از قلم بنت عبداللہ

مانوں پر برطانوی حکومت کا اعتماد بحال کرنے کے سلسلے میں سر سید کی کیا تعلیمی، معاشرتی اور سیاسی خدمات ہیں ؟ کیا آج کے دور کی اصلاحات، سر سید کی اصلاحات سے متاثر ہیں ؟ تنقیدی جائزہ لیں۔

سرسید  احمد خان 17 اکتوبر 1817ء کو پیدا ہوئے۔ اس وقت برصغیر پر انگریز اپنے پنجے گاڑ چکے تھے ۔ 1857ء کی جنگ کے بعد  انہوں نے مسلمانوں کو بالکل بے بس کردیا ۔ مسلمان  تعلیمی ،معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے کمزور ترین ہو گئے۔ مظلومیت کا شکار مسلمان غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ایسے دلسوز حالات میں مسلمانوں کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دینے کیلئے سرسید احمد خان آگے بڑھے ۔ آپ انیسویں صدی  کے ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کےحامل عظیم مصلح تھے۔ آپ کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے جو کے آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنی۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انہیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ آپ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی، سیاسی، سماجی  شعبوں میں اصلاح  کا بیڑا اٹھایا۔ اس سلسلے میں آپ نے انگریزوں جو کہ حکمران وقت تھے  کے ساتھ مفاہمت وصلح پسندی کا آغازکیا۔ان کا یہ قدم حقیقت پسندی پر مبنی تھا۔آپ کی فکر یہ تھی انگریز کے ساتھ مفاہمت کر کے مسلمانوں کو تعلیمی،سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط کیا جائے  تاکہ  مسلمان اپنا کھویا ہوا تشخص  بحال کریں۔

اس کے لئے آپ نے سب سے پہلا کام  1859ء میں ایک کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھی  جس میں انگریزوں کی طرف سے مسلمانوں  پر لگائے گئے غدر(بغاوت) کے الزام کا دفاع کیا اور یہ کتاب ارکان پارلیمنٹ تک بھی بھجوائی۔آپ نے  1870ء میں رسالہ "تہذیب الاخلاق" تحریر کیا جس میں مسلمانوں کی معاشر تی پہلوؤں  میں خامیوں کی نشاندہی کر کے ان میں اصلاح کی ترغیب دلائی ۔

آپ نے  برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے "ایم اے او" ہائی سکول قائم کیا۔ جس میں جدید علوم  و مشرقی علوم کا انتظام  کیا گیا۔ 1877ء میں اس سکول کو کالج کا درجہ دیا گیا۔ اوریہ کالج  1898ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے  نام  سے موسوم ہوا۔ اپنی تاریخ میں یہ یونیورسٹی مسلمانوں کی ثقافت، تہذیب، اور شناخت کا اہم مرکز رہی ہے۔

 سر سید احمد خان نے  کئی  کتابیں اور سینکڑوں مضامین لکھے۔1842ء میں سیرت نبویؐ پر اردو زبان میں ایک کتاب’’جلاء القلوب بذکرالمحبوب‘‘لکھی۔ 1861ء میں ولیم میور نے کتاب لکھی۔ جس میں شانِ رسالت پر بے جا اعتراضات کیے گئے تھے۔ سر سید احمد خان نے ان کا جواب دینا ضروری سمجھا اور ایک کتاب’’خطبات احمدیہ‘‘ لکھی۔ جو 1870ء میں لندن میں شائع ہوئی۔ ان تمام تحریروں میں اس وقت کے زمانے کی زبان سے ہٹ کر انتہائی سادہ اورعام فہم زبان استعمال کی ۔ کیوں کہ آپ کا مقصد اپنی زبان دانی کی مہارت ظاہرکرنے کے بجائے اصلاح معاشرہ تھا۔  اس لئے آپ کی تحاریر جلد بہت مقبول ہوئیں  اور ان کے ترجمے ان کی زندگی میں ہی انگریزی، فارسی، فرانسیسی ودیگرزبانوں  میں ہونے لگے۔

سرسید كی سیاسی حكمت عملی كی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں كو ایك علیحدہ قوم ثابت كیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ كے افكار كو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ كی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال كی۔ انہوں نے كہا كہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب كے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایك مكمل قوم كا درجہ ركھتے ہیں۔ مسلمانوں كی علیحدہ قومی شناخت كے حوالے سے سرسید نے لوكل كونسلوں میں مسلمان ہند کے لئے نشستوں كی تخصیص چاہی اعلیٰ سركاری ملازمتوں كے لیے مسلمانوں کے لئے کوٹہ مقرر کرنے کے حق  میں مہم چلائی٬ اقلیت  كوکچل کراکثریت کی مرضی سے قائم ہونے والی حكومت والے نظام كو ناپسند كیا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید كی سیاسی،تعلیمی اور معاشرتی پالیسی كی افادیت كو ثابت كر دیا ان كو بجا طور پر پاكستان كے بانیوں میں شمار كیا جاتاہے۔۔27 مارچ 1898ء کویہ عظیم  ہیرو امت مسلمہ کو ایک نئی راہ پر گامزن کر کے اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ 

آپ کی وفات کے بعد برصغیر میں اٹھنے والی تمام تحریکیں آپ کی بصیرت، سیادت اور فلسفہ سے متاثر نظر آتی ہیں اور انہوں نے آپ کے نظریات کو اپنا نے کی کوشش کی۔ اس لحاظ سے آپ کوبجاطور پر ایک عظیم مصلح کا درجہ دیا جاتاہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post