''ترکوں کا
انتخاب ''
مولانا محمد علی جوہر
مولانا
محمد علی جوہر کی عظیم شخصیت میں جو صفات بہ یک وقت جمع تھیں وہ ان کی دوامی شہرت کے
لئے بہت کافی ہے ۔ مولانا مفکر اعظم تھے اپنی بے پناہ قوت استدلال کی جسارت نظیر سے
عظیم شخصیتوں کو محوحیرت کردیتے۔ ان کے فکر کی بنیاد کوئی خشک اور نظری فلسفہ نہ تھی
بلکہ ایک سوتی ہوئی امت کو بیدار کرنے کی تدابیر اور منصوبے تھے ۔ ان میں عقل اور دل
کے نہایت نازک امتزاج کے باعث جوش عمل کی فراوانی تھی جس کے باعث منطق کبھی ان کے عمل
کی پشت پنا ہی کرتی تو کبھی ان کا جوش عمل کی افسرد گی کو علیحدہ کرتا ۔
مولانا
کی تقریری مہارت سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا کی صفات عالیہ میں ایک صفت بے باکی و نڈر
پن تھا ۔ ان کی یہ صفت تحریر ، تقریر عمل سب پر حاوی تھی معرکہ حق و باطل میں مولانا
سے ٹکرلینا ایسا ہی تھا جیسے لوہے سے چقماق کا اثر ہوتا ہے ۔ انہوں نے ہمیشہ حق کو
ثابت کرنے کے لئے کبھی اپنی ذات کی پروا نہیں کی او ربلا لحاظ مخالفت وہی کیا ‘ وہی
کہا اور وہی لکھا جسے حق جانا ۔ لندن میں گول میز کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر مولانا
نے جو تقریر فرمائی تھی اس کا شمار یقیناًدنیا کی اہم تقاریر میں کیا جاسکتا ہے ۔
پہلی جنگ عظیم 4 اگست
1914ء جو جب شروع ہوئی توایک طرف جرمنی ،ھنگری اور آسٹریلیا تھے اور دوسری جانب روس انگلستان اور فرانس
تھے۔
ترکی میدان جنگ میں
جنگ کے آغاز کے دو ماہ بعد جرمنی کے حلیف کی حیثیت سے شامل ہوا ۔ درمیانی عرصہ میں
انگلستان کے اخبارات نے ترکوں کو صلاح ومشورہ دیا کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ شریک
ہوجائیں ۔ لندن کے معروف اخبار‘ ٹائمز نے بھی یہی مشورہ دیا تھا جو ’’ ترکوں کی نظر
انتخاب‘‘ کے عنوان شائع ہوا تھا ۔ مولانا محمد علی نے اس مضمون ’’ ترکوں کی نظر انتخاب‘‘
کا منہ توڑ جواب چالیس گھنٹوں کی مسلسل محنت شاقہ میں صرف قہوہ پر گذار کر اپنے جریدہ
’’ کامریڈ‘‘ میں بیس کالم میں شائع کیا مضمون شائع ہوتے ہی دھوم دھڑکا ہوگیا ۔ یہ
اصل میں مولانا کی انشاپردازی کا ایک شاہ کار تھا ۔
ہماری قومی
و ملی تاریخ کا یہ اہم باب برادرم مخدوم عدیل عزیز اپنے نادر ذخیرہ کتب سے طشت ازبام
کرتے ہوئے اہل ذوق کے سامنے پیش کرتے ہیں۔جس کے لیے ہم ان کے دل سے مشکور ہیں
ترکوں کا انتخاب از مولانا محمد علی جوہر : Adeel Aziz : Free Download, Borrow, and Streaming : Internet Archive
بہت شکریہ
برادرم عدیل عزیز صاحب جزاک اللہ
Post a Comment