انسان کی
جس طرح بہت ساری فطری ضروریات ہیں اسی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری ضرورت ہے۔
دین ِاسلام نے نہ صرف انسان کو اپنی اس فطری
ضرورت کو جائزاور مہذب طریقے کے ساتھ پوراکرنے کی اجازت دی ہے بلکہ نکاح کوانسانی بقا وتحفظ کے لیے ضروری
بتایا ہے اور اسے عبادت سے تعبیر فرمایا ہے۔
دین اسلام
میں نکاح محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے۔ حضور
اکرم ﷺ نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ”النکاح من سنّتی“ نکاح کرنا
میری سنت ہے۔نیزنکاح انبیاء کرام کی بھی سنت ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً“
(الرعد:38)
(اے محمدﷺ)
ہم نے آپ سے پہلے یقینا رسول بھیجے اورانہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا۔
انسان کو نکاح کے ذریعہ صرف جنسی سکون ہی حاصل نہیں ہوتا بلکہ قلبی سکون ذہنی اطمینان غرض کہ ہرطرح کا سکون میسر ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ”ھوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا“ (الاعراف:190)وہی اللہ ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور پھر اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنادیا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔ اس آیت سے عورت کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ عورت مرد کے حق میں ایک انمول تحفہ ہے اورمرد کے لئے باعث سکون و اطمینان ہے لہٰذا جو مرد عورت کی قدر کرتا ہے وہ کامیاب اور پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ذیل میں نکاح کی اہمیت،فضیلت،ضرورت،مقاصد پر دس منتخب احادیث مبارکہ پیش کی جاتی ہیں:
نکاح کی ترغیب
عَنۡ اَنَسِ
بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُوۡلُ:جَاءَ ثَلاَثَةُ رَهْطٍ اِلَى بُيُوۡتِ
اَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْاَلُوۡنَ
عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا اُخْبِرُوۡا كَاَنَّهُمْ تَقَالُّوۡهَا،فَقَالُوۡا:وَاَيْنَ
نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا
تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ وَمَا تَاَخَّرَ،قَالَ اَحَدُهُمْ:اَمَّااَنَا فَاِنِّي ۡاُصَلِّي
اللَّيْلَ اَبَدًاوَقَالَ اٰخَرُ:اَنَااَصُوۡمُ
الدَّهْرَ وَلاَ اُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ:اَنَا اَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ
اَتَزَوَّجُ اَبَدًافَجَاءَرَسُوۡلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اِلَيْهِمْ،فَقَالَ:اَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا،اَمَاوَاللَّهِ
اِنِّي لَاَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَاَتْقَاكُمْ لَهُ،لٰكِنِّيۡ اَصُوۡمُ
وَاُفْطِرُوَاُصَلِّيۡ وَاَرْقُدُوَاَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ،فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِيۡ
فَلَيْسَ مِنِّيۡ (صحیح بخاری:5063)
حضرت اَنَس بن مالک فرماتے ہیں کہ تین افراد (حضرت علی ،حضرت عبد اللہ بن
عمرو بن عاص اور عثمان بن مظعون رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) نبی ﷺکی اَزواج کے
گھروں کی طرف آپ ﷺ کی عبادت کے بارے میں پوچھنے کے لئے آئے۔ جب اُنہیں
(آپ ﷺ کی) عبادت کے بارے میں بتادیا گیا،تو اُنہوں نے اِسے
کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آپ ﷺ سے کیا مقابلہ کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے صدقے میں اُن کے اگلے اور پچھلے گناہ
بخش دیئے ہیں۔ چنانچہ اُن میں سے ایک نے
کہا کہ آج کے بعد میں ہمیشہ رات بھرنماز
