سیقول السفھاء

علامہ سرفراز صابری

مسلمانوں کی روحانی بالیدگی اور باقی نشونما کا دور ہجرت کے بعد شروع ہوا اور اسلامی نظام حیات کے خدوخال ابھرے ۔ عبادت میں تحویل قبلہ روز ہ، حج وعمرہ کے احکا م ، حلال و حرام کا امتیاز اور معاشرتی مسائل نکاح،حقوق ز وجین و غیر ہ  تشکیل پائے معمار کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام  کی دعا کی تعبیر نبی کریم ﷺکی بعثت دوسرے پارے کے اہم موضوع ہیں ۔ مذہب اسلام کا اہل کتاب سے ممتاز مرکز ظہورمیں آیا  یعنی کعبہ قبلہ اسلام مقرر ہوا ۔ دوسرے پارے کی ابتدا اسی اہم تحویل قبلہ سے ہوئی ۔

سَيَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُـمْ عَنْ قِبْلَتِهِـمُ الَّتِىْ كَانُـوْا عَلَيْـهَا ۚ قُلْ لِّلّـٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِـيْمٍ (البقرۃ:142)

بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے، کہہ دو مشرق اور مغرب اللہ ہی کا ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔

اس علم کو جس جماعت نے بے چون چرا تسلیم کیا ہے وہ مسلمان ہیں جو امت وسط یعنی نیک ترین امت قرار دیے گئے ہیں ۔ ہٹ دھرم اہل کتاب اس تحویل کو نہ مانیں ۔ہر امت کی اپنی ایک سمت ہے سبقت لینے کے لیے سمت کا تقررنہیں بلکہ بھلائی اور نیک عملی درکار ہے۔ مسلمانوں کو صبر اور نماز( کی معنوی قوتوں) سے سہارا پکڑ نا چاہیے۔ وہ اللہ کو یاد رکھیں گے تو اللہ بھی ان کی طرف سے غافل نہ ہوگا۔جہاد میں صبر اور ہمت سے لڑ کر جان دینے والے مردہ نہیں بلکہ زندہ رہتے ہیں اگر چہ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کیونکہ راہ حق میں موت سرتاسر زندگی اور ابدیت ہے ۔

وَلَنَـبْلُوَنَّكُمْ بِشَىْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِـرِيْنَ (البقرۃ:155)

اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے ضرور آز مائیں گے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔

انہیں خوشخبری ہے یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی ۔ کعبہ  کو عبادت کا مرکز ماننے والی امت مسلمہ کے لیے اس مقدس مقام کا حج و عمرہ اور صفا ومروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سعی کرنا نیکی کا کام ہے مگر جو لوگ حق کی راہ سے برگشتہ ہوں اور مرتے دم تک اسی پر قائم رہیں تو ان پر اللہ کی اس کے فرشتوں کی اور انسانوں کی  لعنت ہے۔ بے شک اللہ کے سوا اور کوئی معبودنہیں ۔ اس کی وحدت پر آسمانوں اور زمین کی ساخت ، رات اوردن کا تسلسل، بارش ، ہواؤں  کی گردش  جیسی بے شمار نشانیاں ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر بناتے ہیں۔کاش وہ یہ سمجھ لیں کہ  ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں  ہیں ۔اسی نے حلال اور پاک چیز وں کے کھانے کی اجازت دی ہے اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے سے منع کیا ہے۔ اس نے تو اپنی کتاب میں احکام اور ہدایتیں حق کے ساتھ نازل کی ہیں مگر جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۔ انہوں نے اللہ کی کتاب میں اختلافات نکالے اور نئے نئے معنی پہنائے۔

لَّيْسَ الْبِـرَّ اَنْ تُـوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِـرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلَآئِكَـةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّيْنَۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ وَالسَّآئِلِيْنَ وَفِى الرِّقَابِۚ وَاَقَامَ الصَّلَاةَ وَاٰتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِـمْ اِذَا عَاهَدُوْا ۖ وَالصَّابِـرِيْنَ فِى الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۗ اُولٰٓئِكَ الَّـذِيْنَ صَدَقُوْا ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُتَّقُوْنَ (البقرۃ:177)

