خلاصہ چوتھا پارہ (لن تنالوا)

علامہ سرفراز صابری صاحب

چوتھے پارے میں سورة آل عمران کے باقی گیارہ رکوع اور سورة النسآ ء کے ابتداء کے ساڑھے تین رکوع ہیں ۔ تیسرے پارے میں اہل کتاب بالخصوص یہودی عالموں کی تحریفوں اورغلط تعبیروں کا ذکر تھا اور بتایا گیا تھا کہ کس طرح انہوں نے آسمانی کتاب میں الفاظ کوغلط معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کیا اور اللہ کی منشا اور شریعت حقہ کی صورت مسخ کردی اور اپنی طرف سے قانونی موشگافیوں اورفروعات میں من گھڑت اصلاحوں کو شامل کر کے کچھ  سے کچھ بنا دیا۔ چوتھا پا رہ ان کی پیدا کی ہوئی غلط فہمیوں کو دورکرتا ہے۔ اور ابتداء نیک عمل کی  وضاحت سے کی جاری ہے۔

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّـٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَىْءٍ فَاِنَّ اللّـٰهَ بِهٖ عَلِـيْمٌ (آل عمران:92)

(نیکی کا درجہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب الله کی راہ میں وہ چیزیں خرچ کریں جو محبوب ہوں ۔ اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کیا جائے گا اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے)

 بنی اسرائیل نے بعض چیزیں اپنے اوپر حرام کر لیں تھیں حالانکہ اللہ نے انہیں حلال قرارد یا تھا۔ اگر ان کی نیت سچی اور مقصد میں خلوص ہے تو انہیں پیغمبرابراہیم کی پیروی کرنی چاہیے۔ مگر یہ لوگ دیدہ  ود انستہ  اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمان ان کی طرح ٹیڑھی چال  چلیں۔ مسلمانوں کو چا ہئے کہ اللہ کی نافرمانی سے بچیں۔ دین اسلام پر قائم رہیں اورالله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں رہیں اور اس کا یہ احسان بھی نہ بھولیں کہ الله نے وین اسلام کے ذریعے مسلمانوں کی باہمی عداوتیں مٹا کر ان کے دل جوڑ دیے ہیں،انفرادی عمل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ایک جماعت بھی ہونی چاہیے جو فلاح کی اس نعمت کو بنی نوع انسان تک پہنچائے اور انہیں نیکی کی طرف بلائے ۔ اچھائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے۔

وَلَا تَكُـوْنُـوْا كَالَّـذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَهُـمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ (آل عمران:105)

(اور مسلمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جو فرقوں میں بٹ گئے اورکھلی کھلی واضح  ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہو گئے اور جنہوں نے یہ روش اختیارکی وہ  قیامت کے دن سخت سزا پائیں گے ۔ مسلمانوں کو اللہ نے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان عمل میں بھیجا ہے یہ دنیا کی" بہتر امت"ہے۔ مخالف اہل کتاب وغیرہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے زیادہ سے زیادہ وہ کچھ  اذیت پہنچا سکتے ہیں - یہود کا یہ رویہ خودان کے لیے نقصان کا باعث ہو گا ۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے ذلیل و خوارر ہیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں کہیں الله کے عہد سے انسانوں کے عہد اور ذمہ میں انہیں پناہ مل جائے ۔ اللہ  کی آیات کا انکار کرنے کے باعث اور اپنے نبیوں کوقتل  کرنے کی پاداش میں ان پر الله کا غضب چھایا ہوا ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًاۖ وَدُّوْا مَا عَنِتُّـمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِـمْ وَمَا تُخْفِىْ صُدُوْرُهُـمْ اَكْبَـرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيَاتِ ۖ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْقِلُوْنَ (آل عمران:118)

(مسلمانوں کو اپنی جماعت کے سوا دوسرے لوگوں کو اپنا راز دارنہ بنانا چاہیے ایسے لوگ خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے سے نہیں چوکتے۔ اور انہیں وہی بات پسند ہے جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے۔ ان کے دلوں کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اورجوکچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں ۔ وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اللہ نے صاف ہدایات دے دی ہیں ۔ اگر مسلمان عقل رکھتے ہیں تو ایسے لوگوں سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتیں ۔ )

وہ صبر اور ثابت قدمی سے کام لیں تودشمنوں کے نقصان سے محفوظ  رہیں گے جیسا کہ احد کی جنگ میں ہوا کہ مسلمانوں کی بعض جماعتیں  ہمت ہارنے لگیں تھیں ۔ پھر اللہ نے جس طرح بدر کے میدان میں فتح مند کیا تھا  یہاں بھی سرخرو کیا ۔ درحقیقت فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے اللہ کی طرف سے ہے۔ مسلمانوں کو احد کے میدان میں عین کامیابی کے موقع پر طمع کی وجہ سے ناکامی کا دھچکا  لگاتھا ، مال کی طمع  میں سود کھانا بھی شامل ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔

وَسَارِعُوٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ (آل عمران:133)

اللہ نے  خداترس اور پرہیز گا روں کے لیے جنت مہیا کی ہے جس کی وسعت زمینوں آسمانوں جیسی ہے۔ تو دوڑ کرااپنے رب کی مغفرت اور جنت کو حاصل کرو۔

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّـٰهُ وَعْدَهٝ اِذْ تَحُسُّوْنَـهُـمْ بِاِذْنِهٖ ۖ حَتّـٰٓى اِذَا فَشِلْتُـمْ وَتَنَازَعْتُـمْ فِى الْاَمْرِ وَعَصَيْتُـمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرَاكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۚ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الـدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُـمَّ صَرَفَكُمْ عَنْـهُـمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ (آل عمران:152)

