فلسفہ عملیت
تعارف:
امریکہ کے مشہور فلسفی جان ڈیوی( John Dewey) نے فلسفہ عملیت کوپیش کیا۔ جان ڈیوی نے اپنے فلسفہ کی بنیاد عمل
اور تجربات پر رکھی۔ انگریزی میں اس فلسفہ کو
(Pragmatism)کہا جاتا ہے ۔ یہ یونانی زبان کے لفظ PRAGMA(پریگما) سے ماخوذ ہے جس کے معنی عمل اور حرکت کے ہیں ۔ اسی وجہ
سے اس کا نام ہی عملیت پڑگیا چونکہ ہر عمل کا اندازہ اس کے نتائج سے لگایا جاتا ہے
۔ اس وجہ سے اس فلسفہ کو دوسرے نام نتائجیت اور تجربیت(Experimentalism)سے بھی پکارا جاتا ہے ۔ اس فلسفہ کے بانیوں
میں جان ڈیوی کے علاوہ چارلس پیئرس
(Charles Pierce)ماؤنٹنگ (MONTAIGNE) لاک(LOCKE)'
روسو(ROUSSEAU)پستالوزی(PESTALOZZY)اور فروبل(FROEBLE)بھی نمایا ں ہیں۔
فلسفہ عملیت کا مرکزی خیال:
فلسفہ عملیت کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کائنات
کے تمام حقائق عمل و تجربات کا نتیجہ ہیں کسی شے کی حقیقت عمل و تجربات کی کسوٹی پر
جانچی جاتی
ہے یہ کائنات حرکت پذیر ہے لہٰذا بنیاد
پر فلسفہ عملیت وجود میں آیا۔ جان ڈیوی کے مطابق حقیقت کو صرف عمل اور تجربے کی کسوٹی
پر پرکھا جاسکتاہے ۔ کائنات کی اشیاء اپنے استعمال اور نتائج کی بنا پر اہمیت رکھتی
ہےں۔ نتائج ہی نظریہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
وضاحت:
فلسفہ عملیت اس رد عمل کے نتیجے میں سامنے
آیا جو رسمی تعلیم اور عملی زندگی کو جدا جدا سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس فلسفہ
سے پہلے نظریاتی اور عملی تعلیم کو الگ الگ حیثیت حاصل تھی۔اکثر نظریاتی علوم کی افادیت
صرف تصوراتی اور خیالی تھی۔ یہ واضح بھی نہ تھے ۔ عمل اور تجربے کے دائرے میں نہیں
آتے تھے۔ ان کے نتائج بھی واضح نہیں نکلتے تھے جس کی وجہ سے ان کی کوئی اہمیت و افادیت
نہ رہی جان ڈیوی کے مطابق وہی نظریات قابل قبول ہیں جو عمل اور تجربے کی کسوٹی پر پورے
اتریں۔ اور سائنسی طریقوں اور حسی تجربات کے ذریعے ان کو ثابت بھی کیا جاسکے ۔
جان ڈیوی کے فلسفہ عملیت کے تحت دنیا میں تغیرات
کے سبب کوئی بھی قدر مستقل اور دائمی نہیں رہتی اس لئے انسان کو خود عمل اور تجربے
کے ذریعے اپنی اقدار کی تعمیر کرے گا۔ اس کے خیال میں خیالی تصور سے زیادہ بہتر خیال
اور تصور کا عمل و تجربہ ہے۔ جسمانی طور پر عمل و تجربات کے ذریعے ہی علم کی حقیقت
سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
مشہور ماہر نفسیات ''ولیم جیمز''نے بھی فلسفہ عملیت
کی حمایت کی ہے ولیم جیمز کے مطابق کسی خیال یا تصور کے معنی و مفہوم سمجھنے کےلئے
صرف اتنا جانچنا ضروری ہے کہ اس سے کیا افعال اور نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ عملیت ایسا
طریقہ کار ہے جس کے ذریعے عقائد اور ٹھوس تصورات کا مفہوم واضح ہوسکے اور عمل پر انہیں
جانچا جاسکے تصورات اور خیالات صرف افادیت کی بنا پر اہمیت رکھتے ہیں اور حقائق صرف
تجربات کے نتیجے میں ہیں معلوم کئے جاسکتے ہیں۔
فلسفہ عملیت کے مطابق انسانی زندگی صرف تجربات سے
عبارت ہے یہاں تک کہ ذہن بھی عمل سے تعلق رکھتا ہے ۔ عملی سرگرمیوں سے ہی ذہن متحرک
ہوتا ہے اس کا علیحدہ سے کوئی وجود نہیں ہے یہ اس وقت نمودار ہوتی ہے جب انسان کسی
عمل یا تجربے سے گزرتا ہے ۔ فلسفہ عملیت کے تحت ہی دنیا تجرباتی ہے ۔ اس سے مادورا
حقیقتوں پر یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ ما بعد الطبیعات سوالات کو اسی صورت میں حل کرتا