ادا کروں گا، دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اورکبھی ناغہ نہیں کروں
گا، تیسرے نے کہا میں عورتوں سے علیحدگی اختیار کروں گا اورکبھی نکاح نہیں کروں
گا، پھر نبی کریم ﷺ وہاں تشریف لائے اور اُن سے دریافت
کیا کہ تم نے یہ باتیں کہی ہیں؟ تو سُن
لو! اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ
اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن
میں روزے بھی رکھتا ہوں ،تو اِفطار بھی کرتا ہوں (یعنی روزے کبھی نہیں بھی رکھتا)
۔ میں (رات میں) نماز ادا کرتا ہوں ،تو آرام بھی کرتا ہوں اور میں عورتوں سے نکاح
بھی کرتا ہوں، لہٰذا جس نے میرے طریقے سے
بے رغبتی کی ،وہ مجھ سے نہیں ۔
نکاح کی تاکید
عَنۡ
عَبۡدِ اللّٰہِ بۡنِ مَسۡعُوۡدٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قَالَ: قَالَ
رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ:یَامَعۡشَرَ الشَّبَابِ مَنِ
اسۡتَطَاعَ مِنۡکُمُ الۡبَاءَۃَفَلۡیَتَزَوَّجۡ فَاِنَّہُ اَغَضُّ لِلۡبَصَرِ
وَاَحۡصَنُ لِلۡفَرَجِ وَمَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ فَعَلَیۡہِ بِالصَّوۡمِ فَاِنَّہُ
لَہُ وَجَاءٌ (صحیح بخاری:5066)
حضرت عبداللہ ابنِ مسعود روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے
نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہے ،توہ ضرور نکاح کرے کیونکہ
نکاح نگاہ نیچی کرنے والا اور شرمگاہ کا محافظ ہےاور جو طاقت نہ رکھے ،تو اُسے چاہئے
کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ رکھنا (شہوت کے نقصانات سے) حفاظت کا ذریعہ ہے۔
اللہ رب العزت کے
ذمہ نکاح کرنے والوں کی مدد
عَنۡ اَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنۡہُ قَالَ :قَالَ رَسُوۡلُ
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ:ثَلَاثَۃٌ حَقٌّ عَلَی اللٰہِ عَزَّ
وَجَلَّ عَوۡنُھُمۡ:اَلۡمُکَاتَبُ الَّذِیۡ یَرِیۡدُ الۡاَدَاءَوَالنَّاکِحُ
الَّذِیۡ یُرِیۡدُ الۡعَفَافَ وَالۡمُجَاھِدُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ (سنن
نَسائی:3218)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین لوگ ایسے ہیں ،جن کی مدد اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر
ہے، ایک مکاتِب غلام جس کا ارادہ (اپنے
آقا کوطے شدہ رقم کی) ادائیگی کا ہو اور (دوسرا)وہ نکاح کرنے والا جس کی نیت عفت و
پاکدامنی کی ہو اور(تیسرا) مجاہدجو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔
بیوی کے انتخاب کا معیار
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ:
تُنْکَحُ الْمَرْاَۃُ لِاَرْبَعٍ: لِمَالِھَا وَ لِحَسَبِھَا وَجَمَالِھَا
وَلِدِیْنِھَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (صحیح بخاری:5090)
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا
کہ عورت سے نکاح (عام طور پر) چار چیزوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اُس کے
مال اور اُس کے خاندان اور اُس کی خوبصورتی
اور اُس کی دینداری کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر،
اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تمہیں ندامت ہو
گی)۔
مَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً
لِعِزِّهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا ذُلًّاوَمَنْ تَزَوَّجَهَالِمَالِهَالَمْ
يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّافَقْرًاوَمَنْ تَزَوَّجَهَا لِحَسَبِهَا لَمْ يَزِدْهُ
اللَّهُ إِلَّا دَنَاءَةًوَمَنْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً لَمْ يَتَزَوَّجْهَا إِلَّا
لِيَغُضَّ بَصَرَهُ أَوْ لِيُحْصِنَ فَرْجَهُ أَوْ يَصِلَ رَحِمَهُ بَارَكَ
