بہادر
شاہ ظفر اور چنا
کہا جاتا
ہے کہ جب آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کوبرطانوی حکومت نے محبوس کیا اور انھیں اپنے
چراغ حیات کو جلائے رکھنے کی خاطر بہ طور غذا محض ایک اناج کھانے کی اجازت دی گئی
۔
بادشاہ
اس وقت انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے کہ ان کا خاص باورچی اُن کی مدد کو آن پہنچا
اور اس نے برطانوی حکومت سے ایک اناج کے نام
پر صرف اور صرف چنا طلب کیا۔ استفسار پر باورچی نے بتایا
کہ چنے کو مختلف حالتوں میں کھانے کے مختلف اوقات میں کھایا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ
دو پہر کے کھانے اور رات کے کھانے میں چنے سے مختلف طریقوں سے چپاتیاں
، دال اور سبزی کے پکوان پاک تیار کیے جاسکتے ہیں، اسی لیے چنے کو
کثیر المقاصد غذا کہا جاتا ہے۔
چنے ایشیا اور یورپ میں آٹھ سے
دس ہزار سال سےجانے جاتے ہیں اور ان دونوں براعظموں میں اتنے طویل عرصے سے اس کی کاشت ہورہی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا دعوا
ہے کہ اسے سب سے پہلے ممکنہ طور
پر بحیرہ روم ، فارس ، افغانستان اور اس قسم سے ملحقہ
علاقوں میں کاشت کیا گیا تھا۔
تاریخ سے
یہ عندیہ ملتا ہے کہ برصغیر بھی اس کے آغاز کامقام ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان
اور ہندستان میں اسے بہت زیادہ مختلف طریقوں
سے کھایا جاتا ہے۔ پوریوں کے ساتھ یہ بہت مزے دار لگتے ہیں ، جب کہ پٹھورے ( ایک قسم
کی پوری) کے ساتھ حقیقی لذت فراہم کرتے ہیں۔
ملتانی چھولے، امرتسری چھولے اور چکڑ چھولے حقیقی پنجابی لذت کے حامل ہوتے ہیں تو کاٹھیا
واڑی چنے کراچی کی پہچان ہیں۔ چنا چاٹ، چنے کی دال اس کا حلوا اور بیسن کے پکوڑے تو
سب کے پسندیدہ ہیں ۔ (ہمدرد صحت ۱۷ دسمبر ۲۰۲۲ ء)
حکایت
کہا جاتا ہے کہ شاہ جہاں بادشاہ کے مشہور وزیر اعظم سعد اللہ خاں علاّمی کی ماں کو دورانِ حمل سیب کھانے کی شدید خواہش ہوئی، جس کی قیمت ان کے غریب میاں کی حیثیت سے زیادہ تھی مگر پھل فروش نے یہ فرض کر کے جو بچہ پیٹ میں ہے، وہ یقیناً بڑا آدمی ہوگا ، سیب دے دیا کہ بعد میں مناسب نعم البدل حاصل ہوگا ۔(ہمدرد صحت دسمبر ۲۰۲۲ ء)
Post a Comment