َلَایُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّامَاظَھَرَ(النور: :٣١)

اور عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس (موقع زینت)میں سے کھلا رہتاہے

اَلْمَرْاَئۃُ عَوْرَۃٌ، (جامع ترمذی(

)عورت چھپانے(پردے) کی چیز ہے(

 

اَلْقَوْلُ الْحَقِّ فِیْ بَیَانِ الْفَرَقِ بَیْنَ صَلوٰۃِ الرَّجُلِ وَ الْمَرْأَۃِ

مرد اور عورت کی نماز میں فرق پر دلائل احادیث مبارکہ وآثارصحابہ ،اقوال مجتہدین ومحدثین

 

 

مصنف:.................................ابوالہند مفتی خرم غزالی


 



 

الاستفتاء

سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ھذا کے بارے میں میرے ایک دوست کا یہ کہنا ہے کہ عورتوں کی نماز کاطریقہ وہی ہے جو کہ مرد کی نماز کا ہے۔یعنی جس طرح مرد حضرات رکوع وسجود کرتے ہیں عورتیں بھی ان کی ہیئت پر رکوع و سجدہ کرتی ہیں۔نیز اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ احادیث مبارکہ ،آثار صحابہ اوراقوال تابعین اوراہل سنت والجماعت کے چاروں مذاہب(فقہ حنفی،شافعی،حنبلی،مالکی) میں عورتوں کے رکوع و سجود کی الگ ہیئت وکیفیت کا قطعاً کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔مہربانی فرماکر قرآن وحدیث وآثارصحابہ وفقہاء کرام کے اقوال کی روشنی میں مرد اور عورت کی نمازمیں فرق کو بیان کرکے ہماری رہنمائی کریں؟بینوا وتؤجروا۔ سائل:محمد طٰہٰ لودھی کراچی

الجواب وباللّٰہ التوفیق

مسئلہ مسؤلہ میں عورتوں کی نماز کا طریقہ ، مردوں کی طرح ہونا کسی بھی حدیث رسول  ﷺ سے صراحتاً ثابت نہیں ہے بلکہ چند افراد ایک طویل حدیث کے جس حصے کو دلیل بناکرفرق کرتے ہیں وہ حدیث ان ہی کے خلاف حجت (دلیل) ہے۔ صلوا کما رأیتمونی اصلیسے استدلال کرنا کہ عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں کی طرح ہے تویہ استدلال کسی طور صحیح نہیں ہے۔ اول تو اس جملہ کا سیاق و سباق ایک خاص واقعہ ہے جس کے مخاطب مردحضرات تھے نہ کہ خواتین۔ مزید یہ کہ عورتوں کی نماز کے طریقہ کا مردوں کے طریقے سے مختلف ہونا کئی ایک احادیث رسول  ﷺ ،آثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،اقوال تابعین وائمہ اربعہ حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ سے اتفاقی طور پر ثابت ہے۔

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی اصولی وبنیادی وجہ

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی اصولی وجہ عورت کے واسطے پردے وحجاب کا ہونا ہے جو کہ عورت سے شرعامطلوب ہے ناکہ روزمرہ زندگی میںبلکہ حالت نماز میں بھی نماز کی شرائط میں سے ایک شرط اعضاء کا چھپانا بھی ہے۔ اس میں مرد اور عورت کے سترمیںفرق ہے۔ اوردونوں کا حکم ایک دوسرے سے الگ ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ عورت حالت نماز میں ہرطرح سے پردے کولازم رکھے اپنے جسم اوراعضاء کو زیادہ سے زیادہ چھپائے کیونکہ حدیث رسول  ﷺ کے مطابق عورت چھپانے اور پردہ ہی کی چیز ہے ۔ اسی لئے کئی ایک احادیث رسول وآثار صحابہ وتابعین واقوال مجتہدین وائمہ اربعہ میں عورت کے طریقہ نماز کو مرد سے مختلف بیان کیا گیاہے۔ جس کا مقصد ومقصود صرف اور صرف اور عورت کے حق میں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں وقت حاضری پردہ وحجاب اورزیادہ سے زیادہ حیاء کے تقاضوں کوملحوظ رکھناہے۔

عورت چھپانے اور پردہ کی چیز ہے:

حدیث نمبر١۔

امام ترمذی نقل فرماتے ہیں:

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ  ﷺ قَالَ :اَلْمَرْاَئۃُ عَوْرَۃ ٌ(جامع الترمذی، کتاب الرضاع،باب ماجاء فی کراہیۃ الدخول عن المغیبات،قدیمی کتب خانہ کراچی، ص٢٢٢)

ترجمہ: نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ عورت چھپانے(پردہ) کی چیز ہے۔(١)

حدیث نمبر٢۔

امام حافظ ذکی الدین نقل فرماتے ہیں

عن ابن عمر رضی اللہ عنہما عَن رَّسُوْلِ اللّٰہ  ﷺ قَالَ اَلْمَرْأۃُ عَوْرَۃٌ وَاِنَّھَا اِذَا خَرَجَتْ مِنْ بَیْتِھَا اِسْتَشْرَفَھَا الشَّیْطَانُ وَاِنَّھَا لَاتَکُوْنَ اَقْرَبُ اِلَی اللّٰہِ مِنْھَا فِیْ قَعْرِبَیْتِھَا۔

ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا : عورت(پوری کی پوری ) چھپانے کی چیز ہے اورجب یہ اپنے گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتاہے عورت اپنے گھر کے اندرونی کونے میں جتنا اللہ کا قرب حاصل کرسکتی ہے اتنا کہیں نہیں پاسکتی۔ (الترغیب والترھیب، کتاب الصلوٰۃ،ترغیب النساء فی الصلوٰۃ فی بیوتھن ولزومھا،مطبوعۃ بیروت لبنان، ج١، ص ٢٢٤)

فائدہ: مذکورہ حدیث سے بھی یہ اصول معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کی نماز میں ایک بنیادی وجہ عورت کے واسطے زیادہ پردہ ہے ۔ اورعورت حالت نماز میں اسی وقت قرب الٰہی کو حاصل کرپائے گی

جب کہ وہ حیاء کے تمام تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھے۔ اورحیاء کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے عورت کو گھر میں زیادہ سے زیادہ چھپ کر پردے میں رہ کرنماز پڑھنے کا حکم دیا اور ایسی نماز کو افضل قراردیا۔

حدیث نمبر٣۔

عَنْ ام حمید امراۃ ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ اِنَّھَا جَاءَ تْ اِلَی النَِّبِیِّ  ﷺ فَقَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اُحِبُّ الصَّلوٰۃَ مَعَکَ قَالَ قَدْ عَلِمْتُ اِنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلوٰۃَ مَعِیْ وَصَلَاتُکِ فِیْ بَیْتِکَ خَیْرٌ مِّنْ صَلَاتِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ حُجْرَ تِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلَاتِکِ فِیْ دَارِکِ وَصَلَاتِکِ فِیْ دَارِکِ خَیْرٌ مِّنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکَ وَصَلَاتُکِ فی مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْرٌ مِّنْ صََلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِی قَالَ فَاَمَرَتْ فَبَنَی لَھَا مَسْجِداًفِیْ اَقْصّی شَیْءٍ مِّنْ بَیْتِھَا وَاظلمہ وَکَانَتْ تُصَلِّیْ فِیْہِ حَتّٰی لَقِیَتِ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ ۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الصلوٰۃ ،ذکر البیان بان صلوٰۃ المرأۃ کلما کانت استرکان اعظم لاجریھا،شبیر برادز لاہور،ج٣،ص٣٢٨)

حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حمید رضی اللہ عنہا نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: اے اللہ کے رسول  ﷺ ! مجھے آپ کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھنا بہت پسند ہے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا: میں بھی جانتاہوں کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو حالانکہ گھر کے اندر والی سونے کی کوٹھڑی میں نماز پڑھناتمہارے لئے دالان میں نما زپڑھنے سے بہتر ہے اوردالان میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اورمحلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا تمہارے لئے میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ (راوی) کہتے ہیں کہ ام حمید نے حکم دے دیا اور کمرے کے بالکل آخری حصہ کے اندھیرے میں جو جگہ ہوسکتی تھی وہاں ان کے نماز کی جگہ بنادی گئی اور وہ ہمیشہ وہیں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔

حدیث نمبر٤۔

عَنْ ام سلمۃ رضی اللّٰہ عنہ عن رسول اللّٰہ  ﷺ قَالَ خَیْرُ مَسَاجِدِ النِّسَاءِ قَعْرِ بُیُوْتِھِنَّ۔( المستدرک ،کتاب الصلوٰۃ ومن کتاب الامامۃ وصلوٰۃ الجماعۃ،شبیر برادرز، ج١،ص ٤١٧۔رواہ احمد والطبرانی،الترغیب والترہیب)

ترجمہ:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے لئے بہترین مسجدیں ان کے گھروں کے آخری کونے ہیں۔

جوعورت اپنی زینت نہ چھپائے اس کی نماز قبول نہیں:

حدیث نمبر٥۔

عَنْ عبداللّٰہ بن ابی قتادۃ عن ابیہ قَالَ قَالَ رسول اللّٰہ  ﷺ لَایَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْ اِمْرَأۃٍ صَلَاۃً حَتّٰی تُوَارِیْ زِیْنَتَھَا وَلَامِنْ جَارِیَّۃً بَلَغَتِ الْمَحِیْضَ حَتّٰی تَخْتَمِرَ۔( المعجم الصغیر للطبرانی، کتاب الصلوٰۃ ، مطبوعۃ شبیر برادرز،رقم الحدیث :٩٢٠ ،ص ٥٩٨)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں، رسول اللہ  ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اس عورت کی نمازقبول نہیں کرتا جو اپنی زینت کو نہیں چھپاتی اور اس بالغ لونڈی کی نماز قبول نہیں کرتا جو سرپردوپٹہ نہیں اوڑھتی۔''

فائدہ:منقولاً حدیث بھی اس اصول کی طرف واضح اشارہ ہے کہ عورت کو حالت نماز میں اپنی زینت کو چھپانا ہے یعنی پردہ کرنا ہے۔ تب اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہے ورنہ نہیں۔ کیونکہ عورت ذات پردے ہی کی چیز ہے اور جن جن احادیث وآثارصحابہ واقوال مجہتدین وفقہاء میں عورت کی نماز کا طریقہ وہیئت بیان کیاگیا ہے اورمرد عورت کی نماز میں فرق کیاگیا ہے اس کی اصل وجہ عورت کے حق میں ہر طرح سے پردے کازیادہ سے زیادہ لحاظ رکھنا ہے۔

عورت سبحان اللہ نہ کہے بلکہ تصفیق کرے۔

حدیث نمبر٦۔ امام بخاری نقل فرماتے ہیں:

عَنْ ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ  ﷺ قَالَ اَلتَّسْبِیْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِیْقُ لِلنِّسَاءِ۔( صحیح بخاری ، با ب التصفیق للنسائ،ج١،ص)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی  ﷺ نے فرمایا ''سبحان اللہ'' کہنا مردوں کے لئے اور تالی بجانا عورتوں کے لئے ہے۔''

فائدہ:

اس روایت سے بھی واضح طور پر اس بات کا ثبوت ملتاہے کہ مرد اور عورت کی نماز میں کئی اعتبار سے فرق ہے۔ فرق کی ایک بنیادی اوراصولی وجہ عورت کے حق میں زیادہ سے زیادہ پردہ ہے ۔ اس لئے نبی علیہ السلام نے خود فرق فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: مرد ''سبحان اللہ'' کہے اور عورت تالی بجائے یعنی اگرامام سے کوئی غلطی ہوجائے تو عورت کو زبان سے الفاظ اداکرکے امام کو غلطی پر آگاہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنی ہتھیلی کی پشت پر ہاتھ مارکر امام کوآگاہ کرناچاہئے کیونکہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔اسی طرح اگرکوئی دوران نماز سامنے سے گزرے تو بھی تصفیق کرے گی۔