اللَّهُ لَهُ فِيهَا وَبَارَكَ لَهَا فِيۡهِ (المعجم الاوسط:2342)
جو شخص کسی عورت سے اس کی عزت(حسب نسب) کے سبب نکاح
کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کی
وجہ سے نکاح کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کی محتاجی ہی بڑھائے گا اور جو اس کے حسب
(خاندانی مرتبے) کے سبب نکاح کرے گا تو اللہ تعالیٰ اِس کے کمینہ پن میں زیادتی
کرے گا۔ اِس کے برعکس جس نے نکاح اپنی نگاہ یا شرمگاہ کی حفاظت کی غرض سے کیا یا
اس نکاح کے ذریعے صلۂ رحمی کی نیت ہے، تو اللہ تعالیٰ ایسے نکاح میں برکت پیدا
فرمادیتا ہے۔
نیک بیوی
اَلدُّنۡیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَخَیۡرُ مَتَاعِ الدُّنۡیَا الۡمَرۡاَۃُالصَّالِحَۃُ(صحیح مسلم:1468 )
پوری دنیا ایک متاعِ زندگی ہے
(یعنی زندگی کا سامان ہے ) اور اِس متاع میں سب سے بہترین نیک بیوی ہے۔
نیک بیوی کے اوصاف
مَااسۡتَفَادَ الۡمُوۡمِنُ بَعۡدَ تَقۡوَی اللّٰہِ
خَیۡرًالَّہُ مِنۡ زَوۡجَۃٍ صَالِحَۃٍ اِنۡ اَمَرَھَا اَطَاعَتۡہُ وَاِنۡ نَظَرَ اِلَیۡھَا سَرَّتۡہُ
وَاِنۡ اَقۡسَمَ عَلَیۡھَا اَبَرَّتۡہُ وَاِنۡ غَابَ عَنۡھَا نَصَحَتۡہُ فِیۡ
نَفۡسِھَا وَمَالِہٖ(سننِ ابنِ ماجہ:2342)
مومن کو تقویٰ کے بعد سب سے زیادہ فائدہ نیک
بیوی سے پہنچتا ہے ، جو شوہر کے حکم کی فورًا تعمیل کرتی ہے ،شوہر کو اُس کی طرف
دیکھ کر خوشی حاصل ہوتی ہے اور اگر شوہر
اُس پر اعتماد کرتے ہوئے قسم کھالے ،تو وہ اُسے پورا کرتی ہے۔ اور شوہر کی
غیر موجودگی میں اپنی ذات اور شوہر کے مال میں اُس کی خیر خواہی کرے یعنی اُس کی
مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے۔
اَلَّتِي تَسُرُّهُ إِذَا نَظَرَ وَتُطِيعُهُ إِذَا أَمَرَ وَلَا تُخَالِفُهُ فِي
نَفْسِهَا وَمَالِهَا بِمَا يَكْرَهُ (سنن نسائی، کتاب النکاح:3231)
(سب سے بہترین عورت وہ ہےکہ) جب
اُس کا شوہر اُسے دیکھے ،تو وہ اپنے شوہر کو خوش کردےیعنی اُس کے لیے راحت کا
ذریعہ بنے اور جب شوہر کسی کام کے کرنے کا کہے تو اُس کی فرمانبرداری کرے اور اپنے
نفس اور مال کے معاملے میں اپنے شوہر کی کوئی مخالفت نہ کرے۔
شوہرکے اِنتخاب کا حقیقی
معیار
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ
تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوۡهُ إِلاَّ تَفْعَلُوۡا تَكُنْ فِتْنَةٌ
فِي الأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ (سننِ ترمذی:1084)
حضرت ابوہریرہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی ایسے شخص کی طرف سے (نکاح
کا) پیغام آجائے ، جس کے اخلاق اور دین سے تم مطمئن ہو،تو پھر (تاخیر کئے بغیر)
نکاح کردوورنہ زمین پر عظیم فتنہ و فساد برپا ہوگا۔
نیک سیرت مرد کو نکاح کا پیغام
بھیجنا
قَالَ اَنَسٌ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ جَاءَتِ
امْرَأَةٌ إِلٰی رَسُوۡلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْرِضُ
عَلَيْهِ نَفْسَهَا قَالَتْ:يَارَسُوۡلَ اللَّهِ أَ لَكَ بِيۡ حَاجَةٌ فَقَالَتْ
بِنْتُ أَنَسٍ:مَا أَقَلَّ حَيَاءَهَا وَاسَوْأَتَاهْ وَاسَوْأَتَاهْ قَالَ:هِيَ
خَيْرٌ مِّنْكِ رَغِبَتْ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فَعَرَضَتْ عَلَيْهِ نَفْسَهَا
(صحیح بخاری:5120)
ایک خاتون رسول
اللہ ﷺ کے پاس آئی اوراُس نے آپ ﷺ
سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر حضرت اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی
بولی ، کیا بے شرم عورت ہے ، اَرے تھُو، ارے تھُو۔ حضرت اَنس نے کہا: وہ عورت تجھ
سے بہتر تھی۔ اس نے آپ ﷺ سے اپنے قلبی
لگاؤ کی وجہ سے خود کو نکاح کے لیے پیش کیا .
