تلک الرسل

علامہ سرفراز صابری

اس پارے میں سورة البقرة کے آخری آٹھ رکوع اور سورۃ آل عمران کے ابتدائی  نو رکوع ہیں ۔ پچھلے پارے میں فرد اور معاشرے میں، فرد کے حقوق اور ذمہ داریوں کے احکام تھے۔ اس بارے میں اجتماعی ذمہ داریوں کا ذکر ہے، پچھلے پارے میں رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی توثیق ہے اوراس پار ے کے شروع میں رسولوں کی فضیلت کے درجوں کا بیان ہے:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ ۘ مِّنْـهُـمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّـٰهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُـمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ الْبَيِّنَاتِ وَاَيَّدْنَاهُ بِـرُوْحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّـذِيْنَ مِنْ بَعْدِهِـمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُـمُ الْبَيِّنَاتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْـهُـمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْـهُـمْ مَّنْ كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَآءَ اللّـٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ (البقرۃ: 253)

ان رسولوں کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رتبے عطا کیے گئے ہیں ۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے الله نے خود کلام کیا کسی کو دوسری حیثیتوں سے بلند درجے  عطا کیے گئے اورعیسیٰ بن مریم کوروشن نشانیاں عطا کی گئیں اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی گئی۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے  درجے اللہ کے حضور بلند کرنے کے لیے ) دنیوی مال ومتاع میں سے جو کچھ عطا کیا گیا ہے (صرف اپنے  نفس کی راحت و آرام کے لیے ہی نہیں کہ ) اللہ کی راہ میں بھی خرچ کریں۔

اَللَّـهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَۚ اَ لْحَىُّ الْقَيُّوْمُ ۚ لَا تَاْخُذُهٝ سِنَةٌ وَّّلَا نَوْمٌ ۚ لَّـهٝ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّـذِىْ يَشْفَعُ عِنْدَهٝٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَمَا خَلْفَهُـمْ ۖ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهٓ ٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ ۖ وَلَا يَئُوْدُهٝ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِـىُّ الْعَظِـيْمُ (البقرۃ:255)

اللہ کے سوا کوئی معبودنہیں ۔وہ زندہ جاوید  ہستی  ہے جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ نہ سوتا ہے اورنہ ا سے اونگھ آتی ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے۔ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو  کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ  واقف ہے۔ انسان اس کے علم سے کسی  بات کا بھی احاطہ نہیں کر سکتا مگر یہ کہ جتنی بات کا علم وہ انسان کو دینا چاہے دے دے۔ اس کا تختِ حکومت آسمانوں اور زمین کے تمام پھیلاؤ پر چھایا ہوا ہے اور ان کی نگرانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں۔ اس کی ذات بڑی ہی بلند مرتبہ ہے۔ دین اختیار کرنے کے بارے میں اس کی طرف سے کوئی جبر نہیں ۔ اس نے ہدایت اورگمراہی  دونوں کے راستے انسان کے آگے کھلے رکھے ہیں ( گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والا وہ شاہِ وقت تھا جس نے پیغمبر ابراہیم سے اس کے پروردگار کے بارے میں حجت کی تھی اورپیغمبر ابراہیم نے اس دلیل سے اسے لا جواب کر دیا تھا کہ اللہ  تو سورج مشرق سے طلوع کرتا ہے اگردعوٰ ی خدائی کرتا ہے تو  سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا ۔

