حضرت ابوبکر صديق الأكبر ﷜دو سال چار ماہ تك منصب خلافت پر جلوه افروز رہنے كے بعد پير كے دن 63 سال كی عمر ميں 22 جمادی الثانی كو دنيا سے رخصت ہوئے۔آپ﷜ نبی کریم ﷺکے تربیت یافتہ تھے۔حضرت صدیق اکبر ﷜ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے شخص ہیں ۔حضرت ابوبکرصدیق ﷜ کے امت مسلمہ پربے شمار احسانات ہیں۔حضور اکرم کے اس فانی دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد جب یہ امت فتنوں اورآزمائشوں میں مبتلاہوگئی، تب مسلمانوں کی تاریخ کے اس نازک  موڑپر اکابرین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بھی موقع کی نزاکت کے اعتبار سے بروقت فیصلہ کرنے میں تامل وہچکچاہٹ کامظاہرہ کررہے تھے ۔اس وقت یہ آپ ہی کی ذات بالاصفات تھی جنہوں نے بہت ہی زریں اور سنہری فیصلے فرمائے ۔جنہیں پھول کی پتی کا قلم بنا کر ہیرے کے جگر پر آب زر سے لکھا جائے تو بھی ان کی قدر وقیمت کو بیان نہیں کیاجاسکتا ۔

بڑھایا اس  ادانے  مرتبہ  صدیق اکبر کا

کہ قرباں خدمت دین نبی پر مال و زر ہو

آپ ﷜نے ہمیشہ انسانوں سے محبت اور پیار کا درس دیا۔ آپ﷜ نے کبھی بھی بت پرستی نہیں کی آپ کفر و شرک کی نجاست سے ہمیشہ محفوظ رہے ۔ آپ﷜سیرت رسول عربیﷺ کا مکمل نمونہ تھے۔ آپ ﷜ اپنی قوم میں محبوب ترین شخص تھے عقل و فہم صحیح رائے حلم و بردباری میں آپ کا ایک منفرد مقام تھا۔آپ ﷜ کی  صداقت کے غیر مسلم بھی قائل ہیں۔وہ ایک سچے عاشق رسول تھے۔اسلام کیلئے ان کی قربانیاں لازوال ہیں۔آپ﷜ نے اسلام کی ابتداء سے اپنی وصال تک اسلام کی سربلندی کیلئے حضور کے ساتھ بھر پور ساتھ دیا۔ہمیشہ اپنی جان مال حضور کے قدموں میں قربان کرتے رہے۔ہجرت کے موقع پر آپ نے تمام صحابہ کرام میں سے صرف سیدنا صدیق اکبر کو ہی اپنا ہمسفر اور رفیق بنایا۔آپ کو اللہ رب العزت نے دنیا و آخرت میں اپنے  محبوب ترین پیغمبر کا رفیق بنایا۔ساری زندگی مشکل اور کٹھن حالات میں آپ نے اسلام اور مسلمانوں کی کھل کر مالی مدد کی۔آپ ہی حضور کے وصیت کے مطابق خلیفہ بنے۔ اورمختصرترین وقت میں آپ ﷜ نے بہت سے چیلنجز کا غیرت ایمانی کے ساتھ مقابلہ کیا اور انتہائی بصیرت کے ساتھ اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی کی اور حضور کی ختم نبوت پر حملہ کرنے والے جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف کا اعلان جنگ کرکے انہیں جہنم واصل کیا اور اس کے ساتھ ساتھ منکریں زکوۃ کے فتنے کا قلع قمع کیا۔

آپ ﷜ خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود بھی زندگی بھر  عيش وعشرت كے قريب نہ گئے ۔آپ﷜ زندگی مشعل راه،مینار ہدایت  اور قابل تقليد ہے۔ آج كے بگڑے دور ميں بے سكونی، اضطراب، معاشی واقتصادی مسائل كا واحد حل خلفاء الراشدين كی تقليد اور ان كے نظام حكومت كو اپنانے ميں مضمر ہے۔



آپ ﷜ کی اتباع کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ  جن میں حضور اکرم ﷺ خود صحابہ کو آپ کی اتباع کا حکم دے رہے ہیں، پیش خدمت ہیں:

قال رسول اللہﷺ : علیکم بسنّتی و سنّۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدی تمسکو ا بھا و عضوا علیھا بالنواجد ۔(سنن ابن ماجہ )

’’تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور سنتِ خلفاء راشدین سے تمسک رکھو اور انھیں مضبوطی سے تھامے رہو‘‘۔

اس سے ثابت ہوا کہ خلفاء راشدین کی ہمیں اتباع کرنا چاہئے ۔ ان کے بھی سرخیل حضرت ابوبکر صدیق ﷜ لہذا ان کے لئے یہ حدیث  زیادہ راجح ہے۔

 عن حذيفة، قال : کنّا جلوسا عند النّبيّ ﷺ فقال : ’’إنّي لا أدري ما بقائي فيکم، فاقتدوا بالّذين من بعدي‘‘ وأشار إلٰي أبي بکر و عمر(ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 610، ابواب المناقب، رقم : 3663)

حضرت حذیفہ﷜ سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’بیشک میں (اپنے آپ) نہیں جانتا کہ کتنی مدت تمہارے درمیان رہوں گا۔ پس تم میرے بعد اِن لوگوں کی پیروی کرنا‘‘۔ یہ ارشاد فرماتے ہوئے آپ ﷺنے حضرت ابوبکر ﷜اور حضرت عمر﷜کی طرف اشارہ فرمایا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post