شوہر پر بیوی کے حقوق
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ
إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَخَيْرُكُمْ
خَيْرُكُمْ لِنِسَائِهِمْ (سننِ ترمذی1162)
حضرت اَبوہریرہسے روایت ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں میں کامل
ایمان والا وہ ہے،جس کا اَخلاق سب سے اچھا ہو اور تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں
،جو اپنی بیویوں کے ساتھ (حسنِ سلوک میں)
اچھے ہوں۔
يَارَسُوۡلَ اللَّهِ مَاحَقُّ
زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ قَالَ:أَنْ تُطْعِمَهَاإِذَاطَعِمْتَ
وَتَكْسُوَهَاإِذَااكْتَسَيْتَ أَوِ اكْتَسَبْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ وَلَا
تُقَبِّحْ وَلَا تَهْجُرْ إِ لَّا فِي
الْبَيْتِ ،(سننِ ابی داؤد:2142)
یا رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کسی کی
بیوی کا اُس پر کیا حق ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم کھاؤ ،تو اُسے بھی کھلاؤ اور
جب تم پہنو،تو اُسے بھی پہناؤاور (اگر کسی خلافِ شرع بات پر سرزنش کرنی ہو،تو) اُس
کے چہرے پر نہ مارو اور اُسے برا نہ کہو اورنہ اُسےچھوڑو مگر گھر میں
فَاتَّقُوا اللهَ فِي النِّسَاءِ
فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوۡجَهُنَّ
بِكَلِمَةِ اللهِ وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ
أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُوۡنَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذَالِكَ
فَاضْرِبُوۡهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ
وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (صحیح مسلم:1218)"۔
تم عورتوں کے
معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی اماَن کے تحت اپنے نکاح
میں لیا ہے اور خدا کی اجازت کے تحت ان کی شرم گاہوں سے فائدہ اٹھانا تمہارے لیے
حلال ہے۔ تمہارا اُن پر یہ حق ہے کہ وہ کسی کو تمہارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے
تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم اُنہیں سرزنش کر سکتے ہو کہ چوٹ کا
نشان نہ پڑے۔ اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم معروف کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک
انھیں مہیا کرو،
بیوی پر شوہر کے حقوق
عَنۡ عَبۡدِ اللّٰہِ بۡنِ اَبِیۡ اَوۡفیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنۡہُ عَنْ
عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ۡأَوْفٰی قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الشَّامِ سَجَدَ
لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا هٰذَا يَا مُعَاذُ قَالَ:أَتَيْتُ
الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُوۡنَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ وَبَطَارِقَتِهِمْ فَوَدِدْتُ
فِي نَفْسِيۡ أَنْ نَّفْعَلَ ذَالِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُوۡلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:فَلَا تَفْعَلُوۡا فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَّسْجُدَ
لِغَيْرِ اللَّهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا وَالَّذِيۡ
نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتّٰى
تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَاوَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلٰى قَتَبٍ لَمْ
تَمْنَعْهُ(سننِ ابنِ ماجہ:1853(
حضرت عبداللہ ابن اَبی اَوفیٰ
روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذ جب ملکِ شام سے آئے ،تو اُنہوں نے رسول اللہﷺ کو سجدہ کیا، تو آپ ﷺنے پوچھا کہ اے
معاذ یہ کیا ہے؟ تو اُنہوں نے عرض کیا کہ میں شام گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں،
تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ہم
بھی آپ کو سجدہ کریں ،(اِس پر) رسول اللہﷺ نے
فرمایا: ”ایسا نہ کرو (کیونکہ یہ حرام ہے)، اور
اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ
اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت
اپنے ربّ کا حق ادا نہیں کر سکتی، جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے، اور اگر
شوہر عورت سے اُس کے نفس کی خواہش کرےتو اگر وہ (اُونٹ کے) پالان پر بھی سوار ہو،
تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے۔
اِذَ االرَّجُلُ دَعَازَوۡجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ فَلۡیَاتِہٖ وَاِنۡ
کَانَتۡ عَلَی التَّنُّوۡرِ (سنن ترمذی:1160)
جب مرد بیوی کو اپنی کسی ضرورت کے
لیے بلائے ،تو اُسے چاہیئے کہ وہ فورًا آئے اگرچہ وہ تنور پر(روٹی پکارہی )ہو
میاں بیوی کے باہمی حقوق
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ
فَصَلَّى وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَصَلَّتْ،فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا
الْمَاءَرَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ
زَوْجَهَا فَإِنْ أَبیٰ نَضَحَتْ فِيۡ وَجْهِهِ الْمَاءَ(سننِ ابی داؤد:1450)
حضرت اَبوہریرہ روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اُس شخص پر رحم فرمائے
،جو رات کو اُٹھے، پھر نماز پڑھے اور اپنی
بیوی کو بھی جگائے تاکہ وہ بھی نماز ادا کرے اور اگر وہ نہ جاگے، تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے
(تاکہ وہ بھی جاگ جائے)۔ اللہ تعالیٰ رحم
فرمائے اُس عورت پر بھی ،جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے، اپنے شوہر کو بھی بیدار کرے،
اگر وہ نہ اٹھے تو (اُسے جگانے کے لیے )اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔
نیک اور صالح بیوی کا مقام و مرتبہ
أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّةَ ، (سننِ ترمذی:1161)
جو عورت اِس حال میں انتقال کرے کہ اُس کا شوہر اُس سے
راضی ہے،تو وہ جنت میں داخل ہو گی ۔
ولیمہ سنت ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ رَأَى عَلٰى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍقَالَ:مَا هٰذَا؟
قَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلٰى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ:بَارَكَ
اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ(صحیح بخاری:6386)
حضرت اَنَس سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف پر
زردی کا اَثر دیکھا،تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کیاہے؟ تو اُنہوں نے عرض کیا کہ میں نے
ایک عورت سے گٹھلی بھرسونے پر نکاح کرلیا
ہے۔ (یہ سن کر )آپ ﷺ نے فرمایا !اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے ، ولیمہ کرواگرچہ ایک
بکری ہی سے کیوں نہ ہو۔
ناپسندیدہ ولیمہ
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوۡلُ
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ:شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الوَلِيمَةِ
يُدْعَى لَهَا الأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَكُ الفُقَرَاءُ وَمَنْ تَرَكَ الدَّعْوَةَ
فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ(صحیح بخاری:5177(
حضرت اَبوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بُرا کھانا اُس
ولیمہ کا کھانا ہے ،جس کے لیے مالدار تو بلائے جائیں اور غرباء چھوڑ دیئے جائیں
اور جس نے (کسی کی) دعوت چھوڑ دی ،اُس نے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی نافرمانی
کی۔
مہرزیادہ مقرر کرنے کی حوصلہ شکنی
عَنۡ عُمَرَ بۡنِ الۡخَطَّابِ قَالَ اَلَا لَا تُغَالُوۡا صَدُقَۃَ
النِّسَاءِ فَاِنَّھَا لَوۡ کَانَتۡ مَکۡرُمَۃً
فِی الدُّنۡیَا اَوۡتَقۡوًی عِنۡدَ اللّٰہِ
لَکَانَ اَوۡلَاکُمۡ بِھَا نَبِیُّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ
مَاعَلِمۡتُ رَسُوۡلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ نَکَحَ شَیۡئًا
مِّنۡ نِسَائِہٖ وَلَا اَنۡکَحَ شَیۡئًا مِّنۡ بَنَاتِہٖ عَلیٰ اَکۡثَرَ مِنَ
اثۡنَتَیۡ عَشَرَۃَ اُوۡقِیَّۃً(سننِ ترمذی:1114(
حضرت عمر بن خطّاب نے
فرمایا کہ خبردار عورتوں کے مہر میں زیادتی نہ کیا کرو، کیونکہ اگریہ دنیا میں عزت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک
پرہیزگاری (کا ذریعہ) ہوتا، تو نبی ﷺ اِس
کے زیادہ حق دار ہوتے ۔ میرے علم میں نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی کسی زوجہ سے نکاح کیا ہو یا اپنی
صاحبزادیوں میں سے کسی کا نکاح کرایا ہو اور بارہ اَوقیہ سے زیادہ مہر مقرر کیا
ہو۔
نئے جوڑے کو دُعا دینا
عَنْ الْحَسَنِ قَالَ: تَزَوَّجَ عَقِيلُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ امْرَأَةً
مِنْ بَنِي جَثْمٍ فَقِيلَ لَهُ:بِالرِّفَاءِ وَالْبَنِيۡنَ، قَالَ: قُوۡلُوۡا
كَمَا قَالَ رَسُوۡلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:بَارَكَ اللَّهُ
فِيۡكُمْ وَبَارَكَ لَكُمْ(سنن نسائی:3373)
حضرت حسن رضی الله عنہ کہتے ہیں
کہ عقیل بن اَبی طالب نے بنوجثم کی ایک عورت سے شادی کی تو اُنہیں میل ملاپ
سے رہنے اور صاحب اولاد ہونے کی دعا دی گئی۔ تو انہوں نے(دُعا دینے والوں سے) کہا:
جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پرکہا ہے اسی طرح تم بھی کہو،رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری ہر چیز میں برکت دے اور تمہیں
برکت والا کرے۔
اِسلام میں جہیز کا تصوّر
عَنْ
عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:جَهَّزَ رَسُوۡلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ فِي ۡخَمِيۡلٍ وَّقِرْبَةٍ وَّوِسَادَةٍ حَشْوُهَا
إِذْخِرٌ(سننِ نسائی:3384)
حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں روئیں دار چادر، مشکیزہ، اِذخر گھاس بھرا ہوا تکیہ دیا۔
Post a Comment