علی شریعتی

مترجم:مظفر علی سید

مسئولیت - فن و ادب اور مذہب کی ذمہ داری

" ہر وہ شخص جو علمی سوچ بچار کی کوئی بھی سطح رکھتا ہو، یا کسی بھی مسلک یا مذہب کا معتقد ہوا سے کبھی نہ کبھی اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے :

اعتقاد، کس قسم کی مسئولیتوں یا ذمے داریوں کا مجھ سے تقاضا کرتا ہے ؟

ایمان کی تعریف میں، زبان اور دل سے اقرار کے علاوہ کم سے کم ایک مکتبِ فکر کےنزدیک عمل کی اور تعمیل واطاعت کی شرط بھی جو اصطلاح میں اعضائے بدن کے ساتھ ہوتی ہے موجود ہے۔ اور یہ شرط عمل کی برتری کو ظاہر کرتی ہے۔

یعنی جس طرح فلسفہ وجود میں  PRAXIS یا اجرا کے فعل کا تصور ہے، ایک ایسے فعل کا جو واقعیت اور حقیقت کو وجود میں لاتا ہے اور جس کے مطابق، فعل کے بغیر کسی چیز میں اعتقاد کا ہونانہ ہو نا برابر ہے ، اسی طرح غیر فاعل مومن کا وجو د مساوی ہے کسی کا فریا منکر کے۔ ر گریے کے بقول ، جو فلسفہ وجود کے ناقدین میں شمار ہوتا ہے ، " دنیا کے عظیم فنکار بھی  اپنی ان  مجوزہ تصانیف کے سلسلے میں جو وجود میں نہیں آسکیں، غیر فنکار لوگوں کے برابر ہے۔ مثلا فردوسی یا مولانا روم جو شاہنامے اور مثنوی کو وجود میں لانے کی بِناپر شاعر اور فنکار ہیں ان افکار وخیالات کے سلسلے میں جو ان سے لکھے نہیں جاسکے، دوسروں کے یہاں تک کہ ان لوگوں کے بھی جولکھنے پڑھنے سے معذور ہیں ۔ مسادی ہیں۔ اور یہ محض ہمارا وہم ہے کہ جولوگ فن کی تخلیق و آفرینش میں سرے سے کوئی فعالیت ہی نہیں رکھتے ۔

یعنی عمل نہیں کرتے۔ ہم انکو بھی شاعر اور فنکار قرار دے دیتے ہیں۔

ایک روشن خیال اور با ہوش دانشور جو کہ جانتا ہے اور پھر بھی عمل نہیں کرتا ، اس اونگھنے والے ان پڑھ شخص سے جو نہیں جانتا کہ کیا کرے، ذرا بھی مختلف نہیں۔ کوئی شخص جو اجتماعی مسائل کا دِقّت نظر کے ساتھ اور عالمانہ انداز میں تجزیہ کرتا ہے مگرہر قسم کی اجتماعی عہد مندی (یا کمنٹمنٹ) سے روگردانی کرتا ہے، اس شخص کی مانند ہے جو بالکل نہیں جانتا کہ معاشرہ کیا ہوتا ہے اور کیا قدروقیمت رکھتا ہے ؟ یہ اس لئے کہ خیر وشر کفر و ایمان، اس چیز کی اور اس چیز کی اصلیت عمل کے بعد ہی معلوم ہوتی ہے۔

مسئولیت کا مسئلہ

ایک بنیادی بحث جو آج کی دنیا میں سامنے آرہی ہے ، مسئولیت یاذمے داری کا مسئلہ ہے جس نے اس لفظ کو ایک ایسی قدر و قیمت اور گہرائی بخش دی ہے جو ہم فارسی میں (اور اردو میں بھی۔ مترجم) اس سے منسوب نہیں کرتے۔

مسئولیت کی برتری یا فن کار کی آزادی میں اعتقاد کی بنیاد پر دنیا کے دو بلاکوں کے درمیان جنہیں مشرق و مغرب کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک بہت بڑا تصادم پیدا ہوگیا ہے۔ کیا فن کار اس شخص کا نام ہے جو اپنی مجر و فنی اقدار کو جیسے بھی چاہیے، اپنے خود ساختہ معیاروں کے مطابق، خود ہی وجود میں لاتا ہے ؟ یا فنکار ایک ایسا تخلیقی تولید کار ہے جو اپنے فن پارے کو وجود میں لانے سے پہلے، خود کو کسی عہد مندی کے نبھانے کا ذمے دار یا مسئول سمجھتا ہے اور اپنے فن پارے کو ایک وسیلہ سمجھتا ہے، کسی ایسے ہدف تک پہنچنے کا، جس کو وہ اپنا فریضہ حیات سمجھتا ہے ؟

ان دو تعریفوں نے ، دنیا بھر کے دانشوروں اور مفکروں کو خصوصا فن کاروں اور ادیبوں کو دو متضاد انتہاؤں کے درمیان تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ اور فن برائے فن" کے تصور کو، فن برائے انسان ، فن برائے ترقی اور فن برائے اجتماعی حریت و نجات کے مقابل لا کے کھڑا کر دیا ہے۔

کیا سائنس اپنا مقصود آپ ہے ؟ یا اس کی حیثیت ایک وسیلے کی ہے جو انسانی ضروریات عوام کے گروہوں اور انسانی معاشرتوں کی خدمت کے لئے کام آتا ہے ؟ کیا محض اسی شخص کو شاعر قرار دیا جائے جو ایک ایسی تصنیف وجود میں لا چکا ہے جواحساس کو اکساتی ہے اور کلام کے اجزاء کی ترکیب سے ایک خوبصورت فن پارہ بن گئی ہے،یا شاعر وہ شخص ہے جو بیان کی تمام قدرتوں کو کام میں لاتا ہے تاکہ انسانوں کو اپنے ہدف تک پہنچنےمیں۔ اور اُن کی زندگی اور احساس اور مسئولیتوں کو آگا ہی عطا کرنے میں اور جو نا ہمواریاں اُن پر گزرتی ہیں اور جو ان کا مقدر بن کے رہ گئی ہیں ۔ ان کے سلسلے میں ، ان کا ساتھ دیتا ہے  ان دونوں میں سے کون سی چیز کو آپ حقیقی قرار دیں گے۔

نٹشے کے اقوال سے ایک فقرہ نقل کرتا ہوں : فن برائے فن، علم  برائے علم ، اور شعر برائے شعر محض ایک دھوکا ہیں۔ فن کار کے میت نما وجود کو ڈھانپنے اور اجتماعی مسئولیتوں کے ساتھ عہد نبھانے سے گریز کو باعزت بنانے کی ایک کوشش "

