اسلام کا فلسفہ عبادت

ڈاکٹر محمد فضل الرحمن الانصاری القادری

(بانی،صدر، ورلڈ فیڈ ریشن آف اسلامک مشنز)

ادیان عالم کے مابین اسلام کا تصور عبادت ایک بے نظیر تصور ہے۔ اس تصور کی تعبیر کے لیے اسلام نے جس لفظ کو منتخب کیا ہے وہ عبادت کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں اطاعت و سپردگی جبکہ انگریزی زبان کا لفظ (worship) بمعنی احترام و عقیدت کے آتا ہے۔ عبادت کے لفظ میں عبدیت یعنی بندگی اور غلامی کا مطلب پوشیدہ ہے چنانچہ عبادت اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ عز جل کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔ بالفاظ دیگر عابد کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ کلیۃً اپنی ذات کی نفی کرتا ہے اور ذات باری تعالیٰ کی بالا دستی اور اس کے اختیار مطلق کا اقرار و اثبات کرتا ہے۔ دیگر ادیان کا تصور یہ ہے کہ عبادت زندگی کا صرف ایک پہلو ہے۔ جبکہ اسلام کا تصور عبادت ساری زندگی پر زندگی کے ایک ایک پہلو پر حاوی و ساری ہے۔ اس اعتبار سے دیگر مذاہب ثنویت (دوئی) کے قائل ہیں۔ وہ زندگی کو رحمٰن اور شیطان کے درمیان دو مساوی حصوں میں تقسیم کر کے انسان کی عملی زندگی کو دو متضاد شعبوں میں محصور کر دیتے ہیں۔ جن میں سے ایک پر مذہب اور ایک دوسرے پر لامذہبیت کی مہر لگی ہوتی ہے۔ مسیحیت مثلاً اس اصول کی حامی ہے کہ سیزر کا حق سیزر کو اور خدا کا حق خدا کو اسی طرح ہندومت، جین مت، بدھ مت اور فلسفہ زرتشت کی بنیاد روح اور مادہ کی لامتناہی کشمکش اور ان کے تقاضوں کے تصور پر رکھی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحیت ہی کی طرح ان مذہب کی عبادات بھی محض چند عقیدت کیشا نہ مراسم پر مشتمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بجز اسلام کے جملہ ادیان کی بنیادہی فلسفہ ثنویت (دوئی ) پر ہے ان کے نزدیک جملہ  دینوی علائق قابل نفرین و احتر از ہیں اور اس اعتبار سے وہ دائرہ مذہبیت سے خارج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مذاہب کا تصور عبادت صرف ایک جزوی حیثیت رکھتا ہے اور چند مخصوص اعمال و مراسم کا آئینہ دار ہے۔ اس کے برعکس اسلام ثنویت کی نفی اور توحید کا اثبات کرتا ہے۔ اسلام کے نزد یک زندگی ایک منظم وحدیت ہے۔ کارخانہ عالم کا تضاد جو ثنویت کی طرف اشارہ کرتا ہے محض سطحی اور ظاہری ہے۔ جبکہ بنیادی حقیقت تو حید اور صرف تو حید ہے۔ جو تشریح و تجزیہ کے بعد بھی اپنی جگہ برقرار رہتی ہے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات خیر محض ہے اور اس کے جملہ افعال ہمیشہ خیر محض ہیں اور اس کے جملہ افعال ہمیشہ خیر پر مبنی ہوتے ہیں خواہ ان کا تعلق روح سے ہو یا مادہ سے ۔ کائنات فعل خدا وندی کی مظہر ہے۔ اس کی تخلیق کردہ ہے ، چنانچہ یہ کائنات لازمی طور پر خیر اور مظہر خیر ہے۔ دیگر مذاہب عالم کے تصور میں دنیا مظہر شر ہے۔ چنانچہ ان کا اعتقاد ہے کہ نجات اخروی کا انحصار دنیا اور علائق دنیوی سے گریز اور کنارہ کشی پر ہے۔ اسلام اس کے برعکس مادی وسائل سے پوری طرح متمتع ہونے اور معاشرتی زندگی میں بھر پور حصہ لینے کی تعلیم دیتا ہے اسلامی تعلیمات اور عقائد کی روشنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی کسی بھی شے کو حقیر جاننا اور اس کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام نہ لینا خود اس کی ذات پاک کی توہین کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں ہم میں ودیعت فرمائی ہیں ان کی حسب ذیل پانچ قسمیں ہیں:

1.     مادی

2.     ذہنی

3.     اخلاقی

4.     جمالیاتی

5.     روحانی

اسلام کا یہ تقاضا ہے کہ انسان حیات دنیوی میں ان جملہ صلاحیتوں سے پوری طرح فائدہ حاصل کر کے اور زندگی کے ان تمام شعبوں میں جو ان صلاحیتوں سے متعلق ہے پوری طرح سرگرم عمل رہے ۔ یہ اس لیے کہ اسلام حیات دنیوی کو بطور لازمی شر کے تسلیم نہیں کرتا۔ یہ صرف اسی طرح شر میں تبدیل ہو سکتی ہے کہ انسان زندگی برائے زندگی کا قائل ہو جائے۔ یا بالفاظ دیگر ہوائے نفس کی اندھا دھند پیروی میں منہک ہو جائے لیکن اگر وہ احکام خداوندی کی اطاعت کرتا ہوا دائرہ شریعت کے اندر رہ کر زندگی گزارتا ہے تو اس کا ہر دنیوی کام یا مشغلہ ایک عبادت ہے۔ عبادت کے اس ہمہ گیر پہلو بہ پہلو جو ساری زندگی پر حاوی ہے اسلام نے زندگی کے چند خاص اوضاع وارکان بھی بتائے  ہیں جو انسانی زندگی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس نوع کی عبادتوں کی تین قسمیں ہیں:

1.     فرض نمازیں

2.     روزه

3.     حج بیت اللہ

زکوۃ کا شمار عبادات ہی میں ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک مالی قربانی جواللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب مقررہ اوقات میں ایک متعین شرح کے مطابق ادا کی جاتی ہے ۔ اتنا فرق البتہ ضرور ہے کہ یہ نماز ، روزہ اور حج کے برعکس ظاہری ارکان سے خالی ہے اور اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ظاہری ارکان صرف نماز اور حج ہی میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بتا دینا کہ فقہا نے نکاح کو بھی اسی نوع کی عبادات میں شامل کیا ہے، دلچسپی سے خالی نہ ہو گا لیکن ہم فی الحال اس موضوع سے تعرض نہیں کریں گے۔ اب ہم ان عبادات، یعنی نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج کے عقلی اور منطقی پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔

نماز

اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر رکھی گئی ہے جن میں سے ایک کا تعلق عقیدے سے ہے اور بقیہ چار کا تعلق اعمال و ارکان سے مؤخر الذکر چار ستونوں یا اصولوں میں سے اہم ترین نماز ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر نماز کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ازمنہ قدیمہ سے انسان اس حقیقت کو تسلیم کرتا چلا آیا ہے کہ اس کا وجود جسم، دماغ اور روح سے مرکب ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی شخصیت عروج وارتقاء کی متقاضی ہے نہ صرف انسان کی شخصیت بلکہ ہر جسم نامی کا مائل بہ ارتقاء ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ جہاں تک جسم انسانی کے ارتقاء کا تعلق ہے ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ایک ذی حیات جرثومہ کی حیثیت سے پہلی مرتبہ وجود پاتا ہے۔ ایک بے حقیقت ذرہ جو صرف خوردبینوں ہی کہ وساطت سے دیکھا جا سکتا ہے یہی نقطہ حیات بتدریج ترقی کرتا ہوا جنین کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر یہی ارتقائی مراحل طے کرتا ہوا ایک کامل انسان کے وجود کی شکل میں منصہ شہود پر رونما ہوتا ہے اور یہیں سے انسانی زندگی میں اس کے انفرادی کردار کا آغاز ہوتا ہے ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب ایک فردانسانی شکم مادر سے تولد ہوتا ہے اور پہلی مرتبہ عالم خارجی میں قدم رکھتا ہے تو گر چہ شکل و شباہت ،اعضا و جوارح میں بظاہر مکمل ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اس کو ترقی کی اور کئی منزلیں طے کرنی ہوتی ہیں۔ ایک مدت معینہ تک اس کو رات دن ترقی کرنی ہوتی ہے تا وقتیکہ اس کا مادی وجود پختگی کی منزل تک نہ پہنچ جائے مگر مادی ارتقا کی یہی آخری منزل نہیں ہے کیونکہ گاما بننے کے لیے اس کو  کئی منزلیں طے کرنی پڑیں گے۔ جس طرح جسم انسانی کے لیے ارتقائی منازل متعین ہیں اسی طرح اس کے شعور کی ارتقائی منازل بھی معین ہیں

