کلیله و
دمنه
کلیلہ
و دمنہ صدیوں پرانی کہانی ہے۔ دنیا کی بہت سی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ دنیا کے سب ہی خطوں میں اس کہانی کو
دلچسپی سے پڑھا اور سنا گیا ۔ صدیاں گزرگئیں، لیکن اس کہانی کی مقبولیت کم نہ ہوئی
۔ اسے ہم حکایات کا مجموعہ بھی کہہ سکتے ہیں خوبی یہ ہے کہ اس کی ہر کہانی ختم
ہونے سے قبل ایک مزید کہانی کو جنم دیتی ہے۔ اسکولوں میں چھوٹی کلاسوں کے بچوں کے
لیے بھی یہ کہانی نہایت عمدہ کہی جاتی ہے اس کی وجہ بچوں کی دل چسپی کے وہ کردار
بھی ہیں جو ان کی تخیلاتی صلاحیت کو بیدار کرتے ہیں۔ یہ کہانی شہروں میں رہنے والے
بچوں کو جنگل ، بیابان ، ندی، نالوں ، دریاؤں اور جانوروں سمیت اس ماحول سے متعارف
کرواتی ہے جو چھوٹی عمر میں ان کے مشاہدے کاعموماً حصہ نہیں بن پاتے ۔ اردو زبان
کا قدیم انداز اور بعض نامانوس الفاظ بھی اس کہانی کا حسن ہیں۔سچ یہ ہےکہ اس کی ہر کہانی اپنی جگہ ایک
نصیحت بھی ہے۔
اب
کہانی پڑھیے، لطف اُٹھائیے اور کام کی باتیں گرہ سے باندھتے جائیے۔
ایک
تھا سود اگر زادہ ۔ اس کے پاس دو بیل تھے ۔ ایک کا نام تھا بھورا۔ دوسرے کا نام
تھا گورا ۔ ان دو بیلوں پر وہ بہت سا مال لاد کر گھر سے نکلتا اور دیس دیس جا کر
سودا بیچتا ۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ رستے میں بھورا بیل ایسے گر پڑا کہ اس میں آگے
چلنے کا دم نہ رہا۔ سودا گر زادے نے اس کی پیٹھ سے سامان اُتار کر گورے کی پیٹھ پر
لادا اور بھورے کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا ۔ بھورے کی قسمت اچھی تھی کہ جہاں وہ
گرا تھا، وہاں چاروں طرف ہری بھری گھاس تھی اور اچھے اچھے پھلوں والے پیڑ تھے ۔
پاس ہی ایک ندی تھی ۔ ہریالی ، ٹھنڈی ہوا، میٹھا پانی بھورا بہت جلدی اچھا ہو گیا۔
پہلے تو اسے مال ڈھونا پڑتا تھا۔ مالک سے مار بھی کھا تا تھا۔ اب نہ کوئی مالک
تھا، نہ مار کھانے کا ڈر تھا۔ نہ مال ڈھونا پڑتا تھا۔ بس گھاس چرتا اور میٹھے پھل
کھاتا تھا اور آزاد گھومتا تھا۔ تھوڑے ہی دنوں میں خوب موٹا تازہ ہو گیا ۔ ترنگ
میں آکر آواز نکالتا تو لگتا کہ شیر ڈکار رہا ہے۔
اب سنو
کہ آس پاس کہیں شیر رہتا تھا۔ اس جنگل کا وہ بادشاہ تھا۔ جنگل کے سب جانور شیر کے
دیکھے بھالے تھے ۔ سب اس کے حکم پر چلتے تھے ، مگر بیل شیر کے لیے انجانا جانور
تھا۔ اس کی اس نے کبھی صورت دیکھی تھی ، نہ آواز سنی تھی ۔ اب جو اس نے یہ آواز
سنی تو بہت پریشان ہوا۔ سمجھا کہ کوئی نیاز بر دست جانور جنگل میں آگیا ہے اور اسے
للکار رہا ہے ۔ بس اس انجانی آواز سے اس کے اندر دہشت سما گئی ۔ گر جنا، دہاڑ نا
سب بھول گیا۔ چپ چپ رہنے لگا ۔ کچھار سے باہر قدم نہ نکالتا کہ کہیں اس اجنبی
جانور سے مڈھ بھیڑ نہ ہو جائے ۔ شیر بادشاہ کے لشکر میں دو گیدڑ تھے۔ ایک نام تھا
کلیلہ اور دوسرے کا نام تھا دمنہ ۔ دونوں عقل کے پتلے تھے، مگر کلیلہ میں بے نیازی
تھی ۔ دمنہ خواہش رکھتا تھا کہ کسی طرح ترقی کر لے اور اونچے مرتبے پر پہنچ جائے۔
ایک روز وہ کلیلہ سے کہنے لگا کہ اے کلیلہ ! میں کچھ دنوں سے شیر بادشاہ کو پریشان
دیکھ رہا ہوں ۔ کسی طرح معلوم کرنا چاہیے کہ بادشاہ کو کس بات کی پریشانی ہے۔
کلیلہ
بولا بھئی یہ بادشاہی معاملے ہیں ۔ گیدڑوں کو اس میں ٹانگ نہیں اڑانی چاہیے نہیں
تو ان کے ساتھ وہی ہوتا ہے، جو اس بندر کے ساتھ ہوا تھا۔"
دمنہ
نے پوچھا: کس بندر کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟“
اس پر
کلیلہ نے اس بندر کی کہانی سنائی جس نے دوسرے کے معاملے میں ٹانگ اڑائی تھی ۔
جس کا
کام اسی کو ساجھے
ایک
بڑھئی ایک لکڑی کو چیر رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دو کیلیں تھیں ۔ ایک کیل کولکڑی
میں ٹھونکتا ۔ - جب لکڑی اتنی جگہ سے چِر جاتی تو ذرا آگے کر کے دوسری کیل گاڑتا
اور پہلی نکال لیتا۔ ایک بندر درخت پر بیٹھا یہ دیکھ رہا تھا۔
بڑھئی کسی کام سے وہاں سے اُٹھ کر گیا۔ بندر
درخت سے اُتر ا اور اسی طرح کیلیں ٹھونک کر لکڑی پھاڑنے لگا ، مگر نقل کو بھی
عقل چاہیے۔ بندر لکڑی پر بیٹھ گیا اور جہاں سے لکڑی چری ہوئی تھی۔وہاں اپنی ٹانگ اڑالی۔ پھر
اس نے یہ کیا کہ دوسری کیل ٹھونکنے سے پہلے ہی پہلی کیل کو نکال لیا۔ چری ہوئی
لکڑی دونوں طرف سے مل گئی اور بندر کی ٹانگ اس میں پھنس گئی ۔ بندر نے بہت زور
لگایا، بہت چیخا چلا یا، مگر ٹانگ ایسی پھنسی تھی کہ کسی طرح نہ نکلی۔ اتنے میں
بڑھئی آ گیا۔ اس نے پہلے بندر کی خوب ٹھکائی کی پھر کیل ٹھونک کر لکڑی کو چیرا اور
اس کی ٹانگ نکالی۔ بندر اپنی لنگڑی ٹانگ سے بھاگا۔ ٹانگ سہلاتا تھا اور کہتا تھا
کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ بندروں کو دوسروں کے پھٹے میں ٹانگ نہیں اڑانی
چاہیے ۔
دمنہ
نے یہ کہانی سن کر کہا : اے یا را زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے خطرے تو مول لینے ہی
پڑتے ہیں ۔ کیا تو نے ان دو دوستوں کا قصہ نہیں سنا جن میں سے ایک اپنی بزدلی کی
وجہ سے اپنی جگہ بیٹھا رہ گیا اور دوسرا اپنی ہمت کی وجہ سے بادشاہ بن گیا ۔“
کلیلہ
نے پوچھا: ” وہ قصہ کیا ہے؟"
تب
دمنہ نے کلیلہ کو دو وستوں کا قصہ سنایا۔
جو ڈرا
وہ رہ گیا
دو دوست
تھے ۔ ایک کا نام تھا سالم اور دوسرے کا نام تھا نمانم ۔ دونوں مل کر سفر پر نکلے۔
چلتے چلتے ایک پہاڑ کی ترائی میں پہنچے ۔ وہاں انھیں ایک چشمہ نظر آیا۔ چشمے کے
کنارے ایک پتھر گڑا تھا۔ اس پر لکھا تھا: ”اے مسافر ! ہمت ہے تو اس چشمے میں اُتر
۔ بھنور سے مت ڈر ۔ کسی طرح دوسرے کنارے پر پہنچ ۔ وہاں ایک پتھر کا شیر تجھے ملے
گا۔ اسے اُٹھا کر کاندھے پر رکھ اور دوڑ کر پہاڑ پر چڑھ جا، پھر خدا کی قدرت دیکھ
۔"
نمانم
نے سالم سے کہا: " چشمے میں اُتریں۔ جو ہدایت ہے اس پر عمل کریں۔ کیا عجب ہے
کہ نمانم ہمارے دن پھر جائیں۔
سالم نے
کہا : " پتا نہیں اس میں کیا ہے۔ بے جانے بوجھے قدم اُٹھانا ، اپنے آپ کو
خطرے میں ڈالنا ہے،،
نمانم نے
سالم کو بہت اُکسایا، مگر سالم چشمے میں اُترنے کے لیے تیار نہ ہوا، تب نمانم نے
کہا:
اچھا
تم یہاں بیٹھو۔ میں چشمے میں اُترتا ہوں ۔ آگے جو ہو سو ہو ۔ “
یہ کر
نمانم چشمے میں اُتر گیا۔ وہ بھنور میں پھنس گیا ، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری۔ ہاتھ
پیر مارتا کنارے سے جالگا۔ وہاں ایک پتھر
کا شیر دکھائی دیا۔ اسے کاندھے پر رکھ دوڑ کر پہاڑ پرچڑ ھا۔ سخت چڑھائی تھی ، مگر ہمت
مرداں مدد خدا۔ رستہ طے کر ہی لیا۔ پہاڑ کے اس طرف ایک شہر نظر آیا۔ ابھی وہ
اس شہر کی طرف دیکھتا تھا کہ پتھر کے شیر سے ایسی آواز نکلی جیسے سچ مچ دہاڑا ہو۔
اس آواز کی گونج کا عجب اثر ہوا ۔ شہر کی طرف سے ایک مجمع بھاگا بھاگا آیا اور
نمانم کے سرپر تاج رکھ دیا ۔
نمانم
نے پوچھا : ” بھائیو! کچھ بتاؤ کہ یہ ماجرا کیا ہے؟"
مجمع
میں سے ایک بزرگ آگے بڑھا اور بولا : ” اے جوان ! اگلے حکیموں نے اس چشمے کے چلتے
کنارے ایک طلسم باندھا ہے ۔ جب ہمارے شہر کا حاکم اس دنیا سے سدھار جاتا ہے تو ہم
نئے حاکم کا انتظار کرتے ہیں۔ کوئی اللہ
کا بندہ چشمے پر آتا ہے اور ہمت کر کے چشمے میں اُترتا ہے۔ اگر وہ پتھر پرلکھی ہدایات پر عمل کر کے یہاں آ
پہنچتا ہے تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ہمت والا آدمی ہمارا حاکم بننے کا حق دار ہے۔
تو نے چوں کہ ساری شرطیں پوری کیں اور منزل تک پہنچ گیا۔ سو اب تو ہمارا حاکم ہے۔
شہر میں چل کر تخت پر بیٹھ اور حکومت کر ۔
کلیلہ یہ قصہ سن کر بولا: ''میں سمجھ گیا کہ تو
باز نہیں آئے گا۔ شیر بادشاہ کے حضور میں ضرور پہنچے گا ، مگر ایک بات یاد رکھ کہ
بادشاہ کے مصاحب بننے میں خطرہ بہت ہے۔ آدمی جتنی بلندی پہ جاتا ہے اتنا ہی نیچے گرنے کا ڈر ہوتا ہے ۔
“
دمنہ
بولا: "میرے دوست ! مجھے پتا ہے کہ جو بادشاہ سے جتنا قریب ہوگا ، اتنا ہی اس
کے لیے خطرہ ہوگا۔ دو کام ایسے ہیں کہ ان کے کرنے کے لیے ہمت چاہیے۔ دریا کا سفر
اور بادشاہ کی مصاحبت اور تجھے معلوم ہے کہ میں گیدڑ ہوں ، مگر کم ہمت نہیں ہوں ۔
یہ کہہ کر چل کھڑا ہوا اور شیر کے حضور پہنچ گیا۔
شیر اسے دیکھ کر غرایا۔ بولا: '' یہ کون گیدڑ ہے جسے ہمارے سامنے آنے کی ہمت ہوئی۔“
دمنہ
بولا حضور آپ اس جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ میں اس جنگل کا ایک ادنیٰ گیدڑ ہوں ۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے مصاحبوں میں
بڑی بڑی ہیبت والے درندے شامل ہیں، مگر کبھی کبھی ننھی سی سوئی سے وہ کام نکلتا
ہے جو تیز دھار تلواروں اور بھالوں سے نہیں نکلتا ۔ اس لیے میری گزارش ہے کہ
آپ اس ناچیز کو اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیں ۔“
دمنہ
کی لچھے دار باتوں سے شیر کا دل موم ہو گیا۔ اس نے اسے سچ مچ اپنے مصاحبوں میں
شامل کر لیا۔ دمنہ نے مصاحب بن کر ایسے ایسے کام کیے کہ شیر پر اس کی عقل مندی کا
سکہ بیٹھ گیا ۔ اس طرح وہ شیر کی ناک کا بال بن گیا۔ ہر کام میں شیر اس سے مشورہ
لینے لگا۔
ایک دن
دمنہ نے ایسے وقت میں جب کوئی دوسرا مصاحب قریب نہیں تھا، ہمت کر کے زبان کھولی :
" صاحب عالم ! اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں۔“
اجازت
ہے پوچھو۔“
دمنہ
نے ہاتھ جوڑ کر کہا: " عالی جاہ! میں چند دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کچھ
پریشان ہیں ۔ گر جنا، دہاڑ نا بھی کم ہو گیا ہے ۔ کچھار سے بھی کم نکلتے ہیں ۔ آپ
کے اس وفادار نمک خوار کو پریشانی کی وجہ معلوم ہوتو شاید اس کے دور کرنے کی کوئی
تدبیر سمجھ میں آجائے ۔"
دمنہ
نے یہ بات منہ سے نکالی ہی تھی کہ بیل کی
گرج دار آواز کان میں آئی۔ اس آواز کو سن کر شیر اندر سے کانپ گیا۔ دمنہ سے مخاطب
ہوا اور بولا : ” کیا تو نے یہ آواز سنی۔“
حضور!"سنی"
بس
ہماری پریشانی کا سبب یہی آواز ہے ۔ لگتا ہے کہ کوئی اجنبی جانور اس جنگل میں آگیا
ہے۔ آواز بتاتی ہے کہ وہ قد وقامت میں ہم سے بڑھ کر ہے ۔ کیا عجب ہے کہ طاقت میں
ہم سے زیادہ ہو۔
د منہ
بولا : ”حضور والا! سانپ کتنا ہی موٹا اور لمبا ہو ، آدمی معمولی لاٹھی سے اسے مار
لیتا ہے ۔ جو شخص ڈیل ڈول اور اونچی آواز
سے رعب کھائے گا اس کا وہی حال ہوگا جو اس لومڑی کا ہوا۔“
شیر نے پوچھا: کس لومڑی کا کیا حال ہوا ؟
دمنہ
نے جواب میں لومڑی کی کہانی سنائی۔
ڈھول
کا پول
ایک آبادی کے آس پاس ایک لومڑی شکار کی تلاش میں
گھوم رہی تھی ۔ ایک مرغا دانہ چگتا دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف لپکی ۔ پاس ہی ایک
درخت تھا۔ اس کی ایک موٹی سی ٹہنی پر ایک بڑا سا ڈھول لٹک رہا تھا۔ لومڑی کی نظر
اس ڈھول پہ جا پڑی۔ وہ اسے دیکھ کر کچھ حیران ہوئی ، کچھ ڈری۔ سوچنے لگی کہ یہ
اتنی بڑی چیز کیا ہے۔ اسے پچھلے دن کی یاد آ گئی جب ایک آدمی اسے پیٹ رہا تھا اور
اس سے بہت ڈراؤنی آواز نکل رہی تھی ۔
لومڑی
نے سوچا کہ مرغا بیچ کر کہاں جائے گا۔ اسے بعد میں آکر دبوچ لوں گی ۔ پہلے یہ پتا
چلالوں کہ یہ کون سی بلا ہے ۔ بس فوراً درخت پر چڑھ گئی ۔ چپکے چپکے ڈرتے ڈرتے
ڈھول کے قریب پہنچی ۔ ڈھول کو سونگھا ، چھوا ۔ سوچنے لگی کہ یہ تو مردہ کھال ہے ۔
پھر شک ہوا کہ اس کے اندر کچھ ہے ۔ پنچے مار کر کھال کو پھاڑا۔ ڈھول اندر سے خالی
نکلا۔ بڑ بڑانے لگی کہ بلا وجہ ڈر رہی
تھی ۔ ڈھول کا پول کھل گیا وہ تو
اندر سے خالی ہے۔
درخت
سے نیچے اتری اتنی دیر میں مرغا وہاں سے بھاگ کر کہیں جا چھپا تھا۔ لومڑی بہت
پچھتائی کہ کمبخت ڈھول کے چکر میں شکار ہاتھ سے نکل گیا۔
یہ
کہانی سنا کر دمنہ بولا : " عالی جاہ! شیروں کو لومڑی بننا زیب نہیں دیتا ،
لیکن اگر حکم ہو تو میں وہ کروں جو لومڑی نے کیا تھا ۔ ابھی پول کھل جائے گا۔“
شیر کو
دمنہ کی بات پسند آئی ۔ حکم دیا کہ جاؤ اور تحقیق کرو کہ یہ کون جانور ہے اور اس
میں کتنا دم ہے۔ دمنہ شیر کی اجازت پا کر
