ڈائری کی اہمیت وافادیت اور ضرورت 

محمد شاہد خان (جامعہ علیمیہ اسلامیہ)

(ghazalkhan6163@gmail.com)

 4 جون 2015، بروز جمعرات کی ڈائری

الحمدللہ راقم السطور نے باضابطہ طورپر روزنامچہ (Diary)لکھنے کا آغاز مورخہ 26 دسمبر 2005ء کوکیاتھا۔اورالحمدللہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری وساری ہے۔ البتہ درمیان میں سستی وکاہلی اورڈائری لکھنے کی اہمیت وافادیت اورضرورت کے احساس میں کمی کے باعث اس سلسلہ میں تعطل آیا۔ لیکن مجموعی طورپر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس روزنامچہ (Diary)سے کئی ایک فوائد وثمرات اپنے دامن میں سمیٹے ہیں۔

الحمدللہ راقم کی ڈائری کی کئی ایک اقسام ہیں۔ ایک ڈائری وہ ہے کہ جس میں روزانہ معمولات بمع تجربات ومشاہدات اورخیالات ونظریات کے تناظرمیں قلمبند کرتاہوں۔ دوسری ایک جیبی سائز (Pocket Size)ڈائری ہوتی ہے کہ جس میں روزانہ کے معمولات درج کرتاہوں کہ یہ کام آج کی تاریخ میں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ اس کے حوالے سے راقم نے اپنی سب سے پہلی ڈائری میں بروز بدھ مورخہ 29 نومبر 2006 کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سبق یا تجربہ لکھاتھا کہ

راقم السطور نے ایک سبق یہ سیکھا ہے کہ اپنے پاس ایک قلم اورایک ڈائری رکھوں گا کہ جب کوئی نئی بات ذہن میں آئی تو اس کو لکھ لوں گا۔''

مذکورہ بالا ڈائری میں راقم روزانہ معمولات کے ساتھ ساتھ اس کے آخری صفحات میں مفید ترین کتب کے اسماء مبارکہ بمع حوالہ جات کے لکھاکرتا تھا وہ بھی کافی ساری جیبی سائز(Pocket Size)ڈائریاں جمع ہوگئی ہیں۔ جب بھی راقم کے پاس پیسے ہوتے تو راقم اردو بازار جاکر ان ڈائری میں مذکورہ مفید کتب خریداکرتاتھا۔

اس طرح گویا کہ اُن ڈائری میں ''ابن ندیم'' کی طرح''ابن شاہد'' کی ''الفہرست'' موجود تھی۔

الحمدللہ !اللہ کے فضل و کرم سے راقم الحروف کو جب بھی کوئی نیاخیال ونکتہ ذہن میں آتاتو اس کو فوراً قلمبند کرلیاکرتاتھا۔ کیونکہ راقم نے بروز بدھ مورخہ 29 نومبر 2005 کو تعلیم المتعلم وطریق التعلم کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد ایک جامع ومانع عربی کا مقولہ ڈائری میں لکھا تھا کہ

من حفظ شیأ فرّ

ومن کتب شیأ قرّ

یعنی جس نے کسی بات کو یاد کیا تو وہ چیز ذہن سے نکل جائے گی لیکن جوچیز لکھ لی جاتی ہے وہ قید ہوجاتی ہے۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی قولِ جمیل ہے کہ قیدوا العلم بالقلم۔ علم کو قلم کے ذریعے قید کرلو۔

 ڈائری لکھنے کے دوران راقم بے شمار تجربات ومشاہدات کی شاہراہ سے گزراہے ۔ کبھی تو اس طرح جذبہ ولگن کی آگ لگی کہ روزانہ پابندی سے ڈائری لکھتا رہاہے۔ اورکبھی تو اس طرح کی کیفیت پیداہوئی کہ ذہن میں خیال تک نہ گزرا کہ میں بھی کسی زمانے میں ڈائری لکھتاتھا۔ اس طرح جذبہ پیدا ہوا کہ گویاپہاڑ اٹھالیا اورکبھی اس طرح کی صورتِ حال پیدا ہوئی کہ گویا ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی اڑانا بھی محال ہوگیا تھا۔ اس طرح کی صورت حال کو راقم نے اپنی ڈائری میں بروز جمعرات مورخہ 5 جنوری 2009؁ کو کچھ اس طرح صفحہ قرطاس پر منتقل کیا تھا کہ