اور یہ تین ہیں:

1.     جبلی

2.     منطقی یا استدلالی اور

3.     وجدانی

علاوه از مین انسانی شعور پانچ واضح قسموں میں منقسم ہے:

1.     مادی شعور

2.     نظریاتی شعور

3.     اخلاقی شعور

4.     جمالیاتی شعور

5.     روحانی شعور ( وجدان )

جب بچہ تولد ہوتا ہے تو اس کا منطقی اور وجدانی شعور حالت خواب میں ہوتا ہے حتی کہ جبلتیں بھی پوری کی پوری بیدار نہیں ہوتیں صرف ایک جبلی خاصہ جو اس پہلے لمحے میں پایا جاتا ہے جو ذائقہ کا احساس ہے۔ پیدائش کے ایک یا دو دن بعد آنکھیں تو کھل جاتی ہیں لیکن قوت بینائی محض واجبی سی ہوتی ہے۔ ابھی وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ مختلف اشیاء کے درمیان تمیز کر سکے اسی طرح تدریجی طور پر دگر حواس بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔ جب حواس میں ایک خاص حد تک پختگی پیدا ہو جاتی ہے تو قوت استدلال بھی بتدریج ابھر نے لگتی ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب بچہ بولنے اور سوال کرنے لگتا ہے۔ پھر تعلیم کی منزل شروع ہوتی ہے جو اس کے قواعد ذہنیہ کی ترقی میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے اس منزل کے ایک خاص حد تک طے کر لینے کے بعد اخلاقی شعور بتدریج ابھر نے لگتا ہے مرور زمانہ کے ساتھ اس شعور میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ شعور آگے چل کر جمالیاتی اور وجدانی شعور سے متصل ہو جاتا ہے۔ اب یہ حقیقت واضح ہو چکی ہوگی کہ نا صرف جسم انسانی ہی ترقی کی منازل طے کرتا ہوا ایک ذی حیات جرثو مہ سے ایک بھر پور انسانی شخصیت " مبدل ہو جاتا ہے بلکہ انسانی شعور بھی بتدریج ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ جس طرح جسم انسانی مسلسل تغذیہ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اسی طرح انسانی دماغ اور انسانی روح بھی اپنی ترقی کے لیے مسلسل تغذیہ کی محتاج ہے۔ ہم جسم مادی کے لیے مادی غذا فراہم کرتے ہیں۔ دماغ کے لیے افکار یعنی دماغی غذا کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ روح کے لیے روحانی غذا فراہم کی جائے جسم انسانی کی تقویت اور تغذیہ کے چند خاص حکیمانہ اصول منضبط کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح ذہن انسانی کی تقویت اور تغذیہ کے بھی چند حکیمانہ اصول پائے جاتے ہیں۔ تو پھر روح کے ساتھ ہمارا کیا رویہ ہونا چاہیئے ؟ اس سوال کا ایک ہی فطری اور معقول جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح ہم جسم کے لیے مختلف قسم کی غذا ئیں فراہم کرتے ہیں اور جس طرح یہ ہمارا فرض ہے کہ روح کے لیے بھی مسلسل روحانی غذا مہیا کریں۔ ہم نے اس سے قبل بھی اس جانب اشارہ کیا تھا کہ جسم کے لیے مادی غذا اور دماغ کے لیے ذہنی غذا کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ روح کی غذا بھی روحانی نوعیت کی ہونی چاہیئے۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ روح کی غذا اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کا ذکر ہے۔ جس کو مناجات کی شکل میں ہونا چاہیئے اور انہیں اصول وضوابط کے ساتھ جو ہم مادی اور ذہنی غذا کے سلسلے میں ملحوظ رکھتے ہیں۔ مادی غذا کے سلسلے میں چند ابتدائی شرائط یہ ہیں کہ اس کے لیے پہلے خود کو آمادہ کیا جائے اور پھر پوری توجہ کے ساتھ استعمال کیا جائے اور اسی طرح ذہنی غذا کے لیے بھی یہ ابتدائی اور بنیادی شرط ہے کہ اس کے لیے خود کو تیار کیا جائے اور پھر پورے انہماک اور توجہ کے ساتھ اس کو استعمال کیا جائے ۔ اس کی طرح روحانی غذا کے استعمال سے قبل چند بنیادی شرطوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اسلام ہمیں وضو، نیت کے استحضار اور توجہ الی اللہ کی تعلیم دیتا ہے۔ مادی غذا سے متعلق دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اپنی نوعیت میں صحت بخش ہو اور یہی شرط ذہنی غذا کے متعلق بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ روحانی غذا کی دوسری بنیادہ شرط ذہنی بھی یہی ہے کہ وہ حقیقی معنی میں صحت بخش ہو یعنی ذکر اور یاد ایک اور واحد خدا کی ہو نہ کہ خود ساختہ جھوٹے خداؤوں کی۔ اس طرح اسلام نے پورے شدومد کے ساتھ شرک کا بطلان کر دیا اور صرف ایک خدائے واحد کو جس کو قرآن مجید نے اللہ کے اسم ذات سے یاد کیا ہے مستحق عبادت قرار دیا ہے۔ مادی غذا کے متعلق تیسری بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کو دن اور رات کے اوقات میں با قاعدہ وقفوں کے ساتھ استعمال کیا جائے ۔ کیونکہ اس کے بغیر نظام جسمانی کا ترقی کرنا ممکن نہیں اسی طرح ذہنی غذا کے استعمال میں بھی مناسب اوقات اور وقفوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ نظام تعلیم کا متظم اور مستقل رہنا ذ ہن کی صحت مندانہ ترقی کے لیے لازمی ہے۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ روحانی غذا کے استعمال میں بھی تسلسل اور مناسب وقفوں کی پاسداری کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلے کی تیسری بنیادی شرط ہے۔ چنانچہ اسلام میں دن اور رات کے مختلف اوقات میں وقفہ وقفہ سے نماز کو جو فرض کیا ہے وہ متقاضائے فطرت کے عین مطابق ہے پہلی نماز سورج کے طلوع اس کی ہونے سے کچھ قبل ادا کی جاتی ہے اور یہ وہ وقت ہے جب کہ انسان اپنی روزمرہ کی اہم ترین مصروفیتوں کے لیے خود کو تیار کر رہا ہوتا ہے۔ یہ نماز نماز فجر، ایک روحانی ناشتہ ہے جو مادی ناشتے سے کچھ قبل استعمال کیا جاتا ہے۔ دوپہر میں جب ہمارے قواہ تھک جاتے تو انہیں از سرنو طاقت و توانائی سے بھرنے کے لیے مادی غذا کی ضرورت ہوتی ہے یہی وہ وقت ہے جبکہ ہمیں روحانی غذا کی دوبارہ حاجت ہوتی ہے۔ جس کو اسلام نماز ظہر کی شکل میں تجویز کرتا ہے ۔ چند ہی گھنٹوں بعد ہمیں پھر سے چائے یا بسکٹوں کی حاجت ہوتی ہے اور اسلام یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس وقت کچھ روحانی غذا بھی استعمال کی جائے اور وہ نماز عصر ہے۔ پھر جب سورج غروب ہو جاتا ہے اور رات چھا جاتی تو وقت ایک نئی کروٹ بدلتا ہے اور انسان کو رات کے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے تو روح بھی اپنی غذا کی طالب ہوتی ہے اور وہ نماز مغرب ہے۔ اور جب استراحت کا وقت ہوتا ہے اور صحت مند لوگ کسی مقوی مشروب کے طالب ہوتے ہیں تو یہی وقت ہے جبکہ روح بھی کسی مقوی مشروب کی حاجت مند ہوتی ہے۔ اور وہ غذا نماز عشاء ہے جس کے بعد ہم روحانی کیف و سرور کو لیے ہوئے اپنے بستروں پر نیند سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔

روزه

جسم انسانی کے متعلق ہم یہ جانتے ہیں کہ اس کو نہ صرف یہ کے غذا کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ جب کبھی وہ اپنا صحیح توازن کھو بیٹھے یا جسمانی اعمال میں سے کسی عمل میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو وہ طبی معالجہ ماہ رمضان کے فرض روزے اور دیگر اوقات کے نفل روزے ہیں ۔ گو روزه خصوصی طور پر روحانی امراض کا علاج ہے لیکن عوارض و نقائص کے لیے بھی یہ ایک تیر بہدف نسخہ ثابت ہوتا ہے۔ حتی کہ بعض اوقات انتہائی خطرناک امراض بھی مخصوص طریقوں پر روزہ رکھنے سے دور ہو جاتے ہیں اور کسی بیرونی دوا کی ضرورت نہیں رہتی ۔انسائیکلو پیڈیا آف فزیکل ٹیچر، برناڈ مک فدن(

حیات انسانی کے روحانی پہلو پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بدترین دشمن وہی ہیں جو اس کی ذات کے اندر پوشیدہ ہیں۔ مثلا حرص، شہوانی جذبات اور خواہشات نفسانی جنہیں اسلام نفس امارہ سے تعبیر کرتا ہے۔ خواہشات نفسانی میں ملوث ہو کر انسانی خود اپنے ہی جسمانی وجود کے ساتھ بے اعتدالی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور یہی کیفیت اس کے ذہنی اور روحانی وجود کے ساتھ ہوتی ہے۔ انہیں خواہشات کی پیروی میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی و نا انصافی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ یہی وہ سفلی جذبات ہیں جن کے تحت انسان روحانی اقدار کا انکار کرتا ہے۔ حتی کہ خود اپنے خالق کو بھلا بیٹھتا ہے۔ نفس امارہ کو قابو میں رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی نفسیاتی اور روحانی تدابیر اختیار کی جائیں کہ وہ مغلوب و مقہور ہو جائے اور عقل کی رہنمائی کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ وہ انسان جس کی زندگی نفس امارہ کی تابع ہو جائے ، حیوان سے بدتر ہے اور اس کے مقابلہ میں وہ جس کی زندگی عقل کے تابع ہو صحیح معنوں میں انسان کہلانے کا مستحق ہے اور وہ جس کی زندگی روحانی اقدار وانوار کی حامل ہو اور خدائے واحد و برحق کی محبت اور اطاعت کے جذبہ سے سرشار ہودہ نکھرا ہوا خالص سونا ہے۔ کیونکہ اس کی شخصیت فرشتوں سے بلند تر ہوتی ہے۔ یہی وہ منزل ہے جو اسلام ہر مسلمان کے لیے متعین کرتا ہے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے اس نے فرض اورنفل روزوں کو تجویز کیا ہے۔

زكوة

اسلام کا ایک اور ستون زکوٰۃ ہے جس کا مقام اپنی اہمیت کے اعتبار سے نماز کے فوراً ہی بعد آتا ہے۔ نماز تو ایک ایسا فرض ہے جس کا تعلق بالر است عبد ورب سے ہے۔ جبکہ زکوۃ کا تعلق اس سے کچھ آگے بڑھ کر معاشرے کے ساتھ بھی قائم ہے۔ آنحضورﷺ نے زکوۃ کے نظام کی تشریح  اس طرح فرمائی ہے کہ دولتمندوں سے وصول کی جائے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا مذہبی ٹیکس ہے جو ان لوگوں سے لیا جاتا ہے جو اپنی بنیادی ضرورتوں سے زیادہ مال رکھتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی مدد کی جائے جن کی آمدنی ان کی بنیادی ضرورتوں کے لیے بھی کافی نہیں ہوتی ۔ ایک دینی فریضہ ہونے کے ساتھ زکوۃ ایک باقاعدہ معاشرتی نظام بھی ہے۔ بنیادی طور پر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ زکوۃ کو وصول کرے اور بیت المال (اسٹیٹ بینک) کے معاشرتی فلاح کے شعبہ میں جمع رکھے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دے اور اس فریضہ کی تکمیل کے لیے وہ نظام زکوۃ کو بروئے کار لائے ۔ چنانچہ قرآن مجید

میں ارشاد ہوتا ہے:

(مفہوم) تحقیق کہ زکوۃ ان لوگوں کے لیے جو کسی طرح کی ملکیت نہیں رکھتے یا اگر کچھ رکھتے بھی ہوں تو وہ ان کی بنیادی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہوتی اور ان کے لیے بھی جو ز کوۃ وصول کرتے ہیں یا تالیف قلب کے محتاج ہیں یا (مکاتیب ) غلام (جن کی آزادی مال کی ادائیگی پر موقوف ہو ) یا مقروض ( دیوالیہ ) یا اسلام کی حمایت کے لیے اور مسافروں کے لیے (سورہ توبہ)