اس اجنبی جانور کی تلاش میں نکلا ۔ چلتے چلتے وہ وہاں پہنچا، جہاں بیل گھوم پھر
رہا تھا ۔ دمنہ نے اس کی آواز سنی۔ دل میں کہا۔ ارے یہ تو بیل ہے۔ شیر بہادر اس کی
آواز سے کانپ رہے ہیں ۔ ادھر شیر کا حال سنو۔ اس نے دمنہ کو اس مہم پر بھیج تو
دیا، مگر پھر شک میں پڑ گیا کہ کہیں گیدڑ اپنی
اصلیت پہ نہ آ جائے اور اس سے دغا کرے۔ دل میں پچھتانے لگا کہ دمنہ کو نو
کر ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ۔ جمعہ جمعہ
آٹھ دن ۔ ابھی اس پر اتنا اعتبار کر لیا۔ شیر بے چینی میں اُٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اتنے
میں دیکھا کہ دمنہ آرہا ہے ۔ جان میں جان آئی۔ دمنہ سامنے آیا اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ شیر نے
پوچھا: " کہو کیا خبر لائے؟"
بولا :
” جہاں پناہ! جس کی آواز آپ نے سنی وہ تو ایک بیل ہے ۔ وہ بھی کوئی ڈرنے کی چیز
ہے! کہیں سے چھٹ کر آ گیا ہے۔ کھانے اور چلانے کے سوا اسے کوئی کام نہیں ۔"
شیر
بولا: " دشمن کوکبھی حقیر نہ سمجھنا چاہیے ۔ کیا خبر ہے وہ کتنا زور
آور ہے ۔ ادھر ہم غافل رہیں،اُدھر وہ ہمیں غافل پا کر حملہ کر دے ۔"
دمنہ
بولا : بیل میں اتنا ز دور اور اتنی ہمت کہاں کہ شیر پر حملہ کر سکے ۔ پھر اس میں
عقل بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ تو بالکل بیل ہوتا ہے۔ اگر آپ حکم دیں تو اس کی ناک
میں نکیل ڈال کر اسے آپ کے حضور لے آؤں۔"
اگر تو یہ کام کر گزرے تو واقعی تو کمال کرے گا
۔ ""
دمنہ
نے کہا: ” جہاں پناہ ! پھر آپ میرا کمال دیکھیے ۔ بیل کو آپ کی حضوری میں لاؤں گا
۔ پھر وہ آپ کے رحم و کرم پر ہو گا ۔ آپ اسے ماریں یا اپنے خادموں میں شامل کر
لیں۔
شیر
دمنہ کی بات سے خوش ہوا ۔ کہا کہ جاؤ اور بیل کو پکڑ کے لاؤ۔
دمنہ
شیر سے رخصت ہو کر بیل کے پاس جا پہنچا۔ اس سے علیک سلیک کی ۔ پھر پوچھا: ” کہاں
کے رہنے والے ہو ۔ اِدھر کیسے آنا ہوا ؟
بولا:
بھائی! میں ایک غریب مسافر بیل ہوں ۔ بھورا میرا نام ہے ۔ قسمت مجھے کھینچ کر تمھارے
جنگل میں لے آئی ہے ۔ اور پھر بھورے نے اپنا سارا قصہ اسے سنایا۔ اب دمنہ کو اس کا
کچا چٹھا معلوم ہو گیا تو اس نے ہوشیاری سے اپنی بات شروع کی : ” بھائی بھورا! ایک
خونخوار شیر اس جنگل کا بادشاہ ہے۔ میں اس کا ایک ادنیٰ ملازم ہوں۔ اس کا ہر کارہ بن
کر تمھارے پاس آیا ہوں۔ وہ بہت غصے میں ہے ۔ کہتا ہے کہ یہ کون جانور ہے۔ اسے یہ
مجال کیسے ہوئی کہ ہمارے جنگل میں آکر چیختا چلاتا ہے اور اپنا رعب دکھاتا ہے۔ اس
نے حکم دیا ہے کہ فورا اس جانور کو ہمارے دربار میں حاضر کرو۔"
بیل یہ سن کر تھر تھر کانپنے لگا۔ دمنہ نے دیکھا کہ
تیر ٹھکانے پر لگا ہے۔ پھر سمجھاتے ہوئے بولا : خیر اسی میں ہے کہ جلدی سے چلے
چلو۔ حکم مان لو گے تو جان بچ جائے گی ۔ نہیں مانو گے تو سمجھ لو کہ شیر غصے میں
کیا کرے گا۔"
بیل بے
چارہ سر جھکا کر اس کے ساتھ ہولیا۔ دمنہ خوش خوش شیر کی بارگاہ میں پہنچا۔ بھورے
کو پیچھے چھوڑا۔ آگے جا کر آداب بجا لایا۔ اطلاع دی کہ آپ کا ملزم حاضر ہے۔ شیر نے
کہا:
ا سے
پیش کیا جائے ۔"
دمنہ
نے بھورے کو آگے کر دیا ۔ بھورا بے چارہ اس وقت تھر تھر کانپ رہا تھا، مگر شیر اس
سے مہربانی سے پیش آیا ۔ پوچھا اس جنگل میں کیسے آنا ہوا۔ بھورے نے شیر کے ملک میں
گھس آنے پر بہت معافی مانگی۔ اپنا سارا
قصہ سنایا اور اپنی مجبوری ظاہر کی۔ شیر نے اس کی معافی قبول کر لی اور کہا: ” ہم
مابدولت مسافروں کے ساتھ بُرا سلوک نہیں کرتے ۔ جو ہماری سرکار میں آ گیا ، وہ
کھانے پینے کی طرف سے بے فکر ہو گیا ، مگر اس سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ نمک
کھا کر نمک حرامی نہیں کرے گا۔“ بھورے نے قسم کھائی اور کہا : ” جہاں پناہ ! ہمیشہ
مجھے اپنا وفادار پائیں گے۔ اس طرح بھورا شیر کے ملازموں میں شامل ہو گیا۔ ملازموں
میں شامل ہو کر بھورے نے شیر کی بہت خدمت کی ۔ بھورا آخر سوداگر زادے کے ساتھ رہ
کر دیس دیس گھوم چکا تھا۔ دنیا دیکھی تھے ۔ دنیا کے معاملات کا بہت تجربہ رکھتا
تھا۔ وقت پڑنے پر شیر کو بہت مفید مشورہ دیتا تھا۔ شیراس کی عقل مندی کا قائل ہوتا
چلا گیا ۔ بادشاہوں کا طریقہ ہے کہ جس سے خوش ہوتے ہیں ، بہت ہی خوش ہوتے ہیں ۔
شیر بھورے کی ایک بار عقل مندی سے ایسا خوش ہوا کہ ہر معاملے میں اپنا راز داں
بنالیا اور رتبہ اس کا سب مصاحبوں سے بڑھادیا ۔
یہ
نقشہ دیکھ کر دمنہ بہت چکرایا ۔ دل میں کڑھنے لگا کہ میں نے شیر کا دل مٹھی میں
لینے کے لیے یہ خدمت انجام دی تھی ، مگر
چال اُلٹی پڑ گئی۔ اب بھورا اس کی ناک کا بال ہے، جو مرتبہ مجھے ملنا تھا وہ بھورے
کو مل گیا ۔
کلیلہ
بولا : " اے دوست! فارسی میں مثل ہے خود
کردہ را علاجے نیست، یعنی اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ تو نے اپنے پاؤں پہ
آپ کلہاڑی ماری ہے ۔
دمنہ
نے کہا: ” ٹھیک ہے ، میں نے نیکی کا کام کر کے اپنے پاؤں پہ آپ کلہاڑی ماری ہے،
لیکن میں اس چڑیا سے کم نہیں جس نے شکرے
سے بدلہ لیا تھا ۔“
کلیلہ
نے پوچھا: ”ذرا بتاؤ تو سہی کہ وہ چڑیا کون تھی اور اس نے شکرے سے بدلہ کیسے لیا
تھا ؟“
دمنہ
نے کہا: ” اچھا سن چڑیا اور شکرے کی کہانی ۔"
چڑیا
کا انتقام
ایک
پہاڑی تلے ایک پیٹر پر ایک چڑیا کا گھونسلا تھا۔ اس پہاڑی پر ایک شکرہ رہتا تھا۔
شکرے کا طور یہ تھا کہ آس پاس کے کسی درخت پر جب کسی چڑیا کے بچے اُڑنے کے لائق
ہوتے اور گھونسلے سے باہر آتے تو وہ ان پر
جھپٹتا۔ شکار کر کے لے جاتا اور اپنے بچوں کو کھلاتا ۔ پہاڑی تلے والے پیڑ کی اس
چڑیا کے بچے بھی اس شکرے کی زد میں تھے۔ بے چاری چڑیا بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتی
۔ جن کے پر نکلتے تو انھیں گھونسلے سے باہر نکالتی ۔ بچے بے چارے اُڑنے نہ پاتے کہ
شکرہ جھپٹتا اور انھیں دبوچ کر لے جاتا ۔ ایک بار جب چڑیا کے بچے بڑے ہوئے اور
گھونسلے سے باہر نکلنے کا وقت آیا تو چڑا چڑیا دونوں نے بہت خوشیاں منائیں ، مگر
چڑیا کو اچانک شکرے کا خیال آیا۔ اس نے رونا شروع کر دیا۔ چڑا بھی اُداس ہو گیا ۔
بچے ماشاء اللہ بڑے ہو گئے تھے ۔ انھوں نے ماں کو روتے دیکھا تو پوچھا: "
اماں ! آپ تو ابھی ہمیں گھونسلے سے نکالنے کا بندو بست کر رہی تھیں اور اس کی خوشی
مناری تھیں ۔ اب کیا بات ہوئی کہ آپ نے رونا شروع کر دیا۔“
چڑیا
بولی : " میری گود کے پالو! ہمارے پڑوس میں ایک ظالم شکرہ رہتا ہے ۔ وہ میرے
کتنے ہی بچوں کو کھا گیا۔ اب میں ڈر رہی ہوں کہ وہ تمھاری تاک میں ہو گا ۔“
بڑے
بچے نے سوچ کر کہا: "اماں! اللہ نے ہر درد کی دوا پیدا کی ہے ۔ آپ مایوس
کیوں ہوتی ہیں ۔ کوئی جتن کریں شاید آپ کی کوشش کام یاب ہو اور ہماری جان بچ جائے
۔ بچے کی بات سن کر ماں کو کچھ ڈھارس ہوئی ۔ سوچنے لگی کہ بچہ کہتا توسیچ ہے۔ میرے
رونے پیٹنے کا کیا فائدہ ہے۔ مجھے کچھ جتن کرنا چاہیے کہ شکرہ کہیں دفع ہوا اور
میرے بچوں کی جان بچے۔ چڑیا نے چڑے سے کہا کہ تم بچوں کی دیکھ بھال کرو ۔ میں گھر
سے نکلتی ہوں اور اپنی گود کے پالوں کے لیے کوئی جتن کرتی ہوں ۔ یہ کہہ کر چڑیا پُھر
سے اُڑ گئی ۔ چڑیا اُڑتے اڑتے ایسے میدان میں پہنچی جہاں آگ جل رہی تھی ۔ ایسی آگ
تھی کہ شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے ۔ چڑیا حیران کہ یا اللہ یہ کیسی آگ ہے ۔
اتنے میں کیا دیکھتی ہے کہ آگ کے اندر سے ایک کیڑا نکلا۔ وہ اور حیران ہوئی۔ دل
میں کہنے لگی کہ اللہ تیری شان آگ کے اندر بھی تو نے کیڑا پیدا کیا ہے ۔ پھر اس
کیڑے کے پاس گئی اور پوچھنے لگی کہ اے کیڑے تیرا نام کیا ہے ؟ اس آگ میں تو کیا کر
رہا تھا ؟
کیڑا
بولا: " چڑیا بی ! میرا نام سمندر ہے۔ یہ مجھ سے کیوں پوچھتی ہو کہ میں آگ
میں کیا کر رہا تھا۔ میں تو اسی آگ کے پیٹ سے پیدا ہوں ۔ میں سچ پوچھو تو آگ کا
کیڑا ہوں ۔" چڑیا یہ سن کر پہلے تو بہت حیران ہوئی۔ پھر اچانک اس کے دل میں
خیال آیا ۔ یہ آگ کا کیڑا ہے۔ کیا میرے دشمن کو نہیں جلا سکتا۔ اس نے کیڑے کو اپنی
مصیبت کا حال سنایا اور کہا: " کیا تم کچھ میری مدد کر سکتے ہو؟“
سمندر
بولا : ” چڑیا بی ! فکر مت کرو ۔ اس شکرے کو میں جلا کر راکھ کر دوں گا ۔ مجھے ذرا
وہاں لے چلو، جہاں وہ رہتا ہے۔"
چڑیا
سمندر کو وہاں لے گئی جہاں شکرہ رہتا تھا۔ شکرہ اس وقت سو رہا تھا۔ ساتھ میں اس کی
مادہ اور اس کے بچے بھی بے خبر سورہے تھے ۔ سمندر نے شکرے کے پاس جا کر پھر یری لی
۔ اس کے اندر سے ایسی چنگاری نکلی کہ شکرا اس کی مادہ اور بچے سب جل کر خاک ہو گئے
۔
چڑیا
خوش خوش اپنے گھر آئی ۔ بچوں کو خوش خبری سنائی کہ دشمن جل کر خاک ہو گیا۔
دمنہ
نے یہ کہانی سن کر کہا: "اے کلیلہ ! اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کتنا ہی طاقتور
ہو ، تد بیر کر کے اسے ہرایا جا سکتا ہے۔"
کلیلہ نے کہا: ” میں سمجھ گیا۔ تو دشمنی سے باز
نہیں آئے گا لیکن ایک بات کہے دیتا ہوں کہ جو جیسا کرے گا ویسا ہی اس کے ساتھ
ہوگا۔ اچھا رہا وہ بادشاہ جس نے یہ بات سمجھ لی اور ظلم کرنا چھوڑ دیا ۔"
دمنہ
نے پوچھا : ” وہ کون بادشاہ تھا اور اس نے یہ بات کیسے سمجھی ۔
کلیلہ
نے یہ سن کر اسے اس بادشاہ کی کہانی سنائی ۔
جیسا
کروگے ویسا بھرو گے
اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا۔ بہت ظالم تھا۔
اس کی رعایا اس کے ظلم سے پناہ مانگتی تھی ۔ ایک دن وہ شکار کو گیا ۔ جب واپس آیا
تو بالکل بدلا ہوا تھا۔ منادی کرا کہ آج سے کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا اور واقعی
اس کے بعد کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوا ۔ سب کے ساتھ انصاف ہونے لگا۔ رعایا ہنسی خوشی
رہنے لگی ۔ بادشاہ کو دعائیں دینے لگی ۔ ایک وزیر نے ایک دن ہمت کر کے پوچھ ہی لیا
کہ جہاں پناہ ! آپ نے رعایا کے ساتھ جو سلوک بدلا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟
بادشاہ
بولا: ”اے وزیر! سبب اس کا یہ ہے کہ ایک دن میں شکار کے لیے محل سے نکلا ۔ جنگل کی
طرف گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک کتے نے ایک لومڑی کا پیچھا کیا ۔ دوڑ کر اس کی
ٹانگ پکڑ لی اور دانتوں سے چبا ڈالی ۔
لومڑی بے چاری لنگڑی ہوگئی ، مگر اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک راہ گیر نے ایک
پتھر اٹھایا اور اس کتے کو مارا۔ پتھر اس زور سے لگا تھا کہ کتے کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
تھوڑی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ کسی طرف سے ایک گھوڑا دوڑتا ہوا آیا ۔ اس گھوڑے نے
اس راہ گیر کو ایسی لات ماری کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ گھوڑا تھوڑا آگے گیا تھا کہ
اس کا پاؤں ایک گڑھے میں آ گیا ۔ اس کی بھی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ یہ دیکھ کر میں نے دل
میں کہا کہ جو جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔ بس پھر میں نے ظلم سے تو بہ کی ۔ وہ دن
ہے اور آج کا دن میں نے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی۔“
دمنہ
نے یہ سن کر کہا: ”مگر میں ظالم نہیں مظلوم ہوں ۔ میں تو صرف ظلم کا بدلہ چکانا
چاہتا ہوں ۔“
کلیلہ
بولا : ”اچھا یوں ہی سہی ، مگر یہ سوچ کہ بیل تجھ سے زیادہ طاقتور ہے، تجھ سے
زیادہ مال دار ہے۔ پھر اس کے یار دوست بھی طاقتور ہیں ۔ تو اس سے بدلہ کیسے لے
سکتا ہے۔“
دمنہ
بولا : ” جو کام چال سے ہوتا ہے، وہ نہ طاقت سے ہو سکتا ہے نہ مال و دولت سے، نہ
یار دوستوں سے ۔ کیا تو نے نہیں سنا کہ کوے نے کس چال سے سانپ کو مارا ۔ کلیلہ نے
پوچھا: "کس کوے نے سانپ کو کس چال سے مارا؟"
دمنہ
نے اسے کوے اور سانپ کی کہانی سنائی۔
کوا
اور سانپ
ایک کو
ا تھا۔ جہاں اس نے گھونسلا بنا یا تھا ، وہیں قریب ایک سانپ کابل تھا۔ جب کوے کے بچے
