فضائل توبہ  اور  اس کے انسانی زندگی پرمرتب ہونے والے  اثرات

گناہ اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں۔انسان اللہ کی رحمت سے دور ہوجاتاہے۔ گناہ کرنے سے انسان کی رزق،عمر اور علم  میں برکت نہیں رہتی۔انسان کی آخرت کی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا بھی تنگ ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِىْ فَاِنَّ لَـهٝ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُـرُهٝ يَوْمَ الْقِيَامَةِ اَعْمٰى (طہ: 124)

اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا تو اس کی زندگی بھی تنگ ہوگی اور اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

حدیث میں آیا ہے کہ: النَّدَمُ تَوْبَةٌ ۔(سنن ابن ماجہ:4252)

توبہ کے فضائل

توبہ کی برکت سے اللہ رب العزت انسان کے تمام گناہوں کو یکسر مٹادیتا ہےاور وہ دوبارہ سے اس شخص کی مانند ہوجاتاہے جس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔سنن ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ(سنن ابن ماجہ:4250)گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی جیسا کہ اس کا کوئی گناہ نہ ہو۔

تائب کے لئے ایک ایسا مقام بھی آتاہے جب رب بھی اس سے محبت کرتاہے۔اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ(البقرۃ:222)بیشک اللہ رب العزت توبہ کرنے والوں سے اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتاہے۔

رسو ل اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص توبہ کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے گناہ ان فرشتوں کو بھلا دیتے ہیں جنھوں نے وہ گناہ لکھنے ہوتے ہیں اور اس کے ہاتھ پاؤں کو بھلا دیتے ہیں جن سے گناہ کیے تھے اور اس جگہ کو بھی بھلا دیتے ہیں جہاں وہ گناہ سرزد ہوئے تھے ، تاکہ جب وہ شخص احکم الحاکمین کے سامنے حاضر ہو تو اس کے گناہ کا کوئی گواہ نہ نکلے۔

اﷲ تعالیٰ اپنا دستِ کرم اس شخص کے لیے پھیلائے ہوئے ہیں جس نے دن کو گناہ کیا ہو، تاکہ وہ رات کو توبہ کرے اور میں قبول کر لوں اور اس شخض کے واسطے جس نے رات کو گناہ کیا ہو، تاکہ وہ دن کو توبہ کرے اور میں قبول کروں۔ یہ دستِ شفقت اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔

حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص گناہ سے توبہ کرتا ہے وہ ایسا ہے جس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ سے اس بدوی کی نسبت زیادہ خوش ہوتے ہیں جسے خطرناک جنگل میں نیند آ جائے، اس کے پاس ایک اونٹ ہو جس پر اس کا زادِ راہ اور سرمایہ لدا ہو۔ جب جاگے تو اونٹ موجود نہ ہو، گھبرا کر اٹھے اور سرگرمی سے اس کو تلاش کرنا شروع کر دے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ حال ہو جائے کہ بھوک پیاس کے سبب موت کا خطرہ لاحق ہو جائے۔ وہ بیزار ہو کر اپنی جگہ پلٹ آئے کہ مرنا ہے تو وہیں مرا جائے اور مرنے کے لیے تیار ہو کر بازو پر سر رکھ کر سو جائے۔ اچانک آنکھ کھلے تو اونٹ اسی طرح لدا پھندا سامنے موجود ہو۔ اﷲ کا شکر ادا کرنا چاہے اور خوشی میں یہ کہنے کے بجائے کہ تو میرا رب اور میں تیرا بند ہ ہوں، یہ کہنے لگے کہ اے اﷲ! تومیرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ یہ اعرابی بدوی اپنے لٹے ہوئے سرمایہ کو پا کر جتنا خوش ہوتا ہے اس سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے گناہ گار بندے کی توبہ سے خوشی ہوتی ہے۔

توبہ کے انسانی زندگی پر اثرات

اگر غورکیا جائے  تو !

·        توبہ بجھی ہوئی ٹارچ کو روشن کرنایعنی تاریک راہ کو روشن کرنا،گم کردہ راستے پر واپس آنا، تو یہ انسان کی زندگی میں نور بھردیتی ہے

·        توبہ ایک طرح نہانے کے متراد ف ہے۔یہ انسان کے گناہ و میل کچیل دھودیتی ہے۔

·        گناہ ایک زہر ہے جس  کا تریاق توبہ ہے۔

·        گناہ ایک جرم ہے جس کا  کفارہ توبہ ہے۔

·         گناہ ایک بیماری ہے جس کا علاج توبہ ہے

·        گناہ ایک خسارہ ہے جس کا  مداوا توبہ ہے،گناہ  ایک بدنما داغ جس کی صفائی ودھلائی توبہ ہے

·        گناہ حکمی نجاست ہے اور اس نجاست سے غسل کے لئے عام پانی نہیں بلکہ آنکھ (چشمہ عین) سے نکلنے والے آنسو (سیلاب اشک رواں) کی ضرورت ہے۔

