خلاصہ پہلا پاره الم

علامہ سرفراز صابری صاحب

قرآن مجید تیس پاروں اور ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل ہے۔ پہلا پارہ الم دوسری سورة البقرة سے شروع ہوتا  ہے اس سے پہلے سات آیتوں کی ایک سورت بنام سورۃ الفاتحہ  ہے جو منزلہ دیباچہ  قرآن ہے۔

سورہ فاتحہ قرآن مجید کی پہلی سورة الفاتحہ ہے جو مکہ میں نازل ہوئی اور قرآنی تعلیمات کالب لباب ہے ۔ تمام نمازوں کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ بندوں کی زبان میں اللہ تعالی کی حمد اور دعا ہے۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ ۔ صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ
(الفاتحۃ)

اے پروردگار! ہمیں سیدھا راستہ دیکھا اور ان لوگوں کے ملریقے سے بچا جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور جو گمراہی میں پڑ گئے۔

الٓــمٓ ۔ذٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۖ فِيْهِ ۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ اَلَّـذِيْنَ يُؤْمِنُـوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُـمْ يُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:1تا 3)

 سورة فاتحہ میں جودعا بتائی گئی ہے اس بارے میں اس کا جواب ہے کہ یہ ہدایت کی کتاب جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ان لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہے جو پرہیز گار، غیب پر ایمان رکھنے والے اورنمازوں کے پابند ہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ دنیا اور آخرت میں فلاح انہیں لوگوں کا حصہ ہے۔

اہل ایمان کے علا وہ دو گروہ اور ہیں ، ایک کفار و مشرکین کا جو اللہ کی نازل کرده آیتوں کو بھلا تے ہیں اور رسول کی تعلیم کے منکر ہیں ۔ دوسرا گروه منا فقوں کا ہے جو بظاہر اہل ایمان کا دم بھرتے ہیں مگر پوشیدہ طور سے کافروں اور گمراہ اہلِ کتاب سے ملے ہوئے ہیں ۔ لوگ ایمان کے معاملے میں اللہ سے تمسخر کرتے ہیں حالانکہ الله خود ان سے تمسخر کررہا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے۔

خَتَمَ اللّـٰهُ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ وَعَلٰى سَمْعِهِـمْ ۖ وَعَلٰٓى اَبْصَارِهِـمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَّلَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ (البقرۃ:7)

(اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے۔ ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیااوران کے لیے درد ناک عذاب  کی سزاہے۔)

بنی نوع انسان اور زمین کی ساری چیزیں جو انسان کے کام آتی ہیں اللہ نے ہی پیدا کی ہیں اور ہدایت اور رہنمائی کے لیے اس نے قرآن نازل کیا ہے جس کی نظیر کوئی بھی پیش نہیں کر سکے گا۔ اس کی میں عبادت کی جائے اور اس کے احکام کی نافرمانی نہ کی جائے کیوں کہ اب اس نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں تو انہوں نے عرض کیا تھا کہ انسان زمین پہنچ کر خون خراب کرے گا تو الله تعالی نے پہلے انسان بین دوم کو علم کی فضیلت سے آراستہ کیا اور بااختیارمخلوق بنا کرفرشتوں سے اسے سجدہ کرایامگرابلیس  نے تکبرسے انکار کیا اور اس نافرمانی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے پھٹکارا گیا۔

پھر آدم نے بھی جسے جنت کی نعمتوں سے آسودہ کیا گیا تھا اپنے اختیار کی قوت کا غلط استعمال کر کے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور ابلیس کے جھانسے میں آ کر غلطی کر بیٹھا اور جنت کی راحتوں سے محروم ہو گیا۔ اللہ نے آدم کی توبہ قبول کی نبوت سے سرفراز کیا اور اس فرمان کے ساتھ زمین پر بھیجا کہ نسل آدم کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے پیغمبر آتے رہیں گے اور ان کی تعلیم پر چلنے والے اور اللہ کے احکام کی پیروی کرنے والے کسی خوف اور رنج میں مبتلا نہ ہوں گے اور جو بغاوت کریں گے وہ سزا پائیں گے ۔ اللہ کا یہ عہد اس کے بندوں کے ساتھ ابدی ہے ۔ اسی عہد کوتوڑنے والوں میں بنی اسرائیل پیش پیش رہے۔ حالانکہ الله نے انہیں بے شمارنعمتوں سے نوازا۔

