ایک شخص نے زندگی میں پہلی بار گدھا خریدا۔ اسے اپنا  گدھا بہت پسند آیا اور وہ اسی  خوشی میں اسے  اپنے گھر کی چھت پر لے گیا تاکہ وہ چھت سے پورے گاؤں کا اچھی طرح نظارہ کرلے  اس کا گمان تھا کہ چھت سے دیکھ دیکھ کر یہ گدھا گاؤں  کے راستوں کو جان لے گا اوریوں پھر وہ اکیلے گھر لوٹتے وقت گم نہیں ہوگا۔۔اس آدمی نے گدھے کوسارا دن چھت پر ہی رکھا اور دن بھر اس کے کھانے پینے کا انتظام بھی وہیں پر کیا۔

جب سورج غروب ہونے لگا تو آدمی نے چاہا کہ گدھا چھت سے نیچے آجائے تاکہ اسے کھونٹے سے باندھ دے ، گدھا نیچے جانے کا سوچ کرافسردہ ہوا اوراس نے نیچے جانے کو قبول نہ کیا، گدھے کو چھت پسند آئی اور اس پر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔

اس شخص نے اسے کئی بار سمجھانے کی کوشش کی اور ایک سے زیادہ بار زبردستی اسے کھینچنے کی کوشش کی،لیکن گدھا نیچے اترنے پر راضی نہیں ہوا، بلکہ اپنے مالک کودولتیاں مارنے لگا۔اسی دھماچوکڑی میں  گدھے نے چھت کی ٹائلوں کے درمیان اپنی ٹانگ پھنسا لی ۔ اس اکھاڑ پچھاڑ سےسارا گھر لرزنے لگا اور پرانے مکان کی بوسیدہ لکڑی کی چھت گدھے کی حرکتوں اور لاتوں کو برداشت کرنے کے قابل نہ رہی، چنانچہ یہ دیکھ کر  وہ شخص جلدی سے اپنے بیوی بچوں کو گھر سے باہر چھوڑنے نیچے آیا۔اور فورا اپنے اہل و عیال کو لے کر گھر سے نکل گیا۔

کچھ ہی دیر  میں... گھر کی چھت اور دیواریں گرنے سے گدھا مر گیا۔

وہ شخص اپنے مردہ گدھے کے سر کے پاس کھڑا ہوا، جو اس کے خون میں لت پت تھا، اور کہا:

خدا کی قسم اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں کیونکہ تمہاری جگہ کھونٹے کے ساتھ تھی ، میں ہی غلطی پر ہوں کیونکہ میں تمہیں چھت پر لایا ہوں۔


ماحصل:وہ شخص کافی دیر تک اس واقعہ پر غور کرتا رہا اور پھر خود سے کہا کہ کبھی بھی گدھے کو مقام بالا پر نہیں لے جانا چاہئیے ایک تو وہ خود کا نقصان کرتا ہے دوسرا خود اس مقام کو بھی خراب کرتا ہے اور تیسرا اوپر لے جانے والے کا بھی۔

اگر گدھوں کوایک دفعہ ان کے مقام سے زیادہ مرتبہ وشرف مل جائے تو انہیں  ان کی اصل جگہ  واپس لانا ناممکن ہوجاتاہے اور اس مقام پر جو تباہی ہوگی اس کی ذمہ داری اس شخص پرہوگی جس نے گدھے کو بلند مقام دیا۔

اور اسی تباہی و قیامت کی جانب سیدنا نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم نے اپنے اس قول مبارک میں اشارہ فرمایاتھا:

‏‏‏‏ إِذَا وُسِّدَ الْأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ

آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب (حکومت کے کاروبار)نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر۔( صحیح بخاری جلد اول : كتاب العلم (علم کا بیان) : حدیث 59)


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post