·        گناہ کفر کی ڈاک ہے اور اس سے ایمان کی  متاع عزیز بچانے کا واحد حل توبہ ہے۔

جیسا کہ  گناہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ لمحہ شیطان کے وار کا بہترین موقع ہے اور وہ انسان سے اس کی سب سے قیمتی چیز یعنی ایمان کو اچک لینا چاہتاہے۔ الْمَعَاصِي بَرِيدُ الْكُفْرِ، كَمَا أَنَّ الْحُمَّى بَرِيدُ الْمَوْتِ۔گناہ کفر کی ڈاک ہیں جس طرح بخار(بیماری) موت کی ڈاک ہے۔(شعب الإيمان،أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر البيهقي)

اس ڈاک کے مستقل آنے سے  اورخطاؤں میں مبتلا ہوتے رہنے سے  انسان کمزور ی و ضعف کا شکار ہوجاتاہے۔ گناہوں سے رغبت بڑھتی ہے اور نیکیوں سے طبیعت میں  نفورپیدا ہوتاہے۔ اور پھر ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے کہ اس وقت  کئے گئے حملہ سے اس(گناہ گار) کے متاثر ہونے اورایمان کی نعمت سے محروم ہونے کے شدید امکانات ہیں(العیاذ باللہ)۔اب اس کا علاج توبہ و استغفار ہے۔اس توبہ انسان کو کفر سے بچاتی ہے۔

اگر عقلی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو  جب کسی صاحب عقل وشعور سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے اور اسے اس کا احساس بھی ہوجائے تو اس صورت میں اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس عمل کو undo کرکے اس غلط کو فوراً صحیح کرلے۔قدم واپس کرلے۔ یوں اگر توبہ کو" کوریکشن پین(وائٹؤ)،اریزراورCTRL Z یا Undo کمانڈ سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ایک لحاظ سے یہ بہت ہی آسان کام ہے کہ اس پر نہ کچھ خرچ ہوگا نہ کوئی جسمانی محنت ہوگی،نہ  ہی کسی کی سفارش کی ضرورت ہے ،نہ کوئی دماغی محنت یا منصوبہ سازی درکار ہے۔   بس دو قطرے آنسو بہانا ہے۔۔۔لیکن ایک اعتبار سے سب سے مشکل کام ہے۔ بہت ہی مشکل۔اول اپنی  غلطی تسلیم کرنا ہی بڑی بات ہے اس پر ندامت کرنا،عاجزی کا اظہار کرنا،جھکنا،اورآئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ توبہ  کے لئے اپنے نفس کو مارنا پڑتاہے،اپنی انا کو دبانا پڑتاہے،کچلنا پڑتاہے۔ یہی وہ مقام و مقال ہے جو انسان کو شیطان سے ممتاز کرتاہے۔ شیطان اپنی غلطی پر اکڑگیا،اصرار کرنے لگا،تاویلات پیش کرنے لگا، منطقی (قول کے ذریعے) و سائنسی وحیاتیاتی دلائل (اپنی تخلیق اور تخلیق آدم کے درمیان پائے جانے والے امتیازات) پیش کرنے لگا، اوراپنی غلطی کو صحیح قراردینے لگا۔لیکن توبہ نہ کی  اورنہ کبھی کرسکتاہے!!! اتنا بھی آسان نہیں،رب جسے توفیق عطافرمائے۔

حضرت ابوذرغفاری سے مرفوعا نقل ہے کہ:إنَّ لكلِّ داء دواءً، وإنَّ دواء الذنوب الاستغفار( جامع العلوم والحكم في شرح خمسين حديثاً من جوامع الكلم،زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي)۔بیشک ہر بیماری کی دوا موجود ہے اور بیشک گناہوں کا علاج استغفار ہے۔یعنی توبہ و استغفار سے انسان اپنی غلطی بالکل مٹاسکتا ہے ۔ایسا کرکے انسان اپنی  غلطیوں کو یکسرختم کرنے کی یا انہیں نیکوں سے بدلنے کی خواہش پوری کرسکتاہے۔

اور پھر یہ انسان کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو  ایک نیک اور صالح انسان  کی طرح دوبارہ اس کے چہرے پر ایمان کی رونق  اور اس کی زندگی  و رزق میں برکت پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ   مواقف حلف فيها النبي ﷺ، أبو محمد خميس السعيد محمد عبد الله میں ہے۔

"بیشک نیکی کرنے والے کے چہرے پہ چمک دمک، دل میں نور،رزق میں کشادگی، بدن میں قوت و طاقت اور مخلوق کےدل میں اس کے لیے محبت ہوتی ہے اور گناہ کرنے  والے کے چہرے پہ سیاہی(نحوست) ،دل و قبر میں تاریکی ،بدن میں کمزوری،رزق (خیر وبرکت) میں کمی اور مخلوق کے دل میں اس کے لیےبغض پیدا ہوجاتا ہے" ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post