 ( اور ہدایت کا راستہ چننے  والا  وہ شخص تھا جس نے اجڑی ہوئی بستی دیکھ کر سوچا تھا کہ یہاں کی ہلاک شدہ آ بادی کو اللہ کس طرح دو بارہ زندگی بخشے گا پھر ایسا ہوا کہ اللہ نے اس کوسو برس کی موت طاری کردی اور جب وہ جاگا تو یوں سمجھا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم وقت سویا ہوا ۔ اس کے کھانے پینے کی چیز یں تو تازہ تھیں مگر اس کی سواری کاجا نورگل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ  بن کر رہ گیا تھا۔ پھر اللہ نے اس کے سامنے اس کی سواری کو زندہ کر دکھایا اوروہ بول اٹھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح پیغمبرابراہیم نے اپنے اطمینان کے لیے مردہ کو زندہ کیے جانے کے مشاہدے کی التجا کی تھی اور اللہ کے حکم کے مطابق چار پالتو پرندوں کو مار کر ان کے اعضاء دور پہاڑوں پر پھینک آئے تھے اور جب پھر آپ  نے انہیں آواز دی تو چاروں کے چاروں ان کے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئے تھے۔ اللہ کے کاموں میں حکمت ہوتی ہے۔ جو مال اس کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے اس میں کئی گناه اضافہ اور وسعت پیدا ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کر کے احسان نہیں جتاتے ان کے لیے بڑا اجر ہے ۔دکھاوے اور شان بڑھانے کی نیت سے جو خرچ کیا جائے و ہ اکارت جاتا ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى كَالَّـذِىْ يُنْفِقُ مَالَـهٝ رِئَـآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۖ فَمَثَلُهٝ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٝ وَابِلٌ فَتَـرَكَهٝ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُـوْا ۗ وَاللّـٰهُ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْكَافِـرِيْنَ (البقرۃ:264)

ایمان والوں کو چاہیے کہ جو بھی محنت مزدوری یا تجارت سے کمائی کریں اس میں سے خرچ کریں اور جو کچھ زمین میں سے پیدا ہوا اس میں سے نکالیں اوراچھی چیز خیرات کریں ایسا نہ کریں کہ بُری سے بُری چیز چھانٹ کر الله کی راہ میں  دینے لگیں جب کہ ویسی ہی چیزیں وہ خوش دلی سے خود بھی قبول کرنے کو تیار نہ  ہوں ۔ اللہ تو بے نیاز ہے اسے کسی  چیز کی احتیاج نہیں ہے۔

(خیرات کے معاملے میں) شیطان ڈراتا ہے کہ مفلسی آ جائے گی اور برائیوں کی ترغیب دیتا ہے لیکن اللہ اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے ۔ کہ اللہ وسعت رکھنے والا اور سب کو جاننے والا ہے ۔ وہ جسے چاہے حکمت کی نعمت سے سرفراز کرتا ہے۔ اگر دل میں نام ونمود کی خواہش نہ ہو تو کھلے طور پر خیرات کریں تاکہ دوسروں کو ترغیب  ہو۔ اور حاجتمندوں کو چھپا کردینا چاہیں تو زیادہ اچھا ہے۔ خیرات کے مستحق خصوصا وہ لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے  گھِر کر بیٹھ گئے ہوں کہ کسب معاش کے لیے دوڑ دھوپ نہ کرسکیں اور باوجود  ناداری  کے  اتنے خودار ہوں کہ ان کی ظاہری حالت سے ان کی مفلسی کا اندازہ نہ  ہوتاہو۔

جولوگ حاجتمندوں کی امداد کے برعکس الٹاان سے سود لیتے ہوں اور کہتے ہیں  کہ تجارت میں  بھی تو آ خرسودہی جیسی بات ہے تو وہ اللہ کی حکم عدولی کرتے ہیں کیوں کہ اللہ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کوحر ام ٹھہرایا ہے۔ سو دخوروں کا قیامت کے دن ایسا حال ہوگا کہ جیسے شیطان نے چھو کربا ؤلا کرد یاہو۔لہذا ضرورت مندوں کو ایک معین مدت کے لیے  قرض بلاسود دیں اور دیانت داری سے اس کی لکھت پڑھت کر لیں ۔ دو آدمیوں کو گواه بنائیں اور گواہی کے وقت یہ  شہادت کو ہرگز نہ چھپا ئیں ۔ اگر رہن رکھ کرقرض لیا جائے  وہ چیز بطور امانت ہے اور قرض کی رقم کی ادائیگی  پرواپس کردی جائے ۔ یہ ہدایتیں ہیں جواللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہیں۔