 کچھ ہی مدت قبل کی بات ہے کہ چند مغربی ممالک نے معاشرتی فلاح کی ضمانت ( Social Insurance) کے نام سے ایک نئے ٹیکس کا اجراء کیا جس کو معاشرتی فلاح کی تاریخ میں ایک انقلابی اقدام کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اسلام ہی ہے جس نے تاریخ عالم میں پہلی مرتبہ معاشرتی فلاح کا نظام پیش کیا اور اس کی ضمانت دی۔ آنحضورﷺ نے اس نظام کی ابتداء کی اور اس کو معاشرہ پر جاری وساری فرمایا اور مسلمانوں کے اقتصادی نظام کی ترقی کے ساتھ ساتھ نظام زکوۃ بھی بتدریج مستحکم ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں زکوۃ کا نظام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم ہو گیا۔ رعایا کے حالات سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دیوان مرتب فرمایا تھا جس میں ہر طرح کے اعداد و شمار شامل تھے۔ اس سے یہ سہولت ہوئی تھی کہ رعایا کے ہر فرد کے جملہ حالات کا پتا چل جاتا تھا اور جس شخص کے متعلق یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ امداد کا مستحق ہے اس کی پوری پوری مدد کی جاتی تھی۔ ایسے لوگ جو اپنی روزی کمانے کے قابل نہ ہوتے تھے، مثلاً بوڑھے، اپاہج، یتیم ، بیوائیں وغیرہ بیت المال سے وظائف پاتے تھے۔ وہ جو کسی پیشہ کے ذریعے اپنی روزی پیدا کر سکتے تھے لیکن آلات و اسباب کے نہ ہونے کی وجہ سے مجبور ہوتے تھے انہیں آلات و اسباب کی فراہمی کے لیے مالی مدد دی جاتی تھی۔ ان اصلاحات کا یہ اثر ہوا کہ طلوع اسلام کے بعد سے تیس  سال تک کی مدت میں یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت تک اسلامی حکومت کے اندر کوئی ایسا خاندان باقی نہیں رہا جو ز کوۃ کو قبول کر سکتا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر مسلمان صاحب استطاعت اور صاحب نصاب تھا۔

حج بیت الله

 حج بیت اللہ بھی اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ستون ہے اور اس حیثیت سے فرائض دینیہ کے مابین اس کا ایک اہم مقام ہے۔ حج کی روحانی اور معاشرتی برکات میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:

ا۔ یہ ایک حقیقت ہے مسلمان کو اپنے ہر فعل و عمل میں خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو ، خدا شناسی کا ثبوت دینا چاہئے ۔ اسی اعلیٰ و ارفع شعور کے بیدار کرنے کی خاطر اسلام نے نماز، روزہ اور زکوۃ جیسی عبادات کو فرض قرار دیا ہے۔ حج بیت اللہ میں یہ شعور اپنی انتہائی بلندی پر ہوتا ہے کیونکہ حج میں نہ صرف یہ کہ حاجی کو سفر حج کے دوران حج میں اپنے معمولات ومشاغل کو خیر باد کہنا پڑتا ہے بلکہ زندگی کی اور کئی آسائشوں سے پر ہیز کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح زندگی کے معمولات سے منقطع ہو کر وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد ہے۔ حج کے عظیم اجتماع میں ہر فرداسی بلند مقصد کے لئے شامل ہوتا ہے۔ وہ ان تمام لذائذ اور خواہشات نفسانی سے کچھ مدت کے لئے دست بردار ہو جاتا ہے جو روحانی کیفیات کی راہ میں ایک رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔ ایک بن سلے لباس میں ملبوس ہونا، ہر برے خیال پُرفحش گفتگو سے احتراز کرنا اور ہر طرح کے جھگڑے سے بچنا اور ہر رکن جو وہ بجالاتا ہے اس کا صرف ایک ہی منتہائے مقصود ہوتا ہے اور وہ ہے جذبہ حُب خداوندی سے سرشاری و سرمستی۔ یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے اور اسی جذبے کے تحت وہ پروانہ وار خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہے۔

 ۲۔ دنیا کے دیگر نظاموں کے مقابلہ میں حج کا نظام اس حیثیت سے بھی ممتاز و منفرد ہے کہ حج رنگ ونسل اور مرتبہ اور منصب کے باطل امتیازات کو ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ حج کے دوران نہ صرف یہ کہ مختلف نسلوں اور ملکوں کے لوگ حرم کعبہ میں ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح یکجا ہوتے ہیں بلکہ وہ لباس بھی ایک ہی طرح کا پہنے ہوئے ہوتے ہیں۔ سفید کپڑے کی دو بن سلی ہوئی چادر میں اور بس۔ اور پھر بلندی و پستی کے سارے امتیازات حرف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔

(پیام سحر، جلد نمبر ۲ ، جون جولائی ۱۹۷۵ء شمارہ نمبر ۶ ۷ ص: ۲۷ تا ۳۱)

 


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post