سرسید
احمد خان
ذرا
دیکھنا! یہ کس بزرگ کی تصویر ہے۔ بڑی اور گھنی ڈاڑھی، شان دار چہرہ اور بڑی بڑی
آنکھیں ۔
کتنا
رُعب دار چہرہ ہے۔
یہ
بزرگ سرسید احمد خان ہیں ۔ انھوں نے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی بھلائی کے لیے
ایسے بڑے بڑے کام کیے کہ آج تک پاکستان اور بھارت
کے
مسلمان اُن کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔ بڑے رحم دل اور قوم کے ہمدرد تھے۔ نرم اور
میٹھی آواز میں محبت اور پیار سے باتیں کرتے تھے۔ ان کو بچوں سے بڑی محبت تھی ۔
کہا کرتے تھے کہ بچوں کو خوب علم سکھاؤ، ہنر مند اور ہوشیار بناؤ تا کہ ساری دُنیا
میں مسلمانوں کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو اور یہ تبھی ممکن ہے جب مسلمانوں کے
بچے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی ذرایع تعلیم بھی اپنائیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے
لیے اُنھوں نے علی گڑھ میں ایک بڑا اسکول پھر کالج قائم کیا ، جس نے بعد میں یونی
ورسٹی کا درجہ حاصل کیا اور جہاں سے اب تک ہزاروں مسلمان اعلی ٰ تعلیم پا کر نکل
چکے ہیں۔ اسی علی گڑھ کالج ہی کے احاطے میں ان کی قبر ہے۔ سرسید نے دن رات اپنی
قوم کی بھلائی کے لیے کام کرتے کرتے ۸۱ سال
کی عمر میں ۱۸۹۸ء میں وفات پائی۔
سرسید
کی بچپن کی ایک کہانی سبق آموز ہے۔ ان کے گھر میں ایک نوکر تھا۔ ایک دفعہ اس کی
کسی بات پر سرسید کو غصہ آ گیا اور اسے تھپڑ مار دیا۔ نوکر بے چارہ روتا ہوا سرسید
کی والدہ کے پاس گیا۔ والدہ نے سرسید کو بلایا اور اُن سے پوچھا ” کیا تم نے اسے
تھپڑ مارا ہے؟ سرسید نے کہا جی ہاں اماں
جان ! مجھے اس کی بات پر غصہ آ گیا تھا۔“ ماں نے کہا " تم نے اس بے چارے کو
غریب اور کم زور سمجھ کر تھپڑ مارا ہے۔ تم یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالی کے یہاں
امیر اور غریب سب برابر ہیں۔ جاؤ، اس سے معافی مانگو۔ جب تک وہ تم کو معاف نہیں
کرے گا تب تک میں تم سے خفا رہوں گی۔“ سرسید دل میں کہنے لگئے نوکر سے معافی
مانگنا تو شرم کی بات ہے۔ وہ اپنی خالہ کے گھر چلے گئے مگر وہاں کب تک رہتے ۔
تیسرے دن ماں کی یاد میں بے چین ہو گئے گھر آئے اور نوکر سے معافی مانگ لی جس کے
بعد اماں خوش ہو گئیں اور محبت سے سر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دینے لگیں۔
Post a Comment