حسد کا علاج

حسد کا علاج یہ ہے کہ حاسد اُن چیزوں کے انجام پر غور کرے جو حسد کا باعث بنتی ہیں، تا کہ اسے اِس چیز کا ادراک ہو جائے کہ اس کے محسود کو حسن و مال ودولت اور قوت ومنصب وغیرہ جیسی جو چیزیں بھی حاصل ہوئی ہیں وہ زوال پذیر اور فانی ہیں، ان کا فائدہ بہت کم او ران کو حاصل کرنے اور ان سے حاصل ہونے والی مشقت بہت زیادہ ہے۔

لیکن اگر حسد کا باعث اُخروی اُمور یعنی آخرت کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں ،تو پھرتوحسد سرے سے پیداہی نہیں ہو تا ہے۔ اور اگر ان امور سے حسد والی آگ کبھی بھڑکے بھی تو حاسد یا تو ریاکار ہے جو اپنی اُخروی نیکیاں دنیا میں ہی برباد کر رہا ہے ،یا پھر وہ اپنے محسود کو ریا کار سمجھ کر بر بنائے حسد اس پر ظلم کر رہا ہے۔

پھر حسد میں ایک اور شامت یہ بھی ہے کہ حاسد اپنے اس حسد کے ذریعے اللہ کی تقدیر پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنے مخالف پر اللہ کے فضل ورحمت کا نزول دیکھ کر غم میں مبتلا ہوتا ہے، اور اگر اس پر مصائب نازل ہوں تو خوشی سے بغلیں بجاتا ہے۔ یعنی ایسا لگتا ہے جیسے وہ تقدیرِ الٰہی پرتنقید اور اس کی وسیع رحمت پر اعتراض کر رہا ہو۔ اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ تقدیر کو نشانہ بنانے والے کی مثال تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی ہتھوڑے کے ساتھ ٹکرا رہا ہو۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی رحمت پر اعتراض کرے گا وہ اُ س سے لا محالہ محروم ہو جائے گا۔

کیا آپ اسے انصاف کی بات سمجھتے ہیں کہ محض ایک معمولی اور چھوٹی سی بات پر—جو کہ ایک دن کی دشمنی کے برابر بھی نہ ہو—ایک مومن آدمی کا سینہ اپنے مومن بھائی کے خلاف پورے ایک سال کے لیے کرودھ سے بھرا رہے؟ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ جو غلطی تمہارے بھائی سے صادر ہوئی ہے اسے صرف اسی کے سر نہیں مڑھنا چاہیے ؛اس لیے کہ:

اولاً: اس معاملے میں تقدیر الٰہی کابھی حصہ ہے، اس لیے آپ پر لازم ہے کہ تقدیر الہٰی کے اس حصے کو نکال کراس مقررہ حصے کو تسلیم ورضا کے ساتھ قبول کریں۔

ثانیاً: اس معاملے میں نفس اورشیطان کا بھی حصہ ہے ۔ اگر آپ اس حصے کو بھی نکال دیں تو پھر آپ کے سامنے اپنے اس بھائی کے لیے عداوت کی بجائے شفقت اور مہربانی کے جذبات ابھر آئیں گے؛ کیونکہ اس وقت آپ یہ بات سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بیچارا شیطان اور اپنے نفس کے ہاتھوں مغلوب ہے، اس لیے آپ اس کے بعد اُس کے اپنے کیے پر پشیمان ہونے اور دوبارہ راہِ راست پر آنے کا انتظار کرتے ہیں۔

 

ثالثاً: اس معاملے میں آپ بھی اپنی غلطیوں پر نظر رکھیں، آپ کی وہ غلطیاں جنھیں  آپ دیکھتے ہی نہیں یا دیکھنا چاہتے ہی نہیں۔ اس لیے سابقہ دو حصوں کے ساتھ ساتھ اگر آپ اپنی اس عادت کا حصہ نکال دیں تو آپ دیکھیں گے کہ اب جو حصہ باقی بچا ہے وہ اتنا معمولی ہے کہ اس کا سامنا آپ اپنی عالی حوصلگی اور بلند ہمتی یعنی عفو ودرگزری کے ساتھ کر کے کسی پر ظلم ڈھانے یا اُس کودکھ پہنچانے سے بچ سکتے ہیں۔

لیکن اگر آپ نے اس کی طرف سے سرزد ہونے والی غلطی کے مقابلے میں دائمی کینہ اور ختم نہ ہونے والی عداوت کی روش اختیار کی اور اس معاملے میں صرف اپنے دنیاوی مفاد کو سامنے رکھا—گویا کہ آپ کو اس دنیا میں ہمیشہ بیٹھ رہنا ہے—تو پھر تو لا محالہ آپ ''ظَلُوْمًا جَہُوْلَا''والی صفت پر پورے اتریں گے، اور اس طرح آپ اُس دیوانے یہودی کے مشابہ ہوں گے جس نے شیشے کے معمولی ٹکڑوں اور لمحوں میں ختم ہو جانے والے برف کے بلوریں گالوں کو ہیرے سمجھ کر زرِ کثیر صرف کر کے خرید لیا۔

