ داریوں سے عہد و بر آہونے سے روکتی ہے ۔
اس فلسفہ کے تحت تعلیمی نظم و ضبط بھی فطری
انداز کا ہوتا ہے۔سزاؤں اور سخت پابندیوں کی مخالفت کی جاتی ہے۔اس فلسفہ کے مطابق
بچوں کے لئے مضامین کا بوجھ ضروری نہیں بلکہ انہیں غور و فکر مشاہدہ فطرت ' جسمانی
ورزش اور اخلاقی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع دئیے جائیں تو مضامین کی ضرورت
باقی نہیں رہے گی۔
فلسفہ فطرتیت پر تبصرہ
روسوکے فلسفہ فطرتیت پر نظر ڈالنے کے
بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا فلسفہ تعلیم اس کے ملک فرانس کے بگڑتے ہوئے ماحول کا
رد عمل ہے ۔ روسو اپنے ملک کے سیاسی ' تعلیمی اور جاتی تھی ۔ اس کی ناقدری اور
تذلیل ہر میدان میں موجود تھی۔ بچوں کو مذہبی طور پر گناہوں کا موجود تھی ۔ تعلیم
میں بھی روایات پر عمل کیا جاتا تھا۔ کلاس روم بچوں کے لئے اذیت خانے بن گئے ۔
تعلیمی ادارے قید خانے نظر آتے ۔ طریقہئ تدریس صرف رٹا لگانے کی حد تک محدود تھا
بچوں کی نفسیات اور فطرت کے مطابق تعلیمی دینے کا تصور تک نہ تھا۔ ایسے ماحول میں
''روسو'' کے افکار نے پورے فرانس میں ہلچل مچادی۔ تعلیمی نظام میں بھی انقلابی
افکار داخل ہوگئے اس طرح انقلاب فرانس کی راہ ہموار ہوئی ۔ روسو کے فلسفہ فطرتیت
کی خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں۔
فلسفہ فطرتیت کی خوبیاں
کتابی تعلیم کی مخالفت
روسو کا فلسفہ کتابی تعلیم کی مخالفت
کرتا ہے کیونکہ کتابی موضوعات بالغ انسانوں کے ذہن کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ ان ہی کے
نقطہ نظرسے مطابقت رکھتی ہیں اس لئے بچوں کے ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب نہیں کرتیں۔
بچے فطرت کے قریب ہو کر اچھے طریقے سے سیکھ لیتے ہیں ۔ اس لئے یہ فلسفہ کتابی
تعلیم کے بجائے فطری تعلیم کی حمایت کرتا ہے ۔
بچہ کو تعلیم کا مرکز قرار دینا
روسو کا فلسفہ فطرتیت بچہ کو تعلیم کا
مرکز قرار دیتا ہے تعلیمی عمل بچے کے لئے مرتب کیا جانا چاہئیے۔ ساری تعلیمی
سرگرمیاں' عملی تجربات وغیرہ بچوں کی صلاحیتوں اور استعداد کے مطابق مرتب کی جانی
چاہئیے۔ بچوں کی دلچسپی' خواہشات اور ضروریات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔
بچوں کی فطری تقاضوں کی تسکین کا سامان بھی تعلیمی اداروں کےلئے ناگزیر قرار دیا
جاتا ہے ۔
فطرت کی جانب واپسی
روسو اپنے فلسفہ تعلیم کے ذریعے ''فطرت کی طرف
لوٹو''(Back to Nature)کانعرہ
بلند کرتا ہے ۔ اس کے مطابق بچوں کو کھلی فضا میں فطرت کا مشاہدہ کرانا چاہئیے۔
ایسے خوشگوار ماحول میں رہ کر فطری اور عملی تجربات کے ذریعے مختلف تعمیری اور
مثبت چیزیں سیکھ لیتا ہے بچے فطرتاً نیک اور معصوم ہوتے ہیں اس لئے ان کو فطری صاف
ستھرا ماحول دینا چاہئیے تاکہ ان میں سچائی ' مساوات' نیکی جیسے اوصاف نمایاں
ہوسکیں ۔
مسائل حل کرنے کی تربیت
روسو بچوں کی انفرادی صلاحیتوں کو ابھارنے کے
مواقع فراہم کرنے کا حامی ہے وہ بچوں کی ہمی گیر نشو ونما کے لئے ان پر انفرادی
توجہ بھی ضروری سمجھتا ہے بچوں کے سامنے زندگی کے مسائل رکھنے کی حمایت کرتا ہے
تاکہ بچے خود ان مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوسکیں یہ تربیت زندگی کے مسائل کو بھی
حل کرنے میں کام آتی ہے ۔
عمل و تجربات کیا ہمیت
روسو بچوں کی جسمانی اور اخلاقی تعلیم دین
مسائل حل کرنے کی تربیت
روسو بچوں کی انفرادی صلاحیتوں کو ابھارنے کے مواقع
فراہم کرنے کا حامی ہے وہ بچوں کی ہمی گیر نشو ونما کے لئے ان پر انفرادی توجہ بھی
ضروری سمجھتا ہے بچوں کے سامنے زندگی کے مسائل رکھنے کی حمایت کرتا ہے تاکہ بچے خود
ان مسائل کو حل کرنے کے قابل ہوسکیں یہ تربیت زندگی کے مسائل کو بھی حل کرنے میں کام
آتی ہے ۔
عمل و تجربات کیا ہمیت
روسو بچوں کی جسمانی اور اخلاقی تعلیم دینے کی ہدایت
کرتا ہے اس سلسلے میں بچوں کو عمل اور تجربات سے گزارا جائے ۔ عمل اور تجربات آموزش
میں مدد کرتے ہیں اس کے نزدیک لفظوں کے بجائے عمل کے ذریعے سکھانا بہتر ہے ۔ عمل اور
