خیرو برکت سے مراد  استحکام، ہمیشگی ،پختگی ،بڑھوتری، نشوونما کے ہیں۔ کسی بھی چیز میں برکت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَهَذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ۔

’’ اور اب یہ بابرکت "ذکر" ہم نے (تمہارے لیے) نازل کیا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ  کی ذات خود بھی بابرکت ہے اور جس چیز میں چاہتا ہے برکت ڈال دیتا ہے۔ وہ ذات کثرت خیر کی جامع، باعظمت اور صفات کمال کی حامل ہے۔ دنیا میں تمام تر منافع اور احسانات اسی ذات کے باوصف ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں اس کا جا بجا تذکرہ کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:

تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا (الفرقان: 1)

 نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔

برکت کا لفظ بہت وسیع المعانی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے ’’برکت‘‘ کا ایک معنی خیرِ الٰہی لکھا ہے :

وَالْبَرَکَةُ ثُبُوتُ الْخَيْرِ الإلٰهیِ فی الشَّيْئِ(راغب الأصبهانی، المفردات : 44)

کسی شے کے اندر خیرِ الٰہی کا پایا جانا برکت  کا ثبوت ہے۔

پھر خیر الٰہی کا دوام اوراس کا ثبوت بھی برکت کے معنی ہیں۔’’یہ کسی چیز میں خیر الٰہی کا دوام و ثبوت ہے۔‘‘(تفسیر الخازن 366/2)

برکت اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فضل ہے جو ایسی جگہ سے آتاہے جہاں سے انسان کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ ہر وہ امر جس میں بڑھوتری غیر محسوس طریقہ سے اور مادی اسباب سے ماوریٰ ہو اس میں برکت ہوتی ہے۔

وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓى اٰمَنُـوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْـهِـمْ بَـرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنَاهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَكْسِبُوْنَ (الاعراف: 96)

اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کے اعمال کے سبب سے گرفت کی۔

یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ ایک اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے اوربدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو اللہ ان پر آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا اوربلاحساب ان کو دیتا رہتا ۔ آسمانوں اورزمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔قرآن نے جو انداز تعبیر اختیار کیا ہے اس کے پیش نظر ہم اسے ہر طرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہیں جو کسی ایک جنس ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یعنی ہرقسم اورہرنوع کی فراوانی۔

وہ برکات جو مومنین اوراہل تقویٰ پر سایہ فگن ہوتی ہیں جو مختلف النوع ہوتی ہیں۔ ان برکات کا ان پر ہرجانب سے نزول ہوتاہے اورہرطرف سے برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں۔بعض برکات ایسی ہیں جولوگوں کے وہم وخیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی وہتی ہیں ان کو یہ سمجھتے ہیں۔

خلاصہ کلام: اہل ایمان کو برکات ملتی ہیں ان کے کئی رنگ ہیں۔ ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے۔ انسانی ذات میں برکت ہوتی ہے۔ انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے۔ پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے۔ اورا س کے اندرسکون واطمینان پیداہوتاہے۔ یہ نہیں کہ ہر طرف سہولیات تو وافرہوں اورانسان جسمانی ونفسیاتی اورمعاشرتی پریشانیوں کا شکار ہو۔بلکہ سکون ،امن ،سلامتی کے ساتھ خوشحالی ہوتی ہے۔

 کثرت کےبجائے خیر و برکت

تمام امور میں کثرت کےبجائے خیر و برکت طلب کرنا چاہئے۔ ایسی صورت میں وہ شے کمیتا کم ہی کیوں نہ ہو(یعنی صورتا ہمیں وہ کم نظر آتی ہو) لیکن برکت کے باعث وہ کثیر(زیادہ) تعداد سے بہتر ثابت ہوتی ہے۔ ایک عربی مقولہ ہے:

ليست البركةُ من الكثرة، ولكنَّ الكثرةَ من البركة

کثرت کی وجہ سے برکت نہیں ہوتی بلکہ برکت کی وجہ سے کثرت ہوتی ہے۔

مثلا جب اللہ تعالیٰ کسی کی عمر میں برکت دیتا ہے تو وہ کم عمری میں خیر کثیر سمیٹ لیتا ہے جو طویل العمر افراد گمان بھی نہیں کرسکتے۔ یہی معاملہ رزق ، وقت اور مال کا ہے۔

