علامہ علاؤ الدین المنفی برھان پوری ۔متوفی ١٩٧٥ھ؁ نے اپنی کتاب ''کنز العمال''میں صلوۃ الاشراق کاباب قائم فرمایا ہے ۔اور اس باب تحت اس حدیث کو ذکر کیا ہے ۔
من صلی صلوۃ الفجر فی جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ تعالیٰ حتی تطلع الشمس ،ثم صلی رکعتین کانت لہ کاجر حجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ (کنز العمال رقم الحدیث ٢١٥٠٨)مطبوعہ ،بیروت)
جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی پھر بیٹھ کر طلوع آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتارہا پھر بعد طلوع آفتاب (تقریبًا بیس منٹ گزرنے پر )دورکعت نماز اشراق پڑھی اس کے لئے ایک حج اور ایک مکمل کامل اور مقام عمرہ کا ثواب ہے ۔
نیز اشراق کی فضیلت میں یہ حدیث بھی ہے ۔
عن معاذ بن انس الجھنی قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من قعد فی مصلاۃ حین ینصرف صلٰوۃ الصبح حتی یسبح رکعتی الضحی لا یقول اغفرلہ خطایا وان کانت اکثر من زبد البحر۔(مشکٰوۃ المصابیح ١١٦مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی )
حضرت معاذ بن انس جمعنی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نماز فجر پڑھنے کے بعد اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہا اور اس نے بھلائی کے سوا کوئی کام نہیں کیا حتی کہ اس نے طلوع آفتاب کے (بیس منٹ)بعد دورکعت نماز اشراق پڑھی تو اس کے سارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں ۔
ان احادیث کی روشنی میں نماز اشراق کے لئے مندرجہ ذیل امور ضروری ہیں ۔
١۔نماز فجر کی باجماعت ادائیگی ٢۔بعد نماز فجر مصلیٰ (جائے نماز)ہی پر بیٹھنا (یعنی جہاں نماز پڑھی تھی وہی بیٹھنا )٣۔طلوع آفتاب کے بعد تک اسی جگہ بیٹھےرہنا ۔٤۔دنیوی کلام سے بچے رہنا یعنی اس کا وقت )لوع آفتاب کے بیس منٹ بعد سے چوتھائی دن کے چڑھنے تک ہے ۔اور اشراق کی فضائل یہ ہیں ۔
(١)ایک حج کا ثواب (٢)ایک مکمل عمرہ کا ثواب (٣)اس کے لےفرشتوں کا دعا واستغفار کرتا ۔(٤)اس کے سارے گناہوں کا معاف ہوجانا اگر چہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔اور اگر کوئی شخص ان مذکورہ بالا امور کی پابندی نہیں کرتا ہے۔تو وہ اس اشراق کے ثواب کو حاصل نہیں کر سکتا اگر چہ اس کو نوافل اور اذکار کا ثواب ملے گا۔
(ج)طلوع آفتاب کے پانچ منٹ بعد یہ نماز پڑھنا کراہت کے ساتھ جائز ہے ۔عالمگیری میں ہے :۔والتطوع فی ہذہ الاوقات یجوز وکرہ فتاوی عالمگیری (ج١۔ص٥٢۔مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)
یعنی اوقات مکروہ میں نماز کراہت کیساتھ جائز ہے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post