 ایک المناک منصوبہ

بیسویں صدی ہیں، بے حد چالاکی اور مہارت کے ساتھ ، ایک المناک منصوبہ تیار کیا گیا اس کے مطابق، علم نے صرف علم کے طور پر قدر و قیمت حاصل کر لی، کسی قسم کے مذہب ومسلک، نظریے، حق یا باطل کی خدمت سے ، مثبت یا منفی کسی قسم کی خدمت سے بے نیاز ہو کر یہ میں ایک ماہر اجتماعیات اجتماعیات کو ایک وسیلہ قرار نہیں دیتا جس کے ذریعے عوام کے لئے ایک مسلک متعین کر سکوں ، وضع موجود سے باہر نکلنے کی کوئی صورت تجویز کرسکوں، اور اجتماعیات نے جو علمی آگا ہی مجھے عطا کی ہے، اس کی مدد سے ، اُن کی رہائی اور بات کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کرسکوں کیونکہ اجتماعیات کا علم کوئی تکنیک نہیں کہ حل کی کوئی صورت نکال سکے، پیغمبری نہیں کہ ہدایت دے سکے۔ اور کسی مسلک یا ان کی تائید یا تردید کے لئے مسئول نہیں ہے ۔ اجتماعیات کے شغل کی حد یہ ہے کہ معاشرے میں موجود کسی حقیقت یا معاشرے کے نام پر کسی حقیقت کا تجزیہ اور تحلیل کرے۔ بس اتنا ہے کہ جو مظہر دنیا کے اندر وجود میں آتا ہے ، یہ یہ نتائج رکھتا ہے اور جو حالت کو معاشرے میں پائی جاتی ہے، فلاں فلاں اسباب یا عوامل کی پیداوار ہے۔ اور اگر اس صورت حال کا ان سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں : ہم رہنمائی کے لئے مسئول نہیں ہیں۔ یہ کام عقیدے کا ہے یا آئیڈیا لوجی کا یا مذہب کا۔ اور جب بھی آپ کسی عالم کے پاس یہ سوال لے کر جائیں تو یہی جواب ملے گا: آپ کے سوال کا جواب علم کو ایک خاص ہدف یا مقصد تک محدود کر کے رکھ دے گا جب کہ علم آزاد ہوتا ہے؟ ماہر ا جتماعیات سے پوچھیں کہ انسانی معاشرے کو سرمایہ داری جنم دیتی ہے یا غیر سرمایہ داری ہے تو آپ کو بتایا جائے گا۔ " مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ میں تو بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ سرمایہ داری کس قسم کی چیز ہے، کیسے وجود میں آئی ہے، اس میں کیا کیا تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کی کون کون سی قسمیں ہیں ؟ باقی رہا یہ کہ اسے برا کہا جائے کہ بھلا محفوظ رکھا جائے یا بر باد کر دیا جائے تو میرا اس سے کیا تعلق ہے میں تو بھوک کا تجزیہ اور تحلیل کر سکتا ہوں مگر بھوکوں کا پیٹ کیسے بھرا جائے ، یہ بتانا میرا کام نہیں ؟ آپ نے دیکھا کیسے خوبصورت سرپوش کے ساتھ ” علمی حقیقت عالم کی آزادی اور کسی قسم کی عہد مندی اور مسئولیت سے بے اعتنائی ، اور دو دانش وری کی اور دانش کی لاتعلقی کا بہروپ انسانی گروہوں کو اور بنی نوع انسان کو ، اور ان معاشرتوں کو جو نا ہمواری اور تفریق اور تصادم اور تضاد کے درمیان مصیبت میں گرفتار ہیں ، اور نجات کے کسی راستے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ان آگا ہیوں سے اور دانشوری کے نتائج سے اور تمام ہمدردیوں سے ، جو علم اور خصوصا ًاجتماعیا  ت  کا علم فراہم کر سکتا ہے ، محروم رکھا جاتا ہے۔

اس صورت میں علم عوام کے کس کام آسکتا ہے ؟ جیسے ایک ماہر طبیعات  بس یہ چاہتا ہے کہ کائنات کے حقائق کو منکشف کرے ، ایک ما ہر اجتماعیات اس فکر میں سلطان ہے کہ اجتماعی حقیقتوں کا تجزیہ و تحلیل کرے ۔ اس کے سوا ، اسے اور کوئی کام نہیں۔

نفسیات اور تعلیم و تربیت اور معاشیات وغیرہ کی صورت بھی یہی ہے۔ جس وقت علم عوام کی دسترس سے دور ہوا اور عوام کی رہنمائی اور مسولیت کی عہد مندی سے روگرداں ہوا اور خلوت گزیں، گوشہ نشیں اور پارسا ہوگیا تو پھر دہ طاقتوروں کے دسترخوان کا ایک بے حد مرغن قسم کا لقمہ بن کے رہ گیا۔ آئیڈیالوجی کی تہمت سے، اور ہر قسم کے مسلک و مذہب سے آزاد شدہ علم، آخر کار کس کی مٹھی میں آیا ہے عوام کے دشمنوں ، ایمان اور ہدف کے دشمنوں اور بنی نوع انسان کے دشمنوں کے بس میں!

 ہم فن سے ، فن کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ یعنی عوام کو مجرد لذتوں سے اور حسن و جمال سے فریب میں رکھنا، اور فن کو بھی اُن ذوقی تماشوں کی تخلیق میں مصروف رکھنا جن سے صرف وہی لوگ لطف اٹھا سکیں جو مادی او را جتماعی آسودگی سے بہرہ ور ہوں اور چاہتے ہوں کہ اپنے فرصت کے لمحوں میں ، فنی مشاغل سے کھیل سکیں۔ خلاصہ یہ کہ تو ندیل اور پیسے والے گدھے ، جو زیادہ سے زیادہ بولی دے سکتے ہیں اور گیلریوں کی گیلریاں اور مصوری کے نقوش پر نقوش خریدنے کے ذرائعے رکھتے ہیں، ایسی قیمتوں پر کہ ان کی شہرت د در دور پھیل جائے ، بس یہی لوگ فن کے طلب گار ہوں۔ حالانکہ یہ لوگ جملہ فنون میں سے یس دولت کمانے کے فن سے واقف ہیں اور لہو چوسنے کے فن سے اور فریب کاری کے فن سے !

یہ ہے وہ صورت حال جسے ہم ودفن برائے فن کی حقیقی صورت میں دیکھتے ہیں، ن جو طبقہ اشراف اور اس کے مفادات کی صورت میں تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ کینوس جوایک فنکار مصور بظاہر اپنے لئے منقش کرتا ہے، اس سے بے نیاز کہ عوام اس کو پسند ریں گے یا ناپسند عوام کے کسی کام آئے گا یا نہیں ، وہی کینوس ایک ترغیب بن جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ بولی پر نیلام کے لئے یا کم سے کم قیمت کے ٹنڈر کے لئے تیار ہوتا ہے تاکہ بالآخر ہزاروں ملین کے کسی محل کی زینت بن سکے۔

علم وفن اور شعر و ادب سے مسئولیت کا سلب کر لیا جانا ، ان طاقتوں کی قریب کاری پر مبنی ہے جنہوں نے انسانیت پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے تاکہ انسان کوترقی اور فلاح اور نجات کے عوامل سے ، اور عظیم ترین تہذیبی سرمائے سے محروم رکھ سکیں۔ اور دانشوروں اور فن کاروں کو جوانسانی زندگی کی عظیم ترین دولت ہیں۔ معاشرے کی حدود سے باہر نکال سکیں اور معملوں میں اور کالجوں کی کلاسوں میں ، جن کے دروازے کسی وقت بھی بند کے جاسکتے ہیں، ان کو مصر کر دیں۔ اور ایک باعزت قسم کی پارسائی میں جو طبقہ مالکہ کےلئے منفعت بخش ہے۔ ان کو بے بس بنا کے رکھ دیں ۔

یہ صورت ہے جسے ہم تاریخ نہیں، آمریت اور دھونس دھڑی کے ادوار میں " خلوت گزینی، عُزلت پسندی، منفی قسم کی پارسائی اور زہد پرستی او را اجتماعی گوشہ نشینی کی ترویج کی شکل میں دیکھتے ہیں تاکہ معاشرہ اپنی بہترین اور پاک ترین روحوں کو نہ دیکھ سکے۔ اور وہ سب اپنے اپنے گھروں کے کونوں کھدروں میں، اور غاروں میں، رہنمائی سے بے نیاز ، رہبانیت کی حالت میں رہ کر بوسیدہ ہو جائیں تاکہ وہ لوگ جو عوام پر مسلط ہیں اور معاشرت میں لوٹ کھسوٹ کرتے رہتے ہیں عوام کا انعام کا معاملہ جو بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتے ہیں، صرف اُن کے ہاتھوں میں ہو، ان لوگوں کے اختیار میں جو معاشرت کے بہترین تخیلات اور اس کی پاکیزہ ترین روحانی اقدار سے بیگانہ ہوتے ہیں۔

