ہارون رشید
بنو عباس کا ایک عظیم الشان خلیفہ تھا۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے ان کی
اولاد میں سے تھا۔ یہاں اس کے چند واقعات
پیش خدمت ہیں:
ایک لڑکے کاخلیفہ کے بیٹے کو گالی دینا
ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید کا صاحبزادہ انتہائی غصہ کے عالم میں باپ کے سامنے آیا اور کہا کہ فلاں امیر
کے لڑکے نے مجھے گالی دی ہے ۔ہارون رشید
نے عمائدین سلطنت سے دریافت کیا کہ ایسے
شخص کی کیا سزا ہونی چاہئے ،جس نے خلیفۃ المسلمین کے بیٹے کو گالی دی ہو،
کسی نے قتل کرنے کا اشارہ کیا ،
کسی نے زبان کاٹ دینے کا ،
اورکسی
نے مال ضبطی اور جلا وطنی کا مشورہ دیا ۔
یہ
تمام سننے کے بعد ہارون رشید نے اپنےبیٹے سے کہا! اے بیٹے خلیفہ کے بیٹے ہو تم پر
ذمہ داری بھی زیادہ ہے لہذا کرم وہ ہے کہ تو اس کو معاف کر دے اگر معاف نہیں کر
سکتا تو تو بھی گالی کا جواب گالی سے دے۔
اس کا
خیال رکھ کہ حد سے نہ بڑھ اگرایسا ہوا اس وقت تیری طرف سے ظلم ہو گا اور مخالف کی
طرف سے دعویٰ ۔
نہلے پر دہلا
خلیفہ ہارون
رشید بڑا زیرک و حاضر دماغ تھا۔انہیں
دلائل سے لاجواب کرنا بہت ہی مشکل امر تھا۔
اسی
حاضر جوابی و ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نے پوچھا “ کیا آپ کبھی کسی کی بات پر لاجواب بھی ہوئے ہیں؟
خلیفہ
نے جواب دیا :
تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں لاجواب ہوگیا۔
1۔ایک مرتبہ
ایک عورت کا بیٹا مرگیا اور وہ رونے لگی۔ میں نے اس سے کہا کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں
اورغم نہ کریں۔اس نے کہا کہ میں اس بیٹے کے مرنے پر کیوں نہ آنسو بہاؤں ۔ جس کے بدلے
خلیفہ ہارون الرشید جیسا عظیم بادشاہ میرا
بیٹا بن گیا۔
2۔ ایک
مرتبہ مصر میں کسی شخص نے حضرت موسیّ ہونے
کا دعوی کیا ۔ میں نے اسے بُلوا کر کہا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو تو اللہ تعالی معجزات سے نوازاتھا۔ اگر تو واقعی موسیٰ ہے کوئی معجزہ دکھا۔
اس نے جواب دیا کہ موسیّ نےتو اس وقت معجزہ دکھایا
تھا۔ جب فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تھا، تو بھی یہ دعوی کر تو میں معجزہ دکھاؤں گا۔
3۔ ایک
مرتبہ لوگ ایک گورنرکی غفلت اور کاہلی کی شکایت
لے کر آئے ۔ میں نے کہا کہ وہ شخص تو بہت متقی، شریف اور ایماندار ہے ۔انہوں نے جواب دیا کہ پھر اپنی
جگہ اسے خلیفہ بنا دیں تاکہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔اسے کہتے ہیں نہلے پر دہلا، واقعی کچھ لوگ بہت حاضر دماغ ہوتے ہیں۔
استاد کی تکریم
خلیفہ ہارون
رشید کے بیٹے امین اور مامون امام کسائی کے شاگرد
تھے۔ایک مرتبہ استاد اپنی مجلس سے اُٹھے تو دونوں بھائی جلدی سے استاد کو جوتے پہنانے کے
لیے لپکے ۔ دونوں میں تکرار ہو گئی کہ کون استاد کو جوتے پیش کرے۔ بالآخر دونوں نے
اس بات پر اتفاق کیا کی دونوں ایک ایک جوتا پیش کر دیں۔
جب ہارون
رشید کو اس قصے کا پتہ چلا تو اس نے امام کسائی کو بلایا۔
جب وہ آئے
تو ہارون رشید نے کہا:
لوگوں میں
سب سے عزت والا کون ہے؟
امام کسائی
نے کہا:
میری رائے
میں امیر المومنین سے زیادہ عزت والا کون ہو سکتا ہے!
خلیفہ نیے
کہا:
عزت والا تو وہ ہے
کہ جب وہ اپنی مجلس سے اٹھے تو خلیفہ کے بیٹے اس
بات پر جھگڑا کریں کہ ان میں سے کون استاد
کو جوتے پہنائے۔امام کسائی نے سوچا کہ شاہد خلیفہ اس بات پر ناراض ہوا ہے لہذ اپنی
صفائی پیش کر نے لگے۔
ہارون رشید
نے کہا سنیے!