ہوتے تو سانپ آتا اور ان بچوں کو کھا جاتا۔
جب
سانپ ، کوے کے بہت سے بچے کھا گیا تو کوا اپنے دوست گیدڑ کے پاس مشورہ لینے گیا۔
اپنی بپتا
سنائی۔ پھر کہا: ” میں نے سوچا ہے کہ اس سانپ کو ختم کر دیا جائے ۔“
گیدڑنے
پوچھا: " تو اسے کیسے ختم کرے گا ؟"
کوے نے کہا: ” جب سانپ سو جائے گا تو میں چونچیں
مار کے اس کی آنکھیں نکال لوں گا ۔“ گیدڑ نے کہا: "اے کوے! تو بہت بے وقوف ہے
۔ دشمن طاقتور ہو تو اسے طاقت سے نہیں مار سکتے ۔ ہاں چال سے مار سکتے ہیں
۔
کوے نے کہا: ” پھر کوئی چال بتا ۔“
گیدڑنے
کہا: " دیکھ، ایسا کر کہ تو اُڑ کر شہر تک جا ۔ مال و دولت والوں کے کوٹھوں
اور آنگنوں پر نظر دوڑا۔ کوئی ایسا زیور جو چونچ میں اُٹھایا جا سکے ، دکھائی دے
جائے تو اسے چونچ میں اٹھا لے۔ اس گھر کے
لوگ تیرے پیچھے دوڑیں گے ۔ تو اس طرح اُڑ کہ ان کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے پائے ۔ اُڑتا اُڑتا اس سانپ کے بل
کے پاس جا اور زیور کو اس بل میں گرا دے۔ پھر خدا کی قدرت دیکھ ۔"
کوے نےگیدڑ
کی بات گرہ میں باندھی ۔ اُڑ کر شہر پہنچا۔ ایک گھر میں دیکھا کہ ایک عورت اپنے
زیورا تار کر نہانے کی تیاری کر رہی ہے۔ کوے نے غوطہ مارا ، انگوٹھی چونچ میں لی
اور اُڑ گیا ۔ عورت نے شور مچایا۔ اس کا شوہر کوے کے پیچھے بھاگا ۔ محلے والے بھی
اس کے ساتھ ہو لیے ۔ کو اڑتا اُڑتا سانپ کے بل کے پاس گیا اور انگوٹھی کو بل میں
پھینک دیا۔ پیچھا کرنے والوں نے تاڑ لیا۔ وہ بل کے پاس آئے ۔ دیکھا کہ سانپ پھن
پھیلائے کھڑا ہے۔ انھوں نے لاٹھیوں سے سانپ کا سر کچلا اور انگوٹھی بل سے نکال لی
۔ کوے کی مراد بر آئی ۔ سانپ سے اسے نجات ملی۔
کلیلہ نے کہا: "مگر دوست ! بھورا بہت عقل
مند ہے۔ تو جو چال چلے گا ، وہ اس کا کوئی نہ کوئی توڑ لے آئے گا۔ کیا تو نے نہیں
سنا کہ خرگوش نے لومڑی کو پھنسانے کے لیے ایک چال چلی ، مگر اپنی چال میں خود
ہی پھنس گیا ۔"
دمنہ
نے پو چھا یہ خرگوش کون تھا ؟ اس کا کیا قصہ ہے؟"
کلیلہ
نے اسے خرگوش اور لومڑی کا قصہ سنایا۔
چال
الٹی پڑ گئی
ایک بھوکا بھیٹر یا شکار کی تلاش میں بھٹک رہا
تھا۔ ایک جھاڑی کے نیچے دیکھا کہ ایک خرگوش سویا ہوا ہے۔ لپک کر اس طرف گیا۔ خرگوش
کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ سر پہ بھیڑ یا کھڑا ہے۔ اس کا تو خون خشک ہو گیا، مگر
تھا ہوشیار ۔ جلدی سے ایک چال سوچی اور کہا: " بڑے بھائی ! میں تو ننھی سی
جان ہوں ۔ مجھ سے تمھارا کیا پیٹ بھرے گا ۔ کہو تو میں تمھیں موٹا سا شکار بتاؤں
۔"
بھیڑیا
بولا " بتا۔"
خرگوش
نے کہا: " یہاں سے تھوڑی دور ایک لومڑی رہتی ہے۔ اس پہ بہت چربی چڑھی ہوئی
ہے۔ موٹی بھینس ہو رہی ہے۔ اسے کھاؤ تو مزہ آئے۔" بھیڑ یا، خرگوش کی باتوں
میں آ گیا۔ کہا کہ چل میرے ساتھ کہاں ہے وہ لومڑی ۔ اب خرگوش آگے آگے چلا۔ بھیڑ یا
اس کے پیچھے پچھے چلا ۔ لومڑی کے غار کے پاس پہنچ کر بھیڑیے سے کہا تم با ہ ٹھہرو میں اندر جا کر بات کرتا ہوں ۔" خرگوش اندر
گیا۔ لومڑی سے کہا : " بی لومڑی! ایک بزرگ اس جنگل میں آئے ہیں ۔ ان کے کان میں بھنک پڑ گئی کہ آپ پہنچی ہوئی بی بی ہیں
۔ یہ سن کر انھوں نے مجھے ساتھ لیا کہ چلو بی بی لومڑی سے ملتے ہیں ۔ باہر کھڑے
ہیں ۔ میں نے کہا کہ پہلے بی بی کو خبر کر دوں کہ تمھارے گھرمہمان آئے ہیں ۔"
لومڑی
تو بہت چالاک ہوتی ہے۔ خرگوش کی باتوں سے تاڑ گئی کہ کچھ دال میں کالا ہے ۔ سوچ کر بولی ذرا باہر جاکر مہمان سےباتیں کرو ۔ میں
گھر کی ذرا جھاڑ پونچھ کرلوں ۔“
خرگوش باہر چلا گیا۔ لومڑی نے اپنے گھر کا جائزہ لیا۔
یہ لومڑی بڑی دور اندیش تھی ۔ یہ سوچ کر پتہ نہیں اس وقت کون دشمن آن دھمکے اس نے ایک چال
چلی تھی ۔ گھر میں ایک گڑھا کھود رکھا کہ اوپر سےاس پر کپڑا تان دیا تھا۔ لگتا تھا
کہ فرش بچھا ہوا ہے ۔ اس کے برابر میں ایک چور دروازہ تھا۔ چور دروازے کے برابر
کھڑے ہو کر پکاری : ” اندر تشریف لائیے۔" بھیڑیا اور خرگوش دونوں اندر آئے ۔
فرش کی طرف اشارہ کر کے کہا: ” بیٹھیے ۔ “ اور خود چور دروازے سے باہر نکل گئی ۔
بھیڑیے اور خرگوش نے فرش پہ قدم رکھا تو دھڑام سے گڑھے میں گر پڑے۔ بھیڑیے کو
خرگوش پہ بہت غصہ آیا ۔ چلا یا کہ تو نے مجھے اس مصیبت میں پھنسایا ہے ۔ یہ کہہ کر
خرگوش کو چیر پھاڑ ڈالا ۔ پھر چند دنوں میں خود بھی بھوک سے مر گیا۔
دمنہ
نے یہ کہانی سن کر کہا: ” مگر اے کلیلہ ! شاید تو نے اس خرگوش کی کہانی نہیں سنی
جس نے شیر کو چکمہ دیا تھا۔ ایسا چکمہ دیا کہ شیر کا کام تمام ہو گیا۔ اس نے اس
طرح اپنی جان بھی بچالی اور جنگل کے جانوروں کی بھی۔"
کلیلہ
نے پوچھا: ”اس خرگوش کی کہانی کیا ہے؟"
دمنہ
بولا : " اس خرگوش کی کہانی سنو ۔"
شیر
خرگوش سے مار کھا گیا
جنگل
میں ایک شیر رہتا تھا۔ جنگل کے سارے جانور اس سے تنگ تھے ۔ جو جانور اس کی زد میں آ
جاتا اسے کچا چبا جاتا۔
آخر
تھک ہار کر سب جانور اس کے پاس پہنچے۔ کہا: ” حضور! آپ جنگل کے بادشاہ ہیں ۔ آپ کوشکار
کرنے میں زحمت ہوتی ہے۔ ادھر ہم ڈرتے کا نپتے رہتے ہیں ۔ ہماری تجویز ہی ہے کہ ہم
روز اپنے میں سے ایک جانور کو آپ کے ناشتے کے لیے بھیج دیا کریں گے۔ پھر آپ ہم سے
کچھ نہ کہیں ۔
شیر نے
یہ تجویز منظور کر لی ۔ روز ایک جانور اس کے پاس آجاتا ۔ وہ اس کا ناشتا کرتا اور
آرام سے سو جاتا ۔ باقی جانو ر اطمینان سے جنگل میں گھومتے پھرتے ۔ ایک دن خرگوش
کی باری آگئی ۔ خرگوش نے جانوروں سے کہا : " جو میری مانو تو میں ایسی ترکیب
کروں گا کہ تمھیں شیر سے نجات مل جائے گی۔" جانوروں کو پتا تھا کہ یہ خرگوش
بہت چالاک ہے۔ انھوں نے اس کی بات مان لی ۔ بات صرف اتنی تھی کہ خرگوش مقررہ وقت
پر شیر کے پاس جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اتنی دیر سے گیا کہ شیر کا بھوک سے بُرا
حال ہو گیا۔ خرگوش کو دیکھ کر شیر غصے سے بولا : تو اتنی دیر سے کیوں آیا
ہے۔" خرگوش گڑ گڑا کر بولا : " حضور ! کیا عرض کروں ۔ رستے میں ایک اور
شیر مل گیا ۔"
شیر
غصے سے بولا : " میرے سوا اس جنگل میں کون شیر ہے!" خرگوش بولا : ”
حضور! اسی پر تو میں حیران ہوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے اس جنگل میں دوسرا میں شیر کیسے
آگیا اور آپ کے جنگل میں آ کر آپ ہی کی شان میں گستاخی کرتا ہے۔" شیر نے
پوچھا: ” اس نے کیا گستاخی کی ؟“ خرگوش بولا:'' حضور ! میں نے اپنے بھائی سے کہا
تھا کہ مجھے شیر کے گھر تک پہنچادے۔ ہم دونوں آرہے تھے کہ ایک شیر نے ہمارا راستہ
روک لیا۔ ہم نے اسے خبر دار کیا کہ ہمارا راستہ مت روکو۔ ہم اپنے بادشاہ شیر کے
پاس جا رہے ہیں۔ یہ سن کر اس نے آپ کو بُرا بھلا کہا اورہم پرجھپٹا اورمیرے بھائی
کو اس نے دبوچ لیا۔لیکن میں نکل آیا۔“
شیر
کوبہت غصہ آیا ۔ کہا: ” چل میرے ساتھ ۔ دیکھتا ہوں کہ وہ کون سی شیرنی کا لال ہے
جومیرے مقابلے پر آیا ہے۔"
خرگوش
آگے آگے، شیر پیچھے پیچھے ۔ چلتے چلتے وہ ایک کنویں پر پہنچے۔ خرگوش نے کہا : ”
حضور! وہ بر اس کنویں میں ہے ۔ ذرا جھک کر دیکھیے ۔
شیر نے جھانک کر دیکھا۔ اسے وہاں ایک شیر دکھائی
دیا۔ اصل میں وہ شیر اس شیر کی پر چھائیں تھی، مگر خرگوش نے اس پر ایسا جادو کیا
وہ اسے اصلی شیر سمجھا ۔ بس وہ اس پر غرایا اور کنویں میں چھلانگ لگا دی ۔
پھر شیر کو اس کنویں سے نکلنا نصیب نہ ہوا ۔ تڑپ
تڑپ کے مر گیا ۔ خرگوش نے جنگل کے جانوروں کو یہ خبر پہنچائی ۔ سب نے اس خبر پر
جنگل میں منگل منایا۔
کلیلہ
ہار کر چپ ہو گیا۔ اس نے پھر دمنہ کو کوئی نصیحت نہیں کی ۔ اس سے منہ موڑ کر اللہ
کی یاد میں مصروف ہو گیا ۔
دمنہ
ایک کونے میں بیٹھ کر بھورے کو ذلیل کرنے اور مارنے کی ترکیب سوچنے لگا۔ شیر کے
دربار میں اس نے جانا چھوڑ دیا ۔
کچھ دنوں
بعد ایک دن دمنہ موقع پاکر شیر کے پاس اس وقت گیا جب وہ اکیلا تھا۔ شیر نے پوچھا:
دمنہ ! تو بہت دنوں بعد ہمارے پاس آیا ہے اور اس طرح آیا ہے کہ بجھا بجھا لگتا ہے۔
آخراس کی وجہ کیا ہے؟"
دمنہ
نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا: ” حضور! میں نے تو دنیا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے،
مگر سوچا کہ میں نے حضور کا نمک کھایا ہے۔ ایک دفعہ حق نمک ادا کرتا چلوں۔ سو آپ
کی خدمت میں آ گیا ۔"
شیر نے
کہا: "ایسی مایوسی کی باتیں کیوں کرتا ہے ۔ خیر تو ہے ۔“ دمنہ نے کہا :
" جب نمک خوار نمک حرامی پر اتر آئیں تو خیر کہاں۔“
شیر اس
کی بات پہ چکر ایا۔ دمنہ کی عقل مندی کا تو وہ قائل تھا۔ سوچا کہ ضرور اس بات میں
کوئی بھید ہے ۔ کہا : " کیا ہے صاف صاف کہہ ڈال۔“
دمنہ
بولا: " حضور کیا عرض کروں ۔ میں تو بھورے پر حیران ہوں ۔ آپ نے اس پر احسان
کیےو ہیں اور وہ اب آپ کے خلاف سازشیں کر رہا ہے ۔“
شیر یہ
سن کر سوچ میں پڑ گیا ۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ بھورا اس کے خلاف سازش کر سکتا
۔ مگر دمنہ نے اس کے دل میں شک تو پیدا کر ہی دیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ شیر
ڈانواڈول ہے تو اس نے اسے اور بھڑ کا یا۔ کہنے لگا : ” حضور ! لوگ تین قسم کے ہوتے
ہیں۔ عاقل، نیم عاقل ، نادان ۔
عاقل
وہ ہے جو بلا آنے سے پہلے ہی اس کا علاج کرلے ۔
نیم عاقل وہ ہے جب مصیبت سر پر آپڑے تب اسے
ہوش آئے اور پھر وہ اپنی عقل سے مصیبت کو ٹالنے کی کوشش ہے کرے۔
نادان
وہ ہے کہ مصیبت جب سر آ پڑے تو اس کی مت ماری جائے ۔ ہاتھ پیر پھول کہ جائیں اور
وہ مارا جائے ۔ وہ جو تین مچھلیوں کا قصہ ہے بس وہی عاقل، نیم عاقل اور نادان کا
وہ قصہ ہے۔"
شیر نے
پوچھا: ” تین مچھلیوں کا قصہ کیا ہے ۔ مجھے بھی تو سنا "
دمنہ
نے کہا : " تین مچھلیوں کا قصہ اس طرح ہے ۔"
تین
مچھلیاں
ایک
تالاب میں تین مچھلیاں رہتی تھیں۔ کسی قسم کا کھٹکا نہیں تھا۔ ہنسی خوشی بسر کرتی
تھیں ۔ ایک دن ایک مچھیر ادھر سے گزرا۔ اس نے ان تین مچھلیوں کو دیکھ لیا ۔ فوراً
اپنا جال لینے کے لیے دوڑا۔
مچھلیوں
نے مچھیرے کی نیت کو بھانپ لیا ۔ وہ چوکنی
ہو گئیں ۔ ان میں سے ایک مچھلی بہت عقل مند تھی ۔ وہ اسی رات ایک نالے کے راستے
تالاب سے نکل گئی ۔ دوسرے دن صبح ہی صبح مچھیرا جال لے کر آ پہنچا۔ اس نے تالاب
میں جال ڈال دیا۔ اب دوسری مچھلی کو ہوش آیا ۔ وہ پہلی کی طرح عقل مند تو نہیں تھی
، مگر تھوڑی بہت عقل ضرور رکھتی تھی ۔ وہ اوپر لہروں پر آئی اور مردہ بن کر پڑ گئی
۔ مچھیرے نے سمجھا کہ وہ مرگئی ہے ۔ اُٹھا کر الٹا پلٹا اور الگ پھینک دیا۔ وہ
مکرکیے پڑی رہی ۔ جب مچھیرے کا دھیان اس کی طرف سے ہٹا تو وہ سرک سرک کر تالاب میں
اُتر گئی ۔
تیسری
مچھلی بہت بے وقوف تھی ۔ گھبراہٹ میں کبھی دائیں جاتی تھی کبھی بائیں ۔ آخر کو جال
میں پھنس گئی ۔
شیر نے
کہانی سن کر کہا: "اے دمنہ ! تو نے کہانی اچھی سنائی ۔ عقل مند وہ ہے جو بلا
آنے سے پہلے اس کی روک تھام کر لے، مگر بھورے پر تو میں نے بہت احسان کیے ہیں ۔
مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ مجھ سے دغا کرے
گا۔“
دمنہ
بولا : ” حضور! جس کی خصلت بُری ہوتی ہے وہ کب احسان مانتا ہے ۔ دوست ہو محسن ہو،
کوئی بھی ہو، کیسا ہی اس کے ساتھ سلوک کیا ہو وہ اپنی خصلت سے باز نہیں آتا ۔
بچھو اور کچھوے کی کہانی تو آپ نے سنی ہی ہوگی ۔“
شیر نے
پوچھا: ” بچھو اور کچھوے کی کیا کہانی ہے؟“
اس پر
دمنہ نے بچھو اور کچھوے کی کہانی سنائی ۔
اپنی اپنی فطرت
ایک
کچھوے اور بچھو میں بہت دوستی تھی ۔ ایک دفعہ وہ ساتھ ساتھ سفر پر نکلے ۔ رستے میں
ایک ندی پڑی ۔ بچھوندی کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا ۔ کچھوے سے کہا : ” تو تو تیر کر
نکل جائے گا ۔ میںکیسے ندی پار کروں گا۔
کچھوے
نے کہا: " میں جو موجود ہوں۔ میری پیٹھ پر بیٹھ جا۔ تجھے ندی پار کر دوں گا
۔“ بچھو، کچھوے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا ۔ کچھوا اسے لے کر پانی میں اتر گیا اور تیرنے