 اسلام میں فن اور ادب کی مسئولیت

 ممکن ہے کہ مسئولیت کی اصطلاح اور اس کی تعبیر نئی ہو مگر وہ حمایت اور پشت پنا ہی جو اسلام کی روح نے اور اس کے رہبروں نے فن اور علم و ادب حتی کہ شاعری کے سلسلے میں روا رکھی ہے، اس سے کہیں زیادہ ہے جو آج کی دنیا میں اسے ملتی ہے۔ وہ تردید میں اور تضادات جو مسئولیت کے مسئلے سے عہدہ برآنہ ہونے کی بنا پر ہمیں در پیش ہوتی ہیں، ان بنیادی ترین اور روشن ترین معیاروں کے سامنے رکھ کے دیکھیے جن پر اسلام کی تاکید اصرارا در جانب داری کی بنیاد ہے ۔ علیم شریفی تحلیل اور حق جوئی کی مسئولیت کے سلسلے ہیں۔ اور جن کی رو سے فن اور علم کا واحد من نسب یہ قرار دیا گیا ہے کہ ایمان اور اجتماع کی خدمت کی جائے اور اس کی مخالف شکل کو سختی سے رد کیا جائے۔ جاہلی دور کی شاعری ، فن برائے فن اور شعر برائے شہر کا نمونہ ہے۔ امر کا نفیس کی شاعری اور سبعہ معلقات کے تمام شورا کا کام سے اب بھی دنیا کی خوبصورت ترین نظموں میں شمار کیا جاتا ہے، اس کو محض شعر برائے شعر کے معیار پر وجود میں لایا گیا تھا۔ مگر اسلام نے اقرآن حکیم میں واضح طور پر وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ(الشعرائ:۲۲۴) اور شاعروں کی پیروی کرنے والے گمراہ ہوتے ہیں) اور مسلمانوں نے اپنے فکر و عمل کے ذریعے، اس کی اتنی سختی سے مذمت کی ہے کہ اسے دوبارہ ہرگز سراٹھانے کی جرات نہیں ہوئی۔ اور اسلام بجانے کے بعد کبھی۔ بقول ڈاکٹر طہ حسین جاہلی شعرا نے شہر کو صرف شعر کی خاطر کہ فا ترک نہیں کیا مگر مسلم عوام کے ہجوم کی منطق کے مقابلے میں ان کے لئے پھر مکن نہ ہوا کہ اپنے اشرافی فایت زربفت کے اندر سے اپنا سر باہر نکال سکیں۔ مگر وہ لوگ جو اِس وقت جاہلی شعرا کے طور پر جانے جاتے ہیں ، در حقیقت جاہلی دور کے شاعر نہ تھے بلکہ وہ مسلمان شاعر تھے جو شریر کے شعر کی طرف دوبارہ راغب ہو گئے تھے اور روح اسلام نے ہمیشہ ان کی نفی کی ہے۔ اور پیر اسلام نے تو یہ تک فرمایا ہے کہ انسان کا دل غلاظت سے بھرا ہو تو اس سے بہتر ہے کہ شاعری سے بھرا ہو

لان یمتلی جوف رجل قیحا خیر لہ من ان یمتلی شعرا۔(مشکوٰۃ۔٤١٠)

کسی شخص کے پیٹ کا پیپ سے بھرا ہونا اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے بھراہوا ہو۔

اسلام ، شاعری کی مدافعت میں ایک ایسا مذ ہب جو اتنی شدت کے ساتھ اور اس کو اتنی بڑی برائی سمجھ کر شاعری پراور شاعروں پر دھاوا بولتا ہے، دوسری طرف اسی طرح سے شاعری کی مدافعت میں ان اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ (حضرت) حسان بن ثابت (﷜) ایک ایسے شاعر تھے جو شعر کہنے کے سوا اور کوئی کام نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ غزوہ خندق کے دوران ، جب سارے کے سارے مجاہد سمان شہر سے باہر خندق کے کنارے دشمن کے مقابلے پر کھڑے تھے ، تو حضرت حسانی (رض) ران کے حلق میں مدینہ کے اندر موجود تھے۔ اور جیسے ہی (حضرة ) صفیہ بنت عبد المطلب رسول خدا کی پھوپھی نے بنی قریظہ کے ایک یہودی کو خواتین اسلام کی قلعہ بندی کے  آس پاس  جاسوسی کے لئے ٹوہ لگاتے دیکھا تو حضرت حسان سے کہا کہ اس کا بندو بست کریں۔ جواب ملا!

 شعر سننے کی خواہش ہو تو حاضر ہوں کہ مجھے تو یہی کچھ آتا ہے مگر یہ کام۔۔۔"

اور پھر جب خود حضرت صفیہ ﷞ نے نیچے اتر کر اپنے نیزے سے اس یہودی کو ہلاک کر دیا تو او پر آئیں اور حضرت حسان  سے کہا :

تم مرد ہو۔ اب ذرا جاکے اس کا لباس مال غنیمت کے طور پر اتار لاؤ "

تب یہ جواب ملا کہ خیر یہ کام تو میں کر سکتا ہوں؟"

اسی شاعر حسّان کی ، پیغمبر اسلام کی طرف سے ایسی عزت افزائی ہوئی جو کسی کا شہید اور کسی مجاہد کے حصے میں نہیں آئی ۔ ایک یہ کہ ان دو کنیزوں میں سے جو حاکم مصر نے پیغمبر اسلام کے لئے بھجوائی تھیں اور جن کے نام ماریہ اور سیرین تھے ، ان میں سے ماریہ کو تو خود رسولِ خدا نے شرف زوجیت بخشا۔ اور اسی سے ابراہیم کی پیدائش ہوئی ۔ ادر سیرین ، حضرت حسان  کو بخش دی۔ دوسرے یہ کہ وہ محل جو اشراف میں سے ایک صحابی نے پیغمبر اسلام کو ہدیہ پیش کیا تھا اور جو کہ مدینہ کے قریب گرمیاں گزارنے کے لئے بہت خوب تھا اور عین اس جگہ واقع تھا جہاں کہ رسول خدا نے ایک گھر بنانے کی آرزو بھی کی تھی [1]لیے یہ اکیلا محل کبھی حسان کو عطا کر دیا جاتا ہے۔

اور ایک مرتبہ کعب بن زہیر کی ایک نظم (مراد اس قصیدے سے ہے جو ان لفظوں سےشروع ہوتا ہے : بانت سعاد : مترجم) سن کر، انعام کے طور پر اپنا لبادہ اتار کر شاعر کو پہنا دیا تھا۔ اور اسی پیغمبر   نے جن کے نزدیک غلاظت، شاعری سے بہتر تھی، یہ بھی ارشاد کیا کہ وان من الشعر لحكمة (اور شاعری میں حکمت کی بات بھی ہوتی ہے ) اور ایک مرتبہ جب حضرت حسان بن ثابت  نے ان کے سامنے ایک نظم پڑھی تو فرمایا : انما نَفّثَ رُوحُ القدس لِسانك (گویا کہ روح القدس نے تمہاری زبان پر  یہ کلام پھونک دیا ہو۔

