مسجد بنانے،مسجد سے محبت، مسجد کا ادب واحترام یا مسجد کی تعظیم
مسجد بنانے کی فضیلت :
مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِداً یُذْ کَرُ فِیْہِ اسْمُ اللّٰہِ تَعَالٰی بَنیَ اللّٰہُ لَہُ بِہِ بِیْتًا فِی الْجَنَّۃِ۔(مسند احمد: ۱۲۶)
سیّدناعمر بن خطاب سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اللہ کے لیے ایسی مسجد بنائی جس میں اللہ کا ذکر کیا جائے تو اللہ اس کے لیے اس کے بدلے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔
بعض احادیث میں تو اس حد تک بھی ذکر آیا ہے کہ اگر کوئی شخص کبوتر کی مانند پرندے ’’قطاۃ‘‘ کے گھونسلے جتنی مسجد بنائے،تب بھی اسے اﷲ تعالیٰ جنت میں گھر عطا فرمائے گا۔’’قطاۃ‘‘ کبوتر کی مانند پرندہ ہے جو پانی کی تلاش میں کوسوں(میلوں)دور نکل جاتا ہے۔عرب اس پرندے کو ’’صدوق‘‘ بھی کہتے ہیں۔
مسجد سے محبت :
سَبْعَة يُظِلُّهُمُ اﷲُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ : اَلْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اﷲِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ : إِنِّي أَخَافُ اﷲَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهُ، وَرَجُلٌ ذَکَرَ اﷲَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا، جس روز اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا : عادل حاکم، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا، وہ آدمی جس کا دل مسجد میں لٹکا رہتا ہے، وہ دو آدمی جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہوں اور اسی سبب سے جدا ہوں، وہ آدمی جس کو حیثیت اور جمال والی عورت نے بلایا (یعنی دعوتِ گناہ دی) تو اس نے کہا : میں اﷲ سے ڈرتا ہوں، وہ آدمی جو اس طرح چھپا کر خیرات کرے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اﷲ رب العزت کو یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
مسجدشعائر اسلام میں سے ہے۔اس میں آمد ورفت کے لئے کچھ احکام اور آداب، قرآن اور احادیث میں بیان ہوئے۔ مسجد کی طہارت اور صفائی پر تاکید کی گئی ہے، نیز نمازی آدمی کے حالات و اشیاء کے متعلق خاص فقہی احکام ہیں۔ مثلاً مسجد میں جنابت کی حالت میں داخلہ حرام ہے، پاکیزہ کپڑوں کا اہتمام لازم،یعنی بدن لباس پاک صاف ہو،بہتر ہے کہ گھر سے مسجد میں باوضو ہو کر جائیں۔۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
یٰبَنِیْٓ ادَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الاعراف:31)۔
اے بنی آدم! مسجد میں جاتے وقت زیب و زینت کو اپناؤ۔ کھاؤ پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کو پسند نہیں فرماتا۔
اَلنُّخَامَۃُ فِی الْمَسْجِدِ خَطِیْئَۃٌ وَکَفَّارَتُہَا دَفْنُہَا۔ (مسند احمد: ۱۳۴۸۴)
سیّدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کرنا ہے۔
مَنْ أَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ فَـلَا یَأْتِیَنَّ الْمَسَاجِدَ۔ (مسند احمد: ۴۷۱۵)
سیّدناعبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص یہ درخت (پیازیا لہسن ) کھالے وہ اللہ تعالیٰ کے گھروں(یعنی مسجدوں) میں نہ آئے۔(اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بدبودارچیز جس سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہو۔مثلاً سگریٹ، نسوار)
نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَنِ الشِّرَائِ وَالْبَیْعِ فِی الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِیْہِ الْأَ شْعَارُ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِیْہِ الضَّالَّۃُ وَعَنِ الْحِلَقِ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ قَبْلَ الصَّلاۃِ۔ (مسند احمد: ۶۶۷۶)
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اس کے دادا (سیّدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے، اشعار پڑھنے اور گم شدہ چیز کا اعلان کرنے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقے بنا کر بیٹھنے سے منع کیا ہے۔
إِذَا وَجَدَ أَحَدُکُمْ الْقَمْلَۃَ فِی ثَوْبَہِ فَلْیَصُرَّھَا وَلَا یُلْقِہَا فِی الْمَسْجِدِ۔ (مسند احمد: ۲۳۸۸۱)
حضرمی بن لاحق ایک انصاری آدمی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میںسے کوئی شخص اپنے کپڑے میں جوں محسوس کرے تو وہ اسے دبا لے اور مسجد میں نہ پھینکے۔
مساجد کے کچھ احکام، مسائل اور آداب درج ذیل سطور میں پیش کئے جارہے ہیں۔
مسجدوں کو پاک صاف رکھنا اور گردوغبار جھاڑنا مسلمانوں کے ذمہ ہے۔مسجد میں فضول باتوں سے پرہیز کیا جائے ، اس میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نفل پڑھناسنت ہے ،اس کو تحیتہ المسجد کہتے ہیں۔نمازیوں کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔اس کے بارے میں میں حدیث میں وعید آئی ہے۔
جب تم نماز پڑھو تو دونوں لباس(مکمل لباس پہنو) پہنو بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے زینت اختیار کرنا زیادہ ضروری ہے ۔ (طبرانی)۔
اگر میری اُمت پر مشکل نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لئے مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ (بخاری)۔ مزید فرمایا:’’مسواک منہ کی پاکیزگی اور رَبّ کی رضامندی ہے‘‘ (نسائی)۔
جب تم اقامت سنو تو نماز کی طرف چل پڑو۔ لیکن سکون و وقار کو ملحوظ خاطر رکھو۔ تیز تیز دوڑ کر نہ آؤ۔ جو نماز مل جائے وہ پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے وہ مکمل کر لو۔(بخاری و مسلم)۔
تم میں جو عقلمند اور فہم و فراست والے ہیں وہ نماز میں میرے قریب کھڑے ہوں۔ پھر ان کے بعد والے پھر ان کے بعد والے یعنی پڑھے لکھے سمجھدار لوگ امام کے قریب کھڑے ہوں۔ (صحیح مسلم)۔
جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو کہے: اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ۔ جب نکلے تو کہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ (مسلم)۔
جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت ضرور پڑھے‘‘ (بخاری و مسلم)۔
بے شک یہ مساجد اس قسم کے پیشاب پاخانے کیلئے نہیں بنائی گئیں۔ بے شک یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اور نماز و قرآن کے لئے بنائی گئی ہیں۔ (بخاری و مسلم)۔
مسجد میں اونچی آواز سے قرات یا ذکر اذکار نہیں کرنے چاہئیں جس سے دوسروں کے عبادت میں خلل واقع ہو۔ " کوئی کسی کو تکلیف نہ دے۔ اور اپنی قرأ ت کی آواز بلند نہ کرے‘‘۔ (مسند احمد)۔اسی پر مساجد کے لاؤڈ اسپیکر وغیرہ کا اطلاق کیا جائے اس سے کسی کو تکلیف نہ ہو)
جو شخص جمعۃ المبارک کے لئے آئے وہ غسل کرے‘‘ (بخاری ،مسلم)۔
Post a Comment