کریڈٹن لائبریری نے جمعرات کو اپنے فیس بک پیج پر ایک دلچسپ پوسٹ شیئر کی ہے جس کے مطابق لائبریری کو 3 دہائیوں سے زائد عرصہ یعنی تقریباً 11500 دن یا 31.5 سال گزرجانے کے بعد ایک کتاب واپس ملی ہے۔مزید تفصیلات یہ ہیں کہ
پوسٹ میں کتاب تھامس کی اے بی سی واپس بھیجنے والے گمنام شہری کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’ہم نے تاریخ کے لیبل کو چیک کیا تو معلوم ہوا کہ یہ کتاب 31.5 سال تاخیر سے واپس کی گئی ہے۔‘لائبریری کی پوسٹ میں دو تصاویر بھی شیئر کی گئیں، ایک تصویر میں کتاب کا سرورق اور لفافہ ہے جس پر واپسی کا کوئی پتہ درج نہیں۔دوسری تصویر میں کتاب قرض لینے والے کا کارڈ نظر آرہا ہے، جس پر آخری تاریخ 25 مارچ 1993 تھی۔
مطالعہ کو زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کتب سے دوری کو انسان کی موت سے تعبیر کیاجاتا ہے۔اس لئے انسان کا کتابوں سے دوستی کرنا ایک قابل تحسین امر ہے لیکن یہ دوستی اپنی کتابوں کے ساتھ ہونی چاہئے نہ کہ دوسروں کی یا لائبریری کی کتابوں کے ساتھ کہ انہیں لینے کے بعد ان کو واپس کرنے کا دل ہی نہ کرے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا سطور میں واقعہ نقل کیا گیا ہے ۔ازراہ تفنن ممکن ہے اس شخص نے یہ شعر سن رکھا ہوا اور اس فکر کا حامل ہو
پھوٹتے ہیں ہر لمحہ ان سے روشنیوں کے
سرچشمے
تم کیا
جانو تم کیا سمجھو
ان بوسیدہ کتابوں
کو
چلو خیر دیرآید درست آید۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ باقی تمام حضرات جولائبریری کی کتب ذخیرہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی حق دار بحق رسید کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے لائبریری کی کتابیں واپس لوٹادیں ورنہ زیادہ تاخیر کی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی خبر بھی سوشل میڈیا کی زینت بن جائے ۔
Post a Comment