 

خلاصہ روایات:

ان تمام احادیث وروایات کامقصود وخلاصہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کی نمازکے طریقے میں فرق کی ایک بنیادی وجہ عورت کے حق میں ہر طرح سے حجاب کرکے حیاء کی پیکربن کر رہنے کا حکم ہے۔ تواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نماز کی حاضری کی صورت میں زیادہ حیاء کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور عورت جس قدر حالت نماز میں ارکان نماز اداکرتے ہوئے پردے اور حیاء کے تقاضوں کو پورا کرے گی حدیث کی رو سے اسی قدر قرب الٰہی اورنماز کے خشوع وخضوع کو حاصل کرپائے گی اور جس قدر اپنی زینت کو ظاہر کرے گی اسی قدر نماز کی برکتوں ،رحمتوں سے محروم رہے گی اور حدیث کی رو سے ایسی نماز قبول بھی نہ ہوگی۔

خواتین نماز میں قرب الٰہی کیسے حاصل کریں

خواتین کے لئے حالت نماز میں قرب الٰہی کو حاصل کرنا اور عدم قبولیت سے بچنا صرف اور صرف اس صورت میں ہے کہ خواتین مردوں کی طرح نماز ادا نہ کریں بلکہ اپنے طریقے پر نماز کو اداکریں جو احادیث رسول وآثار صحابہ وغیرہم سے ثابت ہے کیونکہ اسی طریقے کے مطابق قرب الٰہی اوررحمت الٰہی کی مستحق ٹھہرسکتی ہیں اورحدیث کے مطابق خالق حقیقی کی مغفرت وبخشش کی حقداربن سکتی ہیں کیونکہ مردوں کے طریقے پر نماز پڑھنے سے

٭عورت زینت کو ظاہر کربیٹھے گی۔

٭عورت دیکھنے والوں کے لئے فتنے کاسبب بن بیٹھے گی۔

٭عورت قرب الٰہی سے محروم ہوجائے گی۔

کیونکہ

عورتوں کے مردوں کے طریقے پر نماز پڑھنے میں حجاب وپردے کے قوانین ختم ہوجائیں گے اور ناچاہتے ہوئے بھی عورتیں اپنی زینت کوظاہر کربیٹھےں گی اور عذاب الٰہی کو دعوت دےں گی اس لئے کہ پھر عورتوں کو!

افلایتدبرون!

٭ حالت نماز میں مرد کی طرح صرف ٹوپی یا ٹوپی کے ساتھ عمامہ باندھنا ہوگا نہ کہ بڑی چادر لینا ہوگی۔

٭ اوراگرمردوں کی طرح ٹوپی نہ پہن سکیں تو اپنی نماز کو درست سمجھنا ہوگا۔

٭ اورمرد حضرات کی طرح شلوار ،پائجامہ وغیرہ کو ٹخنوں سے اوپریا آدھی پنڈلی تک رکھنا ہوگا تاکہ حدیث میں موجود سخت وعید سے بچ سکیں۔(جوکسی طور پر خواتین کے حق میں شرعاً صحیح نہیں)

٭اسی طرح اگرکوئی عورت مرد کی اقتداء میں نماز پڑھے اورامام سے کوئی غلطی ہوجائے تو عورت کو حدیث رسول  ﷺ کے خلاف جاتے ہوئے امام کو غلطی پر آگاہ کرنے کے لئے زبان سے سبحان اللہ کہناپڑے گا(جب کہ خواتین کے لئے شرعی حکم ہے کہ وہ تصفیق یعنی اپنی ہتھیلی کی پشت پر ہاتھ مار کر امام کو آگاہ کرے گی۔)

٭ عورت کومرد کی طرح سجدہ کرنا ہوگا کہ اپنی سرین کو زمین سے اٹھا کر رکھے گی۔ دونوں بازوؤں کو اس قدر کھول کر زمین سے بلند رکھے گی کہ بکری کا بچہ گزرسکے۔(عورتوں کا اس طرح مردوں کی طرح سجدے کرنے سے جسم کے اعضاء کی ہیئت وکیفیت ظاہر ہوگی جو کہ عورت کی زینت اور پردے کے خلاف ہے)

احادیث و آثار صحابہ واقوال تابعین سے مرد عورت کی نماز میں فرق پر دلائل

تکبیرتحریمہ کے لئے ہاتھ اٹھانے میں فرق پر دلائل

پہلی دلیل:

حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

قَالَ لِیْ رَسَوْلُ اللّٰہ  ﷺ یَاوَائِل بِنْ حَجَرْ اِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَاءَ اُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَئۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَا حِذَاء ثَدْیَھَا۔( کنز العمال، باب الواؤ،ج ٧،رقم الحدیث : ١٩٦٤٠)

ترجمہ:مجھے حضور اکرم  ﷺ نے نماز کا طریقہ سکھلایا تو فرمایا کہ اے وائل بن حجر ! جب تم نماز شروع کرو تواپنے دونوںہاتھ کانوںتک اٹھاؤاورعورت اپنے دونوںہاتھ اپنی چھاتیوں تک اٹھائے۔

دوسری دلیل:

امام بخاری خطاب بن عثمان سے اور وہ اسماعیل بن عیاش سے اوروہ حضرت عبد ربہ بن سلیمان بن عمیر سے روایت کرتے ہیں:

رَاَیْتُ اُمِّ الدَّرْدَاء تَرْفَعُ یَدَیْھَا فِی الصَّلاَۃِ حَذٍ وَّمَنْکَبَیْھَا۔( جزء رفع الیدین للامام البخاری،ص٧، رقم الحدیث ٢٢)

ترجمہ:میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں۔

تیسری دلیل:

امام بخاری کے استاد الاستاد امام عبدالرزاق حضرت ابن جریج سے روایت کرتے ہیں:

قُلْتُ لِعَطَاء اَتُشِیْرُ الْمَرْأَۃُ بِیَدَیْھَا کَالرِّجَالِ بِالتَّکْبِیْرِ قَالَ لَا تَرْفَعُ بِذَالِکَ یَدَیْھَا کَالرِّجَالِ وَاَشَارَ فَخَفَضَ یَدَیْہِ جِدًّا وَ جَمَعََھُمَا اِلَیْہِ جِدًّا وَقَالَ اِنَّ لِلْمَرْاِئۃِ ھَیْئَۃٌ لَیْسَتْ لِلرَّجُلِ۔( مصنف عبدالرزاق ، کتاب الصلاۃ ، باب تکبیر المرأۃ بیدیھا وقیام المرأۃ ورکوعھا وسجودھا ،رقم الحدیث: ٥٠٦٦: مصنف ابن ابی شیبۃ ، کتاب الصلاۃ ، باب فی المراۃ اذا افتتحت الصلاۃ الی این ترفع یدیھا،رقم الحدیث ٢٤٨٩)

ترجمہ:میں نے حضرت عطاء (مشہور تابعی اورصحابہ کرام کے شاگرد) سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت اپنے ہاتھوں سے مردوں کی طرح اشارہ کرے گی ؟ آپ نے فرمایا کہ عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت نماز میں اپنے ہاتھوں کو اس طرح نہ اٹھائے جس طرح مرد حضرات اٹھاتے ہیں۔ اورانہوں نے اس بات کو جب اشارہ سے بتلایا تو اپنے ہاتھوں کو کافی پست کیا اور ان دونوں کو اپنے سے اچھی طرح ملایا اور فرمایا کہ نماز میں عورت کاطریقہ مردوں کی طرح نہیں ہے۔

منقولہ احادیث وروایات سے یہ فرق واضح ہوا ہے کہ مرد اور عورت کی نماز پڑھنے کی کیفیت وہیئت میں پہلاواضح فرق تکبیرتحریمہ کے لئے عورت کااپناہاتھ کاندھوں تک اٹھانا ہے اورہتھیلیاں چھاتیوں تک۔

ہاتھ باندھنے ،رکوع اورسجدے میں فرق پر دلائل:

چوتھی دلیل:

امام عبدالرزاق حضرت ابن جریج سے اور وہ حضرت عطاء سے روایت کرتے ہیں:

قَالَ تَجْتَمِعُ الْمَرْأَۃُ اِذَارَکَعَتْ تَرْفَعُ یَدَیْھَا اِلَی بَطَنِھَا وَتَجْتَمِعُ مَااسْتَطَاعَتْ فَاِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ یَدَیْھَااِلَیْھَاوَتَضُمُّ بَطََنَھَاوَصَدْرَھَا اِلَی فَخِذَیْھَا وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ۔( مصنف عبدالرزاق ،کتاب الصلاۃ باب تکبیر المرأۃ بیدیھا وقیام المرأۃ ورکوعھا وسجودھا ،رقم الحدیث ٥٠٦٩)

ترجمہ:حضرت عطاء نے فرمایا کہ عورت(نماز میں) سمٹ کر رہے گی، جب رکوع کرے ، اپنے ہاتھوں کواپنے پیٹ کی طرف اٹھائے (ملائے) گی اورجتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی، پھر جب سجدہ کرے گی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے جسم کے ساتھ ملالے گی اور اپنے پیٹ کو اوراپنے سینے کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالے گی اورجتنا ہوسکے لپٹ سمٹ جائے گی۔

پانچویں دلیل:

حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیاگیا :

کَیْفَ کُنَّ النِّسَاءُ یُصَلِّیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہ  ﷺ قَالَ کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ اُمِرْنَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ۔( جامع المسانید ج١، ص٤٠٠)

ترجمہ:حضور  ﷺ کے مبارک زمانے میں عورتیں کس طرح نماز پڑھا کرتی تھیں(یعنی تشہد میں کس طرح بیٹھا کرتی تھیں)؟ارشاد فرمایا کہ پہلے تو (قعدے کی حالت میں) چارزانو ہوکربیٹھتی تھیں پھر بعد میں انہیں حکم دیاگیا کہ وہ خوب سمٹ کربیٹھا کریں۔

چھٹی دلیل:

امام عبدالوہاب شعرانی اسی مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

قَالَ ابنُ عُمَرَ رضی اللّٰہ عَنْھُمَا کَانَ رَسُولُ اللّٰہ  ﷺ اِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَۃِ الَاخِیْرَۃِ یَفْرِشُ رِجْلَہُ الْیُسْریٰ وَیَنْصُبُ الُاخْریٰ وَیَقْعُدُ عَلٰی مَقْعَدَتِہٖ وَکَانَ  ﷺ یَنْھیٰ عَنْ اِفْتِرَاشِ السَّبْعِ فِی الْجُلُوْسِ وَھُوَ اَن یَّجْلِسَ مَادا ذِرَاعَیْہِ عَلَی الْاَرْضِ وَکَانَ  ﷺ یَاْمُرُ النِّسَاءَ اَنْ یَّحْتَفِزْنَ اَوْ تَرَبَّعْنَ فِی التَّشَھُّدِ۔( کشف الغمۃ عن جمیع الامۃ، کتاب الصلاۃ ، باب صفۃ الصلاۃ، فصل فی الجلوس الاخیر والتشھد فیہ)

ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ جب نماز کی آخری رکعت میں قعدے کے لئے بیٹھتے تھے تو اپنے بائیں پاؤں کو بچھالیا کرتے تھے اور داہنے پاؤں کو کھڑا کرلیا کرتے تھے اوراپنے سرین پر بیٹھ جاتے تھے؛ اورنبی علیہ السلام (مردوں کو) اس طرح درندوں کے طریقے پر بیٹھنے سے منع فرماتے تھے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پربچھاکربیٹھا جائے؛ اور نبی علیہ السلام عورتوں کو تشہد کی حالت میں سمٹ کر (یعنی دونوں پاؤں ایک طرف نکال کراورزمین سے چمٹ کر ) بیٹھنے کا یا چارزانو بیٹھنے کا حکم فرماتے تھے۔

مرد کے سجدہ کرنے کی کیفیت و ہئیت

یہاں مردکے سجدہ کرنے کی کیفیت احادیث رسول کی روشنی میں بیان کی جارہی ہے۔

حدیث:امام مسلم نقل فرماتے ہیں:

وَیَنْھٰی اَنْ یَفْتَرِشَ الرُّجُلُ ذِرَاعَیْہِ اِفْتَرَاشَ السَّبْعِ۔( کتاب الصلوٰۃ ، باب مایجمع صفۃ الصلوٰۃ ومایفتح بہ، قدیمی کتب خانہ کراچی، ج١، ص١٩٥)

 

ترجمہ: رسول اللہ  ﷺ نے (حالت سجدہ میں) مرد کو اپنے ہاتھ زمین پر درندے کی طرح بچھانے سے منع فرمایا ہے۔(١)

عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ عن النبی  ﷺ قَالَ اِعْتَدِلُوْا فِیْ سُجُوْدِکُمْ وَلَایَفْتَرِشُ اَحَدُکُمْ ذِرَاعَیْہِ اِفْتِرَاشِ الْکَلْبِ اَتِمُّوْا الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ فَوَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ مِنْ بَعْدِیْ اَوْ مِنْ بَعْدِیْ ظَھْرِیْ اِذَا رَکَعْتُمْ وَاِذَا سَجَدْتُّمْ۔( مسند احمدبن حنبل،کتاب الصلوٰۃ ،فرید بکسٹال لاہور،ج١، ٦٠٢)

ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا: اپنے سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنی کلائیوں کو کتوں کی طرح نہ بچھائے اور رکوع وسجود پوری طرح کرو، اللہ کی قسم! جب تم رکوع کرتے ہو یا جب تم سجدہ کرتے ہوتو میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔

عورتوں کے سجدہ کرنے کی کیفیت و ہیئت

اب آپ کی خدمت میں عورتوں کے سجدہ کرنے کی کیفیت کو احادیث مبارکہ،آثارصحابہ ، اقوال مجتہدین ومحدثین کی روشنی میں پیش کیاجارہاہے تاکہ قارئین پر یہ بات واضح ہوجائے کہ نبی علیہ السلام نے مرد و عورت کے سجدہ کرنے کی کیفیت وہیئت کو احادیث میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے تاکہ اہل اسلام پر یہ واضح ہوجائے کہ مرد اور عورت کے سجدہ کرنے میں واضح فرق ہے۔

ساتویں دلیل:

حضرت ابراہیم حضرت خالد بن لجاج سے روایت کرتے ہیں:

کُنَّ النِّسَاءُ یُوْمَرْنَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ اِذَاجَلَسْنَ فِی الصَّلَاۃِ وَلَایَجْلِسْنَ جُلُوْسَ الرِّجَالَ عَلٰی اَوْرَاکِھِنَّ ، یَتَّقِی ذَالِکَ عَنِ الْمَرْاَئۃِ مَخَافَۃً اَنْ یَّکُوْنَ الشَّیْءُ مِنْھَا۔

ترجمہ:خواتین کوحکم دیاجاتاتھا کہ وہ نماز میں چارزانو ہوکربیٹھیں، اورمردوں کی ہئیت پر اپنے سرینوں پر نہ بیٹھیں ، عورت کے مردوں کی طرح بیٹھنے میں یہ خوف ہے کہ اس کی (پردے والی مخصوص)چیزظاہر نہ ہوجائے۔

آٹھویں دلیل:

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما (المتوفیٰ ٨٤ ھ) سے روایت ہے:

قَالَ رسول اللّٰہ  ﷺ اِذَا جَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلوٰۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اِلْصَقَتْ بَطَنَھَا فِی فَخِذَیْھَا کَاَسْتَرِ مَایَکُوْنُ لَھَا وَاِنَّ اللّٰہ َتَعَالیٰ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَیَقُوْلُ یَامَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اِنِّیْ قَدْ غَفَرْتُ لَھَا۔( السنن الکبریٰ للبیھقی،باب مایستحب للمرأۃ التجا فی الرکوع والسجود،رقم الحدیث :٣٢٤)

ترجمہ:حضور نے ارشاد فرمایا کہ نماز کے دوران جب عورت بیٹھے تو (دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر) اپنی ایک ران کودوسری ران پر رکھے اورجب سجدہ میں جائے اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے ملالے اس طرح کہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے اوربلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی طرف (رحمت کی نظر سے) دیکھتے ہیں اورفرشتوں سے فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! تم گواہ رہو،


١۔مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الصلاۃ، باب فی المرأۃ کیف تجلس فی الصلاۃ، رقم الحدیث ٢٧٩٩

میں نے اس عورت کی بخشش کردی۔

نویں دلیل:

یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے :

اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ  ﷺ مَرَّ عَلٰی اِمْرَاَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فقَالَ اِذَا سَجَدْ تُّمَافَضَمَا بَعْضَ اللَّحْمَ اِلَی الْاَرْضِ فَاِنَّ الْمَرْاَئۃَ لَیْسَتْ فِیْ ذَالِکَ کَالرَّجُلِ۔( سنن البیہقی ، کتاب الصلاۃ ، باب مایستحب للمرأۃ من ترک التجافی فی الرکوع والسجود،رقم الحدیث ٣٣٢٥، مراسیل ابی داؤد رقم الحدیث ٨٤)

ترجمہ:رسول اللہ  ﷺ دوعورتوں کے پاس سے گزرے جونماز پڑھ رہی تھیں، آپ  ﷺ نے ان کو فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کے بعض حصوں کوزمین سے چمٹا دو، اس لئے کہ اس سلسلہ میں عورت کا حکم مرد کی طرح کانہیں ہے۔

دسویں دلیل:

حضرت ابوالاحوص (المتوفیٰ ١٨١ھ) حضرت ابواسحاق سبیعی (المتوفی ١٢٧ھ) سے اور وہ حضرت حارث سے روایت کرتے ہیں:

عن علی رضی اللہ عنہ قَالَ اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأۃُ فَلْتَحْتَفِزْوَلْتَضُمْ فَخِذَیْھَا۔( مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلاۃ ، باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا؟ رقم الحدیث ٢٧٩٣)

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب عورت سجدہ کرے توخوب سمٹ کر اورسکڑ کرکرے اور اپنی دونوں رانوں کو پیٹ اورسینے کے ساتھ ملاکر رکھے۔

گیارہویں دلیل:

صحابہ کرام کے شاگرد اور مشہور تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (المتوفیٰ ٩٥ھ ) سے مروی ہے:

اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأۃُ فَلْتَزِقْ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَلَاتَرْفَعْ عَجِیْزَتَھَا وَلَاتَجَافٰی کَمَا یُجَافِی الرُّجُلَ۔( مصنف ابن ابی شیبۃ،کتاب الصلاۃ ، باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا؟ رقم الحدیث ٢٧٩٨، سنن البیہقی ج٢،ص ٢٢٢)

ترجمہ: عورت جب سجدہ کرے تواپناپیٹ اپنی رانوں سے ملالے اوراپنی سرین کو اوپر نہ اٹھائے اوراعضاء کو اس طرح دورنہ رکھے جیسے مرد دور(کشادہ)رکھتے ہیں۔

بارہویں دلیل:

حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے ہی مصنف عبدالرزاق میں مروی ہے:

کَانَتْ تُوْئمَرُ الْمَرْاَئۃُ اَنْ تَضَعَ ذِرَاعَھَا وَبَطَنَھَا عَلٰی فَخِذَیْھَا وَلَاتَتَجَافیٰ کَمَا یَتَجَافٰی الرَّجُلُ لِکَیْ لَاتُرْفَعُ عَجِیْزَتَھَا۔( مصنف عبدالرزاق ، کتاب الصلاۃ،باب تکبیرالمرأۃ بیدیھااوقیام المرأۃ ورکوعھاوسجودھا،رقم الحدیث ٥٠٧١)

عورت کو(صحابہ کرام کے دورمیں)یہ حکم دیاجاتاتھا کہ وہ اپنے ہاتھ اوراپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھیں اورکشادہ نہ ہوں جیسا کہ مرد کشادہ ہوتے ہیں تاکہ اس کے سرین اوپرنہ اٹھیں۔

تیرھویں دلیل:

مشہورتابعی حضرت مجاہد سے مروی ہے:

عن مجاہد اِنَّہ، کَانَ یَکْرَہُ اَن یَّضَعَ الرَّجُلُ بَطَنَہ، عَلٰی فَخِذَیْہِ اِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْاَئۃُ۔( مصنف ابن ابی شیبۃ ، کتاب الصلاۃ ، باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا،رقم الحدیث ٢٧٩٦)

ترجمہ: حضرت مجاہد اس بات کو مکروہ سمجھتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے اپنے پیٹ کو رانوں میں رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔

چودھویں دلیل:

سنن کبریٰ بیہقی میں ہے کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

کَانَتِ الْمَرْاَئۃُ تُوْئمَرُ اِذَا سَجَدَتْ اَنَ تَلْزَقَ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا کَیْ لَا تَرْتَفِعَ عَجِیْزَتَھَا وَلَاتَجَافٰی کَمَا یُجَافِی الرُّجُلَ۔( السنن الکبریٰ للبیھقی،کتاب الصلوٰہ ، باب مایستحب للمرأۃ من ترک التجافی فی الرکوع والسجود،ج٢،ص ٤٦٢)

ترجمہ: عورتوں کو یہ حکم دیاجاتاتھا کہ وہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملالیں تاکہ ان کے سرین اوپر نہ ہوجائیں، اوروہ ایسے کشادہ حالت میں نہ ہوں جیسے مرد کشادہ ہوتے ہیں۔

پندرھویں دلیل:

ایک اور مقام پر حضرت مغیرہ حضرت ابراہیم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

اِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأۃُ فَلْتَضُمْ فَخِذَیْھَا وَلْتَضَعْ بَطَنَھَا عَلََیْھِمَا۔( مصنف ابن ابی شیبۃ ، کتاب الصلاۃ ، باب المرأۃ کیف تکون فی سجودھا، رقم الحدیث ٢٧٩٥)

ترجمہ: جب عورت سجدہ کرے تواسے اپنی رانوں کو ملالینا چاہئے اوراپنے پیٹ کو اپنی رانوں پر رکھنا چاہئے۔

مذکورہ روایات کا لب لباب:

منقولاً احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ حالت سجدہ میں خواتین سمٹ کریعنی اپنے اعضاء جسمانی کو زمین سے چمٹا کر رکھے گی اور مرد حضرات اپنے پیٹ کو زمین سے اٹھاکر رکھےں گے اور اپنے بازوؤں کو اپنے پہلوؤں سے جدارکھیں گے اورخود نبی علیہ السلام نے مرد اور عورت کے سجدے کی کیفیت وہیئت میں واضح فرق ارشاد فرمادیا ۔اورمرد حضرات کو حالت سجدہ میں اپنے ہاتھ زمین پر درندے کی طرح بچھانے سے منع فرمایا۔

ثبوت حاضرہیں:

مخالفین حضرت قتادۃ کی ایک روایت پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ حالت سجدہ میں درندوں یا کتوں کی طرح اپنے ہاتھوں کو زمین پر بچھانے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے۔

جواب نمبر١:

روایت قتادۃ پیش خدمت ہے:

عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہ  ﷺ قَالَ لَایَفْتَرِشُ اَحَدُکُمْ ذِرَاعَیْہِ فِی السُّجُوْدِاِفْتِرَاشِ الْکَلْبِ۔

٭ مخالفین کا یہ اعتراض و استدلال کسی صورت درست نہیں ۔

٭روایت قتادۃ میں عورتوں کا ذکرنہیں ہے اورجوحدیث ہم نے صحیح مسلم کے حوالے سے نقل کی ہے اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے مردحضرات کے ساتھ ممانعت کو خاص کیا ہے۔

٭صحیح مسلم کی روایت میں مرد حضرات کے سجدے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے نبی علیہ السلام نے عورتوں کو خطاب نہیں فرمایا بلکہ صاف طور پر ''الرجل'' (مرد) کی قید سے ارشاد فرمایاہے۔

وَیَنْھٰی اَنْ یَفْتَرِشَ الرُّجُلُ ذِرَاعَیْہِ اِفْتَرَاشَ السَّبْعِ۔(١۔کتاب الصلوٰۃ ، باب مایجمع صفۃ الصلوٰۃ ومایفتح بہ،قدیمی کتب خانہ کراچی، ج١،ص١٩٥)

ترجمہ: رسول اللہ  ﷺ نے (حالت سجدہ میں) مرد کو اپنے ہاتھ زمین پر درندے کی طرح بچھانے سے منع فرمایا ہے۔

جواب نمبر٢:

کئی احادیث وروایات آثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین واقوال تابعین سے مرد اور عورت کے سجدے کی کیفیت میں واضح فرق ملتاہے۔ اور عورت کوسجدے کی حالت میں اپنے اعضاء جسمانی زمین سے ملانے کی صراحت موجود ہے۔ لہذا خواتین کو اس حکم میں شامل کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔

جواب نمبر٣:

اسی طرح دیگر روایات وآثار سے اس بات کی مزید تائید بھی ہوتی ہے حالت سجدے میں ہاتھوں کو زمین سے اٹھائے رکھنے کا حکم مرد حضرات کے ساتھ خاص ہے۔

جیسا کہ حضرت حارث، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  ﷺ نے فرمایا:

اِذَاسَجَدَ الرَّجُلُ فَلْیُفَرِّجْ(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلوٰۃ، باب التجافی السجود)

ترجمہ: جب مرد سجدہ کرے توکشادہ ہوکر سجدہ کرے۔

جواب نمبر ٤:

امام مناوی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

لٰکِنِ الْخِطَابُ لِلرِّجَالِ کَمَا دَلَّ عَلَیْہِ تَعْبِیْرُہ، بِاَحَدِکُمْ اَمَّاالْمَرْأَۃُ فَتَضُمُّ بَعْضَھَا بِبَعْضٍ لِاَنَّ الْمَطْلُوْبَ لَھَا السَّتْرُ۔( فیض القدیر، شرح رقم الحدیث ٦٧٥، ج١،ص٤٧٩)

ترجمہ:(سجدہ میں ہاتھ بچھانے کا) خطاب مرد حضرات کو ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام کی لفظ احدکم کی تعبیر سے معلوم ہوتاہے جہاں تک عورت کا معاملہ ہے تو وہ اپنے بعض حصے کو بعض سے ملا کررکھے گی، اس لئے کہ عورت کے حق میں پردہ مطلوب ہے۔

جواب نمبر ٥:

امام کاسانی بھی حالت سجدہ میں زمین پر ہاتھ بچھانے کی ممانعت والی حدیث کی وضاحت میں فرماتے ہیں:

فَاَمَّا الْمَرْأَۃُ فَیَنْبَغِیْ اَنْ تَفْتِرَشَ ذِرَاعَیْھَا وَتَنْخَفِضَ وَلَا تَنْتَصِبَ کَاِنْتِصَابِ الرَّجُلِ وَتَلْزِقَ بَطْنَھَا بِفَخِذَیْھَا لِاَنَّ ذَلِکْ اَسْتُرْلَھَا۔(بدائع الصنائع، کتاب الصلوٰۃ، سنن الصلوٰۃ، ج١،ص ٤٩٤،مکتبۃ الرشیدیۃ کوئٹہ)

''پس عورت کو چاہئے کہ اپنے بازوبچھائے اورسکڑ جائے ،مردوں کی طرح کشادہ نہ رہے اوراپناپیٹ اپنے زانوؤں سے چمٹائے رکھے کیونکہ عورت کے حق میں یہ زیادہ پردے والی صور ت ہے۔''

ائمہ اربعہ کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق پر دلائل

فقہ حنفی

علامہ سرخسی رحمہ اللہ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں

وَتَقْعَدُ الْمَرْأَۃُ فِیْ صَلَاتِھَا کَاَسْتُرِ مَایَکُوْنُ لَھَا لِمَا رَوَیْنَا اَنَّ النَّبِیَّ  ﷺ قَالَ لِتِلْکَ الْمَرْأَۃِ ضَمِّیْ بَعْضَ اللَّحْمِ اِلَی الْاَرْضِ وَلِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی التَّسَتُّرِفِیْ خُرُوْجِھَا فَکَذِالَکَ فِیْ صَلَاتِھَا یَنْبَغِیْ اَنْ تَسْتُر بِقَدَرِ مَا تَقْدِرُ عَلَیْہِ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ مَسْتُوْرَۃٌ ۔( المبسوط للسرخسی ، کتاب الصلاۃ ، باب الحدث فی الصلاۃ،ج١)

ترجمہ: اور عورت نماز میں ایسے طریقے پر بیٹھے گی جس میں اس کے لئے پردے کی زیادہ رعایت ہو، کیونکہ نبی  ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے عورت کے بارے میں فرمایاتھا کہ اپنے جسم کے بعض حصے کو زمین کے ساتھ ملالو ، اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عورت کے باہر نکلنے کی صورت میں اس کی حالت کا مدار پردے پر رکھا گیاہے، لہذا نماز میں بھی اس اصول کی رعایت کی جائے گی، اور یہی بات زیادہ مناسب ہوگی کہ وہ جتنی پردے کی رعایت کرسکتی ہو اتنی رعایت کرے ، نبی  ﷺ نے فرمایاکہ عورت پردے اورچھپانے کی چیز ہے۔

علامہ سرخسی رحمہ اللہ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں

فَاَمَّا الْمَرْأَۃُ فَتَحْتَفِزُوَ تَنْضَمُّ وَتَلْصَقُ بَطْنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَعَضُدَیْھَا بِجَنْبَیْھَا ھَکَذَا عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ بَیَانِ السُّنَّۃِ فِیْ سُجُوْدِ النِّسَاءِ وَلِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلٰی السَّتْرِ فَمَایَکُوْنُ اَسْتَرُلَھَا فَھُوَ اَوْلٰی لِقَوْلِہٖ  ﷺ اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ مَسْتُوْرَۃٌ۔(١۔المبسوط للسرخسی ، کتاب الصلاۃ ،کتاب کیفیۃ الدخول فی الصلاۃ،المکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ،ج١،ص٣٥٦)

ترجمہ: جہاں تک عورت کا معاملہ ہے تو وہ سمٹ کر اور اپنے اعضا کوباہم اورزمین کے ساتھ ملاکرسجدہ کرے گی، اوراپنے پیٹ کواپنی رانوں کے ساتھ ملائے گی ، اور اپنے پہلوؤں کو ملا کر رکھے گی ، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عورتوں کے متعلق مسنون سجدہ کاطریقہ منقول ہے ، اور ایک وجہ یہ ہے کہ عورت کی حالت کا دارومدار پردہ پر ہے؛ لہذا جس حالت میں عورت کے لئے زیادہ ستر اورپردہ ہوگا؛ وہ حالت اس کے لئے زیادہ بہتر ہوگی( اور جو طریقہ بیان ہوا، اس میں زیادہ سے زیادہ پردے کی رعایت ہے) حضور  ﷺ کا عورت کے بارے میں فرمان ہے کہ وہ ستر اور پردہ کی چیز ہے ۔

علامہ ابن نجیم ؒ لکھتے ہیں:

والمرأۃ تنخفض وتلزق بطنھا بفخذیھا لانہ استرلھا، فانھا عورۃ مستورۃ ویدل علیہ مارواہ ابو داود فی مراسیلہ انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام مر علی امراتین تصلیان فقَالَ اذا سجد تما فضما بعض اللحم الی الارض فان المرأۃ لیست فی ذالک کالرجل وذکر الشارح ان المرأۃ تخالف الرجل فی عشرۃ خصال: ترفع یدیھا الی منکبیھا وتضع یمینھا علی شمالھا تحت ثدیھا ولاتجافی بطنھا عن فخذیھا، وتضع یدیھا علی فخذیھا تبلغ رؤوس اصابعھا رکبتیھا، ولاتفتح ابطیھا فی السجود ، وتجلس متورکۃفی التشھد ، ولاتفرج اصابعھا فی الرکوع ولاتؤم الرجال وتکرہ جماعتھن وتقوم الامام وسطھن ۔اہ۔ویزاد علی العشر انھا تنصب اصابع القدمین کما ذکرہ فی المجتبیٰ۔( البحرالرائق،کتاب الصلاۃ ،باب صفۃ الصلاۃ، کذا فی تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ ، فصل الشروع فی الصلاۃ بیان احرامھا واحوالھا، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ،ج١،ص٥٦١)

ترجمہ: اور عورت اپنے آپ کو پست اورنیچا رکھے گی اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چمٹا کررکھے گی اس لئے کہ عورت کے حق میں یہ زیادہ پردے کی بات ہے؛ اور عورت پردے اورچھپانے کی چیز ہے ، ابوداؤد نے اپنی مراسیل میں روایت کیا ہے کہ حضور  ﷺ دوعورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں ، توآپ  ﷺ نے ان سے فرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تواپنے جسم کے بعض حصوں کو زمین سے چمٹالو، اس لئے کہ اس سلسلہ میں عورت کا حکم مرد کی طرح نہیں ہے؛ اور شارح نے ذکرکیا کہ عورت کی نماز کی حالت مرد سے (تقریباً) دس چیزوں میں مختلف ہے؛ عورت تکبیر تحریمہ کے لئے اپنے ہاتھ اپنے کاندھوں تک اٹھائے گی اور وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنی چھاتی کے نیچے باندھے گی؛ اوراپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے الگ نہیں کرے گی ؛ اور رکوع کی حالت میں اپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر اس طرح رکھے گی کہ اس کے ہاتھوں کی انگلیوں کے کنارے اس کے گھٹنوں تک پہنچ جائیں؛ اوراپنی دونوں بغلوں کو سجدے کی حالت میں کشادہ نہیں کرے گی؛ اور تشہد کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں ایک طرف نکال دے گی؛ اور رکوع کی حالت میں اپنی انگلیوں کو کشادہ کرکے نہیں رکھے گی؛ اور مردوں کی امامت نہیں کرائے گی؛ اور عورتوں کو اپنی جماعت کرنابھی مکروہ ہے (اور اگرا س مکروہ کا ارتکاب کرتے ہوئے عورتیں جماعت کریں) توان کی امام درمیان میں کھڑی ہوگی اوردس کے علاوہ ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیروں کی انگلیوں کو(سجدے ،قعدے وغیرہ میں) کھڑانہیں کرے گی جیسا کہ مجتبیٰ میں مذکور ہے۔