لَا يُكَلِّفُ اللّـٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَـهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْـهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَـآ اِنْ نَّسِيْنَـآ اَوْ اَخْطَاْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ اِصْرًا كَمَا حَـمَلْتَهٝ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ ۖ وَاعْفُ عَنَّا، وَاغْفِرْ لَنَا، وَارْحَـمْنَا ۚ، اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِـرِيْنَ (البقرۃ:286)

اللہ  کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذ مہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ ہرشخص نے جونیکی  کمائی اس کا پھل اس  کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے اس کا وبال  اسی پر ہے ایمان والوں کی دعا ہے کہ )  اے ہمارے پروردگار! اگرہم سے بھول چوک ہو جائے تو معاف کر دے ۔ جس بار کے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ  ہووہ بار ہم پر نہ رکھ۔ ہمارے ساتھ  نرمی کرہم سے درگزر فرما ۔ ہم  پر رحم کر تو ہمارا مالک اورآقا ہے ۔کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔

سورة البقرة ختم ہوئی اور آل عمران شروع ہوتی ہے۔ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی اس میں یہود و نصاری کی اعتقادی کمزوریوں  کی نشان دہی کی گئی ہے اور مسلمانوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا ہے۔نجرانی عیسائیوں کے وفد کی نسبت سے تثلیث کے عقیدے کا رد،مباہلہ کی دعوت اور اورکفار مکہ سے بدر اوراحد کی لڑآئیوں کا ذکر ہے۔

الم ۔اَللَّـهُ لَا اِلٰـهَ اِلَّا هُوَ الْحَىُّ الْقَيُّوْمُ ۔نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْاِنْجِيْلَ ۔مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيَاتِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۗ وَاللّـٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ (آل عمران:1۔4)

ا ل مۤ۔اللہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے، نظامِ کائنات کا سنبھالنے والا ہے۔اُس نے تجھ پر یہ سچی کتاب نازل فرمائی جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اُسی نے اس کتاب سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی۔اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے کہ کائنات  ہستی کی ہر شے اسی سے قائم ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔اسی نے قرآن اتارا ہے جوحق لے کر آیا ہے اور اس سے پہلے  جو کتابیں نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق کرتا ہے ۔ اللہ نے اس سے پہلے انسانوں کی ہدایت کے لیے تو رات اور انجیل نازل کی ہیں ۔ وہ کتابیں لوگوں کے لیے راہ نما ہیں اور اسی نے فیصلہ کن چیزیں نازل فرمائیں، بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں سے منکر ہوئے اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست بدلہ دینے والا ہے۔

قرآن میں دو طرح  کی آیتیں ہیں ایک محکمات  ہیں جو اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں (جیسے توحید و رسالت ،حرام و حلال اور دوسری متشابهات ہیں جیسے (اللہ  کا وجود، مرنے کے بعد زندگی ) تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی  ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اپنے  معنیٰ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ علم میں پکے ہے ہیں وہ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہمیں سیدھے راستے پر چلا دینے کے بعد ڈانواں  ڈول نہ کیجیو۔جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی  ہے انہیں ان کی دولت اور اولا د اللہ  کی پکڑ سے نہ بچا سکے گی ۔ اور وہ جلد مغلوب ہو جائیں گے جیسا کہ بدر کی لڑائی میں ہوا۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْـرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۖ وَاللّـٰهُ عِنْدَهٝ حُسْنُ الْمَآبِ (آل عمران:14)

انسان کے لیے مرد عورت کے رشتے میں، اولاد میں، سونے چاندی کے ڈھیروں میں ، چیدہ گھوڑوں میں، مویشی اور کھیتی باڑی میں دل کا اٹکاؤ اورخوشنمائی رکھ دی گئی ہے ۔ لیکن یہ سب کچھ دنیا کی چند روز ہ زندگی کے سامان  ہیں اوربہتر ٹھکانہ  اللہ ہی  کے پاس ہے ۔ فلاح پانے والے تو وہی ہیں جو راست باز،فرماں بردار اورفیاض ہیں اصلی دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔ اہل کتاب نے اختلاف اور گروہ بندی کر لی ہے وہ علم پانے کے بعد بھی اس پر قائم نہیں رہے اور اس طرح ان کا کیا دھرادنیااور آخرت میں اکارت گیا۔