فن کی یہ تمام تحسین ایک ایسے مذہب کی طرف سے ہے جو شاعری اور شاعروں کی اس قدر مذمت کرتا ہے اور وہ بھی ایک ایسے شخص کی شان میں جسے فقط اور فقط شاعری کا فن آتا ہے!؟ اس تہدید اور اس تائید کے جواز میں میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ اس شاعری کے سلسلے میں جو غیر مسئول یا غیرذمے  دار ہو اور وہ شاعری جو ذاتی ہوس ، فرد کے احساسات اور اشرافیت کی غلام ہو۔ جیسے کہ جاہلیت کی شاعری ہوئی تھی۔ پامردی سے مقابلہ کرتے ہیں اور اس کے خلاف ایسے مبارزہ کرتے ہیں کہ اس کی ایک نسل کو نابود کردیتے ہیں اور بعد میں جب خلفائے (بنو امیہ) آتے ہیں اور ایک مکمل درباری ادارہ مسخروں، مصاحبوں اور شاعروں کی پرورش کے لئے وجود میں آجاتا ہے تو ایک نئی صورت حال کا آغاز ہوتا ہے یہاں تک کہ سلطان محمود غزه نوسی جیسا آدمی ۵ ہزار شاعروں کو اپنے دربار کی زنیت بناتا ہے !

اور وہ شاعری جسے رسول خداﷺ اور اسلام کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، ایک ایسی شاعری ہے جو مسئول ہے اور عہد مندی کی حامل جو عوام کی تمناؤں اور ان کے  ہدف کے لئے کام کرتی ہے اور گروہ آدم کی آگاہی اور نجات کے فریضے میں  مصروف ہے۔ [2]

لہذا آپ کو چاہیے کہ ایک شاعر اور فنکار کے طور پر خود اپنے اور عوام کے زاد دافع کریں اور اعتقاد کی مردوں کی شاخت پیدا کریں کیونکہ آزاد فنکار کا نصور ایک دھوکے سے زیادہ نہیں۔ یا تویہ پسند کیجیے کہ عوام کے ساتھ آپ کا رشتہ اتوار ہو اور ان کی نجات پر آپ نے کمر باندھ رکھی ہو ، یا پھر جا کر عوام کے دشمنوں اور شرف انسانی اور آزادی کے قاتلوں کے ساتھ جائیں۔ تیسرا راستہ کوئی نہیں۔ اور ملاحظہ فرماہے کہ کتنی کوشش کی گئی ہے۔ اور کی جا رہی ہے کہ مسئولیت کو لکھنے والے او رفن کار کے کاندھوں سے اتار لیا جائے۔ اور ہمیں تجزیے کی مہلت نصیب ہوتی تو ہم دیکھتے کہ ہماری تمام پریشانیاں اور بد نصیبیاں اگر براہِ راست اس وجہ سے نہ ہوں کہ یہ (تخلیقی قوتیں اور علمی وفنی کارنامے عوام کی خدمت کی خاطر پیدا نہیں ہوئے تو کم از کم یہ ضرور ہے کہ اگر یہ سب مسئولیت کے حامل ہوتے تو ہماری تقدیر مختلف قسم کی ہوتی ہے۔[3]

 جب اسلام رخصت ہو گیا اور فقط مسلمان باقی رہ گئے ، تو مومنوں نے اور ہماری دینی شخصیتوں نے بھی اس روح کو اور نقطہ نظر کی اس سمت کو کھو دیا اور فقط شعائر تک اور فرد کے لئے احکام کو سمجھنے تک محدود ہو کے رہ گئے ۔ ان کا دل اس پر خوش ہونے لگا کہ سلطان محمود غیر مسلم ہندوستانیوں کے ساتھ جنگ کرنے کو نکلتا ہے، اور سلطان خدابندہ (سنگول بادشاہ شیعہ ہو جاتا ہے اور (منگول ملکہ گوہر شاد خانم مسجد گو ہر شادو تعمیر کراتی ہے۔ ایسی چیزوں سے بالا تر وہ کوئی بات نہیں سمجھتے تھے ہیں یہی کہ فلاں ظالم و جابر حاکم، اپنے نظام حکومت کے تحفظ کے لئے، اور اپنی فرعون نما زندگی کو طویل کرنے کے لئے ختنہ کرا ڈالتا ہے اور ایک تقریب کا انتقاد کرکے دین مبین اسلام سے مشرف ہونے کا اشتہار دے کر بے ضر قسم کی ظاہری رسوم مذہب کو اختیار کر لیتا ہے اور اپنی لوٹ مارکو جہاد کا نام بخش دیتا ہے اور یزید سے بدتر اعمال انجام دینے کے ساتھ ساتھ امام حسین کے لئے ایک روضہ کھڑا کر دیتا ہے اور مومنوں کو اور مومنات کو خوش کرتا ہے اور اسلام کو آب و تاب عطا کرتا ہے ایہ اشارہ نادر شاہ کی جانب ہے۔ مترجم)

یہی طاقتیں تھیں جنہوں نے انشا پردازوں کو اور شاعروں کو طویلے میں باندھ کھا تھا اور ان کی پرورش کرتے تھے اور اس کا حاصل یہ تھا کہ قصیدوں اور غزلوں اور نفوں اور مثنویوں اور رہائیوں اور ترجیح بندوں اور مستزاروں وغیرہ سے بوروں کے بورے بھر جاتے تھے۔ اور یہ سب کہ جو ایک قوم اور ایک تہذیب کی فنی صلاحیت اور ادب کی قوت  جمال آفرینی کی پیداوار تھا، ایک ذرہ بھر عوام کے درد کا علاج نہیں کر سکتا تھا۔ یا توقصیدہ ہوتا تھا کسی ممدوح کی مدح میں ، یا غزل کسی محبوب کی توصیف میں۔

وہ فنکار بھی جنہوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی اور طاقت کے مراکز سے دور ہو گئے ،انہوں  نے بھی عوام سے باخبر رہنے اور ان کے دکھ درد اور ضروریات کا سراغ لگانے کی جستجو کرنے  کی بجائے، عرفان اور پر ہیز گاری اور عبادت گزاری میں مشغول ہو گئے۔ اور رات سے لے کر صبح تک تارے گنا  کئے اور یا اپنے آپ کو وجد و حال کے پروں میں پیوست کر کے پرواز  تخیل میں  زمین کی سطح سے اونچے  ہی اونچے اڑتے چلے گئے اور عوام کو اپنی پست دنیا کے ساتھ  بہت کچھے چھوڑ گئے، اور یا اپنے روحانی عروج میں اکیلے ہی عالم سماوات میں اپنے اور وہاں پہنچ کر روحانی عملیات میں مشغول ہو گئے۔

 ایک ایسے شخص کے طور پر جوطبقاتی لحاظ سے اس ملک کے دیہاتی عوام کے ساتھ  وابستہ ہوں۔ یاکم سے کم ، وابستہ رہا ہوں۔ دیکھا کرتا تھا کہ عین ان لمحات میں جب کہ کسان اپنی  زندگی کو زمیندارکی ذاتی لذتوں پر قربان کر رہا تھا اور اس کی عزت و ناموس ، خوانین اورخانزادوں کا کھلونا بنی ہوئی تھی۔ور اس کا وجودخان کے ہاتھ کا ہتھیار یا تا ز یا نہ ہو کے رہ گیا تھا ۔عین اس زمانے میں ہمارے بڑے بڑے لکھنے والے اور احساس سے سر شار فنکار ، اور ہمارے نازک جذبات  کے حامل شعراے کرام تہران کی  معززاور محترم انجنوں میں کیسی شاندار  تصانیف کی تخلیق  میں مصروف تھے۔ ان کی فکر میں اس قافیے پر مرکوز تھیں جو درست بیٹھ جائے  اور مکرر مکرر کی آوازیں پالکی کے ساتھیوں کو ایک دوسرے سے متفق بنا رہی تھیں۔ اور ہمارے  بڑے بڑے محقق اور دانشور حضرات ۔ خود اپنے قول کے مطابق ۔ اسی زمانے میں پندرہ پندرہ سال تک پیہم  تلاش میں لگے رہے اور آخری ہزار برس کے اسلامی متن  انہوں نے تلے اوپر کر ڈالے اور بالآخر اس طوفان خیز نتیجے تک پہنچے کہ زلیخا کا نام یا یہ  لفظ کسی بھی قدیم نسخے میں نہیں ملتا!

