از قلم بنت عبداللہ
قائد اعظم اور علامہ اقبال کا قومی سیاست
میں کیا کردار رہا؟کیا آج کا پاکستان قائداعظم کا پاکستان ہے۔اگر ہے تو کیسے اگر
نہیں تو اس کی بہتری کے لئے کن اقدامات کی
ضرورت ہے؟بحث کریں۔
تحریک پاکستان کے حوالے سے قائداعظم محمد
علی جناح اور ڈاکٹر محمد اقبال دونوں عظیم شخصیات انتہائی اہم کردار کی مالک ہیں۔ ابتداء میں یہ دونوں
ہندومسلم اتحاد کے لئے کوشاں رہے۔ قائداعظم ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کے لقب سے
پکارے جاتے تھے۔اقبال نے ترانہ ہندی اور نیا شوالہ جیسی نظمیں لکھیں اور نقس دوئی مٹانے
کی کوشش کی۔ لیکن جب مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی متعصب اور پرتشدد تحریکیں زور پکڑتی
گئیں تو یہ دونوں حضرات سمجھ گئے برہمن صرف ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں اور اقلیتوں
کے حقوق کو کسی طرح تحفظ دینے کے لئے تیار
نہیں۔ تویہ دونوں شخصیات اسی شدت کے ساتھ اسلامی روایات و تہذیبی اقدار کی حفاظت
کی خاطر دوقومی نظریہ کی حامی ہوگئیں۔
دونوں شخصیات نے مسلمانوں کے لئے ہندوستان
کو تقسیم کرکے ایک الگ ریاست کا تصور بڑے واضح الفاظ میں پیش کیا تھا۔ قائداعظم اورڈاکٹر اقبال دونوں ہی ایک دوسرے کے مداح تھے۔
تیسری گول میز کانفرنس کے بعد جب قائداعظم نے برصغیر واپس آنے سے انکار کردیاتھا تو
اس وقت ڈاکٹر اقبال نے ہی انہیں خطوط لکھ کر واپس آنے پر آمادہ کیا۔ ان دونوں کے مابین
خطوط کاسلسلہ اقبال کے آخری وقت تک چلتا رہا ۔مختصرا جس نے پاکستان کا خواب دیکھا اور
جس نے تعبیر پیش کی دونوں کا نظریہ ایک ہی تھا۔ڈاکٹر اقبال اورقائداعظم ہی وہ ہستیاں
جو پاکستان کے معرض وجود آنے کے اصل روح رواں ہیں۔بانی پاکستان قائداعظم محمد علی
جناح نے اپنے نام اقبال کے خطوط پر مشتمل کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے اس حقیقت کا
اعتراف کیا ہے کہ ’’مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں علامہ اقبال کے
خیالات پورے طور سے میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر میں ہندوستان کے دستوری
مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی
خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے، جس کا
اظہار قرارداد لاہور کی صورت میں ہوا، جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے
موسوم ہے‘‘۔
قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں فکروفلسفہ اقبال
کی بنیادی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ ہر بڑی تحریک
کا ایک مفکر ہوتا ہے، ہماری تحریک کا مفکر اقبال ہے۔ اقبال نے زندگی کے ہر مرحلے پر
عملی اور فکری دونوں لحاظ سے نہ صرف جاندار کردار ادا کیا بلکہ قوم کی واضح رہنمائی
بھی کی۔ڈاکٹر اقبال نے مسلم ریاست کے قیام کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی
کرتے ہوئے محمد علی جناح کو ان کی دیانت، امانت اور قابلیت کے باعث مسلم ریاست کے
حصول کے لئے موزوں ترین قائد تسلیم کیا۔ ایک موقع پر علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا
کہ ’’مسٹر جناح کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو ہندوستان کے کسی اور
مسلمان رہنما میں مجھے نظر نہیں آتی‘‘۔
قائداعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں
حاکمیت اعلیٰ خدائے بزرگ و برتر کی ہو۔ جہاں آئین و قوانین کا ماخذ و منبع قرآن و
حدیث ہوں۔ اور جہاں آئین کی پاسداری ہو۔قائد اعظم کے اپنے الفاظ ملاحظہ کریں’’اسلامی
حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع
خدا کی ذات ہے، جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام
میں اصلانہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن
کریم کے احکام ہی ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت
قرآن مجید کے اصول واحکام کی حکومت ہے۔‘‘
آج جب کہ پاکستان کو وجود میں تقریباً آٹھ
دہائیاں گزرچکیں لیکن افسوس سے اس حقیقت
کا اظہار کرنا پڑتاہے کہ آج کا پاکستان وہ
ملک ہرگز نہیں ہے جس کا خواب ڈاکٹر اقبال
نے دیکھا اور جس خواب کی تعبیرقائدکے ہاتھوں ہوئی۔
وطن عزیز کوقائد کا پاکستان بنانے کے
لئے ہمیں قائد اعظم اور ڈاکٹر اقبال کی
تعلیمات کو سمجھنا ہوگا۔ ان ہی کی فکر کو اپنا کر ان ہی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ان دونوں شخصیات
کے نقش پا پر چلتے ہوئے ہم مسلمانوں کو اس
مشکل صورت حال سے نکال سکتے ہیں۔اور اس وطن عزیز کوقائد کے ملک میں ڈھال سکتے ہیں۔
Post a Comment