بنی اسرائیل کواللہ نے فرعون کے ظلم سے نجات دلائی - من و سلویٰ کی کی نعمت کھانے کو دی ۔صحرا کی تپتی دھوپ سے  بچانے کے لیے بادلوں کا سایہ عطا کیا۔ علم کی دولت بخشی مگر یہ قوم پھر شرک میں مبتلا ہوگئی ۔ خدائے واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو پو جنے لگی - من و سلوا کی جگہ پیاز  ولہسن اور ترکاریوں جیسی حقیر چیز مانگنے گی۔ اور اللہ کی یہ وعید بھلا بیٹھی۔

وَاتَّقُوْا يَوْمًا لَّا تَجْزِىْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَّلَا يُقْبَلُ مِنْـهَا شَفَاعَةٌ وَّّلَا يُؤْخَذُ مِنْـهَا عَدْلٌ وَّلَا هُـمْ يُنْصَرُوْنَ (البقرۃ:48)

 کہ  اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا نہ کسی  کی طرف سے سفارش قبول ہوگی ۔ نہ کسی کو قید بہ دے کر چھوڑا جائے گا اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مل سکے گی ) اور دنیا میں اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ذلیل وخوار ہوئی اور پستی اور بد حالی کا شکار ہوئی اس قوم نے اپنی کتاب میں تحریف کی اور تھوڑے سے دنیاوی فائدے کے لیے دین کوبیچ ڈالا۔

بنی اسرائیل نے تو اللہ سے عہد کیا تھا کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کریں گے۔ ماں، باپ ، رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ نیکی سے پیش آئیں گے ۔ کسی کو گھرسے بے گھر نہ کریں گے۔ نا کسی کا خون  بہائیں گے مگر عہد کو نہ نبھایا۔ اپنے پیغمبروں کوقتل کیا۔پیغمبر عیسی کی مخالفت کی اورنبی ﷺ مبعوث ہوئے تو ان سے بھی منکر ہوئے ۔

وَلَمَّا جَآءَهُـمْ كِتَابٌ مِّنْ عِنْدِ اللّـٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُـمْ وَكَانُـوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَى الَّـذِيْنَ كَفَرُوْاۚ فَلَمَّا جَآءَهُـمْ مَّا عَرَفُوْا كَفَرُوْا بِهٖ ۚ فَلَعْنَةُ اللّـٰهِ عَلَى الْكَافِـرِيْنَ (البقرۃ 89)

(پھر جب ایسا ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لیے ایک کتاب  نازل ہوئی اور وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے تو باوجود یکہ اس کتاب کی آمد سے پہلے خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے لیکن جب وہی جانی بوجھی ہوئی چیز آ گئی تو صاف انکار کر بیٹھے ۔ ان منکروں پر خدا کی لعنت ہے۔

یہ قوم نبی ﷺ کے علاوہ جبرائیل کے بھی دشمن رہے ان لوگوں نے پیغمبروں کی تعلیمات سے رو گرانی کر کے جادو ٹونا اختیار کیا ۔ یہ خود بھی خیر و برکت سے محروم ہو گئے اور مسلمانوں کو بھی الله کی خیروبرکت سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ نبی ﷺسے ذومعنی لفظوں میں باتیں کرتے ہیں مسلمانوں کو چا ہیے کہ ان کی پُر فریب باتوں اور مکارانہ چالوں سے  بچیں۔

وہ کہتے ہیں کہ  پہلی آسمانی کتابوں کی طرح اگر قرآن بھی اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے تو اس کے بعض احکام پہلے آئے ہوئے احکام سے مختلف کیوں ہیں؟ تو  یہ اللہ کا  نظام ہے۔

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُـنْسِهَا نَاْتِ بِخَيْـرٍ مِّنْهَآ اَوْ مِثْلِهَا ۗ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّـٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ:106)