 اب بھی اگر آپ ادبیات کے شعبہ جاتی رسائل کو ایک نظر دیکھ لیں تو وہی انداز تحقیق ملے گا جود برطانوی ماہر ایرانیات ایڈورڈ براؤن اور (اس کے ایرانی معاون) محمد تر دینی نے عرصہ ہوا ان لوگوں کو سکھا دیا تھا۔ بلکہ اِس تازہ تحقیق کی روح اور نقطہ نظر تو اس سے بھی زیادہ فرسودہ معلوم ہوتی ہے۔ یہاں تو عربی زبان کے مشہور نوی تحقیق سیبویہ کی میراث ملے گی جس کو زندگی بھر کی تحقیق کے بعد ، نزع کی حالت میں بھی یہ حسرت رہی کہ مفت و في قلبي شائبة حتى امیں مر رہا ہوں اور ابھی میرے دل سے یہ شبہ دور نہیں ہوا کہ حتی کا لفظ اسم ہے ؟ حرف جار ہے ؟ یا کیا ہے؟)

 آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ غیر مسئول ادبیات اور غیر مسئول تحقیق کو کیا عارضہ درپیش ہے۔ یہ تو تھے بھاری بھر کم قسم کے پرانے بزرگ، کم و بیش مذہبی انداز نظر کے حامل، اور اخلاقی و انسانی اصولوں کی بنیاد کے پابند ۔ مگر آج کل کے ریستورانوں میں بیٹھنے والے نت نئی ادبی یافنی)لہر کے زلف بر دوش علمبردار ان کو تو آپ نے اکثر دیکھا تھا۔ (ایران میں آزا د شاعری کے بانی) نیما یوشیخ ) اور ہمارے ادب کے دوسرے انقلابیوں کا اصل کلام یہ نہیں تھا کہ انہوںنے (شاعری کو وزن کی قید سے آزاد کر دیا یا وزن کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا اور اس کے اندر بار بار قافیہ لانے کی پابندی ختم کر ڈالی۔ ان کا حقیقی کارنامہ تو یہ تھا کہ انہوں نے شاعری کی روح کو ، اور مشاہدے کی سمت کو اور شاعر کے احساس کو ایک دوسرا ہی رنگ دے دیا اور اس خدائی زبان کو یعنی اس آسمانی قسم کی بلند آہنگ زبان کو جو ان سے پہلے مروج تھی) اونچے قلعوں کی قید سے نکال کر کوچہ و بازار میں لے آئے اور ایسے زور دار اور کامیاب ثابت ہوئے کہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ نیما کے انداز کی نظموں کے قالب میں مدح سرائی ممکن ہی نہیں !

جذباتی اور نازک مزاج ادیب جن کو ایک پتے کا گرنا۔ جو پت جھڑ کے ظلم وستم ک شکار ہوا کسی قدر آنسو بہانے پر مجبور کرتا تھا ۔ جیسے (مطیع الدولہ محمد مجازی اورسینٹر)

علی درشتی ۔ بس ایک مرتبہ ان کا ہمارے گاؤں کی طرف آنا ہوا ، اتفاق سے مزینان نام کی ریگستانی بستی میں جہاں میں رہا کرتا تھا) اور ہم لوگوں نے حیرت اور مسرت کے ساتھ اس خبر کا استقبال کیا کہ تہران کے اتنے بڑے ادبیوں اور لکھنے والوں نے اپنی گرما گرم محفلوں کو چھوڑ کر دیہات کا رغا کیا ہے اور فتنہ علی دشتی کی تصنیف) اور زیبا ( محمد مجازی کی تصنیف) کے روئے زیبا سے ممدوح کی فیاضیوں سے اور محبوب کی ناز برداریوں سے ، تھوڑی دیر کو فراغت اکر یہاں تشریف لارہے ہیں، اس فکر میں کہ ہم ریگستان کے جھلسے ہوئے لوگوں کو اور محنت ، مصیبت اور بھوک کے مارے ہوؤں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں مگر انہوں نے نہ تو ہماری بھوک کا کوئی احساس کیا اور نہ کوڑوں کی آواز کو سنا، نہ ہمارے دکھ درد کو چکھا کے دیکھا اور نہ ہماری زندگی کا مشاہدہ کرنے کی زحمت گوارہ کی۔ وہ تو معلوم ہوا کہ) ایک (زیبا خانم) کی زیارت کو تشریف لائے تھے جو خدا جانے کہاں سے ہمارے گاؤں میں آن ٹپکی تھی۔ اور پھر وہی قصہ تھا، خوبصورت اعضائے بدن کی پستیوں کا اور شیخ حسین مزینانی کا تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مجازی کا ناول زیبا، جس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے ۔ مترجم)

یہ ہوتا ہے وہ ادیب کہ مسئول نہ ہو اور یہ ہے وہ المیہ جو" فن برائے فن "کی پیداوار ہے۔ یہ تصویر فن نہ صرف یہ کہ فن کو انسان کی خدمت سے آزاد کر دیتا ہے بلکہ انسان کے خلاف خدمت انجام دیتا ہے اور انسان کو اس کے تنزل اور قریب خوردگی میں مبتلار کھتا ہے۔

 تو یوں ہے آج کی صورت حال جب کہ فن سے مراد ایک ایسی خوراک ہے جو فنکاران لوگوں کے لئے کرتا ہے جو یہ نہیں جانتے کہ پیٹ بھرنے کے بعد اور کیا کھایا جائے اور فرصت کا وقت کیونکر کاٹا جائے ؟ اور لکھنے والے جنسی خوراکیں ، جاسوسی ناولوں کی خوراکیں اور ذہنی غریب زدگی کی خوراکیں اور فکری خیال پروازیوں کی خوراکیں مہیا کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو مادی زندگی کی پریشانیوں سے فارغ بیٹھے ہیں اور اپنی فراغت کے اوقات کو کسی بھی مشغلے سے بہلانے کی فکر میں گرفتار ہیں اور اپنی زندگی کے کھوکھلے پن کو (کسی نہ کسی چیز سے) بھرنا چاہتے ہیں۔

اور یونیورسٹیوں کے علماء کی تحقیقات بھی، عوام سے اور جو کچھ عوام پر بیتی ہے اس سے کی طرح مربوط نہیں ہیں۔ اور صرف علم کی خاطر، اپنے سب سے بڑے ہتھیار کو دشمن کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فن اور مصوری اور موسیقی اور علم اور شعر و ادب اور ٹیکنا لوجی اور طبیعیات کی جلد ترقیوں سے عوام کے کسی فرد کو کوئی حصہ نہیں ملا۔ اگرچہ ایس تو بہت ہیں جن کی زندگی ظاہر بہتر ہوگئی ہے مگر یہ لوگ محض صنعتی اشیاء کے صارف ہیں نہ کہ تولید کار۔