امام یحیی بن شرف الدین   نووی ؒ کی عمر مبارک صرف 46 برس تھی لیکن آپ اس کم عمری  کے باوجود علمی طور پر اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑ گئے ہیں جسے پڑھنے اورسمجھنے کے طویل  عرصہ درکار ہوتاہے۔

ایمان، تقویٰ اور اعمال صالحہ برکت ، خوش بختی اور رضا کا سبب  ہیں۔جب اللہ تعالیٰ کسی کے اعمال میں برکت ڈالتا ہے تو اس کے تمام اعمال خالص اللہ کے لیے اور نبیﷺ کی اتباع میں ہو جاتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو رب کی رضا کے لیے نہ ہو وہ برکت سے خالی ہوتی ہے۔ بابرکت ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ خیرو برکت ان تمام امور و اشیاء میں ہے جو رب تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوں۔  کامل برکت صرف اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت ہے، اس کا کلام مبارک ہے، اس کا رسول مبارک ہے، اس کا مؤمن بندہ خلق خدا کے لیے نفع و خیروبرکت کا باعث  اس کا گھر بیت اللہ باعث برکت ہے،وغیرہ۔

ایک حدیث قدسی ہے:

يقول الربُّ - تبارك وتعالى۔ إني إذا أُطِعتُ رضيتُ، وإذا رضيتُ باركتُ، وليس لبركتي نهاية

’’اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: جب میں پیروی کیا جاتا ہوں تو میں خوش ہوتا ہوں۔ اور جب میں خوش ہوتا ہوں تو برکت دیتا ہوں اور میری برکت کی کوئی حد نہیں ہے۔‘‘

آخر کچھ وہ چیزیں جو باعث برکت ہیں:

1- استغفار کی کثرت

کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا :

 فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا۔ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا۔ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارا (نوح:10-12)۔

پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لئے باغ اور نہریں بنائے گا۔

اسی آیت مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے امام حسن بصری علیہ الرحمہ کے پاس چار اشخاص آئے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی مشکل بیان کی: ایک نے قحط سالی ، دوسرے نے تنگ دستی ، تیسرے نے اولاد نہ ہونے اور چوتھے نے اپنے باغ کی خشک سالی کی شکایت کی۔ آپ نے چاروں اشخاص کو اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کی تلقین کی۔

2-اللہ کی راہ میں خرچ کرنا

 قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ۔

اے نبی ﷺ آپ کہہ دیجئے میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق کو کشادہ کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اور تم لوگ (اللہ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ (سورۂ سبا:39)

3- تقویٰ:

وَمَن يَتَّقِ ٱللّٰهَ يَجْعَل لَّهُۥ مَخْرَجًۭا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ(الطلاق آیت 3-2)۔

اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کیلیے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہیں اور اس کو وہاں سے روزی دیتے ہیں جہاں سے اس کو گمان ہی نہیں ہوتا۔

4-درود شریف کی کثرت

وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ کُنْتُ اُصَلِّی وَ النَّبِیُّ ﷺ حَاضِرٌ وَاَبُوْبَکْرٍ وَ عُمُرُ مَعَہُ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَاءِ عَلَی اﷲِ تَعَالٰی ثُمَّ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ سَلْ تُعْطَہْ سَلْ تُعْطَہْ۔ (ترمذی)

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (﷜) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں نماز پڑھ رہا تھا رحمت عالم ﷺ (بھی وہیں) تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کے پاس حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر (﷠) بھی حاضر تھے، چنانچہ (بعدنماز) جب میں بیٹھا تو اللہ جل شانہ کی تعریف بیان کرنا شروع کی اور پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا، اس کے بعد میں اپنے (دینی و دنیاوی مقاصد کے) لیے  مانگنے لگا ( یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ  مانگو ! دئیے جاؤ گے، مانگو! دیئے جاؤ گے (یعنی دعا مانگو ضرور قبول ہوگی) ۔  (جامع ترمذی )