 (ہم اپنے احکام میں سے جو کچھ بدل دیتے ہیں یا پھلا دیتے ہیں تو اس کی جبکہ اس سے بہتر یا اس جیسا لے آتے ہیں ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ مگر یہ اہل کتاب تو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دین اسلام سے برگشتہ کردیں اور پھرکفر میں مبتلا کردیں ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ ان لوگوں سے درگزر کریں۔ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی مثل پابندر ہیں ۔ اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کماآگے بھیجی جائے گی واللہ کے ہاں موجود پائیں گے۔ دنیامیں جو کچھ کرتے ہیں و وسب کی نظرمیں ہے۔

اہل کتاب اس خوش فہمی میں ہیں کہ آخرت میں وہی جنت کے حقدار ہوں گے مگر یہ خواہشِ محض سے زیادہ نہیں کیونکہ

بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٝ لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَـهٝٓ اَجْرُهٝ عِنْدَ رَبِّهٖۖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْـهِـمْ وَلَا هُـمْ يَحْزَنُـوْنَ (البقرۃ:112) (حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لیے اس کے رب کے  پاس  اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا موقعہ نہیں ۔)

یہود اور نصاریٰ ایک دوسرے کو باطل قرار دیتے ہیں اور ان کی مشرکین  بھی صرف اپنے آپ کو اچھا کہتے ہیں ۔ ان کے باہمی اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن ہو گا اور یہ کفارِ  مکہ تو ایسے ظالم ہیں کہ اللہ  کے عبادت خانوں میں اس کا نام لینے سے روکتے ہیں اور اللہ کے ساتھ اور معبودبھی بنا بیٹھے ہیں اور پہلے زمانے کے گمراہوں کی طرح معجزوں کا مطالبہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ پر یقین لانے والوں کے لیے  نمایاں

 

نشانیاں موجود ہیں ۔نبی ﷺ کاذمہ تو صرف یہ ہے کہ نیکوں کا روں کو بشارت دے اورمنکروں کوبرے انجام سے ڈرائے ۔ یہ بد عہد اور سرکش بنی اسرائیل  جو پیغمبر ابراہیم کی نسل سے ہونے پرفخر کرتے ہیں اس پیغمبر کی آرزو کے مستحق نہیں جو تعمیر کعبہ کے موقع پرکی تھی کہ اس کی نسل کو بھی سب لوگوں کا پیشوا اور امام بنا یا جائے کیونکہ اللہ کا وعدم ظالموں اور معصیت کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے نہیں ہے۔ البتہ پیغمبرابراہیم کی دعا کو شرف قبولیت بخشا گیا کہ  مکہ والوں کو امن و امان نصیب ہو ۔ ان کے رزق کے لیے ہر طرح کی پیداوار مہیا ہو اور یہ دعا کہ

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِـيْهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْـهُـمْ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّـيْـهِـمْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِـيْمُ (البقرۃ:129)

(اے پروردگا رکچھ ایسا  ہو کہ اس بستی کے  رہنے والوں میں تیرا ایک رسول پیدا ہو جوانہی میں سے ہو وہ تیری آیتیں پڑھ کے لوگوں کو سنائے ، کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنواردے بلاشبہ تو سب پر غالب اور حکمت والا ہے۔)

تو پیغمبرا براہیم کے اس طریقہ سے منہ پھیرنے والا نادان اور جاہل  کے سوا اور کون ہو سکتا ہے اس نے اپنی اولا کو اس طریقہ پر چلنے کی وصیت کی تھی اور اس کے بعد پیغمبر یعقوب نے بھی اپنی اولاد کو یہی کہا تھا کہ یہ ایک امت تھی جو گزر چکی اس کے لیے وہ تھاجو اس نے اپنے عمل سے کمایا اور مسلمانوں کے لیے بھی وہ ہوگا جو وہ اپنے عمل سے کمائیں ۔مسلمانوں کو چا ہے کہ سنت ابراہیمی   کے مطابق چلیں ۔ الله اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں۔

صِبْغَةَ اللّـٰهِ ۖ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّـٰهِ صِبْغَةً ۖ وَّنَحْنُ لَـهٝ عَابِدُوْنَ (البقرۃ:138)

یہی الله کا رنگ ہے اور اس سے اچھارنگ کس کا ہوسکتا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب اللہ کی مدد تمہیں ان کی مخالفتوں سے بے پروا کردے گی ۔ اللہ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post