شفقت  جسم یا دماغ سے ابھرنے والی نرم فطرت ہے۔ ماں کی شفقت مثالی ہے۔ شفقت لوگوں میں والہانہ لگاؤ پیدا کرتی ہے۔ یہ جذبہ کئی انسانی تعلقات میں ممکن ہے، شفقت عام انسانوں کے بیچ بھی ممکن ہے۔

حضور  رحمۃ للعالمین ﷺ کی رحمت وشفقت کا ابرِ کرم یوں تو روئے زمین کے ہر حصے اور ہر طبقے پر برسا ۔اس نے ہر خاص و عام کو سیراب کیا لیکن اس نے سب سے زیادہ غرباء، مساکین ،یتامیٰ، خواتین اور معاشرے کے کمزور ترین طبقہ کو فائدہ پہنچا یاجن کی معاشرے میں کوئی عزت و وقعت نہیں تھی ۔    وہ مظلوم و مقہوراورستم رسیدہ تھے ۔حقوق انسانی سے محروم تھے۔ ان سب طبقوں کو نبی رحمت نے بلند مقام عطا کیااور معاشرے میں عزت و عظمت سے سرفرازکیا۔

بچوں کی تربیت میں شفقت و نرمی  اور پیار و محبت کا پہلو غالب رہنا چاہئے۔ حسب موقع بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق، ان کے ساتھ تفریح اور انہیں کھیل کود کے مواقع فراہم کرنا بچوں کاحق ہے۔ رسول اللہ  کی زندگی میں بچوں کے ساتھ طرز ِمعاشرت، ان کے ساتھ شفقت و محبت اور  ملاطفت  کے حوالے سے بھی بہترین نمونے سیرت میں محفوظ ہیں۔

حضور  ﷺنے اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنے کندھے پر بٹھایا (ترمذی،ج5،ص432، حدیث:3809ماخوذاً) ۔ بعض اوقات دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ ﷺ نماز کو مختصر فرما دیتے۔ (بخاری،ج1،ص253، حدیث:707 ملخصاً) آپ ﷺ جب اَنْصار کے پاس تشریف لے جاتے توان کے بچّوں کوسلام کرتے، سَروں پر دستِ شفقت پھیرتے اور ان کیلئے دعا بھی فرماتے۔ (السنن الکبریٰ للنسائی،ج5،ص92، حدیث: 8349)بچّوں سے شفقت و مہربانی کا ایسا برتاؤ دیکھ کر حضرتِ سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں:حضور ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بچوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔ (مسندابی  یعلیٰ،ج3،ص425، حدیث:4181)

ایک مرتبہ  رسول اللہ نے سیدنا حسنؓ  کا بوسہ لیا۔ آپکے پاس  اقرع بن حابس بیٹھے ہوئے تھے، انہیں تعجب ہوا ،کہنے لگے :

میرے 10 بیٹے ہیں، میں نے کسی کا بوسہ نہیں لیا۔‘‘آپ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا:’’ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (متفق علیہ)

ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کے پاس کچھ چادریں آئیں ۔ آپ ﷺ نے ایک چھوڑ کر سب چادریں اپنے صحابہؓ میں تقسیم کردیں۔آپﷺکے ایک صحابی مخرمہؓ جو کہ نابینا تھے جب آپؓ کو اس فعل کی اطلاع ملی تو روایت میں آتا ہے کہ آپؓ گرتے پڑتے شکوہ کرتے آپ ﷺ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ سب چادریں تقسیم کردی گئیں ہیں اور ہمیں محروم کردیا گیا ہے۔ ہمیں بھی ہمارا حصہ دیا جائے۔نبی پاکﷺ نے کمال شانِ بےنیازی سے ایک چادر نکالی اور بڑی محبت اور پیار سے یہ فرماتے ہوئے وہ چادر اس معذور صحابیؓ کے حوالہ کردی کہ اے مخرمہؓ !ہم نے تو پہلے ہی یہ چادر تمہارے لئے بچا رکھی تھی۔اب دیکھیں کہ یہ کیسی محبت، پیار، رحمت اور شفقت کا عجب نظارہ تھا۔ آپﷺ کے کوئی دو چار صحابہ نہ تھے کہ وہ آپ ﷺ کو یاد رہے مگر یہ رحیم و کریم رسول کی رحمت ماؤں سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔

شفقت کے دینی و دنیاوی فائدے

شفقت سے کی گئی تربیت دیرپا اور موثر ہوتی ہے یہاں تک کہ اس انسان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ عادات حسنہ ان کے کردار کا لازمی حصہ بن جاتی ہیں۔ جب کہ سزاؤں سے پیدا کردہ رویئے سزا کےخوف کے ختم ہوتے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔

لہذا جہاں تک ممکن ہو نرمی (Gentleness)، شفقت اور پیار و محبت کا رویّہ اپنایا جائے۔ انہیں مارنا پیٹنا فائدہ مند ہونے کے بجائے عُموماً نقصان دہ ثابِت ہوتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ اپنے بچّوں پر تشدُّد کے عادی ہوتے ہیں عام طور پر وہ بڑھاپے میں تنہائی اور بے بسی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ اس لئے بچوں کی تربیَت میں شفْقت و نرمی  اور پیار و مَحبّت کا پہلو غالب رہنا چاہئے تاکہ وہ بڑے ہو کر مُعاشَرے کا بہترین فرْد بن سکیں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post