لگا۔ جب بیچ ندی میں پہنچا تو اسے لگا کہ اس کی پیٹھ پر کوئی ڈنک لگا ہے۔ کچھوے نے
بچھو سے پوچھا: تو یہ کیا کررہا ہے۔
بچھو
نے کہا: ” ذرا تیری پیٹھ پر اپنے ڈنک کو آزما رہا ہوں ۔“
کچھوے
نے کہا: ” میں تجھے ندی سے پار اُتارنے کے جتن کر رہا ہوں تو نے اس احسان کا بدلہ
یہ دیا کہ میرے ڈنک مار دیا ہے۔ ویسے میری پیٹھ بہت مضبوط ہے۔ اس پر اثر نہیں
ہوگا، مگر افسوس ضرور ہے کہ دوست ہو کر تو
مجھے ڈنک مار رہا ہے ۔
بچھو بولا : ” دوست ! کیا کروں اپنی فطرت سے
مجبور ہوں ۔ دوست ہو یا دشمن کسی کو بھی ڈنک مارے بغیر رہ نہیں سکتا ۔“
کچھوے
نے دل میں کہا : ” داناؤں نے پتے کی بات کہی ہے کہ بد خصلتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرنا چاہیے ۔“
کچھوے
نے ایک غوطہ ایسا مارا کہ بچھو اس کی پیٹھ سے گر کر بھنور میں پھنس گیا۔ بچھو نے
فریاد کی : "
اے
میرے دوست! تو نے غوطہ مارتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ ایک دوست تیری پیٹھ پر سوار
ہے۔"
کچھوے
نے کہا: "اے دوست! کیا کروں اپنی عادت سے مجبور ہو۔ غوطہ مارنا میری عادت
ہے۔“
شیر نے
سوچا کہ دمنہ صحیح کہتا ہے ۔ بھورے نے میرے ساتھ وہی کیا ہے جوبچھونے کچھوے کے
ساتھ کیا۔ بولا : '' اے دمنہ ! پھر تیری کیا صلاح ہے۔ میں اسے کہلا بھیجتا ہوں کہ
تو میرے ملک سے نکل جا۔“
دمنہ
یہ سن کر دل میں گھبرایا۔ اس نے سوچا کہ بھورا بہت عقل مند ہے ۔ وہ سمجھ جائے گا
کہ کسی نے اس کے خلاف شیر کے کان بھرے ہیں۔ وہ کھٹی میٹھی باتیں کر کے شیر کو منا
لے گا ۔ پھر یہ بھی پتا چلائے گا کہ کس نے اس کے خلاف کان بھرے ہیں ۔ یہ سوچ کر اس
نے شیر سے کہا : ' حضور ! کوئی قدم
اُٹھانے سے پہلے پورے حالات سے واقفیت ضروری ہے۔ اجازت ملے تو میں بھورے کے پاس
جاؤں اور پھر واپس آ کر آپ کو رپورٹ پیش کروں۔“
شیر نے
اس تجویز کو پسند کیا اور دمنہ کو بھورے کے معاملے کی تحقیق کے لیے روانہ کیا ۔
دمنہ بھورے کے پاس پہنچا۔ صورت ایسی بنالی جیسے اسے بہت دکھ ہے ۔ بھورے نے اس کی صورت دیکھ کر کہا: "دمنه ! دوست بہت دنوں
میں ملے ۔ کہاں رہے؟“
دمنہ
نے ٹھنڈی سانس بھری اور کہا: ” بھورے کیا بتاؤں ۔ کچھ مت پوچھو۔ میں تو اب گھر سے نکلتاہی
نہیں ۔ دنیا بہت خراب ہے۔“
بھورے نے کہا: " تم شیر بادشاہ کے دربار
میں بھی بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیے۔“
دمنہ نے کہا: ”بھائی ! میں سمجھتا ہوں کہ
بادشاہوں سے دور رہنے ہی میں بھلائی ہے۔ اب اپنے آپ ہی کو دیکھ لو ۔ بادشاہ کی تم
نے اتنی خدمت کی لیکن اس کا بدلہ کیا ملا اور کیا ملنے والا ہے۔“
بھورے
کے کان کھڑے ہوئے۔ بولا : ” بھائی ! یہ تو نے کیا بات کہی۔ مجھے کیا بدلہ ملنے
والا ہے؟" دمنہ نے بظاہر بہت ٹالا ، لیکن جب بھورے نے بہت اصرار کیا تو اس نے
کہا : ” ارے بھائی! بھورے کیا پوچھتے ہو ۔ شیر بادشاہ کی نیت میں فتور آ گیا ہے۔
کہتے ہیں کہ بھورا بہت موٹا تازہ ہو گیا ہے اور آخر وہ ہے تو بیل ۔ شیروں کی خوراک
ہے ۔ سوچتا ہوں کہ اس کا بھی ناشتا کیا جائے ۔“ بھورا یہ بات سن کر پیلا پڑ گیا ۔
پھر بولا: ''یہ میری عقل ، میری جان کے لیے وبال بن گئی ہے۔
اس طرح
جیسے مور کی خوب صورت دم اس کے لیے خطرے پیدا کرتی ہے۔
دمنہ
بولا : تو صحیح کہتا ہے ۔ شیر اصل میں تیری عقل مندی سے خوف زدہ ہے ۔ جن کا دماغ
عقل سے خالی ہوتا ہے وہ عقل مندوں سے بہت ڈرتے ہیں ، مگر میں پوچھتا ہوں کہ تیری
عقل کو کیاہوا۔ شیر تجھے کھانے کے منصوبے بنا رہا ہے اور تجھے پتا ہی نہیں ۔
بھورا
ہنسا اور بولا : " شاید تو نے بلبل اور کسان کی کہانی نہیں سنی۔" دمنہ
بولا : بلیل اور کسان کی کہانی کیسے ہے؟“
بھورا
بولا : ” تو پھر سن ، وہ ایسے ہے ۔“
بلبل
اور کسان
کسی
کسان کا ایک پھولا پھلا باغ تھا۔ اس میں سرخ گلاب کی جھاڑیاں تھیں ۔ گلاب کے پھولوں
کو دیکھ دیکھ کر کسان خوش ہوتا۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک بلبل گلاب کی پتیوں کو
چونچیں مار رہی ہے ۔ پتیاں اس کی چونچوں سے بکھری پڑی تھیں۔ کسان کو یہ دیکھ کر
بہت فکر ہوئی ۔ اس نے سوچا کہ بلبل میرے پھولوں کو پریشان کرتی ہے۔ اس کا کوئی
علاج کرنا چاہیے ۔ کسان نے جال بچھا کر اس پر دانہ بکھیر دیا۔ بلبل اُتر کر دانہ
چگنے لگی ۔ کسان نے جال کھینچ لیا۔
اس طرح
بلیل پکڑی گئی ۔ کسان نے بلبل کو پنجرے میں بند کر دیا۔
بلبل
نے رو کر کسان سے کہا: ”اے کسان تو نے مجھے کیوں پکڑا ۔ اگر تجھے میرا چہچہانا
اچھا لگا تھا تو میں تو تیرے ہی باغ میں رہتی تھی اور چہچہاتی تھی ۔ پنجرے میں بند
کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر کوئی دوسری وجہ ہے تو وہ مجھے بتا ۔“
کسان
نے کہا: ” تو نے میرے پھول کو پریشان کیا ۔ مت پوچھ کہ اس سے میرے دل پر کیاگزری۔"
بلبل
بولی: ' ایک پھول کے پریشان ہونے سے تو اتنا پریشان ہوا۔ سوچ کے پنجرے میں بندہو
جانے سے میں کتنی پریشان ہوں گی۔“
بلبل
کی بات نے کسان پر اثر کیا۔ اس نے فوراً پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ بلبل آزاد ہو
کر بہت خوش ہوئی ۔ کسان سے بولی:"تو نے میرے ساتھ نیکی کی ہے ۔ میں تجھے اس
کا اچھا بدلہ دوں گی ۔ جس پیڑ کے نیچے تو کھڑا ہے، اس کے نیچے اشرفیاں گڑی ہوئی
ہیں۔ کھود کے ان اشرفیوں کو نکال لے ۔“
کسان
نے کھودا تو سچ مچ وہاں سے اشرفیاں نکلیں ۔ کسان بلبل کا قائل ہو گیا ۔ کہنے لگا :
ے بلبل ! ویسے تو تیری نگاہ بہت تیز ہے ۔ زمین میں گڑی ہوئی اشرفیاں تجھے نظر آ
گئیں ،لیکن زمین کے اوپر بچھا ہوا جال تجھے دکھائی نہیں دیا ۔“
بلبل
نے جواب دیا: ” جب آفت آنے کو ہوتی ہے تو نہ کچھ مجھ میں آتا ہے نہ کچھ دکھائی
دیتا ہے۔“
دمنہ
بولا: " خیر اب تک جو ہوا سو ہوا ، لیکن اب تو تمھیں بات کا پتا چل گیا ہے ۔
ابھی وقت ہے۔ بچاؤ کی کوئی تدبیر کر لو ۔“
بھورے
نے جواب دیا : ” کیا تدبیر کروں اور کیا ترکیب سوچوں ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ
خوشامدی ، شیر بادشاہ کو بھڑکا رہے ہیں ۔ اب اگر بادشاہ مہربان بھی ہو جائے تو
خوشامدی تو پھر کوئی چال چلیں گے اور اسے ورغلائیں گے جس طرح بھیڑیے ، کوے اور
گیدڑ نے اپنے بادشاہ شیر کو ورغلایا تھا۔“
دمنہ
نے پوچھا : ” وہ کیسے ورغلا یا تھا؟“
بھورے
نے کہا: ”سن کہ انھوں نے کس طرح شیر کو ورغلایا اور اونٹ کو مروایا ۔
بھولا
بھالا اونٹ
ایک
کالا کوا، ایک فریبی بھیڑ یا ایک مکار گیدڑ تینوں ایک جنگل کے باسی تھی۔ اس جنگل
کا بادشاہ ایک شیر تھا۔ وہ اس کی خدمت میں رہتے تھے۔ اتفاق کی بات کہ ادھر سے ایک قافلہ
گزرا۔ قافلے کا ایک اونٹ یہاں آکر بیمار
پڑ گیا ۔ قافلے والوں نے بیمار اونٹ کو
وہیں چھوڑدیا اور آگے چلے گئے ۔ اونٹ لوٹ پیٹ کرا اچھا ہو گیا ، بلکہ ہری ہری گھاس
کھا کر خوب موٹا تازہ ہو گیا ۔ ایک دن جنگل کے راجا کی سواری اس طرف سے گزری ۔
اونٹ بہت گھبرایا ۔ اس نے خیر اس میں دیکھی کہ کے سامنے جا کر سر جھکا دیا ۔ شیر
نے گرج کر کہا: تمھیں یہ ہمت کیسے ہوئی کہ اونٹ کی طرح منھ اُٹھائے میرے ملک میں
آگئے " اونٹ نے اپنی بپتا سنائی اور سر جھکا کر کہا : "حضور! میں آپ کے
رحم و کرم پر ہوں ۔ چاہوتو ماردوچا ہو جِلاؤ۔
شیر نے
اونٹ کو تابعداری پر آمادہ دیکھا تو اسے معاف کر دیا۔ پھر اسے اپنے خدمت گاروں میں
شامل کر لیا۔ کوے، بھیڑیے اور گیدڑ کے ساتھ ساتھ اونٹ بھی شیر کی خدمت کرنے لگا۔
اس نے شیر کی ایسی خدمت کی کہ شیر نے اس کے عہدے میں ترقی کر دی۔ اس پر کوا،
بھیڑیا اور گیدڑ تینوں بہت جلے ۔ انھیں ڈر ہو گیا کہ کہیں یہ اونٹ ترقی کرتے کرتے
ان سے آگے نہ بڑھ جائے ۔ بس اس کی جان کے بیری ہو گئے ۔
ایک
دفعہ کیا ہوا کہ شیر کی ایک ہاتھی سے لڑائی ہوگئی ۔ شیر زخمی ہو گیا۔ اس قابل نہ
رہا کہ شکار پر جائے ۔ وہ شکار مار کر لاتا تھا تو اس میں سے بھیڑیے ، گیدڑ ، کوے
اور اونٹ کو بھی حصہ ملتا تھا۔ اس طرح ان کا پیٹ پلتا تھا۔ اب وہ بھوکوں مرنے لگے
۔ شیر نے کہا: ”میرے پیارو! میں خود تو بھو
کا رہ سکتا ہوں ۔ تمھیں بھوکا نہیں دیکھ سکتا ، مگر کیا کروں آج کل طبیعت اچھی
نہیں ۔ لمبی مار (شکار) پر نہیں جاسکتا۔
ہاں اگر آس پاس کوئی شکار ہوتو مجھے بتاؤ۔“
کوا،
بھیڑیا اور گیدڑ تینوں ہی اپنی اپنی جگہ فتنہ تھے ۔ انھوں نے آنکھوں آنکھوں میں
ایک دوسرے کو دیکھا اور اشاروں اشاروں میں طے کر لیا۔ کو ایولا : ” حضور! یہ جو
اونٹ ہے کہیں باہر سے آ گیا ہے اور مفت کی روٹیاں تو ڑ رہا ہے۔ آپ کا نمک کھا کھا
کے موٹا ہو گیا ہے ۔ یہ کس دنکام آئے گا۔
شیر نے اس بات پر کوے کو بہت ڈانٹا ڈ پٹا کہا: ”
کیا تو نہیں جانتا کہ اونٹ ہمارے وفاداروں میں سے ہے ۔ شیر اگر اپنے وفاداروں کا
شکار کرنے لگے تو وہ شیر نہیں رہتا ۔“
کو اچپ
ہو گیا۔ پھر تینوں نے الگ جا کر میٹنگ کی ۔ ایک ترکیب سوچ کر شیر کی خدمت میں حاضر
ہوئے ۔ اونٹ کو بھی یہ کہہ کر ساتھ لائے کہ چلو حضور کی طبیعت آج زیادہ خراب ہے ۔
ان کی مزاج پرسی کر آئیں ۔
کوا ہاتھ جوڑ کر بولا: "حضور! میں نے عمر
بھر آپ کا نمک کھایا ہے ۔ آج کل آپ کی صحت یہ اجازت نہیں دیتی کہ شکار کے لیے
نکلیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ حق نمک ادا کروں ۔ میری جان حاضر ہے ۔ مجھے کھائیے
اور پیٹ کی آگ بجھائیے ۔“ گیدڑ فور آگے بڑھا: اے کوے! تیراجثہ ہی کتنا ہے ۔ حضور
کا ایک لقمہ بھی نہیں بنے گا۔ تیرےبجائے میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں۔ چاہتا ہوں
کہ حضور کے دستر خوان کی زینت بنوں ۔“ اب بھیڑیا آگے بڑھا : ”اے گیدڑ ! تو اپنے آپ
کو بہت تن و توش والا سمجھتا ہے چہ پدی چہ پدی کا شور ہا۔ تجھے کھا کر حضور کا کون
سا پیٹ بھر جائے گا۔ البتہ مجھ میں اتنا گوشت ہے کہ حضور کے ساتھ ساتھ حضور کے نمک
خواروں کی بھی پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے۔"
کوا
بولا : یہ تو ٹھیک ہے کہ تجھ میں گوشت اچھا خاصا ہے ، مگر تیرا گوشت صحت کے لیے
مضر ہے۔ حضور کی طبیعت آج کل اچھی نہیں ۔ تیرا گوشت کھائیں گے تو طبیعت اور خراب
ہو جائے گی ۔
جب تینوں اپنی اپنی جگہ کہہ چکے تو اونٹ نے دل
میں کہا کہ آخر میں بھی تو شیر کا نمک خوار ہوں۔ مجھے بھی اپنی وفاداری ثابت کرنی
چاہیے ۔ بڑھ کر کہا: ” حضور! میں حاضر ہوں ۔ میں بڑا جانور ہوں۔اور میرا گوشت بھی
ایسا ہے کہ بیمار بھی کھائے تو اسے گرانی نہ ہو ۔ شیر کے بولنے سے پہلے ہی کوا،
گیدڑ اور بھیڑیا بول پڑے اونٹ کو شاباش دی ۔ کہا: وفادار ہو تو ایسا ہوا اور تیرا
گوشت تو اس بیماری میں بہت ہی مفید ہے۔
اونٹ
بے چارہ منھ دیکھتا رہ گیا۔ کوا ، گیدڑ اور بھیڑیا اس پر پل پڑے۔ دم کے دم میں اس
کی تکہ بوٹی کر دی۔
بھورا
کہانی سنا کر چپ ہو گیا ۔ دمنہ بولا :” میں نے کہانی سنی ، تو نے سچ کہا بادشاہ کی
چاپلوسی کرنے والے جس کے پیچھے پڑ جائیں اس کی خیر نہیں ۔ جب یہ بات ہے تو پھر تو
نے کیا سوچا ہے ۔“ بھورے نے کہا: ”میں نے یہ سوچا ہے کہ مرنا تو ہے ہی پھر لڑ کر
کیوں نہ مرا جائے ۔“ دمنہ دل ہی دل میں خوش ہوا ۔ سمجھا کہ آخر بھورا میرے جال میں
پھنس گیا ۔ بولا : " میرا خیال یہ ہے کہ لڑائی میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ دشمن کم زور بھی ہو تو اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہیے اور کم زور
کو بزدل نہیں ہونا چاہیے ۔ دریا کی مثال سامنے ہے۔ اس نے طبیطوی کوحقیر سمجھا تھا۔
بعد میں اسے پچھتانا پڑا ۔"
بھورے
نے پوچھا : یہ دریا اور طیطوی کا کیا قصہ ہے۔
دمنہ
نے اسے دریا اور طیطوی کا قصہ سنایا۔
دریا اور
طیطوی
ایک دریا
کے کنارے کچھ پرندے رہتے تھے ۔ یہ طیطوی کے نام سے مشہور تھے ۔ ایک طیطوی پر انڈے دینے
کا موسم آیا تو اپنے نر سے بولی: میرے سرتاج! میں انڈے دینے والی ہوں ۔ دریا سے دور
چل کر کہیں تنکے جمع کریں اور گھونسلا بنا ئیں ۔نر کہنے لگا : ” ہم رہتے یہاں ہیں اب