مذہب، خود اپنی خدمت میں

 فرح برائے فن، علم برائے علم اور مذہب برائے مذہب (سب ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں ، اور حسین انداز سے من برائے فنی رفتن کی برتری کا مظاہرہ کرتا ہے اور علم برائے علم، علم کی برتری کا ، اور علم وفق کے لئے انسان کی خدمت انجام دینے کو علم وفن کی تحقیر قرار دیتا ہے، اسی طرح مذہب برائے مذہب بھی مذہب کو بذاتہ ایک ایسا اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے کہ انسان کو درجہ کمال پر پہنچانے کے لئے اس سے کوئی کام لینے کو نا کو محض ایک وسیلہ بنائے اور اسے حقیر سمجھنے کے برابر قرار دیتا ہے۔

لیکن اس عامیانہ احساس برتری بلکہ عوام قریب قسم کی برتری ہیں، اور اس جعلی جلال کے پس پردہ مذہب کی حقیقت اور اس کی زندگی منجمد اور معطل ہو جاتی ہے جس طرح کہ علم وفن کی حقیقت اور زندگی ۔

اسی لئے آج ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب سے مراد ہے مذہبی شعائر ، دینی رسوم، عبادات، روایات اور حتی کہ مذہبی احساسات کا مظاہرہ اور (اس مظاہرے پر کئے جانے والے) اخرابات اسلام میں اور مسیحیت میں ...... پہلے سے کہیں زیادہ یہی صورت حال ہے ۔ زرا خود سینیر اسلام کی سجد کا موازنہ ان مساجد سے کیجے جن میں سے ہر ایک فن اور ذوق اور حیرت انگیز مہارت اور سونے اور سرمائے سے معمور ہے۔ یہ مسجد کی برتری ہے ۔ مگر فی الحقیقت مسجد کو اس کی حقیقی روح سے محروم کرنے کا ایک طریقہ بھی۔

 مذہب محض مذہب کی خاطر، نماز محض نماز کی خاطر، روزہ محض روزے کی خاطر حب علی محض حب علی کی خاطر، قرآن محض قرآن کی خاطر ...... یعنی علی کی اور قرآن کی ، اور روزے کیا اور نماز کی، اور مذہب میں اپنے فرقے کی، اور خود اسلام کی برتری کو تسلیم کرنا لیکن ان کو اپنے مقصد اصلی سے محروم کر دینا ۔ یعنی وہ چیز کہ نجات کا وسیلہ ہے اسے طاق پر بٹھا دینا یا اس کو طلائی طشتری میں سجا کے رکھتا ، اور اس کے سامنے ٹیڑھے سیدھے ہوتے رہنا، اور اس کی تعظیم کرتا اس کی برتری کا اعلان کرنا اور اس کے آگے سجدہ گزاری کرتے ہیں نہ کہ ہتا یہ سوچے بغیرکہ کون سے دکھ کی دوا ہورہی ہے، یہ ہے مذہب برائے مذہب۔ مذہب یعنی راستہ ہی ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مروجہ اصطلاحات کہ اسلام کے بنیادی ترین اصولوں کو بیان کرتی ہیں اور حتیٰ کہ وہ اصطلاحات جن کا اطلاق خود دین پر ہوتا ہے، اسلامی تہذیب کے آغاز میں سب راستے کے معنوں میں، یا راستہ چلنے کے معنوں میں مستعمل ہوتی ہیں۔ اور یہ فلسفہ مذہب اور جملہ عقائد و اعمال جنہیں وہ پیش کرتا ہے، جن کی وہ نشاندہی کرتا ہے، ایک راستہ لینی وسیلہ ہے کہ جس کو عبور کرنا چاہئیے اور کسی خاص مقصد تک پہنچنا چاہیئے۔ یہ نہیں کہ راستے ہیں کھڑے ہو جائیں اور بے اصل و بے مقصد برتری کا اظہار کرنے لگیں۔ اور یہ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ راستے سے بطور ایک وسیلے کے جو ایک خاص مقصود یا مقصد کے لئے اختیار کیا جائے۔ بذاتہ راستے کو استفادے کا ہدف قرار دے دینا، اس کو سجانا، اور آراستہ کرنا، اور اس پر چراغاں کرنا، ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ راہ برائے راہ، یعنی بس چلتے چلے جانا، پہنچنے کے لئے نہیں بلکہ محض قدم مارنے کے لئے، بغیر کسی ہدف کے بغیر کسی رہنمائی کے بغیر کسی نتیجے کے (یہ تو مذہب کا مقصود نہیں ہو سکتا ) ۔ اور اگر ہم ساری زندگی بھی راستے ہی میں رہیں یعنی اس کے درمیان کہیں رک کے رہ جائیں ، یا قدم مارتے جائیں اور چل کر کہیں پہنچنے کا خیال ہی نہ کریں تو ایسے ہی ہے جیسے ہم نے ایک قدم بھی چلنے کو نہ اٹھایا ہو ۔ اور جوہم نے نہیں اٹھایا، معنوی طور پر وہ چیز ہے جو علی مرتضیٰ کا مقصود تھا جب انہوں نے کہا : وہ لوگ جو دانش اور آگاہی کے بغیر عبادت کرتے ہیں اس گدھے کی طرح ہیں جو خر اس کے گرد گھومتا ہے۔ یہ لوگ راہ پیمائی کرتے رہتے ہیں مگر وہیں کے وہیں رہتے ہیں۔ صبح سے شام تک ایک ایسے ہی راستے پر حرکت میں ہیں مگر حرکت ختم ہونے پر اسی جگہ پر ہوتے ہیں جہاں سے چلے تھے "

عبادت برائے عبادت، مذہب برائے مذہب اور راہ برائے راہ کا مفہوم یہی ہے۔ راہ محض راہ کے لئے نہیں، بلکہ ہدف تک پہنچنے کے لئے ہوتی ہے اور مذہب معنی مذہب کے لئے نہیں بلکہ ہدف تک جانے کے لئے ایک راستے کے طور پر۔ مگر آئی مذہب برائے مذاہب ہی ایک چیز ہے جس کی کوئی قدر و قیمت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مذہب میں اعتقاد، اس مذہب کے منتقد سے مسئولیت کو سلب کر لیتا ہے ۔ وہ بھی کسی نہ سہب سے ؟ خود اسلام سے جو کہ اپنے اصول کے لحاظ سے سب سے گہرا سب سے واضح اور سب سے زیادہ قطعی بیان انسان کی سوکیت کو نمایاں کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ جس وقت مذہب کے عقائد، مذہب کے شائر اور مذہب کے احکام، اپنا ہدف آپ بن جاتے ہیں تو جو کچھ بھی یہ مذہب رکھتا ہے، اپنے ہدف ک پہنچ چکا ہے اور اب کوئی مسئولیت اس کے سر کا بوجھ نہیں۔ نماز برائے نماز کا مفہوم یہ ہے کہ

جس نے بھی نماز اداکر لی ، اس نے اپنی مسئولیت کا انجام دے دیا مگر قرآن تو کہتا ہے :

اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ-(العنکبوت:45)

جس سے یہ مفہوم نکالتا ہے کہ نماز ایک وسیلہ ہے، بدکرداری اور شر سے انکار کرنے کا ار اگرکسی کی ناز نے اس پر یہ گہرا اثر نہیں چھوڑا اور یہ نتیجہ اس سے برآمد نہیں ہوا تو نماز ادا کرنے والا اور نہ کرنے والا دونوں برابر ہیں۔ وہ گاڑی جو مجھے کہیں لے کر نہیں جاتی ،گاڑی نہ رکھنے کے برابر ہے۔ گاڑی برائے گاڑی، آخر کس مرض کی دوا ہے۔ ؟