تجربات میں ذہن کے علاوہ جسمانی اعضاء اور حواس خمسہ بھی متحرک ہو جاتے ہیں ۔
آزاد ماحول کی حمایت
روسو روایتی تعلیمی طریقوں کی مخالفت کرتا
ہے ان میں آزاد اور خوشگوار ماحول ممکن نہیں رہتا ۔ وہ طلبہ کے لئے آزاد اور خوشگوار
ماحول پسند کرتا ہے جس میں تعلیم بذریعہ کھیل اورتعلیم بذریعہ کام ضروری قرار دیتا
ہے ۔ وہ ہاتھ سے کام کرنے اور تجربات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ تجربات اور مشاہدات کو
علم کی کسوٹی قرار دیا جاتاہے ۔
جبر اور سزاؤں کی مخالفت
روسو بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں سزاؤں کا
سخت مخالف ہے ۔ وہ غیر ضروری جبر اور پابندیوں کو بھی پسند نہیں کرتا جو نظم و ضبط
کا نام لے کر لگائی جاتی ہیں۔جبر اور تشدد بچوں کو تعلیم سے ہی متنفر کر دیتا ہے ۔
رو سو اساتذہ کو ہمدردی'پیار و محبت سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے ۔استاد کا کام صرف
رہنمائی قرار دیتا ہے ۔
امدادی اشیاء کا استعمال
روسو تعلیم میں امدادی اشیاء کو بھی ناگزیر قرار
دیتا ہے امدادی اشیاء نفس مضمون کو سمجھانے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ان میں فطری
اشیاء تصاویر چارٹ ماڈل، نقشے وغیرہ شامل ہیں ۔ قدرتی مناظرہ اور فطری اشیاء کو بھی
امدادی اشیاء کا درجہ حاصل ہے ان کے ذریعے بچے تیزی سے سیکھ لیتے ہیں۔
روسوکے فلسفہ تعلیم پر اعتراضات
بہت سے ماہرین روسو کے فلسفہ فطرتیت کو
فلسفہ کا درجہ نہیں دیتے کیونکہ اس میں ما بعد الطبیعات کے متعلق کوئی بات نہیں ملتی
۔ جو فلسفہ کی بنیادی خصوصیت ہوتی ہے ۔البتہ، معاشرہ، تعلیم، افراد اور فطرت کے متعلق
فلسفیانہ افکار کی وجہ سے روسو کے فلسفہ کو ''نیم فلسفہ ''قرار دیا جاتا ہے البتہ ماہرین
کی اچھی خاصی تعداد روسو کے فلسفہ فطرتیت کو تسلیم کرتی ہے ۔ اس کے علاوہ روسو کے فلسفہ
کے متعلق کچھ اور اعتراضات بھی کئے جاتے ہیں جو درج ذیل ہیں ۔
عورتوں کی تعلیم کی مخالفت کی :
روسو نے اس سلسلے میں ارسطو کے خیالات کی حمایت کی۔
وہ لڑکیوں کی ابتدائی تعلیم کی تو حمایت کرتا ہے مگر اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتا ہے
۔ روسو کے مطابق فطرت نے مرد اور عورت دونوں کو مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں عطا کی ہیں
۔ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم ان ذمہ داریوں کو نبھانے میں رکاوٹ ڈالتی ہے اس لئے تعلیم
کے معاملے میں مرد اور عورت کو برابر کا نہیں سمجھا گیا۔
بے لگام آزادی کی حمایت کی:
روسو نے ہر قسم کی پابندیوں کی مخالفت کر کے بے لگام
آزادی کا تصور عام کیا۔ وہ بچوں کو فطری آزادی دینے کا حامی ہے۔ اس کے خیال میں فطرت
ہی اسے سکھادے گی۔ یہ تصور انتہائی مبالغہ آمیز ہے ۔ بچوں کی فطرت میں شرارت بھی شامل
ہے جو مناسب پابندیوں اور ہلکی پھلکی سزاؤں سے کنٹرول کی جاسکتی ہے بچوں کی مرضی اور
بے لگام آزادی بے راہ روی کی جانب بھی لے جا سکتی ہے۔
نصاب اور کتابوں کی مخالفت کی
روسو کے فلسفہ پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے
کہ نصاب اور کتابوں کو وہ غیر ضروری سمجھتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے صرف ایک کتاب ''روبن
سن کروسو''کی حمایت کرتا ہے اس طرح مدود کردینے سے نہ تو بچے کی تقریری صلاحیتوں کی
نشو و نما ہوتی ہے اور نہ ہی تحریری صلاحیتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ تحریری صلاحیتوں کا
پتہ چلتا ہے ۔ تحریر اور تقریری صلاحیتوں کے سلسلے میں روسو خاموش نظر آتا ہے ۔
روسو کا فلسفہ فطرتیت میں روحانیت ' تصوریت
اور مذہبی اقدار کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے لگتا ہے کہ روسو بھی مذہب کو انسان کا
نجی معاملہ قرار دیتا ہے ۔ مذہب کی جگہ فطرت کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ مابعد الطبیعات
کے علوم کے سلسلے میں بھی یہ فلسفہ خاموش نظر آتا ہے ۔
Post a Comment