نیکی یہ نہیں ہے کہ (عبادت کے وقت) اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی  طرف پھیرلو ۔ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آ دمی اللہ ،قیامت،ملائکہ،اللہ کی نازل کردہ کتب ،اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ  کی  محبت میں اپنا مال ، رشتہ داروں ،یتیموں ،مسکینوں ،مسافروں اوران سائلوں کودے،غلاموں کو آزاد کرائے ، نماز قائم کرے اورزکوٰۃ دے۔ جب عہد کرے تو وفا کرے،تنگی اور مصیبت کے وقت یا خوف و ہراس کی گھڑی میں صبر کرے ۔ اپنی راہ میں ثابت قدم ر ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو راست باز ہیں اور برائیوں سے بچنے والے ہیں۔

عبادات میں نماز اور ز کوٰۃ  کی طرح روزہ بھی فرض ہے ۔ پہلی امتوں پر بھی روزه فرض کیا گیا تھا۔ البتہ بیمار اور مسافر کے لیے اللہ تعالی نے رعایت عطا کی  ہے  کہ  اپنےروزے  کسی اور وقت میں پورے کرلے۔ اللہ تعالیٰ  مسلمانوں کے ساتھ  نرمی  چاہتا ہے۔ سختی  کرنا پسند نہیں کرتا ۔ وہ بندوں سے بہت قریب ہے اور جب کوئی بندہ اسے پکارتا ہے تو اس کی سنتا ہے اور اس کی مصیبتوں کو دور کرتا ہے۔ روز ہ مسلمان کو پرہیز گاری میں ڈھالتا ہے اور بہت سی نفسانی خواہشات اورنازیبا  برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور پرہیز گاری میں یہ بھی شامل ہے کہ

وَلَا تَاْكُلُوٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْـمِ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ:188)

 اور ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے  سے کھا جاؤ اور نہ ہی مال ودولت کو رشوت کے طور پرحکام تک پہنچنے کا ذریعہ بناؤ اورجانتے بوجھتے ہوئے دوسروں کے مال  کا کوئی حصہ ناحق حاصل نہ کرو )اسی طرح مسلمانوں کو داخلی اورخارجی معاملوں میں با اصول رہنا چاہیے ۔جہالت کے دستور اور اورطورطریق ختم کر دینے چاہئے اورجنگ بھی صرف ان سے لڑیں جولڑنا اور مقابلہ کرنا چاہتے ہوں۔ فتنہ قتل اور خونریزی سے بھی بدتر ہے اس لیے اس کا قلع قمع کرنا چاہے اور جن محترم مہینوں میں جنگ کرنا منع کیاگیا ہے اس میں جنگ نہ کریں۔حج کے مہینے بھی محترم ہیں۔ ان دنوں میں حج کریں ۔ مناسک حج صحیح طریقے سے ادا کریں اور اللہ کی جناب میں قربانی پیش کریں اور جن لوگوں کو قربانی کا مقدور نہ ہو وہ تین روزے  حج کے دوران اور سات روزے گھر واپس پہنچ  کررکھیں اور اس طرح دس روز ے پورے کریں اورحج  کی حالت میں کوئی بدعملی اور لڑائی جھگڑا نہ کریں۔حج کے لیے سر و سامان کی تیاری کرو اور سب سے بہتر سر و سامان تو پرہیز گاری ہے اور الله کے احکام کی نافرمانی سے بچنا ہے۔

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِى السِّلْمِ كَآفَّـةً ۖوَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ اِنَّهٝ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ (البقرۃ:208)

اے ایمان والو! اسلام میں سارے کے سارے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، کیوں کہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔

کفار تو دنیا کی زندگی پر ریجھےہوئے ہیں ۔ ایمان والوں کا مذاق اڑاتے ہیں مگر قیامت کے دن مسلمان ان کفار کے مقابلے پر بلند مرتبے پر ہوں گے ۔ یہ اللہ کی رحمتوں کے امیدوار ہیں ۔ انہوں نے اللہ کی محبت میں اپنے گھر بار چھوڑے ہیں یہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول میں لگے رہتے ہیں بھلائی کے کام کرتے ہیں۔ برائی  سے  بچتے ہیں۔ مسلمان کا مشرک عورت سے نکاح جائزنہیں اور اس پر لازم ہے کہ اپنے گھر میں عدل و انصاف اور پاکیزگی قائم رکھے۔ اگر بیوی سے تعلقات کشیدہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھے تو ملاپ کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ۔ اگر طلاق کا ارادہ کر لے تو تین مرتبہ طلاق  وقفے وقفے سے دے۔ طلاق دو دفعہ دینے کے بعد بھی رجوع کا اختیار اور موقع ہے ۔ تاہم اگر بوجوہ میاں بیوی کا ساتھ گزارا ممکن نہ ہو تو اچھے طریقہ سے تیسری طلاق دے کرحق مہر ادا کرد یاجائے ۔ اور اگر عورت خود طلاق چاہے تو خلع کرلے اور اس کا کچھ معا وضہ دے۔ تین طلاقوں کے بعد جب تک عورت حسب قاعدہ دوسرا نکاح نہ کرے اورزو جیت کے تمام تقاضے پورے نہ ہو جا ئیں اپنے سابق شوہر سے دو بارہ  نکاح نہیں کر سکتی ۔ ماؤں کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دو برس تک دودھ پلا ئیں ۔ طلاق کی صورت میں باپ کو دودھ پلائی کا معاوضہ دینا ہو گا ۔ اگر باہمی رضامندی سے معاوضہ معاف کر لیں تو اچھی بات ہے۔ شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو چارماہ ر اور دس دن عدت کے پورے کرنے چاہیے اور مرد اپنی بیوی کے مہر کی ادائیگی میں لیت ولعل سے کام نہ لے۔

وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (البقرۃ:237)

آپس کے معاملات میں فیاضی کونہ بھولیں۔ تمہارے اعمال کو اللہ  دیکھ رہا ہے۔

اسی طرح عبادات میں نماز کی پابندی کا خیال رکھیں۔ الله کی راہ میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے سے دریغ نہ کریں ۔ بے دلی اور بھونڈے پن کا مظاہرہ نہ کریں ۔ جیسا کہ بنی اسرائیل نے کیا تھا۔ جب انہوں نے اپنے نبی سے درخواست کی تھی کہ جہاد کے لیے ایک امیر مقرر کر دے مگر جب اس امیر کی قیادت میں دشمنان دین سے مقابلے کے لیے نکلے تو اکثر پیٹھ  موڑ کر بھاگ نکلے اور جب ان کے  نبی  نے ان پر حاکم مقرر کیا تو اس کوتسلیم کرنے سے انکار کرنے لگے حالانکہ  علم اور قوت کے لحاظ سے وہ حاکم سب پر فوقیت رکھتا تھا۔ اورجب بادل نخواستہ اس کی سربراہی میں دشمن  سے مقابلے کے لیے چلےتو نظم وضبط  کوتوڑ ااور جب انجام کار دشمن سے آ منا سامنا ہوا تو ہمت ہاردی اور ماسوا چنداہل ایمان کے کوئی آگے نہ بڑھا۔ مگر اللہ نے ان کے گنے چنے اہل ایمان کی دعاؤں  کو شرف قبولیت بخشا اور دشمن پرفتح عطافرمائی۔

فَهَزَمُوْهُـمْ بِاِذْنِ اللّـٰهِ وَقَتَلَ دَاوُوْدُ جَالُوْتَ وَاٰتَاهُ اللّـٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْـمَةَ وَعَلَّمَهٝ مِمَّا يَشَآءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّـٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُـمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِيْنَ (البقرۃ:251)

پھر اللہ کے حکم سے مومنوں نے جالوت کے لشکروں کو شکست دیاورپیغمبرداؤدنے جالوت کوقتل کردیا اوراللہ نے داؤدعلیہ السلام کوسلطنت اور حکمت سے نوازا اور( حکمرانی اور دانشوری  کی باتوں میں سے ) جو کچھ سکھلانا چاہا سکھایا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ ایسا نہ کرتا کہ انسانوں کے ایک گروہ کے ذریعے سے دوسرے گروہ کو راہ سے ہٹاتا رہتا تو زمین کا انتظام خراب ہو جاتا لیکن اللہ دنیا کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے اور یہ اس کا فضل ہے کہ ایک گروہ سداا یک حالت میں نہیں چھوڑ دیا جاتابلکہ ہمیشہ تنازعات اور مدافعت جاری رہتی ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post