مسئولیت کا مذہب

اسلام میں انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو خدا کی امانت دار ہے اور اس امانت کو اٹھانے والی جس کو خدا نے زمین اور آسمان اور پہاڑوں کے آگے پیش کیا مگر کوئی اس کو نبر نہ کر سکا۔ امانت کو انسان نے اٹھا لیا یعنی مسئولیت کو قبول کرلیا کہ امانت سے مراد وہی چیز ہا ہے تم مسولیت کہتے ہیں۔ لہذا انسان محض انسان کی خاطر نہیں ہے، انسان آزاد اور غیر سول نہیں ہے ، آزاد مسئول ہے ، نہ مجبور محض ہے اور نہ آزاد محض۔

قرآن حکیم اور ہمارے اعتقادات میں مسئولیت کی بنیاد بے پناہ شدت کے ساتھ اور کی وضاحت کے ساتھ پیش کی گئی ہے مگر آج اس کے معنوں کو اس قدر مُنقَلب کردیا گیا ہے کہ  سچ مچ ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے ، مثلاً یہ کہ روز قیامت، آدمی کے ہاتھ اور پاؤں اور آنکھ اور کان، جو عمل بھی ان کے ذریعے کیا گیا ہے، اس کی گواہی دیں گے۔ یہ اس مطلب کو بیان کرتا ہے کہ انسانی فرد کا انگ انگ اور جز ، جزء اپنے انسانی فریضے کے سلسلے میں مسئول یا جواب دہ ہے۔ مگر آج  اس بات پر بحث ہورہی ہے کہ جب انسان کی ہڈیاں گل سڑ بھی چکیں اور اس کے بارے میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ  وہ کھانےوالا ہے کھانے کی چیز ہے تو اس وقت کون کس سوال کا جواب دے سکے گا ؟ کیا ہاتھ اور پاؤں کامات اور الفاظ اور اصوات کے ذریعے گواہی دیں گے یازبان حال سے اپنا حرف مطلب بیان کریں گے ؟ آپ نے دیکھا کہ قیامت کے دن گواہی دینے کے سلسلے میں جو تکنیکی مشکل حائل ہے، اس کے حل کے لئے بھی تحقیقات ہو چکی ہے !

 مومنین کا ارشاد ہے کہ ہاتھ پاؤں ، آنکھ کان اور دل ٹھیک ٹھیک نصیح عربی زبان میں گواہی دیتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں۔ اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ علیم عضویات کی رو سے یہ درست نہیں۔ کیونکہ یہ اعضاء تو جمادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یا کسی گھاس یا حیوان یا کسی دوسرے انسان کے بدن کا حصہ بن جاتے ہیں اور آج کل کی سائنس نے اصل میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہاتھ پاؤں ، آنکھ اور کان ممکن نہیں کہ کوئی بات کر سکیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نظریات ایسے بن چکے ہیں کہ جو کوئی بھی، چاہے وہ ان کا اقرار کرے یا انکار، یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان میں سے کوئی قدر کے درجے تک پہنچ سکا ہے۔ اس لئے کہ بات تو یہاں مسئولیت کی ہے، فرد کی مسولیت کی ، فرد کے عضو عضو کی مسولیت کی۔ اور ان بے حد علمی قسم کے مباحث نے اور سائنس وانوں کی تحقیقات نے، اور دین کے دعویداروں نے اور جدیدیت زدہ لوگوں نے یہ نتیجہ پیدا کیا کہ اس آیت کے حقیقی معنی گم ہوکر رہ گئے حالانکہ قرآن حکیم کی اس آیت :

-اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـٴُـوْلًا (۳۶(بنی اسرائیل :36)

کے معنی بہت واضح ہیں کہ کان، آنکھ اور دل یعنی ادر اک اور احساس سب مسئول ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مسئولیت کا بوجھ انسان کے ہر حصے پر اور روح و جسم کی جملہ ابعاد پر محیط ہے ۔

«كلكم رَاعٍ, وكلكم مسؤول عن رَعِيَّتِهِ(متفق علیہ)

 تم سب چر دا ہے ہو اور تم سب اس کی رعیت کے لئے مسئول یا جواب دہ ہو)

مسئولیت صرف رہبر سے مخصوص نہیں، محض علمائے دین یا دانشوروں سے  خصوصیت نہیں رکھتی ۔ اس گروہ کا ہر فرد واحد سب کی رہبری کے لئے مسئول ہے۔

اور سارتر[4] کا یہ کہنا درست ہے اور اس کے فلسفہ وجود کا سب سے زیادہ برجستہ اور بیاہ نقطہ ہی ہے اور اس کی اخلاقیات کا ستون اور اس کے اس دسرے کی کسوٹی ہے کہ فلسفہ وجود انسان دوستی کا نام ہے اور یہ فلسفہ مثبت ہے اور تصوراتی : ر وہ شخص جو کوئی چیز یا کام منتخب کرتا ہے چونکہ یہ چاہتا ہے کہ سارے انسان اس کی پیروی کریں اور یو نہی کہ میں ، اپنے ہر انتخاب کے ساتھ یوں سمجھئے ، کہ جملہ بنی نوع انسان کے لئے ایک کلیہ، ایک قانون وضع کرتا ہے اور اسی لئے ہر فردِ بشر کی مسئولیت، اس کی اجتماعی زندگی میں، اسی حساب سے جس کے مطابق اس نے سارے انسانوں کی سرنوشت کو اپنے وقے لینے کی مسئولیت قبول کی ہے، یہ

ایک کر بناک اور بوجھل چیز ہے"

اسلام بے عمل عالم کے سلسلے میں جو کچھ بتاتا ہے۔ اور یہ بہت سے اعلیٰ معانی کی طرح ہر ایک کے وردِ زبان ہے اور اس کو بار بار دہرایا جاتا ہے، اس کے بغیر کہ عمل کی نوعیت کے بارے ں کی میں کوئی بات درمیان میں آئے اور اگر آئے بھی تو مقصود وہی "عملِ بے  علم" ہوتا ہے یعنی عمل  برائے عمل ۔ مگر اس کا مقصود ایک ایسی دانشمندی ہے جو اپنے عصر کے لئے ہیں، عوام کی سرنوشت کے سلسلے میں، معاشرے کی سرگذشت کے سلسلے میں، روح اور تہذیب اور ایمان کے سلسلے میں، اور ان عوامل کے سلسلے میں جن کا انجام گراہی ، نشے بازی اور ذہنی اعتراف کی صورت میں ہوتا ہے، کسی جنونیت کا احساس نہیں کرتی۔ حتی کہ قرآن حکیم اس سلسلے میں اس چیز کو بھی ترک کر کے جسے ہم ادبی نزاکت کہتے ہیں، صریح الفاظ میں اعلان کرتا ہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ  (الجمعہ:۵)

" فَمِثْله كمثل الكلب"