دور کہاں جائیں۔" ہو تو طیطوی نے کہا : " دریا سے مجھے ڈر لگتا ہے ۔ کیا
خبر کہ کسی وقت وہ موج میں آئے اور میرےانڈوں کو بہا کر لے جائے ۔"
نر نے اکڑ کر کہا: " دریا کی کیا مجال کہ ہمارے
انڈوں کو ہاتھ لگائے ۔"
طیطوی کو
نر کی باتوں سے بہت حوصلہ ہوا۔ اس نے وہیں دریا کے کنارے چار تنکے جمع کر کے گھونسلا
بنایا اور انڈے دے دیے، مگر جو اسے ڈر تھا وہی ہوا۔ ایک دن دریا لہر میں آیا اور انڈوں
کو بہا کر لے گیا ۔
طیطوی بہت
روئی پیٹی ۔ نر سے کہا: ” میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ اس بخت مارے دریا کا کوئی اعتبار
نہیں ۔ جس دن لہر میں آ گیا، میرے انڈوں کو بہا لے جائے گا۔ وہی ہوا۔ تم نے تو بہت
سینہ پھلا کر کہا تھا کہ دریا کی یہ مجال نہیں ہے ۔ اب بولو۔“
زسوچ میں
پڑ گیا ۔ پھر وہ دریا کے آس پاس رہنے والے پرندوں کے پاس گیا۔ ان سے کہا: "یہ
سمجھ لو کہ کل تم بھی دریا کی زد میں ہو ۔ اگر آج تم چپ ہوئے تو کل تمھاری باری بھی
آسکتی ہے۔“ پرندوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی ۔ سب چھوٹے بڑے پرندے اکھٹے ہوئے۔ سر جوڑ
کر بیٹھے کہ کیا کرنا چاہیے ۔ سوچا کہ پرندوں کے بادشاہ سیمرغ سے جا کر فریاد کریں
۔ وہ مل جل کر سیمرغ کے پاس پہنچے اور دریا کے ظلم کے خلاف آواز اُٹھائی۔
سیمرغ کو بہت غصہ آیا
۔ اس نے سوچا کہ دریا نے آج میری رعایا کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔میں چپ رہا تو کل کو
میرے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گا ۔
اس نے جنگل کے سارے
پرندوں کو اکھٹا کیا ۔ لمبی چوڑی فوج تیار کی اور دریا پر ہلہ بول دیا۔ یہ گرمیوں کا
موسم تھا۔ برسات میں تو دریا بہت زوروں میں ہوتے ہیں، مگر گرمیوں میں ان میں زیادہ
زور شور نہیں ہوتا ۔ اس دریا کا بہت پانی خشک ہو چکا تھا۔ گرمی سے حال نڈھال تھا۔ سیمرغ
کو اتنے بڑے لشکر کے ساتھ دیکھا تو دل میں کہا کہ اس وقت مقابلہ ٹھیک نہیں صلح کر لینی
چاہی۔ اس نے سیمرغ سے صلح کر لی اور طیطوی کے انڈے واپس کر دیے۔ انڈوں سے بچے نکلے
۔ طیطوا، طیطوی دونوں دریا کی طرف سے بے فکر ہو کر اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرنے لگے۔
بھورا کہانی
سن کر بولا : " دمنہ تو نے پتے کی کہانی سنائی ۔ کم زور اگر ہمت سے کام لیں اور
اکھٹے شیر سے مقابلہ کریں تو ظالم اور طاقت ور کے چھکے چھڑا سکتے
ہیں۔ میں اگر چہ اکیلا ہوں ، مگر ہمت نہیں ہاروں گا۔ لڑائی میں پہل تو نہیں کروں گا،
لیکن اگر اس نے لڑنے کی ٹھانی تو میں ڈٹ کر مقابلہ کروں گا۔
دمنہ نے
سمجھ لیا کہ تیر نشانے پر لگا۔ کہا: ” میں تمھیں ایک نشانی بتا تا ہوں ۔ جب شیر غصے
میں آکر میری وجہ سے دم زمین پر مارے تو سمجھ لینا کہ اب وہ تم پر حملہ کرنا چاہتا
ہے۔" بھورے نے کہا : " ٹھیک ہے۔ یہ بات یاد رکھوں گا ۔"
دمنہ خوش
خوش وہاں سے واپس ہوا۔ شیر کی خدمت میں پہنچا۔ اپنے دورے کی رپورٹ پیش کی ۔ دمنہ نے
کہا: ” حضور! بھورا بالکل باغی ہو چکا ہے۔
آپ سے لڑنے کی تیاری کر رہا ہے ۔ سمجھتا ہے کہ مقابلہ میں وہ آپ کو چت کر لے گا۔“
اتنے میں
بھورا بھی آن پہنچا۔ بھورے کو ڈر تھا کہ شیر اس پر حملہ کرے گا ۔ اس لیے وہ بہت
محتاط تھا۔ کبھی دائیں دیکھتا تھا، کبھی ہائیں دیکھتا تھا۔ شیر اس کی ایک ایک حرکت
کو دیکھ رہا تھا۔ دیا۔شیر بھورے کی یہ حرکتیں دیکھ کر سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے
پر مستعد ہے۔ پھر تو شیر کو بہت تاؤ آیا ۔ اس کی آنکھیں شعلوں کی طرح چمکنے لگیں ۔
بال کھڑے ہو گئے ۔ غرایا۔ دم کو زمین پرپٹخنے لگا۔
بھورے کود
منہ کی بتائی ہوئی بات یاد آ گئی۔ دل میں کہا کہ شیر زمین پر دم پٹخ رہا ہے۔ اب وہ مجھ پر حملہ کرے گا ۔ تو پھر میں
ہی پہلے حملہ کیوں نہ کر دوں ۔ بس یہ سوچ کر بھورے نے اپنے سینگ گھمائے اور شیر پہ ہلہ بول دیا۔ دمنہ کی مراد بر
آئی ۔ بھاگا بھاگا کلیلہ کے پاس گیا ۔ کہا: ” دیکھ میری چال کام کر گئی ۔ بے وقوف بیل شیر سے لڑ پڑا ہے ۔ اب اس کی خیر نہیں ۔“
کلیلہ یہ خبر سن کر پریشان ہوا ۔ پھر وہ دونوں وہاں
پہنچے جہاں لڑائی ہو رہی تھی ۔ بیل بے چارہ خون میں نہایا ہوا تھا ، مگر مقابلہ کیے
جارہا تھا۔ ایسی سخت لڑائی تھی کہ جیسے قیامت برپا ہو۔
کلیلہ یہ
حال دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوا۔ دمنہ سے کہنے لگا : ” اے دوست! تُو نے اچھا نہیں کیا
۔ آخر تیری وجہ سے یہ فتنہ کھڑا ہوا ہے۔ بیل بے چارہ مارا جائے گا ، مگر اس سے شیر
کو بھی کوئی فائدہ نہیں پنچے گا۔ خیر اب میں تجھے کوئی نصیحت نہیں کروں گا۔ اس دانا
پرندے نے اپنے ساتھی کو صحیح مشورہ دیاتھا کہ بندروں کو نصیحت مت کر، مگر نا دان پرندہ
نہ مانا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مارا گیا ۔"
دمنہ نے
پوچھا: ” میں بھی تو سنوں کہ یہ کیا قصہ ہے ۔"
کلیلہ نے کہا: ” پھر سن ۔“
بندروں
کو نصیحت
ایک جنگل
میں کچھ بندر رہتے تھے ۔ جاڑوں کے موسم میں ایک رات بہت ٹھنڈ پڑی ۔ بے چا رے بند ر
جاڑے سے تھر تھر کانپ رہے تھے ۔ پاس ہی نل کی ایک ٹونٹی پڑی تھی ۔ پیتل کی نئی ٹونٹی
تھی ۔ ایسے چمک رہی تھی جیسے چنگاری ہو ۔ جاڑے نے بندروں کی عقل خراب کر دی تھی ۔ وہ
یہ سمجھے کہ یہ آگ ہے۔ انھوں نے اس کے گرد ایندھن اکھٹا کیا اور پھونکھیں مارنے لگے
۔ او پر درخت کی شاخ پر دو پرندے بیٹھے تھے۔ ایک پرندے نے سوچا کہ بندروں کو بتا دینا
چاہیے کہ یہ آگ نہیں ہے۔ اوپر سے چلایا: ” اے بھائی بند رو ! تمھیں دھوکا ہوا ہے یہ
پیتل کی ٹونٹی ہے۔ آگ نہیں ہے۔ دوسرا پرندہ بہت دانا تھا۔ اس نے کہا: ” میرے دوست
! یہ بندر ہیں ۔ انھیں نصیحت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ الٹا تجھے نقصان پہنچے گا
۔“
مگر نادان
پرندے کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ۔ وہ اُڑ کر نیچے گیا اور بندروں کو سمجھانے لگا
کہ جس چیز کو تم آگ سمجھ رہے ہو وہ آگ نہیں ہے ۔ بندروں کو اس کی بات سن کر بہت جھنجلا
ہٹ ہوئی۔ وہ اس پر پل پڑے۔ دم کے دم میں اس کی تکہ بوٹی کر دی۔ یہ کہانی سن کر دمنہ
بولا : ”اے بھائی ! کوئی سنے نہ سنے مگر دانا آدمی کا کام یہی ہے کہ وہ سچی بات بتا
دے ۔"
کلیلہ نے
جواب دیا: ”میں سچی بات کہنے سے باز نہیں آؤں گا ، مگر سچی بات تجھ پر اثر نہیں کرے
گی جیسے تیز ہوش پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔“
دمنہ نے
پوچھا: ” تیز ہوش کون تھا۔ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟
کلیلہ نے
جواب میں یہ کہانی سنائی۔
سچی بات
کڑوی ہوتی ہے
دد دوست
تھے۔ ایک تھا بہت چالاک ۔ اس سے اس کا نام تیز ہوش پڑ گیا۔ دوسرا بے چارہ بہت سادہ
آدمی تھا ۔ اسے لوگ خرم (خوش) دل کہتے تھے ۔
وہ دونوں
سفر پر نکلے۔ رستے میں انھیں اشرفیوں کی ایک تھیلی مل گئی ۔ بہت خوش ہوئے ۔ خرم دل
نے کہا: "آؤ، یہ اشرفیاں آدھی آدھی کر لیں ۔ آدھی تمھاری آدھی میری ۔“ تیز ہوش
نے چالا کی دکھائی ۔ کہا کہ عقل مندی اس میں ہے کہ اپنی ضرورت کے لیے چندا شرفیاں نکال لیں۔ باقی یہاں پیٹر کے نیچے دبا دیں۔ جب واپس
آئیں گے تو نکال لیں گے ۔ اگر ابھی ساتھ لے کر چلتے ہیں تو چوری چکاری کا ڈر ہے ۔ خرم
دل کو یہ مشورہ اچھا لگا۔ دونوں نے مل کر اشرفیوں کی تھیلی پیڑ کے نیچے دبادی۔ پھر
وہ آگے سفر پر چل پڑے۔ جب رات ہوئی اور خرم دل سو گیا تو تیز ہوش چپکے سے اُٹھا۔ اس
پیٹر کے پاس گیا اور اشرفیوں کی تھیلی نکال
کر اپنے پاس چھپالی ۔بہت دنوں بعد جب وہ سفر سے پلٹے تو مشورہ کر کے کہا کہ آؤ اشرفیوں
کی تھیلی نکالتے ہیں ، مگر جب زمین کھودی تو تھیلی کو غائب پایا۔ تیز ہوش نے خرم دل
سے کہا کہ تھیلی تو نے نکالی ہے ۔ خرم دل نے
اپنی بہت صفائی پیش کی ، مگر تیز ہوش نے ایک نہ مانی۔ خوب شور مچایا ۔ پھر خرم دل کو
پکڑ کرقاضی کے پاس لے گیا۔ قاضی نے تیز ہوش سے کہا: ”اپنے گواہ لاؤ۔“
تیز ہوش
نے کہا: "میرا گواہ درخت ہے۔ آدمی اس وقت کوئی نہیں تھا۔ درخت سے چل کر پوچھ لیں
۔“ قاضی نے یہ تجویز منظور کر لی۔ اب تیز ہوش اپنے باپ کے پاس گیا ۔ اسے ساری بات بتائی
اور کہا: " درخت اندر سے کھوکھلا ہے ۔ آپ رات کو اس کی کھکھل میں جا بیٹھیں ۔
جب صبح کو قاضی آکر پوچھے تو اندر سے جواب دیں کہ تھیلی خرم دل نے نکالی ہے۔
باپ نے
سمجھایا کہ بیٹے جھوٹ اور فریب سے باز آ ، مگر بیٹا کہاں باز آتا تھا۔ باپ نے بیٹے
کی محبت سے مجبور ہو کر وہی کیا جو بیٹے نے کہا تھا۔ قاضی نے صبح ہی صبح آکر درخت سے
پوچھا: "اے درخت ابتا، اشرفیوں کی تھیلی کس نے یہاں سے نکالی ہے ۔“
درخت سے
آواز آئی: ” خرم دل نے ۔“
قاضی تھا
سیانا آدمی ۔ آخر روز مقدمے سنتا تھا۔ ایسی باتیں خوب سمجھتا تھا۔ سو وہ سمجھ گیا کہ
اس میں کوئی چکر ہے ۔ درخت خود نہیں بولا ہے ، اندر کوئی ہے ۔ اس نے حکم دیا کہ درخت
کے نیچے ایندھن رکھ کر اس میں آگ لگا دو ۔ جب درخت میں آگ لگی تو اندر سے بوڑھا باپ
چلایا۔
دہائی دی
کہ درخت کے اندر میں ہوں ۔ لوگوں نے آگ بجھائی کھکھل سے بوڑھے کو نکالا ۔ وہ بے چارہ
بُری طرح جھلس گیا ۔ اس نےبتایا کہ میں تیز ہوش کا باپ ہوں ۔ پھر تیز ہوش کی ساری چالا
کی لوگوں کو بتادی۔ اصلی بات بتا کو وہ بوڑھا دنیا سے سدھارا۔ تیز ہوش رسوا ہوا۔ خرم
دل بری ہو گیا ۔ کلیلہ نے یہ کہانی سن کر کہا : " میرے دوست! فریب کرنے والوں
کا فریب چھپا نہیں رہتا۔ فریب کھل جاتا ہے اور پھر فریبی کا انجام بُرا ہوتا ہے ۔ دمنہ
نے پہلے تو اپنی صفائی میں باتیں کیں ۔ پھر کہنے لگا : " اچھا میں شیر کی نوکری
چھوڑتا ہوں ۔ تیری صحبت میں آ بیٹھوں گا ۔ کسی کے ساتھ کوئی مکر نہیں کروں گا ۔“
کلیلہ نے
کہا: تو بہ تو بہ میں تو تجھے اب کبھی اپنے ساتھ نہیں بٹھاؤں گا ۔ میرا حال بھی وہی
ہو گا جو یہباغبان کا ہوا تھا۔“
دمنہ نے
پوچھا : ” وہ باغبان کون تھا۔ اس کا کیا حال ہوا تھا ؟ کلیلہ نے جواب میں اسے باغبان
کی کہانی سنائی۔
نادان کی
دوستی جی کا جنجال
ایک تھا
با غبان ۔ باغ کی رکھوالی کرتا تھا اور خوش رہتا تھا ۔ اس کی ایک ریچھ سے دوستی ہوگئی
۔
دونوں ایک
دوسرے پر اپنی جانثار کرتے تھے۔
ایک دفعہ
کی بات ہے کہ گرمی کے دن تھے ۔ دو پہر کا وقت ۔ باغبان کام سے تھک گیا تو ایک پیٹر
کے سائے میں پڑ کر سو رہا تھا۔ پر مکھیاں اسے ستانے لگیں ۔ ریچھ نے سوچا کہ یہ مکھیاں
میرے دوست کے آرام میں خلل ڈال رہی ہیں۔ وہ باغبان کے سرہانے بیٹھ گیا اور مکھیاں اُڑانے
لگا۔ مگر مکھیاں بہت تھیں ۔ اس کے اُڑانے سے اُڑ نہیں رہی تھیں ۔ ریچھ نے سوچا کہ ان
سب مکھیوں کو ایک دفعہ ختم کر دیا جائے ۔ باغبان کے منھ پر بہت سی مکھیاں آ بیٹھی تھیں
۔ اس نے ایک پتھر اٹھایااور زور سے باغبان کے منھ پر مارا ۔ مکھیاں تو نہ مریں ، باغبان
بے چارہ مر گیا۔
دمنہ یہ کہانی سن کر بولا : ” یہ تو نادان کی دوستی
کی مثال ہے۔ اے کلیلہ ! کیا تو مجھے نادان سمجھتا ہے۔" کلیلہ نے کہا: ”ویسے تو
تو نادان نہیں۔ لیکن خود غرضی نے تیری عقل پر پردہ ڈال دیا ہے۔ خود غرضی کے چکر میں
تو ایسی بات کرتا ہے جو بے وقوفی کی بات ہوتی ہے ۔ تو اس دوست کی طرح ہے جس نے سوداگر
کو دھوکا دیا اور کہا کہ تیرا سو من لوہا چوہا کھا گیا ۔
دمنہ نےپوچھا
: ” وہ دوست کون تھا ، جس نے سوداگر سے ایسی بے وقوفی کی بات کہی ۔“ اس پر دمنہ نے
اسے اس دوست کی کہانی سنائی ۔
نہلے پہ دہلا
ایک سوداگر تھا۔ اس کے گھر میں سومن لوہا جمع تھا۔
مال بیچنے کے لیے وہ سفر پہ جانے لگا تو اس نے اپنے دوست سے کہا کہ میرا سو من لوہا
اپنے گھر رکھ لے ۔ واپس آکر لے لوں گا۔ وہ سومن لوہا دوست کے گھر ڈال کر سود اگر سفر
پر چلا گیا۔ بہت دنوں بعد جب وہ واپس آیا تو دوست کے پاس گیا اور اپنا لوہا مانگا۔
دوست کی
نیت اتنا بہت سالو ہا دیکھ کر بگڑ گئی تھی۔ اس نے بہانا بنایا اور کہا کہ بھائی ! میں
نے تمھارا لوہا اپنی کو ٹھری میں رکھا تھا۔ وہاں تھا ایک چوہا۔ وہ کم بخت سارے لوہے