فَكَـيْفَ اِذَا جَـمَعْنَاهُـمْ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِۚ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُـمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ۔ قُلِ اللّـٰـهُـمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِى الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُۖ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْـرُ ۖ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ ۔ تُوْلِجُ اللَّيْلَ فِى النَّـهَارِ وَتُوْلِجُ النَّـهَارَ فِى اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَىَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَـرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَيْـرِ حِسَابٍ ۔ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُـوْنَ الْكَافِـرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۖ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّـٰهِ فِىْ شَىْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْـهُـمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّـٰهُ نَفْسَهٝ ۗ وَاِلَى اللّـٰهِ الْمَصِيْـرُ(آل عمران:25تا 28)

(اور اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب قیامت کے دن جس کا آنا یقینی  ہے ، سب الله کی حضور میں جمع ہوں گے اور ہر شخص کو اس کی کمائی کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی۔ اقتدار عطا کرنا اور عزت چھین لینا اللہ کے اختیار میں ہے ۔ مسلمانوں کو کافروں کو دوست نہ بنانا چاہیے۔ اگر وہ فی الحقیقت اللہ سے محبت رکھتے ہوں تو اس کے رسول کی اطاعت کریں ۔فلاح اور سعادت کی یہی راہ ہے۔ اللہ نے آدم اور نوح  کو اورابراہیم ، عمران کے گھرانے کو برگزیدگی عطا فرمائی ۔ اسی نے عمران کی بیوی کی دعا قبول کی اور اولاد میں لڑ کی عطا کی تھی ۔ اسی نے زکریا کویحییٰ  اور مریم کوعیسیٰ دیا جو بغیر باپ کے پیدا ہوا تھا ۔ اور جس نے گہوارے  ہی میں لوگوں سے باتیں کی تھیں مگر جب عیسیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنے پروردگار کی بندگی کی دعوت دی تو قوم نے ماننے سے انکار کر دیا اور اس کے خلاف سازش کی کہ سولی دے دیا جائے مگر اللہ نے  عیسی کو اپنی حفاظت میں لے کر اپنی طرف اٹھالیا۔عیسی کی پیدائش آدم کی طرح ہوئی پھراگر کسی نے اس معاملے میں جھگڑا کیا تو اسے مباہلہ کے لیے سامنے آنا چاہیے تھا ۔ اور اگر مباہلہ کرنے سے انکاری ہوا تو وہ یقینا مفسد ہے اہل کتاب حق  بات کو چھپا کر اور اللہ سے کیے ہوئے اپنے عہد کو توڑ کر آ خر ت کی فلاح  سے ہاتھ دھور ہے ہیں ۔ وہ حق کو باطل کا رنگ چڑھا کرمشتبہ بناتے ہیں ۔بد معاملہ ہیں اور اپنے عہد او را پنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں ۔ اور ان کے عالم اورپیشوا اللہ  کی کتاب کا مطلب کچھ سے کچھ بتا دیتے ہیں۔

وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْـرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُۚ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (آل عمران:85)

اسلام کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نا کا م اورنامر اد ر ہے گا ) البتہ وہ لوگ  بچ  جائیں گے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور اپنے آپ کو سنوار لیں ورنہ  وہ روئے زمین کا تمام ترخزانہ  بھی فدیہ میں دے کر درد ناک عذاب سے  بچ نہیں سکیں گے۔جیسا کہ آیت مبارکہ ہے:

اِنَّ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَهُـمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِـمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّلَوِ افْتَدٰى بِهٖ ۗ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِـيْـمٌ وَّّمَا لَـهُـمْ مِّنْ نَّاصِرِيْنَ (آل عمران:91)

بے شک جو لوگ کافر ہوئے اور کفر کی حالت میں مر گئے تو کسی ایسے سے زمین بھر کر سونا بھی قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ اس قدر سونا بدلے میں دے، ان لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔

 

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post