وہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

جوانسان ایک رب کی نہیں مانتا تو اسے ہر طاقتور  کی ماننی پڑتی ہے، جو اپنے مالک حقیقی  کی نہیں سنتا تو اسے مالک کے بندوں کی سننی پڑتی ہے،  جو اپنے رازق سے نہیں مانگتا تو اسے مخلوق کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ جب رب کی معرفت نہیں ہوتی تو پھر وہ سائے کے پیچھے بھاگتا ہے اورموہوم سایا بھی اسے نہیں ملتا ۔

نیز انسان بعض اوقات اپنی زندگی میں کثیرمسائل سے دو چار ہوجاتا ہے ۔۔ محتاجی - غربت ۔ بیماری ۔ خوف ،احساس جرم وغیرہ۔یہ وہ بعض ان دیکھے بت  بن جاتے ہیں جنھیں  انسان  سجدے کررہا ہوتا ہے حالانکہ اگر وہ اپنے رب سے تعلق مضبوط کرلے تو انہیں سجدہ نہ کرنا پڑے۔ مثلاً اگر کوئی شخص بیمار ہے تو وہ علاج کے لئے  بہترین سعی  کرے لیکن اعتما د اپنے رب پر کرے کہ  شفاء اللہ رب العزت کی طرف سے ہے ۔وہ بیمار سجدے میں شافی( شفا دینے والا) کو پکارے۔ یقینا وہ اسے شفا دے گا۔رزق کے مسائل سے دوچار شخص اپنے دل میں اپنے مسائل پراپنے رازق کو آواز دے ۔جب وہ اپنا تعلق اپنے خالق ،مالک و رازق سے مضبوط کرلیتا ہے  یہ اس کے توکل ، و ایمان کی کیفیت کو مضبوط کرتا ہے اور پھر وہ شخص حق گوئی  میں بیباک ہوجاتاہے اور کسی کی جانب جھکی آنکھوں سے نہیں دیکھتا۔لہذا  انسان  کو چاہئے اپنے رب حقیقی سے تعلق استوار کرکے باقی تمام مخلوق سے بے نیاز ہوجائے ۔

نیز اس شعر میں نماز کی اہمیت کو بیان کیاگیاہے۔ نماز دین کا ستون ہے۔نماز اور دعا مومن کا اسلحہ ہے۔ ان کے ذریعے بندہ اپنے آقا سے ہم کلام ہوتا ہے ، راز و نیاز کرتا ہے ۔ نماز خالق و مالک سے ہم کلامی کے شرف کی بناپر ’’معراجِ مومن‘‘ تب ہی  بن سکتی ہے جب انسان روح و بدن کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اس کی زبان کے ساتھ دل بھی ادا ہونے والے کلمات کی شہادت دے رہا ہو۔  تو یہ نماز اسے بندوں سے بنے نیاز کردے گی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post