بعثت نبوی ﷺ سے قبل کا ایک یہودی عرب شاعر۔جو فصاحت و بلاغت  میں بہت کمال رکھتا تھااور اپنے وقت کے مشہور شاعروں میں سے ایک تھا۔ وہ شمالی عرب میں ایک قلعہ کا مالک تھا۔ وہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کا شاعر  اور خیبر کا رہنے والاتھا۔ اس کا انتقال 560ء میں ہوا۔اس کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے  کہ امراؤ القيس شاعر نے السمو آل بن عادی کے پاس اپنے مرنے سے پہلے کچھ ہتھیار اور زرہیں امانت رکھوائیں۔ بادشاہ کندہ نے (جب اس کو شاعر کی موت کا علم ہوا) سمو آل بن عادی کے پاس پیغام  بھجوا یا کہ  امراؤ القيس کے ہتھیار اور زرہیں  میرے حوالے کردو۔ سمو آل بن عادی نے جواب دیا کہ میں اس امانت کو اسی کو دوں گا جو اس کا حق دار ہے اور ملک کندہ کو کچھ دینے  سے انکار کر دیا۔ ملک کندہ نے دوبارہ قاصد کو سموال کے پاس  بھیجا۔لیکن  سموال نے پھردوبارہ اس کو دینے سے انکار کر دیا اور کہلا بھیجا  کہ میں اپنے ذمہ کو نہیں توڑوں گا اورنہ میں اپنی امانت میں خیانت کروں گا اورکہا کہ اپنے عہد کی وفا مجھ پر واجب ہے؟اس عہد سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اس پر ملک کندہ  نے سمو آل پر اپنے لشکر سے چڑھائی کا ارادہ کر لیا۔ یہ خبرپاکر سموال بن عادی اپنے قلعہ میں چلا گیااور قلعہ کی وجہ سے ملک کندہ  سے محفوظ رہا۔ اس پر ملک کندہ  نے اس قلعہ کا محاصرہ کرلیا۔ سموال کا بیٹا قلعہ ے باہر رہ گیا تھا۔ ملک کندہ اس کے بیٹے  کوپکڑنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے لڑکے کو پکڑ کر قیدکر لیا۔ پھرسموال کی طرف پیغام  بھیجا کہ کہ میں نے تیرے  بیٹے کوقید کر لیا ہے اور دیکھ اگر تو مجھ کو وہ ہتھیار اور زرہیں جو امر القیس کی تیرے پاس  ہیں مجھ کو دے گا تو میں یہاں سے  چلا جاؤں گا اور تیرا بیٹا تیرے سپرد کر دوں گا اور اگر تو نے اس کے دینے سے انکار کیا تو میں تیرے بیٹے کو ذبح کر دوں گا اور تو یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے گا میں ان دونوں باتوں میں سے جو کہ تیرا دل چاہے اختیار کر لے۔ سمو آل نے کہا کہ میں تو اپنے عہد کو نہیں توڑوں گا اور نہ میں اپنی وفا کو باطل کروں گا  تیرا جو جی چاہے وہ کر لے ۔ ملک کندہ نے سمو آل کے بیٹے کو ذبح کر دیا۔ پھر جب ملک کندہ قلعہ کے محاصرے سے عاجز ہو گیا تو ناکام ہو کہ وہاں سے کوچ کر دیا اور سموآل نے اپنے بیٹے کے ذبیح کر دینے کو صبرورضا کے ساتھ برداشت کیا اور اپنے عہد کی وفا  میں کامیاب ہوا۔جب موسم حج آیا اور امرا ؤالقیس  کے ورثاء وہاں آئے  تواس نے  تمام ہتھیار اور زرہیں انہیں سونپ دیں۔

اس طرح  اس نے  اپنے عہد کی حفاظت  اوروفائے وعدہ کو اپنے بیٹے کی زندگی سے زیادہ محبوب جانا۔ اسی وجہ سے عرب میں وفا کی مثال سمو آل کے نام سے مشہور ہوگئی۔ اہل عرب جب وفاداری کی کہیں  تعریف کرتے ہیں تو سمو ال کا نام سب سے اول ذکر کرتے ہیں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post