کرپشن (زعفرانی غزل)

مرزا عاصی اختر

 

ہرسمت سجا رکھا ہے دربار کرپشن

ہر شخص بنا بیٹھا ہے سردار کرپشن

متوالے جو رشوت کے ہیں وہ لاکھ چھپائیں

آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں آثار کرپشن

پیتے ہیں لہو جام کے مانند غٹاغٹ

ہر سیٹ پر بیٹھے ہیں جو میخوار کرپشن

صورت سے تو بھولا ہی نظر آتا ہے افسر

اندر سے مکمل ہے وہ خرکار کرپشن

دفتر ہے یا چالیس لٹیروں کا ہے مسکن

کیا خوب سجا رکھا ہے یہ غارِ کرپشن

صیاد سے پھولوں کی تو امید عبث ہے

پاؤں میں چبھاتا ہے سدا خار کرپشن

ہم جا کے کہیں سال میں تہوار منائیں

روزانہ دفاتر میں ہے تہوار کرپشن

یا رب تو کرپشن کے مریضوں کو شفا دے

یا سب کو اٹھا جتنے ہیں بیمار کرپشن

دعوی تو الیکشن میں سبھی کرتے ہیں

عاصی پر کون گرا پایا ہے دیوار کرپشن

(بشکریہ اردوڈائجسٹ :دسمبر 2016 ء)

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post