کو کتر کتر کر کھا گیا ۔ سوداگر نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا۔ بھلا ایسی حماقت
کی بات پر وہ اعتبار کر لیتا، مگر اس نے ظاہر یہی کیا کہ جیسے اسے اس بات پر یقین آ
گیا ہے ۔ بولا : ” ہاں چوہے کے دانت بہت تیز ہوتے ہیں ۔ لوہے کو کتر کر برادہ بنا دیتا
ہے اور پھر کھا لیتا ہے۔“ دوست سمجھا کہ اس کی چال کام یاب رہی۔ اس خوشی میں اس نے
سوداگر کی دعوت کر ڈالی۔ سوداگر نے کہا کہ اچھا کل تمھارے گھر آؤں گا اور دعوت کھاؤں
گا ۔“
سوداگر
نے کیا کیا کہ دوست کے چھوٹے بیٹے کو غائب کر دیا ۔ دوسرے دن جب وہ دوست کے گھر پہنچا
تو دیکھا کہ وہ بہت پریشان ہے ۔ پوچھا : ”اے دوست! تو اتنا پریشان کیوں ہے؟ دوست نے
کہا: کیا بتاؤں، میرا چھوٹا بیٹا کل سے غائب ہے۔ بہت ڈھونڈا کہیں اس کا سراغ نہ ملا۔“ سوداگر نے کہا : " ارے ہاں، جب میں
کل تیرے گھر سے نکل رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک چوہا ایک ننھے بچے کو دانتوں میں
دبائے لیے جا رہا تھا۔“
دوست بولا:
'یار! تو بہت بے وقوف ہے ۔ کہیں چوہا آدمی کے بچے کو دانتوں میں دباسکتا ہے۔“ سوداگر
بولا: 'چوہا اگر سومن لو ہا چبا سکتا ہے تو کیا ایک بچے کو دانتوں میں نہیں دبا سکتا۔“
اس پر دوست بہت جھینپا۔ اس نے سوداگر کا سومن لوہا واپس کر دیا۔ سوداگر نے اس کا بیٹا
واپس کر دیا۔
ادھر کلیلہ۔
دمنہ میں یہ باتیں ہو رہی تھیں ۔ ادھر شیر نے بیل کا کام تمام کر دیا۔
جب شیر
کا غصہ اُتر گیا تو اسے خیال آیا کہ یہ اس نے کیا کیا۔ اب اسے بھورے کی اچھی اچھی باتیں
یاد آنے لگیں ۔ سوچنے لگا کہ کتنا وفادار تھا وہ کیسی عقل مندی کی باتیں کرتا تھا۔
کتنے اچھے
مشورے دیتا تھا ۔ شیر کو جب یہ باتیں یاد آئیں تو وہ اپنے کیے پر پچھتایا ۔ ہر وقت
بھورے کو یاد کرتا اور افسردہ رہتا۔
دمنہ نے
شیر کی جب یہ حالت دیکھی تو اس کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ بہت چاپلوسی کی ۔ سمجھایا کہ
کبھی کبھی یار غار بھی جان کے دشمن بن جاتے ہیں اور ایسے یار پر رحم نہیں کرنا چاہیے
جو دشمن بن جائے ۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ بھورے کا کام تمام کر دیا ۔ شیر نے دمنہ کی یہ باتیں سنیں ، مگر اس کے دل کو
تسلی نہیں ہوئی ۔ بلکہ اسے دمنہ پر شک ہونے لگا۔ دل میں سوچتا کہ کہیں دمنہ نے مجھے
اس کے بارے میں غلط خبر یں تو نہیں دی ہیں ۔
شیر کے وزیروں میں ایک چیتا تھا، جو بہت عقل مند
تھا۔ اس نے ایک دن موقع پا کر شیر سے کہا: "حضور! میں یہ دیکھتا ہوں کہ بھورے
کا غم آپ کو کھائے جا رہا ہے ۔ اب آپ ملک کے کاموں پہ توجہ نہیں دیتے ۔ بھورا تو وہاں
پہنچ گیا، جہاں سے آپ اسے واپس نہیں لا سکتے ، لیکن کہیں یہ نہ ہو کہ جو جانور آپ کے
قابو میں ہیں ، وہ اس چکر میں آپ کے قابو سے نکل جائیں پھر تو آپ کا
حال اس
لومڑی کا سا ہو جائے گا جو مرغے کے چکر میں کھال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ۔"
شیر نے
پوچھا : ” وہ کون لومڑی تھی ۔ اس کے ساتھ ایسا کیسے ہوا ؟
چیتے نے
شیر کو اس لومڑی کی کہانی سنائی۔
نو نقد نہ تیرہ اُدھار
ایک بھو
کی لومڑی کھانے کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی تھی۔ ایک طرف سے گوشت کی بو آئی ۔ لپک کر
اس طرف گئی ۔ دیکھا کہ کوئی جانور شکار مار کر ہڈی بوٹی سب کھا گیا ہے۔ خالی کھال چھوڑ
گیا ہے۔ لومڑی نے دل میں کہا کہ اس وقت میں بہت بھوکی ہوں۔ اس بھوک میں یہ کھال بھی
غنیمت ہے۔ اس میں سے کچھ تو نکلے گا اور پیٹ میں کچھ تو جائے گا۔ یہ سوچ کر اس نے کھال
کو منھ میں دابا اور چلی اپنے گھر کی طرف ۔
راستے
میں لومڑی کو دور درخت کے نیچے ایک مرغا دانہ چگتا نظر آیا ۔ دل میں کہا کہ یہ مرغا
موٹا شکار ہے ۔ بس کھال کو وہیں چھوڑا اور چلی مرغے کی طرف۔ جب وہ مرغ کی طرف جارہی
تھی تو ایک گیدڑ سے مڈھ بھیڑ ہو گئی ۔ گیدڑ نے پوچھا : ” اے بوا لومڑی ! کدھر کا رخ
ہے۔"
لومڑی بولی
: ” بہت بھوکی ہوں۔ بہت تلاش کے بعد ایک کھال ملی تھی ، مگر اس میں سے کتنا گوشت نکلے
گا۔ سوچ رہی ہوں کہ وہ مرغا جو درخت کے نیچے دانہ چگ رہا ہے ، میرے ہتھے چڑھ جائے تو پیٹ بھر کھانا کھاؤں گی۔"
گیدڑ بولا : " بوا! میرا مشورہ یہ ہے کہ کھال پر قناعت کو ۔ جس مرغ پر تمھارے
دانت ہیں اس کا رکھوالا بہت چوکنا ہے۔ یہ نہ
ہو کہ اس کھال سے بھی جاؤ ۔ پھر تمھاری مثال اس گدھے کی سی ہو جائے گی جو دم کی تلاش
میں اپنے کان بھی کھو بیٹھا۔“
لومڑی نے
پوچھا: ” اس گدھے کا قصہ کیسے ہے؟“
گیدڑ نے
اس گدھے کا قصہ اس طرح سنایا ۔
دم کے چکر میں کان غائب
ایک تھا
گدھا اس کی دم نہیں تھیں ۔ دل میں کہا کہ گدھے کے لیے یہ بڑے شرم کی بات ہے کہ اس کی دُم نہ ہو ۔ مجھے کہیں نہ کہیں سے اپنے لیے دم
حاصل کرنا چاہیے ۔ گدھا دم کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا۔ ایک کھیت رستے میں پڑا۔
اسے روندتا ہوا چلا جارہا تھا کہ کھیت کے رکھوالے نے دیکھ لیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ
، گدھے کو پکڑا اور چھری سے اس کے کان کاٹ ڈالے۔
بے چارہ
گدھا دُم کی تلاش میں نکلا تھا۔ دُم تو اسے نہ ملی ۔ اس کے چکر میں کان بھی کھو بیٹھا۔
لومڑی نے یہ کہانی سنی ان سنی کی اور مرغے کی طرف دوڑی ۔ مرغے کی دیکھ بھال ایک لڑکا
کر رہا تھا۔ اس نے لومڑی کو مرغ پر لپکتے دیکھا تو ڈنڈا پھینک کر مارا۔ ڈنڈا لومڑی
کی ٹانگ میں لگا اورٹانگ ٹوٹ گئی ۔
لومڑی لنگڑاتی
ہوئی واپس ہوئی ۔ سوچا کہ اب کھال ہی پر قناعت کرنی چاہیے، مگر ادھر چیل تاک میں تھی
۔ لومڑی کو غافل پا کر ایک جھپٹا مارا اور کھال چونچ میں دبا کر اڑ گئی ۔ بے چاری لومڑی
منہ تکتے رہ گئی ۔ مرغے کے چکر میں ٹانگ بھی تڑوا بیٹھی اور کھال بھی کھو بیٹھی ۔
شیر یہ کہانی سن کر بولا : " اے چیتے ! کام
کی بات سنائی ہے ۔ عقل مندی کی بات تو یہ ہی ہے کہ ہاتھ سے جو نکل گیا ہے، اس کے لیے
اب ہاتھ نہ ملوں ۔ جو یار وفادار میرے ساتھ ہیں ان کی دیکھ بھال کروں نہیں تو وہ بھی
میرے ہاتھ سے نکل جائیں گے، مگر کیا کروں مجھے بار بار یہ خیال آتا ہے کہ بھورے کے
بارے میں مجھ سے خطا ہوئی۔ میں کانوں کا کچا نکلا۔ اس کے خلاف جس نے جو کہا اس پر اعتبار
کر لیا ۔ چھان بین نہ کی کہ اس پر جو الزام لگائے گئے ہیں وہ درست بھی ہیں یا نہیں
۔“
چیتا بولا:
'اگر یہ بات ہے تو اب چھان بین کر لیجیے۔“ شیر بولا : ” اب کیا چھان بین کروں ۔“
چیتا بولا
: ” بادشاہ سلامت ! اپنے کسی اعتبار والے جانور کوحکم دیجیے کہ وہ اس معاملے کی پوری
طرح چھان بین کرے۔ اگر بھورے نے واقعی بغاوت کی ٹھانی تھی تو اچھا ہوا کہ اس کا کام
تمام ہو گیا، لیکن اگر یہ پتا چلے کہ کسی چال باز نے جھوٹ موٹ اس پر تہمت لگائی تھی
تو پھر اس کو سزا دیجیے۔“
شیر کو
یہ تجویز پسند آئی ۔ کہا کہ اے چیتے ! تو میرا اوزیر ہے۔ تجھ سے زیادہ میں کس پر اعتبار
کروں گا۔ میں تجھے اس معاملے کی چھان بین کے لیے مقرر کرتا ہوں ۔“
چیتے نے
ادب سے سر جھکایا اور کہا: ”میں چھان بین کر کے اصلی بات کا پتا لگاؤں گا ۔ پھر آپ
کی خد مت میں عرض کروں گا ۔
چیتا یہ
کہ کر شیر کے دربار سے رخصت ہو گیا۔ چلا کلیلہ دمنہ کے گھر کی طرف ۔ اصل میں چیتے کو
بھی دمنہ پر شک تھا۔ کلیلہ دمنہ کے گھر کے قریب جا کر وہ کونے میں چھپ گیا۔ اس وقت
کلیلہ دمنہ باتیں کر رہے تھے ۔ چیتا کونے میں چھپ کر ان کی باتیں سننے لگا۔ کلیلہ کہہ
رہا تھا : 'یار! تو ذرا سوچ، اگر جنگل کے جانوروں کو تیری چغل خوری کا پتا چل جائے
تو یہ بات وہ شیر سے جا کر کہیں گے ۔ پھر تیرا
کیا حال ہو گا ۔“
دمنہ بولا:
'ہاں اس وقت تو مجھ پر بھوت سوار تھا۔ سوچتا تھا کہ اگر شیر کے ہاتھوں بھورے کا کام
تمام ہو جائے تو پھر میں اس کی جگہ لے لوں گا۔ سو میں نے اس کی چغلی کھائی مگر اب اپنے
کیے پر پچھتا رہا ہوں۔ اس وقت میں بہت پریشان
ہوں۔ تجھ جیسے دوست سے ہمدردی کی توقع رکھتا اس پر راز کھولے ہوں ، مگر تو مجھے طعنے دیے جا رہا ہے۔"
چیتے نے یہ ساری بات سن لی ۔ اب اسے بھید تو پتا چل گیا، لیکن اس نے سوچا کہ ابھی شیر
سے نہیں کہنا چاہیے۔ وہ یقین نہیں کرے گا
۔ اگر اس نے ثبوت مانگا تو میں کیا ثبوت پیش کروں گا۔ چیتا شیر کی ماں کے پاس پہنچ
گیا۔ کہا: ” بڑی اماں ! ایک راز کی بات ہے۔ اگر کسی کو نہ بتاؤ تو میں آپ کو بتاتا
ہوں ۔“ شیر کی ماں نے وعدہ کیا کہ وہ کسی سے نہیں کہے گی ۔ تب چیتے نے کلیلہ دمنہ کی
بات چیت اسے سنائی۔ شیر کی ماں نے یہ بات دل
میں رکھی اور بیٹے کے پاس گئی۔
شیر کی
ماں نے دیکھا کہ بیٹا بہت پریشان ہے۔ پوچھا: ” بیٹا ! آج کل تم چپ چپ رہتے ہو۔
آخر بات
کیا ہے۔“
شیر نے کہا : " اماں جان! مجھے یہ غم کھائے
جاتا ہے کہ میں نے دوسروں کے کہنے میں آ کر اپنے ایک وفادار کو مار ڈالا ۔ جتنا سوچتا
ہوں اتنا ہی مجھے پچھتاوا ہوتا ہے۔ کم از کم پہلے پوچھ گچھ تو کر لیتا۔ دوسروں نے میرے
کان بھرے اور میں بھر گیا ۔“
شیر کی
ماں بولی : ” بیٹے ! میں نے اس سلسلے میں ایک بات سنی ہے، مگر کہہ نہیں سکتی۔ کہنے
والے نے مجھ سے قسم لی ہے کہ میں یہ راز کسی سے نہ کہوں گی ۔“
شیر یہ
بات سن کر بے چین ہوا ۔ ماں سے ضد کرنے لگا اور راز اُگلوانے کی کوشش کرنے لگا۔ تو
شیر کی ماں نے کہا: ”میرے لال ! کسی نے اگر مجھ پہ بھروسا کر کے راز کی بات کہی ہے
تو وہ مجھے کسی سے نہیں کہنی چاہیے۔ جو ایسا کرتا ہے اس کا انجام وہی ہوتا
ہے۔ جیسے بادشاہ کے درباری کا ہوا۔“
شیر نے
پوچھا: ” اماں جان ! بادشاہ اور درباری کا کیا قصہ ہے۔“
اس پر شیر
کی ماں نے اپنے شیر بیٹے کو راز کھولنے والے درباری کی کہانی سنائی۔
راز کھولنے
کا انجام بُرا ہے
ایک بادشاہ
تھا۔ اس کے درباریوں میں ایک درباری بہت خوشامدی ، بہت چاپلوس تھا ۔ بادشاہ کو آدمی
کی پہچان نہیں تھی ۔ جو اس کی زیادہ خوشامد کرتا اسے اپنا وفا دار سمجھنے لگتا۔ اس
لیے یہ درباری رفتہ رفتہ اس کی ناک کا بال بن گیا ۔
ایک دن
بادشاہ نے اس خوشامدی درباری کو اکیلے میں بلایا ۔ کہا: ” دیکھ سارے درباریوں میں ایک
تو ہے جس پر میں بھروسا کرتا ہوں ۔ ایک راز کی بات ہے اسے سن ، مگر کسی سے کہنا مت۔
میرا بھائی اس تاک میں ہے کہ مجھے مار کر خود تخت پر بیٹھ جائے ۔ میں بھی اس تاک میں
ہوں ۔ چاہتا ہوں کہ کسی طرح اس کا خاتمہ کر دوں پھر اطمینان سے راج کروں ۔ تو میرا
وفادار ہے۔ ذرا اس کی حرکتوں پر نگاہ رکھ ۔ اس کے کسی منصوبے کا پتا چلے تو مجھے آکر
بتا ۔ خوشامدی درباری نے قسمیں کھا ئیں کہ وہ یہ راز کسی پر ظاہر نہیں کرے گا اور بھائی
کوختم کرنے میں بادشاہ کی مدد کرے گا ، مگر دوسرے ہی دن وہ چھپ کر بادشاہ کے بھائی
کے پاس گیا اور بادشاہ کی بات اسے بتادی۔ بادشاہ کا بھائی چوکنا رہنے لگا۔ بادشاہ نے
کئی مرتبہ اسے مروانے کی کوشش کی ،مگر چوں کہ اسے بادشاہ کی نیت کا پتا تھا ، اس لیے
وہ اس کے جال میں نہیں پھنسا۔
تھوڑے دن
بعد ایسا ہوا کہ بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔ بادشاہ کا بھائی اس کی جگہ تخت پر بیٹھا۔
تخت پر بیٹھتے ہی اس نے خوشامدی درباری کے قتل کا حکم دیا۔ خوشامدی درباری نے فریاد
کی کہ حضور!میں نے آپ کے ساتھ نیکی کی ۔ آپ اس کا مجھے یہ بدلہ دے رہے ہیں ۔“ بادشاہ
کے بھائی نے ، جو اب خود بادشاہ تھا کہا: " تجھ پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ میرے
بھائی نے تجھے اپنا راز دار بنایا، مگر تو
نے اس کا راز مجھ سے آکر کہہ دیا، حال آنکہ تُو نمک اس کا کھاتا تھا۔ جو بندہ راز کو
پیٹ میں نہ رکھے اور دوست سے دغا کرے اسے مروا دینے ہی میں خیریت ہے۔“
شیر کہانی
سن کر ماں کی بات کا قائل ہو گیا۔ کچھ سوچ کر بولا : ” اماں جان! ٹھیک ہے آپ راز مت
کھو لیے، لیکن اشارہ کر کے مجھے کچھ تو سمجھائیے ۔“ شیر کی ماں نے کہا: "میرے