مراد یہ ہے کہ عالم دین جو مسئول نہ ہو ، گدھے کی طرح ہے، کتے کی طرح ہے !! سیاہی اور لہو کی رشتے داری ہر انسان خدا کا امانت دار ہے کیونکہ وہ آدم کا بیٹا ہے اور مسئول ہے۔ صرف کسی خاص گردہ، خاندان یا اپنے رشتے داروں کے لئے ہی نہیں، بلکہ جملہ وجود کے سامنے اور وجود رکھنے والے ارادے کے ساتھ ، ساری کائنات کے سامنے مسئول ہے۔ یہ ہے انسان کی مسئولیت کا وسیع میدان مگر اسلام میں سب سے بڑی مسئولیت کا مرکز توجہ علم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عربستان میں اسلام کی لائی ہوئی اس نئی قسم کی بیداری کے دوران جو بت پرستیوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، دشمنوں کے خلاف، طبقہ اشراف کے خلاف، اور حملہ آور قوتوں کے خلاف ایک ایسے وقت میں جب کہ مجاہدوں کی ضرورت سب سے زیادہ ہے، اس بیداری کا رہبر اعظم مجاہدوں کو آواز دے کے بلاتا ہے اور ان سے کلام کرتا ہے، ایسے وقت میں جب کہ انسانیت ابھی تک کمال اور تہذیب کے درجے کو نہیں پہنچی اور دنیا کی دانش و حکمت ایسی درخشان ہدایت سے محروم ہے، ایک ان پڑھ معاشرے کے لینے سے ۔ ایک ایسے معاشرے کے اندر سے جو لکھنے پڑھنے سے بھی معذور ہے۔ یہ کلام ابھرتا ہے :

مدادا العُلَمَاء اَفضَلُ مِنْ دَمَاء الشُّهَدَاء

د دانشمندوں کے قلم کی سیاہی، شہیدوں کے خون سے افضل ہے

اور اس قسم کی ہدایت سے کیا یہ اعلیٰ اور واضح معیار بر آمد نہیں ہوتا کہ اول تو لہوا اور سیاہی ، ایک ہی طرح کی مسئولیت کے حامل ہیں اور دوسرے یہ کہ سیا ہی کی مسئولیت زیادہ موثر ہے اور زیادہ وزن رکھتی ہے ؟

اسی باعث قرآن حکیم ایک ان پڑھ معاشرے میں ۔ جب کہ رسول خدا کے پاس شروع شروع میں ایک ہی منشی تھا اور وہ بھی ایک یہو دی ، اور خود پیغمبرﷺ بھی کہ  اُمّی تھے ۔ جب بھی قسم کھاتے ہیں تو کتاب کی سیاہی کی، قلم کی اور اس چیز کی جولکھی جاتی  ہے:

ن والقَلَمُ وَمَا يَسْطُرون

قلم جو مسئول ہے اور سیاہی جو لہو کی  ہمزاد ہے مگر اس سے برتر ہے ، اس کی رشتے دار ہے مگر اس سے زیادہ شرف کی حامل۔

یہی وجہ ہے کہ علم کو اور عالم کو ، قرآن کی اور اسلام کی زبان میں۔ نہ کہ جدیدیت زدہ لوگوں کے خیال کی رو سے جو مطلقا ہر علم کو اور ہر عالم کو اور ہر ماہر خصوصی کو جو کسی بھی شعبے میں کام کرتا ہو، اس کا مصداق سمجھتے ہیں، اور نہ بہت سے پرانے لوگوں کی طرح جن کے نزدیک علم ، فقط علم دین کا نام ہے یعنی فقہ اور احکام دین کا علم ۔ بلکہ عالم یہاں عین عین  ان معنوں میں ہے جن معنوں میں ہم آج کی تہذیبوں میں اور اجتماعی ادبیات میں اور عوامی ، انقلابی اور مسئول آئیڈیا لوجی میں ، دانشور کو یہ مقام دیتے ہیں۔

علماء أمتی کأنبیاء بنی اسرائیل  

میری امت کے دانشور، بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں)

 اس حدیث مبارک میں ، پیغمبر ا نے ایک عالم کو پیغمبروں سے مشابہ اور ان کی صف میں  شمار کیا ہے اور علم کو نبوت کا تسلسل قرار دیا ہے۔ اور قدر وقیمت کے تعین کے اعتبار سے تاریخ میں اور اپنی معاشرت میں دانشوروں کے فریضے کو ، بنی اسرائیل کی تاریخ کے پیروں کے فریضے سے زیادہ وزنی بالاتر اور زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ یہ علم وہی علم ہے و مسئول ہو ، دانش وہی دانش ہے جوذمے دار ہو، اور مسئولیت ایسی جونبوت کے راستے پر اس کے ساتھ قدم ملا کر چلے۔ اور میں نتیجہ ایک اور حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے :

علماء ورثۃ الأنبیاء

دانشور پیغمبروں کے وارث ہوتے ہیں

یہاں ان کو ورثے میں کیا چیز ملتی ہے ؟ آگا ہی اور ہر زمانے کے مقابلےمیں مسئولیت کا ورثہ اور عوام کی سرنوشت کے صلے میں مسئولیت کا ورثہ ۔ (مجموعہ آثار، جلد7)

 



[1] اسے " عقیق مدینہ کے مضافات میں خوشگوار آب وہوا کی حامل ایک دادی ہے۔ ایک دن رسول خدا کا وہاں دوپہر کے کھانے کی دعوت پر جانا ہوا تو وہاں کے موسم اور ہرے بھرے خوشگوار منظر سے ان کی طبیعت بشاش ہوئی ۔ شہر واپس آئے تو مرد کے پہلو میں انمی می کردی میں۔ جو ساری زندگی ان کا سروسامان تھا۔ داخل ہوئے تو حضرت عائشہ نے فرمایا ؟ کیا ہی اچھا ہوتا اگر عقیق میں ہمارا گھر ہوتا ۔ حضرت عائشہ نے چاہا کہ وہاں زمین کا ایک کردا خریداری گھر بنا لیا جائے مگر رسول خدا نے کہا کہ ” نہیں، اب نہیں ہو سکتا ! وہاں کی ساری زمین لوگ خرید چکے ہیں۔ (حاشیہ مصنف)

 

[2] علی شریعتی کے بعد اسلامی دور کے ادب میں مسولیت اور عہد مندی کے  بارے میں ایک مفصل مطالعہ "ادبیات متعہد دراسلام" کے زیر عنوان محمد رضا حکیمی نے شائع کیا ہے مگر بنیادی نکتہ وہاں بھی ہے(مترجم)

 

[3] یہاں اس بات کی صراحت لازم ہے کہ علی شریعتی کی نظر میں مسئولیت ہمیشہ آزاد ہوتی ہے اور فنکار اپنے فریضے کور رضا و رغبت سے اپنے فکر و احساس اور تجربہ و مشاہدہ کی روشنی میں انجام دیتا ہے کسی کی فرمائش پر یا طاقتوروں کی مفاد پرستانہ مقصدیت کا اشارہ پاکے لکھا تو ایسے ہے جسے آپ تخلیق فن کی بجائے قلم فروشی پر اتر آئیں۔یہ  امتیازی مقصدی اورمسئول  فن کے درمیان ہمیشہ سے قائم ہے اور قائم ہے گا(مترجم)

 

[4]   وہ خیر و شر کے معیار کو آدمی کے عمل میں " حسن نیت کا نام دیتا ہے کیونکہ وہ عالم خارج میں کسی معیار کے وجود کا قائل نہیں۔ ان معنوں کہ آپ دو قسم کے عمل کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایک حالت میں آپ ایک ایسا عمل کرتے ہیں کہ آپ چاہتے ہیں خود ہی ایسا کریں اور کوئی دوسرا نہ کرے۔ اور دوسری حالت میں آپ ایک ایسا عمل کرتے ہیں کہ آپ چاہتے ہیں دوسرے بھی ایسا ہی کریں۔ لہذا اس حالت میں آپ یوں سمجھیں کہ آپ نے جملہ بنی نوع انسان کے لئے ایک قاعدہ کلی وضع کیا ہے(حاشیہ مصنف)

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post