علامہ ابو الحسن بن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی (المتوفیٰ ٥٩٣ھ)لکھتے ہیں:

عورت اپنے بائیں کولہے پر بیٹھے اور اپنے دونوں پیروں کو دائیں جانب نکالے، اس میں اس کے لئے زیادہ ستر ہے۔(ہدایہ مع فتح القدیر ، دارالکتب علمیہ ،بیروت،ج١، ص :٣١٩)

علامہ عثمان بن علی زیلعی حنفی متوفیٰ ٧٤٣ھ لکھتے ہیں:

عورت جھکے اورسجدہ میں اپنا پیٹ اپنی رانوں سے ملائے کیونکہ یزید بن ابی حبیب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ دوعورتوں کے پاس سے گزرے جونماز پڑھ رہی تھیں، آپ  ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تواپنے گوشت کو ایک دوسرے سے ملاؤ کیونکہ عورت اس میں مرد کی طرح نہیں ہے۔(تلخیص الحبیر، ج١، ص ٣٩٤، مراسیل ابو داؤد :٨٧، سنن بیہقی، ج٢، ص ٢٢٣)

علامہ سید ابن عابدین شامی متوفیٰ ١٢٥٢ھ لکھتے ہیں:

وَذَالِکَ حَیْثُ قَالَ تَنْبِیْہٌ ذَکَرَ الزَّیْلِعیُّ اَنَّھَا تَخْلُف الرَّجُلَ فِیْ عَشْرِ، وَقَدْ زِدْتُّ اَکْثَرَ مِنْ ضَعْفِہَا تَرْفَعُ یَدَیْھَا حِذَائً مَنْکَبَیْھَا ، وَلَاتَخْرُجُ یَدَیْھَا مِنْ کُمَّیھَا، وَتَضَعُ الْکَفَّ عَلَی الْکَفِّ تَحْتَ ثَدْیَھَا، وَتَنْحَنِیْ فِی الرُّکُوْعِ قَلِیْلًا وَلَاتَعْتَمِدُ، وَلَاتَفْرُجَ فِیْہِ اَصَابَعَہَا بَلْ تَضُمُّھَا وَتَضَعُ یَدَیْھَا عَلٰی رُکْبَتَیْھَا ، وَلاَتحْنِی رُکْبَتَیْھَا وَتَنْضَمُّ فِیْ رُکُوْعِھَا وَسُجُوْدِھَا وَتَفْتَرِشُ ذِرَاعَیْھَا، وَتَتَوَرَّکُ فِی التَّشَھُدِ وَتَضَعُ فِیْہِ یَدَیْھَا تَبْلُغُ رُؤُوْسُ اَصَابِعَھَا رُکْبَتَیْھَا ، وَتَضُمُّ فِیْہِ اَصَابَعَھَا، وَاِذَا نَابَھَا شَیْءٌ فِیْ صَلَاتِھَا تَصْفَقُ وَلَا تُسَبِّحُ ، وَلَاتَوُئمُّ الرَّجُلَ وَتُکْرَہُ جَمَاعَتُھُنَّ ، وَیَقِفُ الِامَامُ وَسْطَھُنَّ، وَیَکْرَہُ حُضُوْرَھَاالْجَمَاعَۃَ، وَتُؤَخِّرُ مَعَ الرِّجَالِ، وَلَاجُمُعَۃَ عَلَیْھَا، لٰکِنْ تَنْعَقِدُ بِھَا وَلَاعِیْدَ وَلَاتَکْبِیْرَ تَشْرِیْقٍ، وَلَایَسْتَحِبُّ اَنْ تُسَفِّرَ بِالْفَجْرِ، وَلَاتَجْھَرْ فِی الْجَھْرِیَّۃِ بَلْ لَوْ قِیْلَ بِالْفَسَادِ بِجَھْرِھَا لَأَمْکَنَ بِنَائً عَلٰی اَنَّ صَوْتَھَا عَوْرَۃٌ۔( ردالمحتار علی الدرالمختار، ج٢، ص ١٨٦۔١٨٧)

ترجمہ:''وہ امور جن میں عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے ''علامہ زیلعی'' نے دس چیزوں کا ذکر کیا ہے اور(علامہ شامی بیان کرتے ہیں کہ ) میں نے اضافہ کرکے ان مواقع کی تعداد دگنے سے بھی زیادہ کردی ہے اوروہ یہ ہیں :

عورت اپنے ہاتھ اپنے کندھوں تک اٹھائے گی ، اور اپنے ہاتھوں کو چادر سے نہ نکالے، اپنے سینہ کے نیچے اپنادایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے، رکوع میں کم جھکے زیادہ نہ جھکے، گھٹنوں پر زورنہیں ڈالے گی۔ رکوع میں اپنی انگلیوں کوگھٹنے پر کشادہ نہ رکھے بلکہ ملاکر رکھے، رکوع میں اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر گھٹنوں تک رکھے، گھٹنوں کو خم(ٹیڑھا) نہ کرے، رکوع اورسجود میں گھٹنوں کوملاکر رکھے ، کلائیوں کوزمین پر بچھادے ، تشہد میں اپنے کولہے کے اوپر بیٹھے گی، تشہد میں اپنے ہاتھ اس طرح رکھے گی کہ اس کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں تک پہنچ جائیں اور اس میں اپنی انگلیوں کو ملاکررکھے گی ، اور (عورت کو باجماعت نماز میں امام کواصلاح نماز کے لئے متوجہ کرنا ہو یاکوئی ضرورت لاحق ہو، مثلا کوئی آدمی سامنے سے گزررہا ہے تو اسے متوجہ کرنے لئے وہ ) وہ تصفیق کرے (یعنی داہنے ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی پشت پر مارے) اور (بلند آوازسے)تسبیح یعنی سبحان اللہ نہ کہے، (عورت) مردوں کی امامت نہیں کرے گی، عورتوں کی جماعت مکروہ ہے اور (اگرعورتیں کہیں اپنی جماعت قائم کریں تو) ان کی امام ان کے وسط میں کھڑی ہوگی ، عورت کا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز کے لئے جانا مکروہ ہے اور وہ (اگر جماعت میں شامل ہوتو ) مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں گی ، عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے لیکن (مرد کی امامت میں ) عورتوں کی جماعت قائم ہوتو جمعہ اداہوجائے گا، عورت پر عید اورتکبیرات تشریق نہیں ہیں اور نہ اس پر صبح کی نماز سفیدی میں پڑھنا مستحب ہے، نہ وہ جہری نمازوں میںبلند آواز سے قرآن پڑھے بلکہ اگر عورت کے جہر کے ساتھ پڑھنے پر نماز کے فاسد ہونے کا قول کیاجائے، تو یہ اس بناء پر درست ہوگا کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔''

فقہ شافعی

صحیح مسلم کے شارح محدث امام نووی رحمہ اللہ کا حوالہ:

وَیَسُنُّ لِلرَّجُلِ اَنْ یُجَافِیَ مِرْفَقَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہِ وَیَسُنُّ لِلْمَرأَۃِ ضَمُّ بَعْضِھَا اِلَی بَعْضِ وَتَرْکُ الْمُجَافَاۃِ۔( شرح المھذب،صفۃ الرکوع، ج٣، ص ٤٠٤)

ترجمہ: مرد کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ اپنی کہنیوں کواپنے پہلوؤں سے جدارکھے اور عورت کے لئے ان اعضاء کا ایک دوسرے کے ساتھ ملانا اوراعضاء کوکشادہ اورجدانہ رکھنا سنت ہے۔

ایک اورمقام پر فرماتے ہیں:

قَالَ الشَّافِعِیُّ وَالْاَصْحَابُ یُسَنَّ اَنْ یُّجَافٰی مِرْفَقَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہِ وَیَرْفَعُ بَطْنَہ، عَنْ فَخِذَیْہِ وَتَضُمُّ الْمَرْأَۃُ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ۔( شرح المھذب،وضع الیدین والرکبتین والقدمین فی السجود،ج٣)

ترجمہ: امام شافعی اور ان کے اصحاب فرماتے ہیں: مرد کے لئے سنت ہے کہ وہ اپنی کہنیوں کو اپنے پہلوؤں سے جدارکھے اوراپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے اٹھا کر رکھے اور عورت ان اعضاء کو باہم ملاکررکھے۔

مشہور محدث علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (المتوفیٰ ٩١١ھ) فرماتے ہیں:

وَتَضُمُّ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ۔( الاشباہ والنظائر، القول فی احکام الانثی وماتخالف فی الذکر)

ترجمہ: اورعورت رکوع اورسجدے میں اپنے اعضاء کو باہم ملاکر رکھے۔

فقہ حنبلی

علامہ منصور بن یونس بہوتی حنبلی رحمہ اللہ (المتوفیٰ ١٠٥١ھ) فرماتے ہیں:

لٰکِنْ تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِیْ نَحْوِ رُکُوْعٍ وَّسُجُوْدٍ فَلَایُسَنُّ لَھَا التَّجَافِیْ لِحَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ حَبِیْبٍ اَنَّ النَّبِیَّ  ﷺ مَرَّ عَلٰی اِمْرَاَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ اِذَا سَجَدْتُّمَا فَضَمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ اِلٰی بَعْضٍ فَاِنَّ الْمَرْاَئۃَ لَیْسَتْ فِیْ ذَالِکَ کَالرَّجُلِ رَوَاہ، اَبُوْ دَاوُدَ فِی مَرَاسِیْلِہٖ وَلِاَنَّھَا عَوْرَۃٌ فَاَلَیْقُ بِھَا الْاِنْضِمَامُ وَتَجْلِسُ اِمْرَاَۃٌ مسدلہ رِجْلَیْھَا عَنْ یَّمِیْنِھَا وَھُوَاَفْضَلُ مِنْ تَرُبِّعِھَا لِاَنَّھَا غَالِبُ جُلُوْسِ عَائِشَۃَ رَضِی اللّٰہ عَنْہَا۔( دقائق اولی النھی شرح المنتھیٰ ، باب صفۃ الصلوٰۃ ومایکرہ فیھا وارکان وواجباتھا وسننھا وما یتعلق بھا،ج١)

''لیکن عورت اپنے آپ کو رکوع اورسجدہ وغیرہ میں ملا کر (یعنی سمیٹ کر رکھے) عورت کو اپنے اعضاء ایک دوسرے سے جدانہ رکھنا سنت نہیں حضرت زید بن حبیب کی اس حدیث کی وجہ سے کہ جب نبی علیہ السلام دو عورتوں کے پاس سے گذرے جو نماز اداکرہی تھیں توآپ  ﷺ نے ارشادفرمایا کہ جب تم سجدہ کرو تم اپنے جسم کے اعضاء کے گوشت کو دوسرے اعضائے جسمانی کے گوشت کے ساتھ ملا کر رکھو کیونکہ عورت اس سلسلے میں مرد کی طرح نہیں ہے(طریقہئ نماز عورت کامرد سے مختلف ہے)؛ اس کو ابوداؤد نے اپنی مراسیل میں روایت کیا ہے۔اور یہ وجہ بھی ہے کہ وہ عورت ہے اوراس کے لئے اپنے اعضاء کو ملانا ہی مناسب ہے اور عورت اپنے دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر زمین پر بچھا کر بیٹھے گی اور عورت کے حق میں بیٹھنے کا یہ طریقہ چار زانوں بیٹھنے سے افضل ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اسی طرح بیٹھا کرتی تھیں۔''

فقہ مالکی

محمد بن عبدری یوسف مالکی رحمہ اللہ(المتوفیٰ ٨٩٧ھ) تحریر فرماتے ہیں:

واما المرأۃ فتکون منضمۃ منزویۃ فی سجودھا وجلوسھا وامرھا کلہ۔( التاج والا کلیل لمختصر خلیل، فصل فی فرائض الصلاۃ، جلد ٢)

''اور عورت سجدے، جلسے اورپوری نماز میں ملی اور سمٹی ہوئی رہے گی۔''

حدیث صلوا کما رأیتمونی اصلی کا صحیح مفہوم

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کرنے والے چند افراد صحیح بخاری کی ایک طویل حدیث کے حصے کو اس کے سیاق وسباق سے ہٹاکر دلیل لیتے ہیں کہ ''مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔

صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش خدمت ہے۔

عن ابی قلابۃ حدثنا مالک قَالَ اَتَیْنَا النَّبِیَّ  ﷺ وَنَحْنُ شَبَبَۃٌ مُتَقَارِبُوْنَ فَاَقْمَنَا عِنْدَاہُ عِشْرِیْنَ لَیْلَۃً وَّکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  ﷺ رَفِیْقاً ، فَلَمَّا ظَنَّ اِنَّا قَدْ اِشْتَھِیْنَا اَھْلَنَا اَوْقَدْ اِشْتٹَقَنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَکْنَا بَعْدَنَا فَاَخْبَرْنَاہُ قَالَ اِرْجِعُوْا اِلٰی اَھْلِیْکُمْ فَاَقِیْمُوْا فِیْھِمْ وَعَلِّمُوْھُمْ وَمُرُوْھُمْ وَذَکَرَا اَشْیَاءَ اَحْفَظَہَا اَوْلَا اَحْفَظَہَا، وَصَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ فَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلوٰۃُ فَلْیُوَئذِّنْ لَکُمْ اَحَدُکُمْ وَلْیَوُئمُّکُمْ اَکْبَرُکُمْ۔( صحیح بخاری ،کتاب اخبار الاحاد، باب ماجاء فی اجازۃ خبر الواحد الصدوق فی الاذان والصلوٰۃ۔۔والاحکام،مکتبہ رحمانیہ،ج٢،ص٦٢٤)

''ابوقلابہ کا بیان ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم چند ہم عمر نوجوان نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیس روز تک آپ علیہ السلام کے پاس ٹھہرے رہے اور نبی کریم  ﷺ بڑے نرم دل تھے۔ جب آپ نے محسوس فرمایا کہ ہم اپنے گھر والوں کے پاس جانے کے خواہشمند ہیں تو دریافت فرمایا کہ ہم نے کن لوگوں کو پیچھے چھوڑا ہے۔ چنانچہ ہم نے آپ  ﷺ کو بتادیا ۔ فرمایا کہ اپنے گھر والوں کی طرف چلے جاؤ اور ان میں جاکررہو ۔ انہیں دین سکھاؤ اوراس پر عمل کرنے کا حکم دینا پھر کئی باتیں فرمائیں جن سے کچھ یاد رہیں اور کچھ یاد نہ رہیں فرمایا کہ اسی طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان کہے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو اسے چاہئے کہ تمہاری امامت کرے۔''

١۔ منقولہ حدیث سے

اولاً: تو یہ ثابت ہو تا ہے کہ حضور اکرم  ﷺ کا یہ ارشاد کہ وَصَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ (اس طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے ) مرد حضرات کے لئے تھا نہ کہ خواتین کے لئے اور آپ  ﷺ نے یہ ارشاد حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کے لئے اس وقت فرمایاتھا جب وہ بیس روز تک آپ علیہ السلام سے مستفید ہوکر رخصت ہورہے تھے۔

ثانیاً: یہ کہ وَصَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ کے فوراً بعد آپ علیہ السلام نے حضرت مالک بن حویرث سے اپنے اس ارشاد کی خود وضاحت بھی فرمادی کہفَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلوٰۃُ فَلیُؤذِّنْ لَکُمْ اَحَدُکُمْ وَلْیَؤمُّکُمْ اَکْبَرُکُمْ۔

جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک آدمی اذان کہے اورجو تم میں سب سے بڑا ہو اسے چاہئے کہ تمہاری امامت کرے۔ مرد اور عورت کی نماز میں فرق نہ کرنے والے چند افراد کی دلیل ہی ان کے خلاف حجت ہوگئی کیونکہ روزمرہ کی فرض نمازوں میں عورتیں مسجد جاکر اذانیں نہیں دیتیں اور نہ ہی امامت کرتی ہیں ۔ سب مساجد میں مرد ہی اذان دیتے ہیں اور امامت کرتے ہیں نہ کہ عورتیں۔

ثالثاً: بالفرض اگروَصَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھیں اور اس حدیث کو عموم پر محمول کریں تو پھر خطاب پوری امت کو شامل ہوگا۔ اورپوری امت مسلمہ پر اب لازم ہوگا کہ جو طریقہ نماز نبی علیہ السلام کا ہے و ہی طریقہ پوری امت کا ہو لیکن یہ واضح اور اصولی بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس حدیث کی عمومیت پر اسی وقت عمل ہوگا جب تک کہ دلیل شرعی اس کے متعارض نہ ہو۔ جب کہ مرداور عورت کی نماز کے فرق پر کئی احادیث رسول اورآثار صحابہ موجود ہیں ۔اور اگر کوئی دلیل خصوص کسی بعض عمل یا افراد میں اس حکم متعارض ہوتو اس دلیل خصوص کی وجہ سے وہ بعض افراد اور عمل اس امر کی عمومیت سے مستثنیٰ ہوں گے۔ جیسا کہ مریض اور ضعفاء اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ لہذا ان مستثنیات کی موجودگی میں اس جملہ سے مرد اور عورت کی نماز میں مجموعی کیفیت اور طریقہ پر مطابقت کااستدلال درست نہیں ۔

رابعاً: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور اکرم  ﷺ کے ارشادات و خطابات کو سب سے زیادہ جاننے اورپہچاننے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں کہ نبی علیہ السلام کے اس قول کا کیا مطلب ہے۔اس سے کیا مراد ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین (وَصَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ) حدیث کے اس حصے کو سمجھتے تھے۔اس لئے مرد اور عورت کی نماز میں واضح فرق کے قائل تھے اور خلیفہ عظیم ،باب العلم،حضرت علی رضی اللہ عنہ جن کی اتباع کرنے کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہے آپ سے روایات کاثبوت ملتا ہے کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے۔ منکرین کے خلاف اس سے بڑی حجت تمام کیا ہوسکتی ہے۔ کہ صحابہ کرام کی بڑی جماعت مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی قائل ہے۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرام کی رائے نبی علیہ السلام کی حدیث کے خلاف ہو؟

خامساً:بالفرض اگرحدیث کے مفہوم کو پوری امت (بشمول خواتین) کے لئے قراردیا جائے تو اسلامی معاشرے کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔ خواہشات جنم لینے لگے گی ، حیاء نام کی چیز ختم ہوکررہ جائیگی۔پھر

٭ تمام مساجد میں امام وخطیب عورتیں ہونی چاہئے کیونکہ نبی علیہ السلام امامت بھی فرماتے رہے اور وعظ و نصیحت بھی ۔

٭ تمام مساجد میں مردوں کی طرح عورتین بھی موذن بن کراذان دےں جب کہ عورت کسی مسجد میں اذان نہیں دیتی۔

٭اسی طرح مردوں کی طرح عورتیں بھی مساجد میں اقامت کہیں۔ جبکہ عورتیں مسجدوں میں اقامت نہیں کہتی۔

٭مذکورہ تین صورتیں ممکن نہیں ہےں کیونکہ جس طرح عورت کی ذات بھی عورت (چھپانے والی چیز) ہے اس طرح عورت کی آواز بھی عورت ہے۔

٭ نماز کی ادائیگی میں چند اندرونی شرائط اور چند بیرونی شرائط ہیں یعنی کچھ شرائط نماز شروع کرنے سے پہلے کی ہیں اور کچھ شرائط ادائیگی نماز کی ہیں۔ جیسا کہ نماز کا وقت ہونا، ستر عورت، قبلہ رخ ہونا ،رکوع اورسجود کا ہونا وغیرہ اگر کوئی ایک شرط بھی رہ جائے تو نماز ادانہ ہوگی ۔ادائیگی نماز کے لئے مرد اور عورت کے لئے ستر عورت ایک شرط ہے جس میں مرد کا ستر ، عورت کے ستر سے جدا ہے۔امام ابوبکرالمرغینانی فرماتے ہیں :

وَ عَوْرَۃُ الرَّجُلِ مَا تَحْتَ سُرَّتِہٖ اِلٰی رُکْبَۃِ لِقَوْلِہٖ علیہ السلام عَوْرَۃُ الرَّجُلِ مَا بَیْنَ سُرَّتِہٖ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ ۔۔۔وَبَدَنُ الْحُرَّۃِ کُلُّھَا عَوْرَۃٌ اِلَّا وَجْھَھَا وَکَفَّیْہَا لِقَوْلِہٖ علیہ السلام اَلْمَرْاَئۃُ عَوْرَۃٌ مَسْتُوْرَۃٌ ۔(الہدایہ،کتاب الصلوٰۃ ،باب شروط الصلوٰۃ التی تتقدمھا،ص)

اورمرد کا واجب الستر جسم اس کی ناف سے گھٹنے تک ہے کیونکہ حضور  ﷺ نے فرمایا کہ مرد کا جسم (ستر) ناف اور اس کے دوگھٹنوں کے مابین ہے ۔۔۔آزاد عورت کا پورابدن ستر ہے سوائے اس کے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے اس لئے کہ حضور  ﷺ کا ارشاد ہے کہ عورت چھپانے کی چیز ہے ۔

٭جیسا کہ حضور اکرم  ﷺ دستار شریف(عمامہ) پہن کر نماز ادافرماتے تو کیا خواتین بھی عمامہ پہن کر نماز پڑھیں۔

٭ عورت نماز میں ٹخنے اورپاؤں کا اوپر والاحصہ ڈھانپ کر رکھے:

حضور اکرم  ﷺ نے شلوار کو ٹخنوں سے اوپر رکھنے کا حکم فرمایا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے اوراگر تکبر کی عادت نہ بھی ہو سستی اورکاہلی کی وجہ سے شلوار اورچادر ٹخنوں سے نیچے لٹکتی رہی تو وہ بھی ائمہ اربعہ کے نزدیک مکروہ تنزیہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث طیبہ میں اس عمل پر وعید وارد ہوئی ہے کہ اس حصے کو جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا۔

امام ابوداؤد نقل فرماتے ہیں:

وعن ام سلمۃ انھا سألت رسول اللہ  ﷺ اَتُصَلِّی الْمَرْاَئۃُ فِیْ دِرْعٍ وَّخِمَارٍ لَیْسَ عَلَیْہَا اِزَارٌ قَالَ اِذَا کَانَ الدِّرْعُ سَابِغاً یُغَطِّی ظُھُورَ قَدَمَیْھَا۔( رواہ ابی داؤد، مشکوٰۃ المصابیح، باب الستر ،مکتبہ امدادیہ ملتان،ج١،ص٧٣)

حضر ت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ  ﷺ سے پوچھا کیا عورت نماز قمیص اوردوپٹے میں ادا کرلے جب اس کے پاس تہبند نہ ہو؟توآپ نے فرمایا جب کہ اس کی قمیص مکمل ہو تو وہ اپنے قدموں کے ظاہر حصہ کو ڈھانپ لے ، تاہم ٹخنے ڈھانپنا عورت کے لئے لازم ہے۔

