قربانی کی گائے میں عقیقہ
کا حصہ ڈالنا
مفتی سید محمد منور شاہ
السواتی
کیا فرماتے ہیں علماء دین
بابت اس مسئلہ کے کہ کیا قربانی کی گائے میں عقیقہ کا حصہ ڈالا جا سکتا ہے یا
نہیں؟
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسؤلہ میں قربانی کے
لئے خریدی گئی گائے یا اونٹ میں عقیقہ یا کسی اور واجب نذر وغیرہ کا حصہ ملانا
جائز ہے اور اس سے قربانی میں کوئی اثر واقع نہ ہوگا کیونکہ دونوں کا مقصود اللہ
کی قربت کاحصول ہے۔ اس جانور میں جتنے حصے قربانی کے ہیں وہ قربانی کے اور جتنے عقیقہ کے
حصہ ہیں اتنے عقیقہ کے حصے ادا ہوجائیں گے ،قربانی کے ساتھ عقیقہ کرتے ہوئے قربانی کی گائے وغیرہ میں لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ
رکھ لے، یہ مستحب ہے۔
عالمگیری میں ہے:
ولو ارادوا القربۃ
الاضحیۃ او غیرھا من القرب اجزأھم سواء کانت القربۃ واجبۃ او تطوعا...... و کذالک
ان اراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولدلہ من قبلہ ۔
( الفتاویٰ الہندیہ، کتاب
الاضحیۃ،الباب الثامن فیما یتلق بالشرکۃ فی الضحایا،ج٥ ص٣٠٤، رشیدیہ)
(بڑے جانور میں شریک ) لوگوں
نے قربانی کی قربت کی نیت کی ہو یا قربانی کے علاوہ کسی اور قربت کی نیت ہو ، تو یہ
نیت کرنا ان کو کافی ہوجائے گا ۔ چاہے وہ قربتِ واجبہ ہو یا نفلی قربت ہو یا بعض پر
واجب ہو اور بعض پر واجب نہ ہو ، چاہے قربت کی جہت ایک ہی ہو یا مختلف ہو۔ اسی طرح اگر (جانور میں شریک ) لوگوں میں سے بعض نے اِس
سے پہلے پیدا ہونے والے بچے کے عقیقے کی نیت کی ( تو بھی جائز ہے ۔ )
علامہ ابن عابدین شامی
رقم طراز ہیں:
و شمل مالو کانت القربۃ
واجبۃ علی الکل او البعض اتفقت جہاتھا اولا..... وکذا لو اراد بعضھم العقیقۃ عن
ولد قدولدلہ من قبل لان ذالک جھۃ التقرب بشکر علی نعمۃ الولد۔
( رد المحتار، کتاب
الاضحیۃ، ص٤٧٢، ج٩، امدادیہ)
''وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل ؛ لأن ذلك جهة
التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد''۔(فتاوی شامی ۔6/ 326، کتاب
الاضحیۃ،)۔
واللہ اعلم بالصواب
Post a Comment