ہے جب ان کے جوابات کے نتائج و افادیت کی بنیادوں پر ان کو سمجھا جاسکے کہ افراد کی
عام زندگی میں اس کے عملی اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں ۔
جان ڈیوی کے فلسفہ کو عملیت کے علاوہ آلائیت بھی
کہا جاتا ہے اس کے نزدیک عقائد و تصورات'فلسفہ و منطق اور ہر قسم کی غور و فکر انسانی
عضویاتی افعال ہیں جو عمل اور نتائج کے نتیجے میں سامنے آتے ہیں ۔ اس فلسفے کے تحت
عمل اور تجربا ت کے نتیجے میں ہی حقیقتیں پہچانی جاتی ہیں اس فلسفہ کے تحت حقیقت کا
یقین کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ حقیقت خود تخلیق کے مراحل طے کر رہی ہوتی ہے۔ نتائج
میں تغیرات رونما رہتے ہیں۔ حقیقتیں بدلتی رہتی ہیں۔ نتائج کے نتیجہ میں ٹھوس حقیقتیں
تک بدل جاتی ہیں۔
جان ڈیوی کے فلسفہ عملیت میں جو چیز عمل اور تجربات
کے نتیجے میںثابت ہوجائے وہ سچائی اور حق قرار پاتی ہے اور اگر عمل اور تجربات کے نتائج
ناکامی سے دوچار ہوجائیں تو وہ باطل اور غلط قرار پاتی ہے اس سے ظاہر ہوا کہ سچائی
حق و صداقت ابدی قدریں نہیں ہیں بلکہ حق اس چیز کا نام ہے جو کامیاب ثابت ہوجاتی ہے۔
جان ڈیوی تعلیم میں نظری مضامین کے بجائے عملی مضامین اور سرگرمیوں کو داخل کرنے کا
حامی ہے ۔اس کے مطابق علم اور عمل ساتھ ہونے چاہئیں ۔ علم محتا ج ہے عمل کا ۔ عمل کے
بغیر علم بے کار ثابت ہوتا ہے ۔ عمل سے ہی علم کی شروعات ہوتی ہیں اور عمل کے لئے تجربات
اور مشاہدات راہ ہموار کرتے ہیں۔
فلسفہ عملیت کی خصوصیات
فلسفہ عملیت کے مفہوم کی وضاحت کے بعد
اس کی اہم خصوصیات سامنے آتی ہیں جو درج ذیل ہیں۔
فلسفہ عملیت کے نزدیک دنیا تغیر پذیر ہے اور اپنے
ارتقائی مراحل میں ہے عمل اور تجربات کے ذریعے ہی انسان ارتقاء کی منزلیں طے کرتا ہے
۔جان ڈیوی کا یہ فلسفہ روحانیت اور مادیت کی مخالفت کرتا ہے عمل اور تجربات کو اہمیت
دیتا ہے ۔
فلسفہ عملیت کا انحصار نتائج پر ہوتا ہے کسی عمل
کا نتیجہ مشاہدات اور تجربات کے نتیجے میں ہی ظاہر ہوتا ہے ۔اس فلسفہ کے تحت ماضی کو
اہمیت نہیں دی جاتی بلکہ حال اور مستقبل کی فکر کی جاتی ہے ۔ اس فلسفہ کے تحت علم برائے
علم کی نفی کرتے ہیں اور علم برائے عمل کا نعرہ بلند کرتے ہیں ۔ فلسفہ عملیت میں جمہوری تقاضے پائے جاتے ہیں جس کے
تحت نئے نئے تجربات اور ان کے فائدہ مند نتائج کو اہمیت دی جاتی ہے ۔ یہ فلسفہ ان مسائل
کو اہمیت دیتا ہے جنہیں سائنسی اور مشاہداتی طرقیے اور تحقیق کے ذریعے حل کیا جاسکتا
ہے ۔فلسفہ عملیت میں مابعد الطبیعات جیسے عوامل کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ خیالات اور
تصورات کی بنیادوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ یہ فلسفہ اقدار و روایات کی بجائے انسانی
ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل پر زور دیتا ہے ۔ اس فلسفہ کے تحت عمل و تجربات کے نتیجے
میں جو اقدار درست ثابت ہوں انہیں صحیح تسلیم کر لیا جاتا ہے تجربات و مشاہدات کے ذریعے
حاصل کیا جانیوالا علم حقیقت سمجھا جاتا ہے ۔ اس
فلسفہ کے تحت عمل و تجربات کے نتیجے میں جو اقدار درست ثابت ہوں انہیں صحیح تسلیم کر
لیاجاتا ہے تجربات و مشاہدات کے ذریعے حاصل کیا جانیوالا علم حقیقت سمجھا جاتا ہے
۔ اس فلسفہ کے تحت انسان ایک معاشرتی اور حیاتیاتی عضویہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اسی وجہ