اگر آپ
نے میرے بیٹوں کو اس ادب واحترام سے روکا تو میں آپ سے سخت ناراض ہو جاؤں گا۔ اس کام
سے ان کی عزت ووقار میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے اندر چھپی
ہوئی ذہانت ،وعقلمندی کا اظہار ہوا ہے کہ وہ کتنے دانا و عقلمند ہیں۔
نوٹ: کوئی
شحص کتنا ہی عمر، علم یا مرتبے میں بڑا کیوں نہ ہو ، تین افرد کے سامنے بڑا نہیں ہوتا۔والدین
،استاد اور قاضی کے سامنے۔
ایسی دوا/ایسا
علاج
ایک مرتبہ
خلیفہ ہارون الرشید نے چار حکیموں کو طلب کیا۔ ان میں سے ایک ہندی ، دوسرا رومی، تیسرا
عراقی اور چوتھا سوادی تھا۔ انہوں نے ان سے پوچھا: کوئی ایسی دوا بتا ئیں ، جو کسی
چیز کا نقصان نہ کرتی ہو؟“
ہندی حکیم
نے کہا:
ایسی چیز
ہلیلہ سیاہ ( کالی ہر ہڑ ) ہے۔“
آپ کے نزدیک
ایسی دوا کون سی ہے؟ وہ عراقی حکیم سے مخاطب ہوئے۔ وہ کہنے لگا:
"میرے خیال
میں ایسی چیز حب الرتنا ( ہالیہ ہالون) ہے۔
اس کے بعد
رومی حکیم بولا :
میں کہتا
ہوں ایسی دوا صرف گرم پانی ہے۔"
آپ کیا
کہتے ہیں؟ خلیفہ نے سوادی حکیم سے پوچھا۔
ان سب نے
غلط کہا ہے. ہلیلہ معدے کو روندتا ہے، حب الرمتنا معدے میں چھان کے کرتا ہے جب کہ گرم
پانی معدے کو ڈھیلا کرتا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ
ساتھ تینوں حکیم بھی دنگ رہ گئے۔
اچھا
... تمہارے نزدیک ایسی کون سی دوا ہے جو کسی چیز کا نقصان نہ کرتی ہو؟“
سوادی حکیم
مسکرایا ، کہنے لگا۔
کھانا اس
وقت تک نہ کھایا جائے ، جب تک شدید بھوک نہ لگی ہو اور ایسی حالت میں ختم کیاجائے کہ زیادہ کی رغبت باقی ہو۔“
اس کی بات سن کر سب سر ہلانے لگے، کیونکہ یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت پہلے بتا چکے تھے۔
چار لاکھ
درہم
خلیفہ ہارون رشید نے ایک روز شاہی باورچی - دریافت کیا کہ کیا باورچی خانے میں فلاں نایاب جانور کا گوشت ہے؟ عرض کیا، ہر طرح کا گوشت دستیاب ہے۔ حکم دیا، آج رات پیش کیا جائے۔ رات کے کھانے کا دستر خوان سجا۔ خلیفہ نے پہلا نوالہ لیا ہی تھا کہ وزیر جعفر برمکی مسکرادیا۔ دریافت کیا، کیوں - مُسکرائے؟ وزیر بولا ، جو لقمہ آپ نے لیا ہے، آپ کے خیال میں اس کی قیمت کیا ہوگی؟ خلیفہ نے کہا، تقریباً تین ہزار درہم۔ وزیر بولا نہیں حضور! اس کی قیمت چار لاکھ درہم ہے۔ چار لاکھ در ہم؟ خلیفہ حیران تھا۔ وزیر نے کہا، کچھ عرصہ قبل آپ نے اس کی فرمائیش کی تھی۔ یہ اس وقت نہیں تھا۔ آپ نے کہا کہ یہ گوشت شاہی مطبخ میں ہونا چاہیے۔ ہر روز اس گوشت کی فراہمی - یقینی بنائی گئی ، مگر آپ نے دوبارہ فرمائیش نہیں کی۔ آج کی ہے اور اب تک چار لاکھ درہم کا گوشت خریدا جا چکا ہے۔ جواب سن کرخلیفہ ہارون خاموش ہو گیا۔
ایک درہم
( تادم تحریر ) تقریباً ۷۸ رپے کے
برابر ہے۔ چار لاکھ کو ۷۸ سے ضرب
دیں، تو آج کے حساب سے اس
نوالے کی
کیا قیمت ہوئی ؟
مامون الرشیدکی ذہانت
خلیفہ ہارون
رشید کے ایک بیٹے کا نام مامون رشید تھا، وہ اپنے بھائیوںمیں فراست و
معاملہ فہمی کے اعتبار سے غیر معمولی تھا، خلیفہ نے مامون کو بچپن ہی سے اہل
علم اور نیک لوگوں کی صحبت میں رکھا تھا۔ جس اس کی ذہانت
میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
مامون
ابھی پانچ سال کا ہی تھا توخلیفہ نے اس کے
لیے ایک معلم کا انتظام کیا اور معلم بھی معمولی شخص نہیں تھا، بلکہ اپنے وقت کا علم
نحو کا امام، امام کسائیؒ تھا۔
امام کسائیؒ مامون کو قرآن پاک پڑھاتے، ان کے پڑھانے