5-گھر میں سلام کرکے داخل ہونا

عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى النبي ﷺ فشكا إليه الفقر وضيق العيش أو المعاش فقال له رسول الله ﷺ: إذا دخلت منزلك فسلم إن كان فيه أحد أو لم يكن فيه أحد ثم سلم علي واقرأ قل هو الله أحد مرة واحدة ففعل الرجل فأدَرَّ الله عليه الرزق حتى أفاض على جيرانه وقراباته (القول البديع  ۲۷۹)

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے غربت و تنگ دستی کی شکایت کی۔ تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تم گھر میں داخل ہو، تو سلام کرو۔ خواہ گھر میں کوئی ہو یا نہ ہو، پھر مجھ پر سلام بھیجو اور ایک مرتبہ قل هو الله أحد پڑھو۔ تو وہ صحابی نے نبی کریم ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنا زیادہ رزق دیا کہ وہ اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں پر بھی خرچ کرنے لگے۔

6-توکل

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے ،وہ اس کو کافی ہے۔ (الطلاق ۳)

عَنْ عُمَرَ بن الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ، تَغْدُوا خِمَاصاً وَتَرُوْحُ بِطَاناً(سنن ترمذي:2344 )

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسہ کرو جیسا کہ اس پر بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔

7۔ شکر

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم: ۷)

اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گااور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے ۔

حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے ۔

8۔ کثرت عبادت

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ : " يقول الله تعالى : يا ابن آدم تفرغ لعبادتي أملأ صدرك غنى ، وأسد فقرك ، وإن لم تفعل ملأت صدرك شغلا ولم أسد فقرك ۔(صحیح الترغیب والترہیب،129/4)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر میں تیرے سینے کو تونگری سے بھردوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔ ۔

9۔اپنے بھائی کی حاجت روائی کرنا

 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِیْهِ کَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهٖ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.(صحیح بخاری :رقم: 2310)

جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا۔

10 ۔صدقہ کرنا

عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله ﷺ قال: ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا، وما تواضع أحد لله إلا رفعه الله عز وجل ۔(صحيح مسلم)

ابو ہریرہ ﷜ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت مزید بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے بلندیوں سے نوازتا ہے“۔ 

لہذاصدقہ مال میں کمی نہیں کرتا ، بلکہ اس میں برکت ہوتی ہے،جب صدقہ نکالا جائے گا تو  یہ مال کے بڑھنے کا سبب بنے گا ، مصیبتیں دور ہوتی ہیں

11۔ صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ۔

حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَه(صحیح بخاری: 5986)

جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے

12۔رزق کی دعا کرنا، بالخصوص بڑھاپے کی رزق کی دعا

 اللّٰهُمَّ اجْعَلْ أَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَيَّ عِنْدَ كِبَرِ سِنِّي، وَانْقِطَاعِ عُمُرِي(المعجم الاوسط للطبراني:3611)

اے اللہ! جب میں بوڑھا ہوجاؤں اور میری عمر ختم ہونے لگے تو اپنا رزق مجھ پر وسیع کردے۔

13۔نکاح کرنا

 وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔(النور:32)

تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کردو اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی۔اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنادے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والاہے۔

14۔سخاوت:

یعنی لوگوں میں بانٹنے میں سے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس چیز کو جتنا قربان کیا جائے وہ اس قدر زیادہ ہوتی ہیں۔ اپنے اردگرد حلال جانوروں کو دیکھ لیں وہ ہرسال قربانی میں ذبح کئے جاتے ہیں ان کی تعداد میں مستقل اضافہ ہی دیکھا جاتاہے اور ان کے برخلاف دیگر حرام جانور ہیں ان کو نہ کاٹا جاتا ہے  نہ ان کا شکار کیا جاتاہے بلکہ کئی مقامات پر تو ان کے معدوم ہونے کے پیش نظر ان کی حفاظت بھی کی جاتی ہے لیکن ان کی نسل میں کمی ہی دیکھنے میں آتی ہے۔

اس کے علاوہ چند دیگر امور جو موجب برکت و باعث رحمت ہیں۔

فرض نماز کی پابندی

 ہر وقت باوضو رہنا

ماںباپ کی اطاعت

سورہ واقعہ کی تلاوت

وسعت رکھنے پر نفقہ میں فراخی کرنا


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post