 ''25 دسمبر 2005؁ ء کو راقم الحروف نے ڈائری لکھنا شروع کی اور روزانہ صبح و شام غوروفکر کرتاہوںسوچتا ہوںکہ کس موضوعِ سخن پر لکھنا ہے؟ اس طرح غوروفکر کرنے کی عادت اور روزانہ لکھنے کی عادت بن گئی لیکن پھر ایسا خواب غفلت میں کھویا کہ ڈائری لکھنے سے بالکل بے خبر ہوگیا اور ڈائری لکھنے سے بالکل تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا پھر ایک دن بتاریخ16 جنوری 2009ء جمعۃ المبارک کو ڈائری لکھنے کاخیال پیدا ہوا ۔ کیونکہ روزنامچہ لکھنے سے غوروفکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے ۔ بندہ ہر وقت غوروفکر کی وادی میں سیر کرتاہے کیونکہ اس طرح روزانہ نئے نئے موضوعات پرلکھنے کا موقع ملتاہے۔''

 اس اقتباس کا اصل اوربنیادی مقصد تحریر کرنے کا یہ ہے کہ انسان کی کیفیت بدلتی رہتی ہے اورکبھی لکھا اورکبھی نہیں لکھا۔ ویسے 2005؁ اور2009؁ کے درمیان بھی لکھتا رہا ہوں۔ اس تحریر سے بتانے کامقصد یہ ہے کہ درمیان میں ناغہ اورتعطل پیداہوگیا تھا حالانکہ ڈائری لکھنے کے بے شمار فوائد وثمرات حاصل ہوئے ہیں۔ اس سے انسان کی زندگی کے یادگار اورناقابل فراموش واقعات محفوظ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح زندگی کے بے شمار تجربات ومشاہدات ایک سرمائے کی صورت میں محفوظ بھی ہوجاتے ہیں۔اس سرمائے اوراثاثے کا راقم کو بدرجہ اتم احساس تھا لیکن احساس اس وقت دگنا ہوا کہ جب راقم نے ''اپنی دادی'' کے بھائی جن کو ہم داداجان کہتے ہیں ان کی بیٹی جن کو ہم پھوپھی کہتے ہیں ان سے دادا کی ڈائری سے متعلق استفسار کیاتھا اوریہی سوال راقم نے اپنی دادی سے پوچھا تھا کہ ہمارے دادا ڈائری لکھاکرتے تھے تونفی میں جواب ملا اورکہا کہ

 ''بیٹا! اس وقت کہاں اس کا خیال تھا وہ تو ریلوے میں ملازم تھے ریل کے ڈبے بنایاکرتے تھے۔ ان کی ڈائری کہاں ہے۔''لہذا راقم نے بروز اتوار مورخہ 22دسمبر 2013؁ کو اپنی گارڈن والی پھوپھوسے پوچھا کہ

 ''دادا کی ڈائری ہے۔'' انہوں نے کہا کہ ہاں وہ ڈائری لکھا کرتے تھے۔ اس میں اپنے خاندان کا شجرہ نسب بھی تھا۔ لیکن وہ ڈائری ضائع ہوگئی ہے۔''پھر راقم کو مزید احساس ہوا کہ ڈائری پابندی سے لکھنی چاہئے اوراس ڈائری کی حفاظت کماحقہ کرنا چاہئے۔

 راقم الحروف گاہے بگاہے اپنے حلقہ احباب میں روزنامچہ(Diary)لکھنے کی اہمیت و افادیت اوراس کی ضرورت پر گفتگو کرتارہتاہے ۔ اس سے تجربات ومشاہدات ، خیالات و نظریات ، احساسات وجذبات اورکیفیات آنے والے لوگوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں آنے والا اس فکر انگیز پہلو کی ببانگ دہل گواہی دے گا ۔ اس ضرورت اوروقت کے تقاضے کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے راقم نے مختلف مواقع پر اپنے دوست واحباب اورطلبہ وطالبات کوڈائری لکھنے کی ترغیب دی تھی۔ بطور نمونہ ایک مثال پیش کررہا ہوں کہ

 ''بروزبدھ مورخہ 27 فروری2013؁ کو جامعہ علیمیہ اسلامیہ اوراوسس کیمبرج اسکول میں طلبہ وطالبات کو اپنی لکھی ہوئی ڈائری کے چند واقعات سنائے۔ مقصد وحید یہ تھا کہ طلبہ و طالبات بھی ڈائری لکھیں تاکہ اس طرح زندگی کے واقعات ،خیالات ونظریات، احساسات وجذبات قلمبند ہوجاتے ہیں،اگرکوئی شخص اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کوقلمبند نہ کرے تو اس کی زندگی کاسرمایہ ضائع ہوجاتاہے۔''