کا انداز یہ تھا کہ مامون قرآن پڑھتے جاتے اور امام کسائیؒ سر جھکائے سنتے جاتے، جہاں
ان سے غلطی ہوتی تو وہ سر اٹھا دیتے، یہ سمجھ جاتاکہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے اور پھر خود
ہی اپنی غلطی کی اصلاح کرلیتا۔
اسی طرح
ایک دن یہ قرآن کریم کی سورۃ الصف کی تلاوت کر رہے تھے تو جب اس آیت پر پہنچے
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔
اے ایمان
والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو، جس کو تم پورا نہیں کرتے۔‘‘ (الصف: 2)
تو امام
صاحب نے سر اٹھایا، مامون سمجھے کہ میں نے غلط پڑھا ہے، چناں چہ انہوں نے آیت دوبارہ
غور سے پڑھی، لیکن آیت اپنی جگہ درست تھی۔
سبق کے
ختم ہونے کے بعد مامون اپنے والد ہارون الرشید کے پاس آئے اور ان سے عرض کی کہ کیا
آپ نے امام کسائیؒ سے کوئی وعدہ کیا تھا، جس کو آپ نے ابھی تک پورا نہیں کیا۔
ہارون
الرشید اس سے سوال کرتا ہے کہ تمہارے معلم نے تم سے کچھ کہا ہے؟
مامون
نے کہا نہیں۔
ہارون
نے دوبارہ سوال کیا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا تو مامون نے بتایا کہ میں فلاں آیت
پڑھ رہا تھا، آیت میں غلطی نہیں تھی، پھر بھی امام صاحب نے سر اٹھایا اور میری طرف دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ شاید آپ
نے ان سے کوئی وعدہ کیا ہے اور ابھی تک پورا نہیں کیا ہے۔
ہارون
نے کہا واقعی! میں نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں قاری حضرات کے لیے وظیفہ مقرر کروں
گا، لیکن میں ابھی تک یہ کام نہیں کر سکا ہوں، پھر ہارون الرشید اپنے اس کم سن بچے
کی ذہانت پر بہت خوش ہوا ۔
سب سے قیمتی متاع
ہارون رشید کے دربار میں بہت سی باندیاں تھی ۔ان
میں ایک معمولی شکل و صورت کی باندی بھی تھی۔ حسین وجمیل باندیوں کے جھرمٹ کے باوجود بادشاہ اس
سے محبت کرتا تھا ۔یہ بات محل میں مشہور
ہوگئی کہ بادشاہ ایک ایسی باندی سے محبت کرتا ہے جو دوسری باندیوں کے مقابلہ میں کمتر
ہے یہ بات گردش کرتے کرتے خلیفہ تک پہنچ
گئی ۔
خلیفہ نے اس راز سے پردہ اٹھانے کے لئے اپنا در بار سجایا،اور سب باندیوں کو بلایا۔ جب سب
حاضر ہوگئیں بادشاہ نے کہا کہ آج میں بہت
خوش ہوں۔ آج تم سب جو بھی چاہو مانگو انشاء
اللہ تم سب کی خواہش پوری کی جائے گی۔
کسی باندی نے جواہرات طلب کئے،کسی نے سونا چاندی
طلب کیا ،کسی نے جائداد طلب کی، جو جس کی خواہش تھی سب نے مانگا ۔لیکن وہ باندی جس
سے بادشاہ محبت کرتا تھا وہ خاموش تھی۔ آخر میں بادشاہ نے کہا کہ تم بھی تو کہو تمہیں
کیا چاہیے تو کھڑی ہوگئی اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ حضور آپ کی خدمت
میں رہنا ہی میری سب سے بڑی خواہش ہے ۔
بادشاہ نے کہا کہ دیکھو تمہارے پاس حسن وجمال تو
ہے لیکن وہ محبت نہیں ہے جس کی ہارون رشید کو ضرورت ہے ۔وہ اسی باندی کے پاس ہے اس
کی محبت کی وجہ سے میں مجبور ہوں کہ تم سب کے مقابلہ میں اس سے محبت کروں ۔
نوٹ: انسان بھی اس عارضی دنیا کی لذات کو چھوڑ کر جب رب دوجہاں کی بندگی میں رہتا ہے تو وہ رب بھی اس سے محبت کرتا ہے اور فرشتوں کو کہتا
ہے جاؤ منادی کردو میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں لہذا اس کی محبت بھی مخلوقات کے
دل میں ڈال دیتاہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
عن أبي
هريرة رضي الله عنه مرفوعًا:
إذا
أحب الله تعالى العبد، نادى جبريل: إن الله تعالى يحب فلانا، فأحْبِبْهُ، فيحبه جبريل،