٭منکرین کی دلیل ایک حدیث سے استدلال ہے نہ کہ اصل حدیث جب کہ مرد اورعورت کی نماز میں فرق پر ہمارے دلائل واضح احادیث کی روشنی کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ کرام مع اقوال مجتھدین وفقہاء کرام کی روشنی میں ہے۔

کیا احادیث صحیحہ صحیحین تک محدود ہیں؟

مخالفین حضرات عوام الناس کو بہکانے کے لئے ایک غیر مستند شبہ پیداکرتے ہیں ۔ جس کا تعلق کسی بھی جہت سے ابتداء اسلام سے لے کر آج تک کے اس تحقیق یافتہ دور میں کسی بھی شرعی قانون ، اصول وضوابط سے نہیں ملتا ، ان کا باطل ہتھکنڈا یہ ہے کہ ہم صرف اسی حدیث کو تسلیم کرتے ہیں جو صحاح ستہ میں ہوں اور بالخصوص صحیحین (یعنی بخاری ومسلم) میں موجود ہیں۔

لہذا مرد اورعورت کی نماز میں فرق کرنے والی احادیث وآثار صحابہ کرام واقوال تابعین صحیحین میں موجود نہیں ہیں اس ۔۔ ہم اس فرق کو تسلیم نہیں کرتے۔

مذکورہ باطل نظریئے کا محاسبہ کرتے ہوئے پہلی بات تو یہ پیش خدمت ہے کہ معترضین کا ہر مسئلے اورمذکورہ مسئلے پر صحاح ستہ اوربالخصوص بخاری ومسلم کی احادیث طلب کرنا ان کا اپنا وضع کردہ قانون ہے جو ناتوقرآن وحدیث ہے اورنہ ہی صحابہ کرام وتابعین وتبع تابعین ،ائمہ اربعہ ودیگر فقہاء ومحدثین کا بنایاہوا قانون ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ احادیث صحیحہ صرف بخاری ومسلم تک ہی منحصر نہیں بلکہ دیگر بھی کئی کتب احادیث ہیں جو اپنے اندر احادیث صحیحہ کوشامل کئے ہوئے ہیں جیسا کہ امام حاکم ابوعبداللہ نیشاپوری نے ''المستدرک علی الصحیحین'' کے نام سے علم الحدیث پر ایک ایسی نایاب ونادر کتاب تحریر کی کہ جس کی خصوصیت اورامتیازی شان یہ ہے کہ حدیث قبول کرنے کے جوقاعدے،قوانین اور شرائط امام بخاری اورامام مسلم نے بیان کئے تھے، ان ہی شرائط پر احادیث جمع کرنے کا اہتمام کیاجو یاتودونوں یادونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر پوری اترتی ہوں۔ اس لئے امام حاکم حدیث نقل کرنے کے بعد اس کی سند اور رواۃ پر تبصرہ بھی کرتے ہیں ۔ ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

عَنْ یَحْییٰ بِنْ اَبِی سُلَیْمٍ وَھُوَ اَبُوْبَلْجٍ وَھَذَا لَفْظُ حَدِیْثِ اَبِیْ دَاؤدَ قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرٍو بْنِ مَیْمُوْنٍ یُحَدِّثُ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ  ﷺ قَالَ: مَنْ سَرَّہُ اَن یَّجِدَ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ فَلْیُحِبَّ الْمَرْءَ لَایُحِبُّہ، اِلَّالِلّٰہ۔وَھَذَا حَدِیْثُ لَمْ یُخَرَّجْ فِی الصَّحِیْحَیْنِ ، وَقَد اِحْتَجَّا جَمِیْعاً بِعَمْرٍو بْنِ مَیْمُوْنٍ ، عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، وَاحْتَجَّ مُسْلِمٌ بِاَبِیْ بَلْجٍ وَھُوَ حَدِیْثُ صَحِیْحٍ لَا یُحْفَظُ لَہ، عِلَّۃٌ۔( المستدرک علی الصحیحن ، کتاب الایمان ، شبیر برادرز لاہور، رقم الحدیث٣، ص ١٥)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص ایمان کی حلاوت محسوس کرناچاہے اس کو چاہئے کہ لوگوں سے محض صرف رضائے الہی کی خاطر محبت کرے۔

اس حدیث کو ''صحیحین'' میں نقل نہیں کیا گیا حالانکہ (امام بخاری علیہ الرحمہ اورامام مسلم علیہ الرحمہ دونوں نے (اس کے راوی) عمرو بن میمون کی حضرت ابوہریرہ سے روایت کردہ احادیث نقل کی ہیں اورامام مسلم علیہ الرحمہ نے ابوبلج (جو کہ اس حدیث کے راوی بھی ہیں) سے روایات نقل کی ہیں۔ یہ حدیث صحیح ہے اوراس میں کوئی علت نہیں ہے۔

عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ  ﷺ قَالَ: صَلوٰۃُ الْمَرْاَئۃِ فِیْ بَیْتِھَا اَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِھَا فِیْ حُجْرَتِھَا ، وَصَلَاتِھَا فِیْ مَخْدََعِھَا اَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِھَا فِیْ بَیْتِھَا۔ھَذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ وَلَمْ یُخَرِّجَاہُ وَقَدِاحْتَجَّا جَمِیْعاً بِالْمُوْرِقِ بنِ مُسْتُمْرِحٍ العِجْلِیْ۔( المستدرک علی الصحیحن ، کتاب الایمان ، شبیر برادرز لاہور، رقم الحدیث٣، ص ١٥)

ترجمہ: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم  ﷺ نے ارشاد فرمایا عورت کا چھوٹے کمرے میں نماز پڑھابڑے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اورکوٹھڑی میں نماز پڑھنا چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

یہ حدیث امام بخاری اورامام مسلم رحمۃ اللہ علیھما دونوں کے معیار (شرائط) کے مطابق صحیح ہے لیکن دونوں نے ہی اسے نقل نہیں کیا جب کہ امام بخاری ومسلم نے مورق بن مشمرخ العجلی کی روایات نقل کی ہیں۔

مذکورہ ومنقولہ مثالوں سے یہ حق واضح ہوا کہ صحیح احادیث صرف صحیح بخاری ومسلم ہی میں نہیں بلکہ دیگر کتب احادیث میں بھی شامل ہیں۔اورامام حاکم ''المستدرک علی الصحیحین '' میں شیخین(امام بخار ی و مسلم) ہی کی شرائط پر ان حدیثوں کو جمع کرنے کا اہتمام کیاہے جو امام بخاری ومسلم نے جمع نہیں کی اور تلافی ماخات کردیا یعنی صحیح بخاری ومسلم کے علاوہ باقی رہ جانے والی احادیث کو ذکرکردیا۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی مقدمہ مشکوٰۃ میں رقمطراز ہیں:

اَلْمُسْتَدْرَکُ بِمَعْنٰی اَنَّ مَاتَرَکَہُ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمُ مِنَ الصِّحَاحِ اَوْرَدَہ، فِیْ ھَذَا الْکِتَابِ وَتُلاَفِیْ وَالْاِسْتَدْرِکْ۔( المقدمۃ للشیخ عبدالحق الدہلوی،مشکوٰۃ المصابیح ،قدیمی کتب خانہ ،ص٧)

فیصلہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ:

معترضین کو دعوت حق وفکر ہے کہ کسی تعصب کی بناء پر حق قبول نہیں کرنا توکم از کم امام بخاری علیہ الرحمہ جن کو آپ امام دلیل مانتے ہیں ان ہی کی بات کو تسلیم کرلیں کہ امام بخاری خود فرماتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث زبانی حفظ ہیں۔ جب کہ ایک لاکھ صحیح حفظ ہونے کے باوجود امام بخاری علیہ الرحمہ نے بخاری شریف میں کل سات ہزار دوسوپچھتر(7,275) جمع کی دیگر احادیث صحیحہ کہاں ہےں؟ اور اگر تکرار کو حذف کردیں تو باقی صرف چارہزار حدیثیں باقی رہ جاتی ہیں ۔

ایک دوسرے مقام پر آپ خود فرماتے ہیں:

ماَوردتُ فِیْ کِتَابِیْ ھَذَا اِلَّامَاصَحَّ وَلَقَدْ تَرَکْتُ کَثِیْراً مِّنَ الصِّحَاحِ۔

''میں نے اس کتاب(صحیح بخاری) میں صحیح احادیث ذکر کی ہیں لیکن میں نے بہت سی صحیح احادیث کوذکر نہیں کیا۔

فائدہ:

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مکررات کوحذف کردیاجائے توصحیح بخاری میں صرف چارہزار احادیث باقی رہ جاتی ہیں ۔ یقینا باقی احادیث صحیحہ دیگر کتب احادیث مثلاً صحیح ابن حبان، المستدرک،مؤطا امام مالک ،مؤطاامام محمد ،مسند امام احمد وغیرہ میں شامل ہیں۔

شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

اَلْاَحَادِیْثُ الصَّحِیْحَۃُ لَمْ تَنْحَصَرْ فِیْ صَحِیْحِ الْبُخَارِیْ وَمُسْلِمٍ وَلَمْ یَسْتَوْعِبُ الصِّحَاحُ کُلُّھَا بَلْ ھُمَا یَنْحَصِرَانِ فِی الصِّحَاحِ ۔ وَالصِّحَاحُ الَّتِیْ عِنْدَھُمَا وَعَلٰی شَرْطِھِمَا اَیْضاً لَمْ یُوْرِدَا ھُمَا فِیْ کِتَابَیْھِمَا فَفَضْلاً عَمَّا عِنْدِغَیْرِھِمَا۔( المقدمۃ للشیخ عبدالحق الدہلوی،مشکوٰۃ المصابیح ،قدیمی کتب خانہ ،ص٧)

آپ علیہ الرحمہ نقل کرتے ہیں:

قَالَ مُسْلِمُ الَّذِی اَوْرَدْتُ فِیْ ھَذَاالْکِتَابِ مِنَ الْاَحَادِیْثِ صَحِیْحٌ وَلَا اَقُوْلُ اَنَّ مَاتَرَکْتُ ضَعِیْفٌ۔ المقدمۃ للشیخ عبدالحق الدہلوی،مشکوٰۃ المصابیح ،قدیمی کتب خانہ ،ص٧ ()

ترجمہ: امام مسلم فرماتے ہیں میں نے اس کتاب (صحیح مسلم) میں جو احادیث شامل کی ہیں وہ صحیح ہیں لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ جو احادیث میں نے ترک کی وہ ضعیف ہی ہیں۔(یعنی وہ متروکہ احادیث بھی صحیح ہیں۔ اور صرف صحیح مسلم ہی میں صحیح احادیث نہیں ہیں۔(ابوالہند)

تیسری بات:

مرد اور عورت کی نماز میں فرق پر راقم نے بعض احادیث و اقوال فقہاء کرائم امام ابوبکر بن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف مصنف ابن ابی شیبہ سے بطور دلیل پیش کئے ہیں۔

اور آپ امام بخاری وامام مسلم سمیت دیگر صحاح ستہ کے مصنفین کے بالواسطہ یا بلاواسطہ استاد بھی ہیں اورخود صحاح ستہ کے مصنفین بھی ان سے روایات نقل کرتے ہیں۔ معترضین جب امام بخاری کی احادیث کوصحیح مانتے ہیں تو کیا ان کے استاد محترم جن سے آپ نے استفادہ کیا ان کی روایت کردہ احادیث غیر صحیح ہیں؟ نہیں بلکہ حقیقتاً اوریقینا مصنف ابن شیبہ میں بھی احادیث صحیحہ کثیر تعداد میں شامل ہیں۔

مشہور کتب احادیث جن میں احادیث صحیحہ زیادہ تعداد میں ہیں:ذیل میں وہ کتب احادیث پیش خدمت ہیں کہ جن میں احادیث صحیحہ زیادہ تعداد میں موجود ہیں:

اَلْمُسْتَدْرَکْ عَلَی الصَّحِیْحَیْنِ ، صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃَ،صَحِیْحُ ابْنِ السَّکَنِ،صَحِیْحُ ابْنِ حِبَانٍ ، صَحِیْحُ ابْنِ عَوَانَہ۔

دیگر مشہور کتب احادیث جو صحاح پر مشتمل ہیں:

قارئین کی خدمت میں وہ کتب احادیث پیش خدمت ہیں کہ جن میں احادیث صحیحہ موجود ہیں:

مؤطا امام مالک، مسند امام احمد بن حنبل، مسند امام ابن خزیمہ، مسند امام شافعی، دارقطنی، سنن کبریٰ، بیہقی، مصنف عبدالرزاق ،مصنف ابن ابی شیبہ۔

الحاصل یہ کہ جب خود امام بخاری وامام مسلم علیہما الرحمہ کے اقوال سے یہ ثابت ہوتاہے کہ احادیث صحیحہ صحیح بخاری ومسلم ہی میں موجود نہیں ہیں بلکہ اور کئی دیگر کتب احادیث میں صحیح احادیث کثیر تعداد میں ہیں پھر بھی کسی شرعی مسئلے اور مذکورہ مسئلے پر صحیحین (صحیح بخاری و مسلم) کی حدیث کو قبول کرنے کی رٹ لگانا علمی خیانت وتعصب کے ساتھ ساتھ جہالت بھی ہے۔

خلاصہ مضمون:

منقولا ومذکورہ بالااحادیث مبارکہ ،آثار صحابہ کرام و تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ اربعہ ومحدثین عظام کی عبارات سے مرد وعورت کی نماز کا واضح فرق دلائل کی روشنی میں ثابت ہوا۔ مرد

 

اور عورت کی نماز میں فرق پر ایک اہم اوراصولی وجہ بھی قارئین کے سامنے آئی کہ جن جن مقامات پر مرد اور عورت کی نماز میں فرق واضح ہے اس کی بنیادی اور اصل وجہ عورت کے حق میں ہر طرح سے پردے کا ہونا ہے کہ عورت کو نماز میں بھی اپنے اعضاء جسمانی کو زیادہ سے زیادہ چھپانے کا حکم ہے ۔حدیث کے مطابق بھی عورت چھپانے اور پردہ کی چیز ہے۔ اس لئے نبی علیہ السلام نے عورتوں کے لئے بہترین مسجدیں ان کے گھروں کے آخری کونے قراردیئے ہیں۔ اور عورت کو سمٹ کر سجدہ کا حکم دیا ہے۔ مرد اور عورت کی نماز میں فرق کا طریقہ حضور  ﷺ کے عہد مبارک سے لے کر آج تک اتفاقی طور پر تواتر کے ساتھ عملاً ثابت ہے۔ اور مخالفین آج تک کوئی واضح حدیث کسی صحابی و تابعی یا ائمہ اربعہ ودیگر مجتہدین وفقہاء کرام ومحدثین کا کوئی ایسا فتویٰ پیش نہیں کرسکے کہ جس میں عورتوں کی نماز کا طریقہ مردوں کی نماز کے مطابق ہو سوائے ایک طویل حدیث کے ایک حصے کے جو ان ہی کے خلاف حجت و دلیل ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے اصل اور حقیقی مخاطب ہی مرد(حضرات) یعنی حضرت مالک بن حویرث اورآپ کے رفقاء تھے۔ جیسا کہ شروع میں بیان کردیاگیا ہے۔ جب کہ قارئین کی خدمت میں مرد اور عورت کے طریقہ نماز کے فرق پر کئی ایک احادیث رسول  ﷺ ،اقوال صحابہ، اوربالخصوص باب علم خلیفہ راشد حضرت علی کا فتویٰ اوردیگر مجتہدین وفقہاء کرام کے متفقہ فیصلے کو پیش کیا جو کہ آج تک عملًا متواتر ہےں۔

خواتین کی نماز پڑھنے کا مختصر مگر جامع طریقہ

عورت باوضو ہو کر پاک جگہ پر قبلہ رخ کھڑی ہوجائے دونوں پیروں کے درمیان چار انگلی کا فاصلہ رکھیں اور اگردونوں پاؤں ملابھی لے توبھی حرج نہیں۔

اورجو بھی نماز پڑھنی ہو اس نماز کی دل میں نیت کرکے تکبیر تحریمہ یعنی اللہ اکبر کہتے ہوئے عورت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائے گی لیکن ہاتھوں کو دوپٹہ /چادر وغیرہ سے نہ نکالے، اوراپنے سینے پر ہاتھ اس طرح سے باندھے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھے اور حلقہ بناکر کلائی کو نہ پکڑے اور پھر ثناء پڑھے۔ثناء کے بعد تعوذ اورتسمیہ پڑھے اور اس کے بعد سورۃ فاتحہ پڑھ کر آمین کہے اور اس کے بعد قرآن مجید میں سے کوئی بھی چھوٹی سورت یا تین آیات جو چھوٹی سورت کے مثل ہو وہ تلاوت کرے۔پھر اللہ اکبر کہتی ہوئی رکوع میں جائے ۔اوررکوع میں کم جھکے زیادہ نہ جھکے اور اس قدر جھکے کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں ،گھٹنوں پر زورنہیں ڈالے گی ،رکوع میں اپنی انگلیوں کو گھٹنوں پر کشادہ نہ رکھے بلکہ آپس میں ملا کر رکھے۔اوردونوں بازو اپنے پہلوؤں سے ملاکر رکھے اور دونوں پیروں کے ٹخنے بھی بالکل ملادے۔

اور رکوع میں طاق اعداد میں تین،پانچ یا سات مرتبہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھے۔ پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ، کہتے ہوئے رکوع سے سراٹھائے اور قومہ کرے (سیدھی کھڑی ہوجائے) کھڑے کھڑے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے۔پھر اللہ اکبر کہتی ہوئی سجدہ میں چلی جائے ۔

سجدہ میں جاتے ہوئے زمین پر پہلے گھٹنے رکھے پھر ہاتھ اورہاتھوں کی انگلیاں خوب ملالے اوردونوں ہاتھوں کے درمیان میں پہلے ناک اورپھر پیشانی رکھے اورہاتھوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی رکھیں اورپاؤں کی انگلیوں کو موڑ کر ممکنہ حد تک انہیںبھی قبلہ رخ رکھے، مگر اپنے پاؤں (مردوں کی طرح) کھڑے نہ رکھے بلکہ داہنی طرف کو نکال دے اور خوب سمٹ کر سجدہ کرے، پیٹ دونوں رانوں سے اور بازو دونوں پہلوؤں سے ملادیں اور ہاتھ کہنیوں سمیت زمیں پر رکھ دے اور حالت سجدہ ہی میں طاق اعداد میں تسبیح سجدہ یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیپڑھے۔ پھر اللہ اکبر کہتی ہوئی حالت جلسہ میں آجائے یعنی دونوں پاؤں دائیں طرف نکلے ہوئے ہوں اوربائیں سرین پر اچھی طرح بیٹھ جائیں پھر دوسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دوسرے سجدے میں چلی جائیں اورپہلے سجدہ کی طرح کا فعل کریں۔ دوسرے سجدے سے اللہ اکبر کہتی ہوئی حالت قیام میں کھڑی ہوجائے اوردوسری رکعت شروع کردے۔ دوسری رکعت کی ابتداء تسمیہ سے کرے اوراگرنہ بھی کہے توکوئی مضائقہ نہیں اور اس کے بعد پوری سورۃ فاتحہ اور اس کے بعد قرآن مجید کی کوئی چھوٹی سورت یا تین آیتیں ملائے۔پھر پہلی رکعت کی مثل اوررکوع اور سجدہ ادا کریں اوردوسرے سجدہ کے بعدحالت تشہد میں تشہد پڑھے اورتشہد کے بعد درود شریف اور اس کے بعد کوئی دعا جو قرآن و حدیث میں مذکور ہو وہ پڑھے۔ پھر نماز ختم کرنے کی نیت سے اپنے داہنی طرف رخ پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے اور یہی الفاظ بائیں جانب رخ پھیرتے ہوئے کہے۔

نوٹ: نماز کے فرائض ،واجبات، سنن،مستحبات نماز کی دیگر کتب سے پڑھ کر استفادہ کریں کیونکہ ہمارا نفس مضمون یہ نہیں ہے۔


مآخذ ومراجع

نام کتاب

القرآن الکریم

مصنف ابن ابی شیبہ

صحیح مسلم

صحیح بخاری

مسند احمد بن حنبل

مصنف عبدالرزاق

جامع ترمذی

سنن ابی داؤد

السنن الکبریٰ للبیھقی

الترغیب والترہیب

المستدرک علی الصحیحین

المعجم الصغیر للطبرانی

مشکوٰۃ المصابیح

تلخیص الحبیر

الھدایۃ

البحر الرائق

المبسوط للسرخسی

فتاوی شامی

بدائع الصنائع

فیض الکبیر

شرح المہذب

الاشباہ والنظائر

دقائق اولی النھی شرح المنتھی

التاج والوکیل لمختصر خلیل

کشف الغمی الجمیع الامۃ

 

 

 

 فہرست عنوانات

سوال

جواب

مرد اور عورت کی نماز میں فرق کی اصولی وبنیادی وجہ

عورت چھپانے اور پردہ کی چیز ہے

حدیث نمبر١۔

حدیث نمبر٢۔

حدیث نمبر٣۔

حدیث نمبر٤۔

جوعورت اپنی زینت نہ چھپائے اس کی نماز قبول نہیں

حدیث نمبر٥۔

فائدہ:

عورت سبحان اللہ نہ کہے بلکہ تصفیق کرے۔

حدیث نمبر٦۔

فائدہ

خلاصہ روایات

خواتین نماز میں قرب الٰہی کیسے حاصل کریں

کیونکہ

افلایتدبرون!

احادیث و آثار صحابہ واقوال تابعین سے مرد عورت کی نماز میں فرق پر دلائل

تکبیرتحریمہ کے لئے ہاتھ اٹھانے میں فرق پر دلائل

پہلی دلیل:

دوسری دلیل:

تیسری دلیل:

ہاتھ باندھنے ،رکوع اورسجدے میں فرق پر دلائل

چوتھی دلیل:

پانچویں دلیل:

چھٹی دلیل:

مرد کے سجدہ کرنے کی کیفیت و ہئیت

عورتوں کے سجدہ کرنے کی کیفیت و ہیئت

ساتویں دلیل:

آٹھویں دلیل

نویں دلیل:

دسویں دلیل:

گیارہویں دلیل:

بارہویں دلیل:

تیرھویں دلیل:

چودھویں دلیل:

پندرھویں دلیل:

مذکورہ روایات کا لب لباب

ثبوت حاضرہیں

جواب نمبر١:

جواب نمبر٢:

جواب نمبر٣:

جواب نمبر ٤

جواب نمبر ٥:

ائمہ اربعہ ومحدثین کی روشنی میں مرد اور عورت کی نماز میں فرق پر دلائل

فقہ حنفی

فقہ شافعی

فقہ حنبلی

فقہ مالکی

حدیث صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اصلی کا صحیح مفہوم

اولاً:

ثانیاً:

ثالثاً:

رابعاً:

خامساً:

کیا احادیث صحیحہ صحیحین تک محدود ہیں؟

خلاصہ مضمون

خواتین کی نماز پڑھنے کا مختصر مگر جامع طریقہ

وقت اختتام

مآخذ و مراجع

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post