 اس کے علاوہ راقم نے جب اپنی تمام ڈائریاں از سرنودیکھیں تو اس سے ہونے والے فوائد وثمرات کوبروز بدھ مورخہ 27فروری2013؁ کو اس طرح ضبط تحریر میں لایاکہ

 ''مجھے اپنے بدلتے ہوئے رجحانات اورمیلانات کابھی احساس ہوا۔ ابتدا میں مختلف موضوعات پر قلم کی جولانی دکھایاکرتاتھا پھر اس کے بعد جوجوباتیں لوگوں سے، معاشرے سے ،پرندوں اورجانوروں سے، دوست و احباب سے، گاڑیوں میں بیچنے والوں سے ، طلبہ وطالبات سے جو سیکھا اس کو سپردقلم کردیاکرتاتھا۔ پھر لسانیات کے موضوع پر لکھا، فلسفیانہ ابحاث پر موشگافیاں بھی کیں۔ ذہنی سطح بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے۔''

 الحمدللہ راقم الحروف نے مذکورہ تاریخ کو جامعہ علیمیہ اسلامیہ میں جن جن جماعت (Classes) میں طلبہ کوپڑھاتا ہے ان کو ڈائری کی اہمیت وضرورت پر لیکچردیا۔اورپھر اوسس کیمبرج اسکول میں بھی طالبات کو اسی ڈائری کے موضوع پر لیکچردیا اس سے فائدہ یہ ہوا کہ اسلامک سینٹر کے طلبہ نے ڈائری لکھنا شروع کردی ہے اور راقم جب اسکول چھوڑنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اسکول گیا تو ایک طالبہ نے کہا کہ

 ''سرمیں نے بھی ڈائری لکھنا شروع کردی ہے۔ اور اس میں آپ کے بارے میں'' بہترین استاد'' کے نام سے موضوع لکھا ہے۔''

 راقم نے پوچھا کہ اس ڈائری کا کیانام رکھا ہے توجواب دیا کہ اس کا نام ہے''میرے خیالات''

 راقم کے نزدیک روزنامچہ لکھنے کے بے شمار فوائد وثمرات ہیں۔ اس کے ذریعے سے سب سے بڑافائدہ یہ ہوتاہے کہ انسان کی زندگی کے یادگارلمحات صفحہ قرطاس پرمنتقل ہوجاتے ہیں۔ انسان اس کو وقتاً فوقتاً قلمبند کرتارہتاہے ۔وگرنہ انسان اپنی زندگی کے تجربات ،احساسات،جذبات،نظریات وخیالات کوقلمبند نہ کرے تو دنیا اس کی ذات سے ہونے والے فوائد اورثمرات سے یکسرطورپر محروم رہتی ہے ۔ انسان کی زندگی میں بے شمار شخصیات دنیا میں زندگی گزارکرچلے جاتے ہیں لیکن اگران کی تحریر و تقریر ماضی میں بصورت تحریراوردورحاضر میں ویڈیوز کوبھی شامل کیاجاسکتاہے گویا کہ آدم علیہ السلام سے لے کر جدید ٹیکنالوجی سے قبل تحریر ہی انسان کی فکر سے استفادہ کا ذریعہ بنتی ہے۔

 ماضی میں بھی ایک صفحہ راقم کی جیب میں ہوتاتھا،اب بھی یہی طریقہ قابل عمل ہے اورجاری و ساری ہے۔ پورے دن سوچتے رہنے میں گزرجاتاہے۔ جب کوئی خیال اورواقعہ پیش آتا ہے اس کے چندنکات صفحہئ قرطاس پر منتقل کرتاجاتاہوں۔ رات کو سونے سے قبل ڈائری لازمی لکھتاہوں۔اب بھی یہی طریقہ جاری وساری ہے۔الغرض تحریر کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ تحریر انسان کو مرنے نہیں دیتی ہے ۔ انسان ہمیشہ زندہ رہتاہے۔ تحریر کی کوئی حد نہیں ہوتی تحریر کے اثرات کوکوئی بھی روک نہیں سکتا ہے۔

 رہتا ہے سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ

 اولاد سے رہے یہی دوپشت چارپشت

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post