بیٹے ! میں تجھے نصیحت کرتی ہوں کہ جس کسی نے بھورے کے خلاف تیرے کان بھرے ہیں ، اگر
وہ جھوٹا ثابت ہو جائے تو اسے پوری سزا دینا۔ ایسے مکاروں کو معاف نہیں کرنا چاہیے
اور مجھے تو یہ دمنہ کی مکاری نظر آتی ہے۔" شیر نے کہا: ” اماں جان! آپ نے میرے
دل کی بات کہہ دی ۔ مجھے اسی پر شک ہے، لیکن دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر
پیتا ہے۔ اب میں بغیر چھان بین کیے کسی کو سزا نہیں دوں گا۔ دمنہ کے بارے میں جب پوری
چھان بین کروں گا ۔ اگر وہ مجرم نکلا تو ایسی سزا دوں گا کہ وہ یاد کرے گا۔“
شیر نے
فورا در بار کیا ۔ سب درباری طلب کیے گئے ۔ دمنہ بھی طلب کیا گیا۔ دمنہ نے درباریوں
کا ہجوم دیکھا اور شیر کے تیور دیکھے تو اس کا ماتھا ٹھنک گیا۔ ایک درباری سے چپکے
سے پوچھا: ” آخر بات کیا ہے ۔“ شیر کی ماں نے اس کی بات سن لی۔ بولی : " کم بخت
! بات تیری ہی ہے، تو نے جو مکر اور فریب کیے تھے ، وہ کھل گئے ۔ اب تو مرنے کے لیے
تیار ہو جا۔“ دمنہ تھا تو چالاک اتنی جلدی حوصلہ ہارنے والا تھوڑا ہی تھا۔ کہنے لگا
: " داناؤں نے صحیح کہا ہے کہ بادشاہ کے بہت قریب نہیں ہونا چاہیے ۔ دوسرے دشمن
بن جاتے ہیں ۔ حسد سے جھوٹے سچے الزام لگاتے ہیں ۔ پھر اس کا وہی حال ہوتا ہے جو زاہد
کا ہوا تھا۔“ شیر کی ماں نے پوچھا: ” زاہد کون تھا اس کا کیا حال ہوا تھا ؟“ دمنہ نے
اس پر شیر کی ماں کو زاہد کا قصہ سنایا۔
بادشاہوں کی دوستی میں خطرہ ہے
ایک زاہد تھا۔ بہت نیک بہت عبادت کرنے والا ۔ دنیا
کے قصوں سے غرض نہیں رکھتا تھا۔ الگ تھلگ اپنی
کٹیا میں بیٹھا رہتا اور عبادت کرتا رہتا تھا۔ بہت عقل مند تھا۔ ایک دفعہ بادشاہ اس
سے ملنے گیا ۔ کہا: اے نیک آدمی ! مجھے کچھ نصیحت کر ۔"
زاہد نے
کہا: ”اے بادشاہ! دنیا ئیں دو ہیں۔ ایک یہ ہماری تمھاری دنیا ۔ یہ دنیا چند روزہ ہے۔
آج مرے کل دوسرا دن ۔ دوسری دنیا ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ آدمی کو چاہیے کہ اس دنیا سے
زیادہ دل نہ لگائے ۔ وہ کام کرے جس سے وہ دوسری دنیا میں چین سے رہے۔
بادشاہ
نے پوچھا: ” اس دنیا میں آدمی کیا کرے کہ دوسرے دنیا میں اس کی زندگی چین سے گزرے۔“
زاہد نے
کہا: ”غریبوں کی مدد کرے، مظلوموں کی فریاد سنے ۔“ بادشاہ کو زاہد کی باتیں اچھی لگیں
۔ پھر تو وہ روز روز زاہد کے پاس جا کر اس کی باتیں سنتا۔ جو خطا ہوتی۔ نصیحت وہ کرتا
اس پر عمل کرتا۔ کوئی مشکل آپڑتی تو اس سے مشورہ لیتا ۔ پھر کبھی کبھار زاہد کو اپنے
یہاں بلا لیتا۔ رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ زاہد اس
کا خاص مشیر بن گیا۔ بادشاہ نے اس پر اتنا اعتبار کیا کہ آنے والی رعایا کے مقدمے وہی
سننے لگا۔ ایک دن کیا ہوا کہ زاہد کا ایک پرانا دوست جو ایک درویش ہی تھا۔ اس سے ملنے
آیا ۔ دیکھا کہ زاہد منصف بنا بیٹھا ہے ۔ خلقت
جمع ہے۔ وہ فریادیوں کی فریاد سن رہا ہے اور مقدموں کا فیصلہ کررہا ہے۔
درویش نے
کہا: اے زاہد تو یہ کن چکروں میں پڑ گیا ہے ۔ تو نے قلندری چھوڑی دی۔ بادشاہ کا مشیر
بن گیا۔“
زاہد پر
درویش کی بات کا اثر ہوا۔ اپنی گوشہ نشینی کے زمانے کو یا د کیا۔ سوچا کہ وہی دن اچھے
تھے۔ کوئی جھگڑ ا ہی نہیں تھا۔ عبادت کی اور آرام سے سور ہے ۔ اب تو سو قصے ہیں ۔ مقدموں
کی چیخ پکار ہے، مگر درویش کی بات کا اثر اس
پر رات ہی رات رہا۔ صبح جب ہوئی اور لوگ اپنا اپنا مقدمہ لے کر آئے تو وہ رات کی بات بھول گیا
اور پھر اسی دھندے میں پڑ گیا ۔ ایک مقدمے میں اس نے ملزم کو قتل کی سزا دی مگر اس
فیصلہ میں اس سے چوک ہوگئی ۔ملزم کے رشتے داروں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ زاہد نے ہمارے
عزیز کو غلط سزا دی ہے ۔ وہ بے قصور تھا۔ اسے مروا ڈالا ۔ انھوں نے اس کی بے گناہی
کے ثبوت پیش کیے ۔
بادشاہ کے درباری بھی ان فریادیوں سے مل گئے ۔ سب
نے مل کر طوفان کھڑا کیا کہ بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ زاہد کی نیت میں کھوٹ تھا۔ بس
اس نے زاہد کا سر اُڑ وادیا ۔
دمنہ یہ
کہانی سنا کر کہنے لگا کہ میں اپنے پروردگار کی بندگی چھوڑ کر آپ کا بندہ بن گیا۔ یہی
مجھ سے خطا ہوئی۔ اب آپ جو سزا دیں گے وہ مجھے منظور ہے۔
دمنہ نے
ایسے دکھی لہجے میں یہ باتیں کیں کہ شیر کا دل موم ہو گیا ، مگر شیر کی ماں ایسی باتوں
میں آنے والی نہیں تھی ۔ بولی : "اے دمنہ
! چکنی چپڑی باتیں مت کر ۔ اب یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ بھورا بے قصور تھا۔
تو نے اس پر تہمتیں تراش کرا سے مروا دیا ۔“
د منہ بولا
: "شیر نی اماں ! میری کیا مجال کہ آپ کے سامنے زبان کھولوں ، مگر اتنا ضرور کہوں
گا کہ میرے دشمنوں نے میرے لیے یہ جال بچھایا ہے۔ ایسی باتیں کر کے وہ مجھے مروانا
چاہتے ہیں ۔میں ان کی راہ میں کانٹا جو ہوں ۔ جو سچی بات ہوتی ہے وہ بادشاہ تک پہنچا
دیتا ہوں ۔“ شیر یہ سب کچھ سن رہا تھا اور چپ تھا۔ لگتا تھا کہ وہ دمنہ کی تقریر سے
متاثر ہو گیا ہے ۔ اس پر شیرنی کو بہت غصہ آیا۔ وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ شیر کو فصیلی نظروں
سے دیکھا کہا : " اچھا اب اس معاملے کی پوری تحقیق ہوگی ۔ عدالت کے سامنے مقدمہ
پیش ہوگا ۔ اس وقت تک دمنہ قید میں رہے گا۔"
شیر بادشاہ
نے یہ حکم دے کر دربار برخاست کیا۔اور خوشامد کر کے ماں کو منایا، مگر شیرنی ماں غصے
میں بھری ہوئی تھی کہنے لگی: " بیٹے ! مجھے لگتا ہے کہ دمنہ کی چکنی چپڑی باتیں
تجھ پر اثر کر گئی ہیں ۔ حال آنکہ جب دربار کے سب لوگ اس کے خلاف گواہی دے رہے ہیں
تو تجھے سمجھ لینا چاہیے کہ دمنہ نے چال سے بھورے کو مروایا ہے ۔
شیر بولا:
” اماں جان! در باری ہمیشہ ایک دوسرے سے حسد رکھتے ہیں ۔ مجھے شک ہے کہ کہیں در باری
دمنہ کی عقل مندی اور ہوشیاری کی وجہ سے تو دمنہ سے حسد نہیں کرنے لگے ہیں ۔ شیرنی
ماں بولی: '' کیا کوئی کسی سے اتنا حسد بھی کر سکتا ہے کہ اسے مروانے کی کوشش کرے۔“
شیر نے کہا: ” اماں جان! کیا خود آپ کا خیال نہیں ہے کہ دمنہ نے حسد کی وجہ سے بھورے
کو مروایا ہے ۔ حسد واقعی ایسی ہی چیز ہے۔ حسد وہ آگ ہے کہ جب بھڑکتی ہے تو ہر چیز
کو جلا ڈالتی ہے ۔ آپ نے شاید ان تین حاسدوں کی کہانی نہیں سنی ہے ۔
شیر کی
ماں نے پوچھا: ” وہ تین حاسد کون تھے اور ان کی کیا کہانی ہے؟“
تب شیر
نے ماں کو یہ کہانی سنائی۔
حسد بری
بلا ہے
تین آدمی
ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ رستے میں انھیں اشرفیوں کی ایک ہنڈیا ملی ۔ پہلے تو انھوں
نے یہ سوچا کہ آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں اور پھر خوب گل چھر سے اُڑائیں، لیکن
تینوں بڑ ے حاسد تھے۔ ہر ایک نے سوچا کہ اچھا ان دو کے پاس اتنی اشرفیاں ہوں گی ۔ یہ
سوچ کر تینوں کو ایک دوسرے سے جلن ہوئی ۔ تینوں میں سے ہر ایک نے یہ چاہا کہ مجھے اشرفیاں
مل جائیں، باقی کسی کو نہ ملیں ۔
نتیجہ یہ
ہوا کہ اشرفیوں کا بٹوارہ نہ ہو سکا۔ تینوں اپنی ہٹ پر قائم رہے ۔ اتفاق سے ادھر سے
بادشاہ کا گزر ہوا۔ اس نے تین آدمیوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا تو انھیں بلایا
اور لڑنے کی وجہ پوچھی ۔ ہر ایک نے یہی وجہ بتائی کہ میں چوں کہ بہت حسد کرتا ہوں اس لیے کسی دوسرے کو خوش نہیں دیکھ سکتا۔ میں کیسے
گوارا کر سکتا ہوں کہ میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس بھی اشرفیاں ہوں ۔
بادشاہ
نے کہا: ”اچھا حاسد تو تم تینوں ہو ، مگر یہ پتا چلنا چاہیے کہ زیادہ حسد کا مادہ کس
میں ہے۔
جس میں
حسد زیادہ ہو گا اسے یہ سب اشرفیاں دے دی جائیں گی۔ ایک بولا : ” میں حسد کے مارے کسی
پر احسان نہیں کرتا ۔ سوچتا ہوں کہ جس پر احسان کروں گا وہ خوش ہوگا ۔ کسی کی خوشی مجھے گوارہ نہیں ۔ “ دوسرا
بولا : ” مجھ میں حسد اس شخص سے کہیں زیادہ ہے۔ میں خود تو کسی پر احسان کرتا ہی نہیں
، مگر مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ کوئی دوسرا کسی پر احسان کرے۔“ تیسرا بولا: ' یہ دونوں
شخص حسد میں مجھ سے پیچھے ہیں ۔ مجھ میں تو اتنا حسد ہے کہ مجھے یہ بھی گوارا نہیں
کہ کوئی میرے ساتھ بھلائی کرے۔ میں تو اپنے آپ سے بھی حسد رکھتا ہوں ۔“ بادشاہ کو ان
کی باتیں سن کر غصہ آیا۔ بولا : ” جو شخص دوسرے کا بھلا نہیں چاہتا ، اس کا بھلا کیوں
ہو۔ تمھارے حسد کی سزا یہ ہے کہ ان اشرفیوں میں سے تمھیں کوڑی بھی نہیں ملے گی ۔“
جب بات
یہاں تک پہنچی تو شام ہو چکی تھی ۔ شیر کی ماں شیر سے رخصت ہو کر اپنے گھر آ گئی۔ دمنہ
اب قید خانے میں بند تھا۔ کلیلہ اس سے ملنے آیا ۔ قید خانے کے داروغہ کی خوشامد کر کے دمنہ سے ملنے کی اجازت پائی ۔ دمنہ کو قید
میں بُرے حال دیکھ کر کلیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ کہنے لگا : ” میرے دوست! میں
اسی لیے تجھے نصیحت کیا کرتا تھا کہ چال فریب سے باز آ۔ اس کام کا انجام بُرا ہوتا
ہے ۔
دمنہ یہ
سن کر رو پڑا۔ کہنے لگا: " تو صحیح مجھے نصیحت کرتا تھا ، مگر میری آنکھوں پر
پردے پڑے ہوئے تھے ۔ اگر میں تیری نصیحت مان لیتا اور مکرو فریب سے بھورے کو نہ مروا
تا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔“
کلیلہ افسوس
سے کہنے لگا: ” دمنہ اب مجھے تیری خیر نظر نہیں آتی۔" دمنہ نے کہا: ”ویسے تو کسی
کو یہ بات نہیں معلوم کہ میں نے چال بازی سے بھورے کو مروایا ہے۔ سب شک کرتے ہیں، ثبوت
کسی کے پاس نہیں ہے ۔ پر مجھے ڈر یہ ہے کہ چوں کہ تو میرا دوست ہے اس لیے تجھے عدالت
میں بلایا جائے گا اور تجھ سے پوچھ گچھ کی جائے گی اور میں یہ جانتا ہوں کہ تو نے زندگی
میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تو سچ سچ کہہ دے گا اور میں پھانسی پر چڑھ جاؤں گا ۔“ کلیلہ
نے کہا: یہ تو نے صحیح سوچا۔ میں نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا ۔ اب کیسے جھوٹ بولوں
گا۔ اے دمنہ! میری نصیحت اب یہ ہے کہ تو اپنے جرم کا اقرار کر لے۔ ویسے تو تو بچے گا
نہیں ۔ مرنا ہی ہے تو سچ بول کر مر اور کیا عجب ہے کہ تو اقرار کرے تو تجھے معافی مل
جائے ۔“ دمنہ سوچ میں پڑ گیا۔ اسے کوئی جواب بن نہ پڑا ۔ کہا : " اچھا سوچ کر
کل جواب دوں گا ۔“ کلیلہ سمجھ گیا کہ دمنہ اب بھی اس کی نصیحت نہیں مانے گا ۔ گھر جا
کر وہ بہت رویا۔ رات بھر دوست کے غم میں روتا رہا، تڑپتا رہا۔ اس کے دل پر اتنا اثر
ہوا کہ صبح ہوتے ہوتے اس کا دم نکل گیا۔ دوسرے دن صبح کو شیر کی ماں پھر شیر کے پاس
پہنچی۔ پوچھا: ” بتا تو نے دمنہ کے بارے میں کیا فیصلہ کیا۔"
شیر نے
فوراً اپنا دربار لگایا۔ جنھیں تحقیقات کے لیے مقرر کیا تھا انھیں بلایا اور کہا :
" اب دمنہ کا معاملہ جلدی طے کرنا چاہیے۔ اس کے خلاف یا حق میں جو بھی بُرا بھلا
ثابت ہوتا ہے ، وہ مجھے بتایا جائے ۔ پھر درباریوں سے کہا کہ بھائیو! تم میں سے جو
بات معلوم ہے وہ مجھے بتائے ۔ سب درباری چپ رہے۔ کوئی کچھ نہ بولا ۔ اصل میں سب کو
ہی گمان تھا ۔ دمنہ کے خلاف ثبوت کسی کے پاس نہیں تھا۔
جب دمنہ
نے دیکھا کہ سب درباری چپ ہیں تو دل میں خوش ہوا پھر منہ بنا کر بولا : ” اے اچھے درباریو! میں تمھیں قسم دیتا ہوں اگر میرے خلاف کوئی
بات تمھیں معلوم ہے تو وہ بتا وو، لیکن خدا کے لیے محض گمان کر کے کچھ مت کہنا ۔ جو
ایسا کرے گا اس کا حال وہی ہوگا جو نادان طبیب کا ہوا تھا۔“
درباریوں
نے پوچھا: ” وہ نادان طبیب کون تھا اور اس کا کیا حال ہوا تھا ؟"
گا۔ دمنہ
نے اس پر انھیں نا دان طبیب کی کہانی سنائی ۔
نیم حکیم خطرہ جاں
ایک شہر
میں ایک عقل مند طبیب تھا۔ اس ملک کے بادشاہ کا وہی علاج کرتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں
شفا تھی ۔ کیسا ہی مرض ہو ایک پڑیا کھلا کر مریض کو اچھا کر دیتا تھا، مگر بے چارہ
بڑھاپے میں اندھا ہو گیا۔
اسی شہر
میں ایک اور طبیب تھا، مگر بہت نالائق بہت نادان تھا۔ اب جو دانا طبیب اندھا ہوا تو
