از قلم بنت عبداللہ


مسلم معاشرے کی اصلاح کے لئے مجدد الف ثانی اورشاہ والی اللہ  کی تعلیمات کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ ان تحریکوں اور موجودہ دور کی اصلاحی تحریکوں میں کیا مماثلت ہے؟وضاحت کریں۔

حضرت شیخ احمد سر ہندی علیہ الرحمہ  اورحضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کی اصلاح غیر محسوس لیکن پائیدار طریقے سے کی۔ دونوں کے انداز کی خاص بات متشدد  انہ ، سخت رویہ اپنانے کے بجائے خالص منہج النبوۃ کے انداز سے تبلیغ کرنا تھا۔

دونوں کے انداز میں ایک فرق یہ تھا حضرت مجدد الف ثانی کا مرکز توجہ  اس وقت کے بااثر طبقہ  بادشاہ وقت،امراء و شہزادگان تھے۔ جس کی واضح مثال  آپ کےاکبرو جہانگیر کو  تحریرکئے گئے خطوط ہیں۔جس میں آپ نے انہیں بہت ہی بصیرت افروز طریقے سے بغیر کوئی سخت زبان استعمال کئے اسلام کی جانب راغب کرنے اور عملی مسلمان بننے کی ترغیب دلائی ہے۔

 عموما علما کرام و صوفیا عظام سلاطین و امرا سے دور رہتے ہیں کیوں کہ انہیں دنیاوی آسائشوں سے کوئی سروکار نہیں مگرحضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ یہاں مختلف نظریہ کے پیروکار نظرآتے ہیں۔آپ سلاطین و  امراء کی معاشرے پر اثرپذیری کی اہمیت سے بخوبی  واقف تھے کہ ان  بڑوں کی اصلاح کا لامحالہ اثر نچلے طبقات پر ضرور پڑتا ہے۔

اس لئے آپ نے کبری عہد کے امراء سے رابطہ رکھا  ان کی اصلاح کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبرکے بعد جہانگیر کی تخت نشینی ہوسکی، جس نے ملک میں اسلامی قوانین کو رائج کردیا تھا۔ امراء کی اصلاح کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں ۔ یہ حضرت مجدد الف ثانی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جس تخت پر اکبر جیسا بادشاہ بیٹھا تھا پچاس سال بعد اسی تخت پر اورنگ زیب عالمگیر جیسا  درویش صفت سلطان الہند بھی متمکن ہوا جس نے قرن اولی کے مسلم خلفاء کی یاد تازہ کردی۔

حضرت شاہ ولی اللہ کا جہاں تک تعلق ہے آپ مجدد الف ثانی کے انتقال کے تقریباً 80 سال بعد دہلی میں پیدا ہوئے۔  اس وقت مسلمانوں کی نہ صرف سیاسی حالت خراب تھی بلکہ وہ اخلاقی حیثیت سے بھی زوال کی طرف جا رہے تھے۔ عیش و عشرت، آرام طلبی، دولت سے محبت، بے ایمانی، خود غرضی اور اسی  قبیل کی دوسری خرابیاں ان میں عام ہو گئی تھیں۔

آپ درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ آپ کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں طویل خدمات تھیں۔ اس ہی اپنی تحاریراور درس و تدریس کو ذریعہ بناتے ہوئے  آپ نے اصلاح معاشرہ  کی کوشش کی۔ آپ  نے اپنی تصنیف و تالیف اور اصلاح کا کام اسی نازک زمانے میں شروع کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ ایک طرف مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو اور وہ پھر سے ایک مضبوط سلطنت قائم کریں اور دوسری طرف اپنی اخلاقی خرابیوں کو دور کرکے اور غیر اسلامی طریقوں و رسوم و رواج کو چھوڑ کو دورِ اول کے مسلمانوں جیسی زندگی اختیار کر لیں۔

موجودہ دور کی تحریکیں

ان دونوں حضرات کی تحریکوں سے موجودہ زمانے اور ماضی قریب کی بہت سی تحریکیں متاثرتھیں۔  ان میں ایک جمال الدین افغانی کی تحریک تھی وہ افغانستان میں پید اہوئے لیکن وہ جہاں گئے وہاں لوگ ان کے انقلاب آفریں خیالات سے متاثر ہوئے۔ ان کا مقصد ایسی اسلامی حکومت کا قیام تھا جس کی برکات دور دور پہونچیں۔ شیخ محمد عبدہ، شیخ عبدالقادر الجزائری، امیر شکیب ار سلان، شیخ رشید رضا اور بے شمار مصلحین نے اپنے چراغ کو ان کے چراغ سے روشن کیا۔ انہوں اپنی جادوصفت شخصیت سے صرف عوام نہیں سلاطین وقت کو بھی متاثر کیا،آپ پہلے عوام کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔

سرزمین عرب کی ایک اور زیادہ بڑی ہمہ گیر اسلامی تحریک جو بیسویں صدی میں اٹھی وہ الاخوان المسلمون کی تحریک ہے۔ مکمل اسلام کی نمائندگی کرنے والی یہ تنظیم اقتصادی وسیاسی، جسمانی اور روحانی تربیت کی علمبردار تھی ۔اخوان کی تحریک کے بانی شیخ حسن البناء تھے جنہوں نے ۱۹۲۸ سے ۱۹۴۸ تک کے بیس سال کے عرصہ میں مسلمانوں کو اسلامی جوش سے سرشار کردیا اور ایسی مضبوط اور متحدہ جماعت تیار کی جس نے امت مسلمہ کو بیدار کرنے، متحد کرنے اور ان کے اندر دین اور وحانیت کی روح پھوکنے کی زبردست کوشش کی اور مغربی تہذیب کا مقابلہ بھی کیا۔

بیسویں صدی میں بر صغیرمیں  ایک اصلاحی اور اسلامی تحریک اٹھی وہ جماعت اسلامی کی ہے جس کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے۔ جماعت اسلامی کا یہ امتیاز ہے کہ اس نے ایک عظیم الشان اسلامی لٹریچر پیش کیا۔ اس پہلو سے اس تحریک سے قریب کوئی تحریک ہے تو وہ الاخوا ن المسلمون کی تحریک ہے۔

ان تمام تحاریک کا جائزہ لیا جائے تو کسی نہ کسی پہلو یا انداز سے یہ تمام تحاریک حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ سے متاثر ہوئی اور ان کے انداز و طریقہ تبلیغ و اصلاح امت کو اپناتی ہوئی نظرآتی ہیں۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post