ایسے لوگ جو بار بار گناہ کرتے ہیں، ایسا کرنا کیسا ہے؟ کیا ایسے لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے؟

بسا اوقات انسان اخلاص نیت وعزم صمیم سے توبہ  کرتا ہے کہ اب یہ گناہ دوبارہ نہیں کروں گا۔ لیکن   نشہ باز کی طرح جس کو نشہ کی شدید طلب محسوس ہواس لمحہ وہ اپنی انا،وقار،سماجی حیثیت،علمی قابلیت،شہرت،عزت ،آبرو،پر غور نہیں کرتا ،بلکہ سب کچھ داؤ پر لگا کر اس کا مطمح نظر صرف اورصرف نشہ ہوتاہے۔اس کے لئے وہ یہ سب چیزیں قربان کرنے پر تیار ہوجاتاہے۔ اسی طرح گناہوں میں مبتلا انسان جب دوبارہ اس ماحول میں جاتا ہے ،یا اسے گناہ کے لئے سازگار حالات مل جائیں تو غفلت اور نفسانی جذبات کے سبب اس گناہ سے دوبارہ دوچار ہوجاتاہے۔

ایسی صورت میں جیسے ہی ندامت ہو،توبہ کی طرف دل مائل ہو فوراً کرلینی چاہئے ۔ کیونکہ  جب تک سانسوں کی مالا قائم ہے تو حضورﷺ کے فرمان جلیل کے مطابق  بندے اور عبد کی توبہ کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا۔

إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِر(سنن الترمذی:3537) کہ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے۔

لہذا  گناہوں کی تو کوئی حد ہوسکتی ہے لیکن  توبہ کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی سرحد۔نہ ہی یہ کسی عدد میں مقید ہے ۔ہاں شیطان ضرور یہ دھوکہ دیتا ہے کہ اب توبہ قبول نہیں ہوگی۔ اور جب وہ ناامید و مایوس ہوجاتاہے تو اسے اکساتا ہے کہ جس قدر گناہ کرسکتے ہو کرلو۔ لیکن جب تک زندگی کی سانسیں قائم ہیں انسان سچائی،دیانت داری،اخلاص ،ندامت کے ساتھ جتنی دفعہ بھی توبہ کرے اللہ رب العزت اس کی توبہ قبول کرتاہے۔

مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ، وَإِنْ عَادَ فِي الْيَوْمِ سَبْعِينَ مَرَّةٍ(سنن ابی داؤد: 1514)

وہ شخص (گناہوں پر) اصرار کرنے  والا (ضدی ) نہیں جو مغفرت طلب کرے اگرچہ وہ ایک دن میں ستر دفعہ(غلطی سے) پلٹ کر  گناہ کا ارتکاب کرلے۔

بعض اوقات  انسان صدق دل وصمیم قلب سے توبہ اورگناہ چھوڑنے کا عزم مصمم کرنے کے بعد کہ اگر اس گناہ کا موقع ملا پھر بھی اس میں مبتلا نہ ہوں گا۔لیکن شومئ قسمت  خود کو آزمانے کے لئے اس  یقین کے ساتھ گناہ کے قریب جاتاہےکہ اب تومیں اس میں  کبھی بھی مبتلا نہ ہوں گا۔لیکن جب وہ گناہ کی حدود کے قریب جاتا ہے تولغزش قدم سے وہ  اس کی سرحدوں میں داخل ہوجاتاہے۔اوراس میں مبتلا ہوجاتاہے اوربعد میں کف افسوس ملتا رہتاہے۔اس لئے انسان پر لازم ہے کہ وہ گناہ سے بچے اور اس کے قریب لے جانے والے امور سے بھی بچے۔ امام شرف الدین یحییٰ نووی فرماتے ہیں:

" اور جان لو کہ ہر حرام کردہ چیز کا حدود اربعہ ہے، جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ (جو اس گناہ کے سبب حرام ہے)  جیسا کہ اجنبیہ سے خلوت(تنہائی) فعل  حرام(زنا) کے سبب  حرام ہے ۔ ہر شخص پر لازم ہے وہ حرام سے بچے اور اس کی حدود سے بھی دور رہے۔پس حرام بنفسہ ممنوع (حرام لعینہٖ)ہے اور اس کی حدود میں داخل ہونا اس لئے حرام ہے کہ وہ بتدریج حرام میں مبتلا کردیتاہے۔"(شرح اربعین نوویہ،ص40)

لہذا جب تک انسان  پر جان کنی کی کیفیت طاری نہیں ہوجاتی یا انسان واضح نشانیاں نہیں دیکھ لیتا (جیسے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ) اس وقت تک انسان اور توبہ کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا جیسا کہ 100 قتل والی طویل حدیث میں موجود ہے ۔ لیکن جس وقت توبہ کی جائے اس وقت یقین اور ثابت قدمی سے وہ فیصلہ کرے کہ وہ کبھی گناہوں کی طرف نہ پلٹے گا اور خود کبھی اپنی آزمائش کی کوشش نہ کرے۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post