فينادي في أهل السماء: إن الله يحب فلاناً، فأحبوه، فيحبه أهل السماء، ثم يوضع له القَبُولُ
في الأرضِ
وفي
رواية لمسلم:
قال رسول الله ﷺ: إنَّ اللهَ تعالى إذا أحب عبدًا
دعا جبريل، فقال: إني أحب فلانا فَأَحْبِبْهُ، فيحبه جبريل، ثم ينادي في السماء، فيقول:
إن الله يحب فلاناً فأحبوه، فيحبه أهل السماء، ثم يوضع له القَبُولُ في الأرضِ، وإذا
أبغض عبدا دعا جبريل، فيقول: إني أبغض فلاناً فأبغضه. فيبغضه جبريل، ثم ينادي في أهل
السماء: إن الله يبغض فلاناً فأبغضوه، ثم تُوضَعُ له البَغْضَاءُ في الأرض(متفق عليه)
ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو پکار کر فرماتا
ہے کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے اس لیے تو بھی اس سے محبت رکھ۔ چنانچہ
جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اہلِ آسمان میں اعلان کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے اس لیے تم سب بھی اس سے محبت کرو چنانچہ
آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور زمین میں اس کے لیے مقبولیت لکھ دی جاتی
ہے“۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا
ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا
ہوں تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور
آسمان میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ فُلاں سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت
کرو چنانچہ اس سے آسمان والے بھی محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت
لکھ دی جاتی ہے۔ اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام
کو بلا کر کہتا ہے کہ میں فُلاں سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے نفرت کرو۔ چنانچہ جبرائیل
علیہ السلام بھی اس سے نفرت کرتے ہیں، پھر آسمان والوں میں اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ اللہ فلاں سے نفرت کرتا ہے اس لیے تم لوگ بھی اس سے نفرت کرو۔ پھر زمین میں اس کے
لیے نفرت لکھ دی جاتی ہے۔
تاریخ کے
جھروکے سے
خلیفہ ھارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ بھیج دی. یہ گھڑی 4 میٹر اونچی خالص پیتل سے بنی تھی اور پانی کے زور پر چلتی تھی.
گھنٹہ ہونے
پر گھڑی کے اندر سے 1 گیند نکلتی، 2گھنٹے پر 2 گیندیں اور 3 گھنٹے پر 3 گیندیں اس طرح
ہر گھنٹے کے ساتھ ایک گیند کا اضافہ ہوتا تھا.
گیند کے
نکلنے کے ساتھ ایک خوبصورت سریلی آواز کے ساتھ گیند کے پیچھے پیچھے ایک گھڑ سوار نکلتا
وہ گھڑی کے گرد چکر کاٹ کر واپس داخل ہوتا جب 12 بج جاتے تو بارہ گھڑ سوار نکلتے چکر
کاٹ کر واپس جاتے.
گھڑی کی
یہ حرکتیں دیکھ کر بادشاہ شارلمان کافی پریشان ہوا اس نے پادریوں اور نجومیوں کو محل
میں بلایا،سب نے دیکھ کر کہا اس گھڑی کے اندر ضرور شیطان ہے.
سب رات
کے وقت گھڑی کے پاس آئے کہ اس وقت شیطان سویا ہوگا چنانچہ انہوں نے گھڑی کھول لی تو
آلات کے سوا کچھ نہیں ملا،لیکن گھڑی خراب ہوچکی تھی.
پورے فرانس
میں گھڑی کو ٹھیک کرنے کے لئے کوئی کاریگر نہیں تھا شرمندگی کی وجہ سے ھارون الرشید
سے بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ کوئی مسلمان کاریگر بھیج دیں.
جب سائنس
پر مسلمانوں کی اجارہ داری تھی اس وقت یورپ سائنس کو جادو سمجھتا تھا.اور جہالت کی
اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا تھا
عربی سے ترجمہ
Post a Comment