جدید دنیا میں نصیحت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس نے فی زمانہ باقاعدہ ایک پروفیشنل کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یہاں اس سے متعلق ایک مضمون

 

نصیحت کی اہمیت و آداب

نصیحت کا لفظ عام طور پر بھلائی کی بات بتانے اور نیک مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کہ جس شخص کو نصیحت کی جا رہی ہو، اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

قرآن و سنت رسول اﷲ میں کثیر تعداد میں ہر طبقۂ انسانیت کے لیے نصائح اور اس کا طریقہ کار موجود ہے، اور اچھے انداز میں نصیحت کا تذکرہ اور اس کے ثمرات و نتائج تک قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اور اسی بابت قرآن مجید سورۃ اعراف میں آیت نمبر 62 سے لے کر 79 تک یکے بعد دیگرے تین ذی قدر انبیاء کرام حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت صالح علیھم الصلوۃ و التسلیمات کے احوال میں ان کی نصیحت کا ذکر موجود ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے کسی قسم کا کوئی اجر یا معاوضہ نہیں مانگتے بل کہ ہم تو تمہیں نصیحت کرنے کے لیے آئے ہیں۔

قرآن مجید میں ر ب قدیر کے فرمان ذی شان کا مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو امداد دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، بُرے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے قبول کرو اور یاد رکھو۔‘‘ (النحل(

قرآن مجید نے حضرت لقمان جو کہ اﷲ کے محبوب بندے اور صاحب حکمت تھے، ان کی ان نصیحتوں کو بھی نقل کیا، جو اُنھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ یہ ساری نصیحتیں سورۃ لقمان میں موجود ہیں۔ ا نہیں سات بنیادی نکات سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ اُنھوں نے اپنی نصیحت کا آغاز توحید سے کیا اور اسے چند اخلاقی امور پر ختم کیا ہے، ان میں سے دو کا تعلق عبادات اور باقی ماندہ پانچ کا تعلق معاملات اور رہن سہن سے ہے۔ انھوں نے شرک سے اجتناب کا حکم فرمایا، اور یہ احساس دلایا کہ تمہیں ہر وقت تمہارا رب دیکھ رہا ہے اور تم یہ یاد رکھو کہ وہ علیم اور خبیر ہے، ہمیشہ نماز قائم کرو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہمیشہ سر انجام دیتے رہو، مصائب پر صبر کرو، کبر و غرور سے اجتناب کرو اور رفتار و آواز میں میانہ روی اختیار کرو۔

رسول اکرم نے مسلمان کے مسلمان پر حقوق کا ذکر کرتے ہوئے ان میں سے ایک نصیحت کے متعلق ذکر فرمایا کہ جب تم سے وہ نصیحت طلب کرے تو اسے نصیحت کرو۔

 

نصائح کے باب میں یہ فرمان بہت اہم ہے، مفہوم: ’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو! اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے، اپنی مال داری کو اپنی تنگ دستی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘ (المستدرک(

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ نصیحت کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’نصیحت عام حالات میں سنّت ہے مگر جب کوئی نصیحت کی بات سننے کی خواہش ظاہِر کرے تو پھر اسے نصیحت کرنا ضروری ہے۔‘‘ (اشعۃ اللمعات، کتاب الجنائز(

نصیحت کے آداب و طریقہ کار:

نصیحت کس کو اور کیسے کرنی ہے، یہ سب سے اہم باب ہے۔ رسول اکرم کا انداز نصیحت بہت دل نشیں اور خوب صورت ہوتا تھا جس میں موقع کی مناسبت اور نزاکت کا خصوصاً خیال رکھا جاتا تھا۔ رسول اکرم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جب کسی کی کوئی ناگوار بات معلوم ہوتی تو اصلاح کا یہ حسین انداز ہوتا کہ اس کا پردہ رکھتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسے ایسے کہتے ہیں۔

سیّدنا ابن عباسؓ نے فرمایا، مفہوم: لوگوں کو ہر جمعے یعنی ہر ہفتے میں ایک دفعہ حدیث بیان کیا کر اور اگر تو اسے نہیں مانتا تو دو دفعہ بیان کر اور اگر تو بہت زیادہ کرنا چاہتا ہے تو تین دفعہ بیان کر اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرنا، اور میں تجھے اس حال میں نہ پاؤں کہ تم کسی قوم کے پاس جاؤ اور وہ اپنی باتوں میں لگے ہوئے ہوں پھر تم انھیں وعظ سنانا شروع کردو، تاکہ ان کی باتیں ختم ہو جائیں، پھر وہ اُکتا جائیں، لیکن خاموش رہیں، پھر اگر وہ تجھے حکم دیں تو اس حال میں انھیں حدیثیں سناؤ کہ وہ اس کا شوق رکھتے ہوں۔