ہم نے آپ کے سامنے ان نقصانات کو تفصیل سے بیان کر دیا ہے جو انسان کی شخصی زندگی میں نفرت اور دشمنی کے سبب سے جنم لیتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اپنی ذات کے ساتھ پیار ہے تو کوئی ایسا دریچہ کھلا نہ رکھنا جس سے یہ عداوت اور انتقام کی سوچ تمہارے دل میں داخل ہو سکے۔ اور اگر یہ تمہارے دل میں داخل ہو کر جگہ بنا چکی ہے تو پھر اس کی آواز پر کبھی کان نہ لگانا بلکہ اس کی بجائے حافظ شیرازیؒ کی بات پر کان دھرنا،حافظ شیرازیؒ جو حقیقت تک رسائی کر جانے والی بصیرت کا مالک ہے۔ وہ کہتا ہے:

دنیا نہ متاعیستی کہ ارزد بہ نزاعی

   یعنی یہ پوری دنیا کوئی ایسی متاع نہیں کہ جس کے لیے کھینچا تانی کرتے رہیں۔

{ تلاش بسیار کے بعد یہ مصرعہ دیوانِ جامی سے ملا ۔ مکمل شعر اس طرح ہے :

   دنیا نہ متاعیست کہ ارزد بہ نزاعیبا خصم مدارہ کُن و بادوست مواسا

   دیکھیں دیوانِ عبدالرحمن جامی ،۱۹۱؍۱۔مقدمہ و تصحیح اعلا خان افصح زاد۔ مطبوعہ تہران۔( مترجم) {

   تو اگر اتنی بڑی دنیا اپنے تمام مال ومتاع سمیت اتنی بے قیمت ہے تو پھر اس کے ایک چھوٹے سے جزوی حصے کی کیا حیثیت ہوگی؟ حافظ ہی کا ایک اور قول سنیں:

   آسائشِ دوگیتی تفسیرِ ایں دو حرفست

   با دوستاں مروّت بادشمناں مدارا

   یعنی دو جہانوں میں راحت اور سلامتی کے حصول کے راز کی وضاحت یہ دو کلمے کرتے ہیں:

   ۱۔ دوستوں کے ساتھ مروت اور انسانیت کا برتاؤ۔

   ۲۔ اور دشمنوں کے ساتھ صلح کارانہ معاملہ۔

   سوال: اگر تم کہوکہ یہ بات میرے بس میں نہیں ہے؛ کیونکہ نفرت میری فطرت میں رچ بس گئی ہے اور میری ہستی میں گھر کر گئی ہے۔ اس لیے حافظ والے اس اصول پر چلنا میرے اختیار سے باہر ہے، اور خاص کر اس وقت جب کہ لوگوں نے میرے جذبات مجروح کیے ہوں اور مجھے تکلیفیں پہنچائی ہوں۔ ایسی صورت ِحال میں میں انہیں کبھی معاف نہیں کر سکتا ہوں۔

   جواب:تو میں جواباً کہوں گا کہ بداخلاقی کے اثرات جب جاری نہ رہیں، اور اس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے اور ایسے آدمی کو اپنی کمی کوتاہی کا شعور ہو جائے تو کوئی پریشانی والی بات نہیں اور اس سے کوئی بہت بڑا نقصان بھی ظہور میں نہیں آتا ہے،جیسے مثال کے طور پر غیبت ہے۔ تو جب تک آپ اس معاملے میں بے اختیار ہیں اور ان نفرت اور دشمنی کے جذبات سے گلو خلاصی نہیں کرا سکتے تو آپ کو اس بات کا شعور ہو جاتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں جو اِس عادت کو اپنائے ہوئے ہوں۔ اور آپ کو اس بات کا ادراک ہو جائے کہ میں اس معاملے میں حق پر نہیں ہوں۔ تو یہ دو چیزیں آپ کو اس نفرت کے نقصان سے بچالیں گی جو آپ کے دل میں گھر کیے بیٹھی ہیں؛ کیونکہ یہ روش معنوی پشیمانی، مخفی توبہ اور ضمنی استغفار کی شکل ہوگی۔ اور ہم نے یہ مبحث قلمبند کیا ہی اس لیے ہے تا کہ اس کے دامن میں معنوی استغفار بھی سمٹ آئے اور اس طرح ایک مردِ مومن پر حق اور باطل گڈمڈنہ ہوسکے۔ اوروہ اپنے اس مدّمقابل پر—جو حق پر ہے— ظالم ہونے کا الزام نہ لگاپائے۔

 ایک قابل توجہ واقعہ 

   ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک آدمی جو بظاہر عالم فاضل لگ رہا تھا، محض سیاسی نقطۂ نظر میں اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے عالم دین کی اس قدر مذمت کر رہا تھا کہ اسے کافر بنانے تک پہنچ گیا تھا۔ جبکہ میں نے اسی اثنا میں اسے ایک ایسے منافق کی تعریف کرتے ہوئے پایا جو سیاسی میدان میں اس کا ہمنوا تھا۔ میں سیاست کے ان برے اثرات سے لرزہ براندام ہو کر رہ گیاکہ سیاست اس بری حالت تک پہنچ گئی ہے !میں نے اس سے اللہ کی پناہ مانگی اور کہا : ''اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ وَالسِّیَاسَۃِ''    ،میں شیطان اور سیاست سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں اسی دن سے سیاسی زندگی کے میدان سے باہر آگیا۔

 تحریر : طالب نور

رسائل نور میں سے ماخوذ (بائیسواں مکتوب)

بشکریہ علامہ حبیب الرحمن علیمی


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post