اللہ رب العزت اپنے تمام بندوں پررحم وکرم کرتاہے اوران کی دعاؤں
کوقبول کرتاہے۔لیکن کچھ لوگ خاص الخاص یا اخص ایسے ہوتے ہیں کہ ان لوگوں کی
دعا ضرور جلدقبول ہوتی ہے ۔ان میں سے ایک گروہ صالحین کرام کابھی ہے۔ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔
اسی بنا پر ان کی دعاؤں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ وہ ہر قدم اورہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ
سے دعا کرتے رہتے ہیں۔اور اللہ ان کی دعاؤں کو سنتا اور قبول کرتاہے ،قرآن کریم و
احادیث مبارکہ میں چندواقعات ایسے ہیں جن سے یہ صاف واضح ہے کہ اللہ اپنے نیک
بندوں کی دعاضرورقبول کرتاہے۔
حضرت
ابوہریرہ سے مروی حدیثِ قدسی میں اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے
زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میری طرف
ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنالیتا ہوں۔جب وہ
اللہ کا محبوب بن جاتا ہے ، پھر حدیث
مبارکہ کے الفاظ میں :
فاذا
احببته فکنت سمعه الذی یسمع به وبصره الذی یبصربه ویده التی یبطش بها ورجله التی
یمشی بها.سو جب میں اسے
اپنا محبوب بنالیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی
آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا
ہے اور میں اس کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے‘۔(بخاری، الجامع الصحیح،
کتاب الرقاق، 2: 963)
اللہ
تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو وہ مقام عطا فرماتا ہے کہ وہ جو بھی دعا کریں قبول کی
جاتی ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ان من عبادالله
لو اقسم علی الله لا بره.بلاشبہ اللہ کے
بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کوئی بات کردیں تو اللہ
اسے ضرور پورا کرتا ہے‘۔(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الصلح، 1: 372)
حضرت
ابوہریرہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:رب اشعث مدفوع بالابواب لو اقسم
علی الله لا بره.’بہت
سے بکھرے بالوں والے جن کو دروازوں سے دھکے دیئے جاتے ہیں اگر وہ اللہ کی قسم اٹھا
کر کوئی بات کریں تو اللہ اسے ضرور پورا کرتا ہے‘۔(مسلم، الجامع الصحیح، کتاب البر،
2: 329)
Post a Comment