اللہ نے مسلمانوں سے مدد کا جووعدہ کیا تھا احد میں پورا کر دکھایا۔ ابتداء میں مسلمان دشمنوں کو مار رہے تھے لیکن جب انہیں فتح  ہوتی نظر آئی تو کمزوری دکھائی اور اپنے کمانڈر یعنی پیغمبر کے حکم کی خلاف ورزی کر بیٹھے اورفتح شکست میں بد لنے لگی ۔ اس لیے کہ مسلمانوں میں سے  کچھ  دنیا کے طالب تھے اورکچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ نے کافروں کو پسپا کردیا تا کہ مسلمانوں کی آزمائش کرے اور پھر اللہ نے انھیں معاف بھی کر دیا۔ کیونکہ وہ ایمان والوں پر بہت مہربان ہے۔ اور یہ بھی اس کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنا رسولﷺ انسانیت کی  ہدایت کے لیے بھیجا جو ہر طرح کی برائیوں سے پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے ۔ الله وشمنوں کی چالوں سے  بے خبر نہیں ۔ وہ مسلمانوں کو ہرگز اس کمزوری کی حالت میں نہیں رہنے دے گا اور ناپاک لوگوں سے پاک لوگوں کو الگ کر کے رہے گا۔

جن لوگوں کو اللہ نے دولت مند کیا ہے ان کا بخل سے کام لینا اچھی بات نہیں ۔ کنجوسی قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق بن جائے گی ۔ مخالف  تو ہمیشہ تمسخر کرتے رہے ہیں اور خیرات کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ پہلے بھی لوگوں نے رسولوں کی تعلیم کو تسلیم نہیں کیا تھا اور دکھ پہنچانے والے طعنے دیا کرتے تھے۔ اس لیے مسلمان صبر سے کام لیں اور یہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پراترارہے ہیں دردناک سزا پائیں گے۔ اللہ کو یاد رکھنے والے اور اس کی نصرت کے طالب مسلمان کفار کی ظاہری عیش و آرام اور قوت سے دھو کہ میں نہ آئیں ۔ یہ جو  کچھ ہے صرف تھوڑا سا فائدہ  ہے ۔ بالآخر ان منکروں کو دوزخ میں جھونکا جا ئے گا ۔مسلمان پامردی سے کام میں اسی میں ان کی فلاح ہے۔

سورة آل عمران ختم ہوئی اور سورة النسآء  شروع ہوتی ہے۔ یہ سورت مدنی  ہے۔ اور موضوع کے لحاظ سے سورہ آل عمران سے ملتی  ہے اس میں معاشرے کے متعلق مفصل احکام ہیں اور وراثت یتیموں کے حقوق ،باہمی تنازعوں کے تصفیہ کے احکام اور اجتمائی نظام کا بیان ہے۔

يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّـذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّّخَلَقَ مِنْـهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْـهُمَا رِجَالًا كَثِيْـرًا وَّنِسَآءً ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ الَّـذِىْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا (النساء:1)

لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا۔ اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرداور عورتیں دنیا میں پھیلادیں۔اللہ سے ڈرتے رہو جس کے واسطلے سے تم ایک دوسرے سے  اپنا حق مانگتےہو۔ اور رشتہ  اور تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ بے شک اللہ تم پرنگرانی کررہا ہے ۔یتیموں کے  حق کی نگہداشت کرو ۔ عورتوں کے مہر خوش دلی سے ادا کرو ۔ ایک سے زیادہ بیویاں ہو تو ان میں عدل و مساوات کا لحاظ رکھو اور ان کی تعداد چار سے زیا وہ نہ بڑھاؤ - کم عمر اور نادانوں کا مال ان کے حوالے نہ کرو کہ و ہ برباد نہ کر دیں اور ان کے کھانے پینے کا انتظام کرو اور دیگر ضرورتوں کو پورا کرو اور نیکی کی باتیں بتاؤ۔ میراث کے متعلق اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ لڑکے کے دو اور لڑکی کا ایک حصہ مقرر ہے  اور دوسرے قرابت داروں کو بھی شرعی حصے کے مطابق دو۔ مرنے والا قرض چھوڑ جائے تو پہلے اسے ادا کرو اور اگر وصیت کی ہوتو اس کی بھی تعمیل کرو ۔ یہ حصے اللہ نے مقرر کیے ہیں ۔اسی طرح بیوی کے ترکے  میں شوہر کا آدھاحصہ ہے بشرطیکہ اس نے کوئی اولاد نہ چھوڑی ہو۔ اگر اولاد ہوتو  شوہرکو چوتھائی ملے گا ۔

یہ اللہ  کی  مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور اس کی نافرمانی کا انجام جہنم ہے۔نادانی سے برا فعل کرنے والوں کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے مگر جو توبہ کے بعد برے کام کرتے چلے جائیں ۔ تو مرتے وقت کی گئی توبیہ کو شرف قبولیت نہیں ملے گا ۔ بیویوں کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی گزارو۔  اورمہر کی ادائیگی میں کوئی گڑ بڑ نہ کرو ۔جن عورتوں سے نکاح  حرام ہے ان میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالا ئیں ،بھتیجیاں ، بھانجیاں اور رضائی ماں اور اس کی اولا د ، خوشدامن اور سوتیلی لڑکیاں شامل ہیں اور اسی طرح سگے بیٹوں کی بیویاں اور ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا بھی حرام ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post