حضرت قاضی فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ مومن پردہ پوشی اور نصیحت کرتا ہے جب کہ اس کے برعکس فاسق و فاجر بدنام کرتا اور شرم و عار دلاتا ہے۔

یاد رکھیے! اگر ہمارے رعب سے سامنے والا چُپ ہو گیا، یا مان گیا، تب بھی اُس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو بُغض و کینہ اور غیبت و تہمت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ اسی لیے حضرت ام درداء رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں جس کسی نے اپنی دینی بہن کو اعَلانیہ نصیحت کی اُس نے اُسے عیب لگایا اور جس نے چپکے سے کی تو اُسے زینت بخشی۔ (شعب الایمان(

نصیحت اور اُس کے تقاضے

جیسے جسمانی صحت خراب ہونے کی صورت میں بَروقت دوا لینا ضروری ہے یونہی معاشرتی صحت خراب ہو تو بَروقت نصیحت کرنا اور اُسے قبول کرنا ضروری ہے یہی وجہ ہےکہ اسلام نے “ نصیحت کرنے “ کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشادِ باری ہے :

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ

 اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے۔

جس نصیحت کے ساتھ ربّ کے راستے کی طرف بلانے کا حکم ہے اُس کا “ حَسَنَہ “ ہونا ضروری ہے۔ انبیائے کرام  علیہمُ السّلام  نے اللہ پاک کے دین کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کا جو اندازِ نصیحت اختیار فرمایا وہ بلاشبہ “ حَسَنَہ “ کا معیار بن کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اللہ پاک کےآخری نبی ﷺ  کے حُسنِ اَخلاق اور سمجھانے کے خوب صورت انداز کا نتیجہ تھا کہ جہالت ، قتل و غارت گری کا خاتمہ ہوا اور امن قائم ہوا اور اقوامِ عالم کیلئے اسلام قبول کرنا آسان ہوا۔ باعمل مسلمان اسی نبوی طریقۂ کار کو اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھے اور معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر طرح کے بگاڑ کو سُدھارنے کے لئے عملی کوششوں کے ساتھ پُر اثر نصیحت کے ذریعے بھی دعوتِ دین کا سلسلہ جاری رکھا۔ نصیحت کو مسلمان کا حق قرار دیتے ہوئے نبیِّ پاک ﷺ نے فرمایا : جب تم سے (کوئی مسلمان) نصیحت طَلَب کرے تو اسے نصیحت کرو۔

نصیحت کے کئی فوائد ہیں مثلاً غیرمسلم کسی کی نصیحت سُن کر مسلمان ہوتے ہیں تو گناہ گار نصیحت سُن کر گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ کسی کو نیک کام کرنے کا جذبہ ملتا ہے تو کسی کو دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے ، کسی کے ایمان کو تازگی ملتی ہے کسی کی روح کو سکون ملتا ہے۔کسی کے خانگی و عائلی مسائل حل ہوتے ہیں، کسی کے علم و عمل کی اصلاح ہوتی ہے۔

نصیحت کو مؤثر بنانے کے چند آداب

ذہنی سطح

گفتگو لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق کرنی چاہئے۔ اس کے مطابق نصیحت کرنے کے لئے سامنے والے کی نفسیات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ یہ دل و دماغ میں جلد اثر انداز ہوتی ہے۔

طبائع بشری

نصیحت کرتے ہوئے لوگوں کی طبعی کیفیات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مالی نقصان کی وجہ سے پریشان ہونے والے کو تسلی دینے کے بجائے اسی کی غلطیاں بتانے لگ جانا ، یونہی بیمار کو دعائیں دینے کے بجائے اسی کی بدپرہیزیاں بتانے لگ جانا درست نہیں کہ اس طرح لوگ آپ سے بد ظن ہوسکتے ہیں یا پھر نوبت لڑائی جھگڑے تک بھی پہنچ سکتی ہے

نرمی

نصیحت غلطی کا احساس دِلانے اور آئندہ اس سے بچنے کے لئے کی جاتی ہے لہٰذا اِس میں الفاظ اور لہجے کی نرمی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون  علیہما السّلام  کو فرعون کی جانب جانے کا حکم فرمایا تو ساتھ ہی اس سے نرم بات کہنے کا حکم بھی فرمایا۔  جب منکرِخدا کو نرمی سے نصیحت کرنے کی تاکید ہے تو اللہ پاک پر ایمان لانے والے نرمی کے زیادہ حق دار ہیں ، لہٰذا نصیحت کرتے ہوئے نرمی نرمی اور نرمی کیجئے کہ آخری نبی    نے ارشاد فرمایا : جو نرمی سے محروم ہوا وہ خیر سے محروم ہوا۔

