توکل کی اہمیت

جب ہم یہ تصور کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے احوال : ضروریات، حاجات، رغبات طلبات اور ہماری دعوات : (پکار) کا ہم سے زیادہ واقف ہے، ہمارے نفع و نقصان کا وہ : ہم سے بہتر جاننے والا ہے، تو ہمارا یہ تصور زندہ و تابندہ ، جاری : و ساری اور بیدار شعور بن جاتا ہے اور پھر یہیں سے " توکل جنم لیتا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت ۱۸۲ کا پہلا حصہ فانی قریب“: یقین کی ایک فرع (branch) تھی کہ وہ ہمارے قریب : ہے اور اب اُس کے ساتھ تو کل" بھی شامل ہو گیا کہ جب: وہ ہمارے حال اور ہماری ضرورتوں کو ہم سے بہتر جانتا ہے تو : بندہ اپنا سب کچھ اُس پر چھوڑ دیتا ہے اور اسی پر توکل کرتا ہے۔

جب بندہ سب کچھ اُس پر چھوڑ دیتا ہے اور اُس پر توکل  کرتا ہے، تو نتیجتاً اس سے عجلت اور تیزی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی الوہی حکمت کے پیش نظر بندے کی دعا کی عدم قبولیت یا  قبولیت میں تاخیر ہو جائے ، تو وہ بندہ شکوہ و شکایت نہیں کرتا ، اس لیے کہ وہ اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ وہ میرے حال کو  مجھ سے بہتر جانتا ہے اور مجھ سے بہتر کرنے والا ہے۔ اس سوچ سے اُس کے اندر سے بے صبری اور عجلت ختم ہو جاتی  ہے۔ وہ ان خیالات سے پاک ہو جاتا ہے کہ میری دعا کے بعداب تک ایسا کیوں نہیں ہوا ؟ ویسا کیوں نہیں ہوا؟ یاد رکھیں ! عجلت بندے کو بے چینی (Anxiety) کی طرف لے جاتی ہے اور بے چینی بڑھتے بڑھتے بندے میں: مردگی، آرزدگی، ذہنی دباؤ (depression) پیدا کرتی depression سے بندے میں منفیت negativity) آ جاتی ہے۔ اُس کی سوچیں منفی ہو جاتی ہیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post