اس نادان طبیب کی بن آئی۔ اس نے بادشاہ تک بھی رسائی حاصل کر لی۔ بس پھر کیا تھا، چھوٹے
بڑے ، امیر غریب ، سب اس سے علاج کرانے لگے ۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ بادشاہ کی بیٹی بیمار
پڑی۔ لاکھ علاج ہوئے ، مگر وہ اچھی نہ ہوئی ۔ آخر بادشاہ نے اس دانا طبیب کو بلوایا۔
دانا طبیب نے شہزادی کی نبض دیکھ کر مرض کا حال معلوم کیا ۔ نسخے میں ایک خاص دو الکھی
۔ اس دوا کا نام تھا مہران ۔ بادشاہ نے پوچھا: ” یہ دوا کہاں ملے گی ۔“ کہا: ” میں
نے یہ دوا حضور کے شاہی دوا خانے میں دیکھی ہے ۔ ایک چاندی کی صندوقچی میں رکھی ہے
اور سونے کا تالا اس میں لگا ہے ، مگر افسوس کہ میں اندھا ہو چکا ہوں ۔ اس ڈبیا کو
تلاش نہیں کرسکتا۔
بادشاہ
فکر میں پڑ گیا کہ وہ دوا کیسے ڈھونڈی جائے ۔
نادان طبیب
کے کان میں بھی یہ بھنک پڑگئی ۔ بولا : ” حضور! اس دوا کا مجھے خوب پتا ہے۔ اندھے طبیب
نے مجھ ہی سے تو اس دوا کا نام سنا ہے ۔ آپ اجازت دیں تو میں شاہی دوا خانے سے نکال
کر پیش کروں ۔“ بادشاہ نے اجازت دی۔ نادان طبیب شاہی دوا خانے میں گیا۔ وہاں دیکھا
کہ چاندی کی کئی صندوقچیاں ہیں۔ ہر ایک میں سونے کا تالا پڑا ہے بہت سٹپٹا یا ،مگر
پھر اس نے ہمت کر کے ایک صندوئی اٹھالی۔ گمان کیا کہ ہر صندوقچی میں وہی دوا ہوگی
۔ تالا کھولا جو دو ا نکلی اسے جھٹ پٹ شہزادی کوکھلا دیا۔ وہ تھی زہر
۔ شہزادی اسے کھا کر مرگئی ۔
بادشاہ
نے بہت غم کیا۔ پھر اسے اس نادان طبیب پر غصہ آیا۔ کہا کہ باقی جو دوا ہے وہ اس طبیب
کو کھلا دو ۔
طبیب کو
وہ دوا کھلائی گئی ۔ دوا کھاتے ہی اس کا کام تمام ہو گیا۔ یہ کہانی سنا کر دمنہ نے
کہا: ” بھائیو! میں نے یہ کہانی تمھیں سنا دی ہے ۔ اب سمجھ لو کہ بے جانے بوجھے محض
گمان پر جو کام کیا جاتا ہے ، اس کا انجام کیا ہوتا ہے ۔“ دمنہ کی بات سن کر سب چپ
رہے۔ دمنہ بات بھی تو ایسے کرتا تھا کہ سننے والا لا جواب ہو جاتا تھا۔ تو پھر فیصلہ
ملتوی ہو گیا۔ پھر اسے واپس قید خانے میں بھیج دیا گیا۔
دمنہ نے
قید خانے میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ کلیلہ کا ایک دوست جس کا نام کا لو تھا ، جا رہا
ہے۔ اس نے کا لوکو پکارا۔ کالو پاس آیا۔ پوچھا: ” بھائی کا لو! کچھ کلیلہ کی بھی خیر
خبر ہے۔ کئی دن ہو گئے وہ میرے پاس نہیں آیا ۔
کالو نے
ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا: "اے دمنہ ! ہمارا تمھارا پیارا دوست اس دنیا سے سدھار
گیا ۔"
دمنہ پر
تو جیسے بجلی گر پڑی ۔ سکتہ میں آ گیا ۔ پھر خوب رویا۔ کالو نے اسے سمجھایا: ” بھائی
! اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے۔ موت سب کے لیے ہے ۔ جو دنیا میں آیا ہے وہ کسی نہ کسی
روز دنیا سے جائے گا بھی ۔
دمنہ چپ
ہوا، مگر دیر تک ٹھنڈی سانس بھرتا رہا۔ پھر کہنے لگا: ” دنیا میں میرا ایک ہی دوست
تھا۔ وہ گزر گیا۔ اب میں دنیا میں اکیلا ہوں ۔ ایسا اچھا دوست اب مجھے کہاں ملے گا
۔ کا لو بولا : تو سچ کہتا ہے ۔ کلیلہ کا تو جواب نہیں تھا۔ ایسا نیک ایسا ایمان دار،
ایسا عقل مند دوست جو دوستوں کے دکھ درد میں کام آتا تھا، کہاں مل سکتا ہے ، مگر اب
کلیلہ تو دنیا میں نہیں ہے۔ بس اس کے دو دوست باقی ہیں۔ ایک تو ایک میں ۔ آؤ ہم مل
کر اس کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔“
دمنہ اس
بات پر خوش ہوا۔ کہا : " بڑی اچھی تجویز ہے ۔ آؤ ہم تم دوست بن جائیں ۔“ بس جھٹ
پٹ وہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے ۔ دمنہ نے کہا: ”فلاں فلاں جگہ میرا اور کلیلہ کا مال
دبا ہے تو وہ مال نکال لا۔“
کالو دمنہ
کے بتائے ہوئے پتے پر گیا اور مال کھود کر نکال لایا ۔ دمنہ نے اس کے دو حصے کیے۔ ایک
حصہ اپنے پاس رکھا ۔ دوسرا حصہ کا لوکو دیا۔ کہا: "کلیلہ کے حصے کا مال میں نے
تجھے دیا۔ اب تو اگر میرا دوست بنا ہے تو دوست بن کر دکھا۔ ہمیشہ شیر بادشاہ کی بارگاہ
میں حاضر رہا کر ۔ میرے متعلق جو بات بھی ہو ، وہ غور سے سن لیا کر اور مجھے آ کر بتا
دیا کر۔
اس روز
سے کا لوروزانہ شیر کے دربار میں جانے لگا اور پل پل کی خبر دمنہ کو دینے لگا۔ ادھر
حالت یہ تھی کہ شیر کی ماں شیر پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ دمنہ کا جلدی قلع قمع کر دے
۔ شیر تحقیقات کرنے والوں پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ معاملہ کی جلدی تحقیق کرو ۔ بغیر
تحقیقات کے وہ دمنہ کو سزا دینے پر آمادہ نہ تھا۔
تحقیقات
کرنے والے اور شیر کے دربار کے کچھ بزرگ اکھٹے ہوئے ۔ پھر انھوں نے دمنہ کو بلوایا
۔ دوسپاہی گئے اور دمنہ کو پکڑ کر پنچایت میں پیش کیا ۔
ایک بزرگ
نے کہا: ” دیکھ بیٹا ! بہت دن ہو گئے ۔ تیرا معاملہ بیچ میں لٹکا ہوا ہے ۔ تو بھی تکلیف
میں ہے اور ہمارا بادشاہ بھی فکر مند ہے۔ باقی ہم سب بھی پریشان ہیں ۔ میں تجھے ایک
نصیحت کرتا ہوں ۔ غور سے سن ۔ تو نے بھورے کے خلاف جو کارستانی کی تھی وہ تو ہم سب
پر ظاہر ہو چکی ہے۔ بچے بچے کی زبان پر اب یہی ہے کہ تو نے بھورے کے خلاف چال چلی
۔ بادشاہ کے کان بھرے۔ تیرے بہکائے میں آکر اس نے بھورے کو پھاڑ کھایا ۔ اب تو برادری
میں بدنام ہو چکا ہے۔ ایسی بدنامی کی زندگی
سے موت اچھی ہے ۔ اگر تو اپنے جرم کا اقرار کر لے تو لوگ تیری تعریف کریں گے ۔ پھر شاید ان کے دل میں تیرے
لیے ہمدردی بھی پیدا ہو جائے اور کیا عجب ہے
کہ بادشاہ بھی اس اقرار کے بعدتجھے تھوڑی بہت سزا دے کر درگزر کرے، لیکن اگر تو نے
اقرار نہ کیا تو تو اسی قید خانے میں پڑا سڑتا رہے گا اور دنیا تجھ پرتھوتھو کرے گی
۔“
دمنہ نے
غور سے بزرگ کی یہ تقریر سنی ۔ تھا تو وہ بہت کا ئیاں سمجھ گیا کہ اس طریقہ سے یہ لوگ
مجھ سے راز اُگلوانا چاہتے ہیں۔ دل میں کہنے لگا کہ میں بھی ایسی کچی گولیاں کھیلا
ہوا نہیں ہوں کہ ان کی باتوں میں آجاؤں ۔ بولا : " اے بزرگ! تیری میٹھی تقریر
میں نے سنی ۔ اپنی نصیحت کو اپنے پاس رکھ ۔ میں کہتا ہوں کہ سب کو گمان ہی گمان ہے
۔ میرے خلاف ثبوت کسی کے پاس نہیں ۔ ہوتا تو اب تک پیش کر دیا جاتا۔ تو یہ چاہتا ہے
کہ دوسرے کے شک کو میں یقین سے بدل دوں ۔ اگر میں ایسا کروں تو مجھ سے زیادہ احمق کون
ہوگا ۔“
دمنہ کا
یہ جواب سن کر وہ سب کے سب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ انھوں نے شیر سے جا کر کہا کہ
ہم نے آخری کوشش کی تھی کہ وہ اپنے جرم کا اعتراف کر لے ، مگر اس نے ہمیں ٹکا سا جواب
دے دیا ۔ شیر نے اپنی ماں سے کہا : " اماں جان! دمنہ تو کسی طرح قابو میں نہیں
آتا اور اپنے جرم کو نہیں مانتا ۔ اب بتائیے میں کیا کروں ۔“
شیر کی
ماں نے کہا: ” بیٹا! میں تجھے سمجھا سمجھا کر تھک گئی ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ دمنہ بہت
زیادہ شریر ہے ۔ وہ کسی وقت تیرے خلاف مکر کا جال بچھائے گا۔ پھر تجھے میری بات یاد
آئے گی ۔‘ شیر بولا : ” اماں جان ! بتائیے میں آخر کروں کیا ۔“
شیر کی
ماں برہم ہو کر بولی : ” میں تجھے بتا چکی ہوں کہ اس دمنہ نے چال بازی سے بھورے کو
مروایا ہے ۔ جس نے مجھ سے یہ بات کہی ہے اس نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ مجھے تو اس کا یقین
ہو چکا ہے، مگر تجھے میری بات پر اعتبار نہیں ۔“
شیر بولا: '' اے میری ماں ! تو مجھے اس کا نام کیوں
نہیں بتا دیتی ، جس نے یہ بات کہی ہے ۔ اگر اس کا نام معلوم ہو جائے تو یہ گتھی جلدی
سے سلجھ جائے گی ۔“
شیر نی ماں بولی : " جس نے مجھے یہ بات بتائی
اس نے مجھے قسم دلائی ہے کہ کسی سے مت کہنا اگر میں اس کا نام بتادوں اور جو قصہ اس
نے سنایا ہے، وہ تجھے سنادوں تو قسم ٹوٹ جائے گی ۔ پھر کون مجھ پر اعتبار کرے گا ۔
ہاں میں اس سے جا کر پوچھتی ہوں ۔ اگر اس نے اجازت دے دی تو میں تجھے پوری بات بتا
دوں گی ۔“ یہ کہ کر شیرنی ماں وہاں سے اٹھی اور گھر گئی۔ ایک نوکر کو بھیج کر چیتے
کو بلوایا۔ شیر نی ماں نے کہا: "اے چیتے امیرابیٹا تجھ پر تنامہر بان ہے، مگر
میں یہ دیکھ رہی ہوں کہ تو اس کی خدمت سے کتراتا ہے۔"
چیتے نے
ہاتھ جوڑ کر کہا : ” بڑی اماں! میں جانتا اور مانتا ہوں کہ شیر بادشاہ مجھ پر بہت مہربان
ہے۔ مگر میں نے اس کی خدمت میں کب کمی کی ہے۔
شیرنی ماں
نے کہا: ''شیر نے اپنے دل کی بات مجھ سے کہی تھی اور تیرے ذمے یہ کام کیا تھا۔ دمنہ
کے بارے میں چھان بین کر کے مجھے بتا۔تو نے چھان بین کی ۔ اصلی بات کا بھی تجھے پتا
چل گیا ، مگر تو اس بات کو چھپائے بیٹھا ہے۔ کیا تیرا یہ فرض نہیں ہے کہ جو تجھے معلوم
ہوا ہے ، وہ بادشاہ کو جا کر بتائے۔"
چیتے نے
کہا: ” بڑی ماں ! میں نے شیر کو یہ بات اب تک یہ سوچ کر نہیں بتائی تھی کہ مجھ پر بھی
اسے وہی شک نہ ہو جو دمنہ پر ہے۔ کہیں اسے یہ گمان نہ ہو کہ میں لگائی بجھائی کر کے
دمنہ کو مروانا چاہتا ہوں۔“ شیر نی ماں نے کہا: '' اس وقت سے اب تک بہت سی باتیں سامنے
آچکی ہیں ۔ شیر کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ دمنہ نے اس کے ساتھ فریب کیا اور اس کے ہاتھوں
بھورے کو مروایا ، مگر جب تک پکی گواہی نہیں آئے گی وہ دمنہ کو سزا نہیں دے گا اور
میں یہ ڈر رہی ہوں کہ اگر دمنہ بچ نکلا تو وہ فریب کا ایسا جال بچھائے گا کہ شیر بھی
اس میں لپٹے گا اور اس کے سب وفادار بھی پھنسیں گے۔ اگر تو شیر کا وفادار ہے اور اپنی
اور سب کی خیر چاہتا ہے تو اب تو شیر کے سامنے پیش ہو جا اور گواہی پیش کر دے۔ چیتے
نے بھی سوچا کہ اب واقعی وہ وقت آگیا ہے کہ شیر کے سامنے پیش ہو کر کچا چٹھا بیان کر
دیا جائے ۔ بس وہ سیدھا شیر کے دربار میں پہنچا اور کہا کہ مجھے جو کچھ معلوم ہوا ہے،
وہ بتانا چاہتا ہوں ۔ مناسب ہو کہ دمنہ کو بھی بلوالیا جائے ۔
فوراً دمنہ
کو بلوایا گیا۔ باقی سب جانور بھی اکھٹے ہو گئے ۔ تب چیتے نے بیان کیا کہ کلیلہ دمنہ
جب باتیں کر رہے تھے تو وہ دیوار کے پیچھے کان لگائے کھڑا تھا۔ جو کچھ اس نے سنا تھا
وہ بیان کیا ۔
دمنہ کا
منہ فق پڑ گیا ۔ سب درباری بھی سناٹے میں آگئے ۔
اب سب دمنہ
کی طرف دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب وہ کیا کہتا ہے ۔ اتنے میں ایک خرگوش اُٹھا۔
بولا
:" میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔"
شیر نے
کہا: '' تم بھی کہو کیا کہنا چاہتے ہو ۔“
اس نے کہا
: "حضور! میں آپ کا سزا یافتہ ہوں ۔ قید بھگت کر آرہا ہوں ۔ مجھے اسی قید خانے
میں رہنا پڑا ، جس میں دمنہ قید ہے ۔ جس رات کلیلہ نے آ کر دمنہ سے آخری ملاقات کی میں قریب ہی تھا۔ دونوں سمجھ
رہے تھے کہ میں سو گیا ہوں ، مگر میں جاگ رہا تھا اور ان کی باتیں سن رہا تھا۔ کلیلہ
اسے سمجھا رہا تھا کہ تو نے جرم کیا ہے ۔ مناسب یہ ہے کہ شیر کے سامنے جا کر قبول کرلے۔
دمنہ نے اس کے سامنے اپنے جرم کا اقرار کیا تھا، مگر اس کی نصیحت قبول کرنے سے ہچکچا
رہا تھا ۔
ایک گیدڑ
اس سے جرح کرنے لگا کہا: " اس سے پہلے تو نے بات کیوں نہیں بتائی تھی ۔ خرگوش
بولا : " ایک گواہ کی گواہی نہیں مانی جاتی اور میں تو ویسے بھی قید سے چھوٹ کر
آیا تھا میری بات کون مانتا۔ اب جب کہ چیتے جیسی صاحب مرتبہ شخصیت نے گواہی دے دی ہے
تو مجھے گواہی دینے کی ہمت ہوئی ۔“ شیر نے اپنے وزیر چیتے کی بات بہت غور سے سنی تھی
اور قائل ہو گیا تھا۔ اب اوپر سے خرگوش کی گواہی آگئی ۔ دو گواہ ہو گئے تو شیر پوری
طرح قائل ہو گیا ۔
ادھر دمنہ
کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں ۔
د و عینی
گواہ موجود تھے ۔ ان کے بیانوں کے تردید کرنے کی اسے ہمت نہ ہوئی ۔ اب شیر کی ماں نے
شیر کی طرف گھور کے دیکھا۔ بیٹے کو چپ دیکھ کر تھوڑا غرائی ۔ آخر شیر نے حکم سنایا
کہ دمنہ کو قید خانے میں واپس لے جا کر بند کر دو۔ آج سے اس کا کھانا پانی بند کیا
جاتا ہے۔ اس حکم پر عمل کیا گیا۔ دمنہ نے قید خانے میں بھوک کی حالت میں کچھ دن گزارے
۔ آخر کو مر گیا ۔
Post a Comment