سے انسان کا ہر عمل معاشرتی و حیاتیاتی ہوتا ہے ۔ یہ فلسفہ اخلاقی اصولوں اور حقائق
میں بھی حالات اور ضرورت کے مطابق اور تجربات کے نتائج کی روشنی میں تبدیلیوں کی حمایت
کرتا ہے ۔
فلسفہ عملیت اور تعلیم
جان ڈیوی کے فلسفہ عملیت کے مطابق تعلیمی عمل میں
طلبہ کے تقاضوں اور دلچسپیوں کو بنیادی حیثیت کا درجہ دیا جاتا ہے اس فلسفہ کے تحت
طلبہ کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے اور تعلیمی عمل میں تجربات اور عمل سرگرمیوں کے ذریعے
طلبہ میں مہارت پیدا کیا جاتی ہے اور یہ مہارت طلبہ کے لئے معاشرے سے مطابقت کا باعث
بھی بنتی ہے ۔ ایسی تعلیم و تربیت سے طلبہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں بھی
کامیا ب ہوجاتے ہیں ۔ جان ڈیوی طلبہ کی انفرادی اور اجتماعی نشو و نما کو ضروری قرار
دیتا ہے ۔ تعلیم کو مکمل معاشرتی عمل اور معاشرے کی فلاح کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔ جان
ڈیوی کا یہ فلسفہ روایات اور اقدار کو نظر انداز کرتا ہوا زندگی اور اس کی ضروریات
کو زیادہ اہمیت دیتا ے ۔ یہی ان کے فلسفہ تعلیم کی اساس بن جاتا ہے ۔ جان ڈیوی تعلیم
کو ایک حر کی قوت سمجھتا ہے کیونکہ اس مادی کائنات میں تمام اشیاء حرکت پذیر رکھتی
ہیں۔ اسی وجہ سے وہ تعلیم کو بھی حرکت پذیری کی خصوصیت کا حامل قرار دیتا ہے ۔
جان ڈیوی کا فلسفہ عملیت تعلیم کو تجربے کی ایسی
نئی تشکیل یا تنظیم سمجھتا ہے جو تجربے کے مفہوم کو وسیع تر بناتا ہے ۔ اور آئندہ کے
راستے کا یقین کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرد ے ۔فلسفیانہ افکار بھی تعلیم ہی کا نتیجہ
ہوتے ہیں۔ بچوں کو کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی سرگرمیاں بھی کرانا ضروری ہیں۔ تاکہ
طلبہ اکتسابی اور عملی تعلیم میں ہم آہنگی پیدا کر کے عملی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔
جان ڈیوی گھر کے ماحول اور اسکول کے ماحول میں بھی ہم آہنگی پیدا کرنے کا حامی ہے اسکول
اور معاشرے کے درمیان دوری نہ ہو۔ اسکول کا ماحول معاشرے کا عکاس ہوتا ہے ۔ یہ فلسفہ
کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ عمل اور تجرباتی تعلیم کو بھی لازمی قرار دیتا ہے ۔ مضامین
اور موضوعات کا تعلق عملی زندگی سے ہونا بھی ضروری ہے مضامین ایسے ہونے چاہئیں جن کی
ضرورت اور افادیت معاشرے میں موجود ہو۔
جان ڈیوی تعلیم میں بچوں پر انفرادی توجہ کو بھی
ضروری سمجھتا ہے تاکہ بچوں کے انفرادی مسائل اور الجھنوں کو بھی حال کیا جاسکے۔ بچے
کی مشکلات اور رکاوٹوں کا بھی درست اندازہ لگایا جاسکے۔بچوں یہ انفرادی توجہ کے آج
بھی سب ہی قائل نظر کرتے ہیں۔ تعلیم میں عمل اور تجربات بھی ضروری ہیںان کے ذریعے سیکھا
ہوا علم پائیدار ہوتا ہے اور وقت پڑنے پراس کا صحیح اعادہ بھی ممکن ہوجاتا ہے ۔ جان
ڈیوی اس بات کا حامی ہے کہ تجربہ انسان کا سب سے بہترین استاد ہے ۔ تجربہ کی تعمیر
نو تشکیل نو اور تنظیم نو کا نام ہی تعلیم ہے ۔ اس کے نزدیک تعلیم کی کامیابی تجربات
اور مشاہدات پر ہے اس نے تعلیم بذریعہ کھیل اور تعلیم بذریعہ کام کو بڑی اہمیت دی کھیل
اور کام تجربات کے نتیجے میں ممکن ہوتے ہیں ۔ بچے کھیل 'عملی کام اور تجربات کے عمل
سے گزر کر اطمینان اور مسرت محسوس کرتے ہیں۔
فلسفہ عملیت اور تعلیم کے مقاصد
Post a Comment