موقع محل

نصیحت کرنے کیلئے موقع اور جگہ کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہر جگہ نصیحتیں کرتے رہنے سے لوگ آپ سے بیزار ہوجائیں گے اور اگرچہ سامنے کچھ نہ کہیں مگر دِل میں تکلیف محسوس کریں گے۔

تنہائی

سب کے سامنے نصیحت کرنے کے بجائے اکیلے میں کرنا زیادہ بہتر ہے کہ حضرت اُمِّ دَرداء  رضی اللہُ عنہا  فرماتی ہیں : جس نے اپنے بھائی کو سب کے سامنے نصیحت کی اس نے اس کو ذلیل کردیا اور جس نے تنہائی میں نصیحت کی اس نے اس کو مُزَیَّن (آراستہ) کردیا۔

نصیحت کے ضمن میں حضرت علی  کرم اﷲ وجہہ سے منسوب ایک بہترین قول :

’لوگوں کے سامنے کسی کو نصیحت کرنا اس کی شخصیت کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اور جب کسی نوجوان کو ملامت کرو تو اس کی غلطیوں کو لائق عذر سمجھو تاکہ تمہاری سختی سے وہ ہٹ دھرم نہ بن جائے۔

GUIDANCE

The history of the human race reveals that mankind has always, felt the need for some sort of guidance, especially for its young ones. This need, however, has become more intense, more pressing and more precise in the contemporary age.

What is Guidance?

Guidance involves personal help given by a mature person. It is designed to assist a person to decide where he wants to go, what he wants to do, or how can he best accomplish his purpose? It assists him to solve problems that arise in his life.

Guidance is neither dictation nor direction; rather it is friendly advice and personal help offered by a competent individual, known as the guide or expert, to one who requires such assistance. Guidance enables the immature person to understand his problems and to overcome his hurdles. Lack of guidance is liable to mislead and to maladjustment.

The Purpose of Guidance

The Psycho Physical Purpose:

An adequate guidance programme aims at improving the psychological and physical health and efficiency of the individual. This enables him to overcome his defects, deficiencies, handicaps, disabilities, etc. both mental as well as physical.

The Educational Purpose:

Guidance enables the learner to understand his abilities and to exploit them to their maximum in scholastic pursuits. It thus minimizes the chances of educational failures, wastages and frustrations which, without guidance, may disturb or even wreck a child's life.

Vocational Guidance

The guidance offers valuable help to the individual in understanding his vocational aptitudes and abilities. It aids him to decide about the adoption of a particular profession that is most suited to his individual requirements. Guidance thus increases an individual’s chances for vocational and professional efficiency and adjustment.

 The Recreational Purpose:

The guidance highlights the significance of various healthy recreations and their suitability for various types of individuals.

Participation in those adequate and healthy recreations which are most suited to one's taste and temperament increases one's health and efficiency very considerably. Guidance thus decreases the possibilities of bad health and inefficiency consequent upon lack of indifference towards, or inadequate, recreation and enjoyment.

The Social Purpose:

By fulfilling the various purposes enumerated above, a guidance programme furthers the health and efficiency of the entire society. After all, the health and well-being of the society is dependent upon the health and well-being of the individuals who comprise the society. Guidance, thus, is indispensable for a healthy, efficient and economical social order.

The Phases of Guidance

The Counseling Phase

Counseling means giving advice. This is the oldest guidance practice. Since life began parents, teachers and elders have considered it their foremost duty to counsel the younger ones on various aspects of life.

The Mathematical Phase:

Guidance has its mathematical side as well. Modern guidance makes quantitative measurements of abilities, surveys of probabilities, etc. that’s offer better and more precise advice to the guides. Measurements also enable guidance experts to make predictions about human behaviour.

 The Demonstrative Phase:

The ancient systems of guidance relied mostly on sermons exhortations,  advice, force authority, etc. Modern guidance, on the contrary, emphasizes the need for practical demonstrations and observations for and against the good or bad course of thought and behaviour suggested to the guide.

Fundamental Rules of Guidance

Guidance should be rational advice based on factual information.

Guidance should not be by compulsion, force, domination, cut and dried planning, regimentation, prescription; neither should it be dictatorial or arbitrary.

Neither teachers nor parents should force children to follow an unwanted career.

An efficient and comprehensive guidance organization should be provided for testing and interviewing each child and for evaluating data about each child.

School guidance should avoid, as far as possible, conflict with home guidance.


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post