دینی تعلیم ایک تاریخی جائزہ

اور الجامعة العليمية الاسلامیة کی صورت میں ایک تاریخی اقدام

از مولانا محمد فضل الرحمن انصاری القادری

صدر المركز الاسلامی و عالمی جمعیت تبلیغ اسلام

دنیا میں مختلف ملّتیں مختلف بنیادوں پر تشکیل پاتی رہی ہیں۔ بعض ملّتیں وہ ہیں جن کی اساس جغرافیائی حدود ہیں ۔ بعض وہ ہیں جن کی اساس نسل و رنگ ہے بعض وہ ہیں جن کی اساس  مشتر کہ زبان ہے لیکن جغرافیائی حدود ہوں یا رنگ و نسل یا مشترکہ  زبان ، یہ سب مادی تصورات ہیں ۔ ان کے مقابلہ میں اسلام نے جو تصور پیش کیا ہے وہ نظریاتی ملت (Ideological Community) کا ہے۔ چنانچہ ملّت اسلامیہ کی اساس مخصوص معتقدات اور ان سے متعلق ایک مخصوص ضابطہ حیات ہے یہ معتقدات اصلاً روحانی ہیں اس لئے ملّت اسلامیہ کی زندگی کے تمام شعبے ، انفرادی اور اجتماعی ، اخلاقی اور معاشرتی، معاشی اور سیاسی ، سب کے سب روحانی ستونوں پر بلند ہوتے ہیں۔

ملّت کی روح دین اسلام ہے جو معتقدات بھی دیتا ہے اور اخلاق و تہذیب، تمدن کا ایک مکمل اور جامع ضابطہ بھی۔ اسلام ہی ملت کی فلاح دنیا کا ضامن ہے اور اسلام ہی افراد ملّت کی اُخروی فلاح کا کفیل ۔ مذکورہ بالا حقیقت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے علماء ہی نہیں بلکہ اسلام کی عمومی معلومات رکھنے والا ہر انسان بھی واقف ہے ۔ لیکن اسکے جو اہم ترین منطقی متضمّنات ہیں۔ ان سے غفلت اور تجاہل بھی ملّت اسلامیہ میں اس قدر عام ہے۔ ان میں سے ایک اہم ترین حقیقت یہ ہے کہ علماء دین اسلام مسلم معاشرہ کا قلب ہیں ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح اور قرآن وحدیث سے ثابت ہے اس کی اجمالی دلیل یہ ہے کہ ہدایت ربانی بصورت دین اسلام ملّت اسلامیہ کی اساس اور وجہ تشکیل اورسرمایہ تعمیر ہےاور علما دین کا مقام یہ ہے علمی اور عملی دونوں اعتبارات سے اس ہدایت کے حامل بنتے ہوئے انبیا علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جانشینی کے  فرائض انجام دیں۔ كما قال رسول الله الله ﷺ: إنَّ العُلماءَ ورثةُ الأنبياءِ (ابوداؤد، ترندی)

اسی حقیقت کے ساتھ ایک دوسری اہم حقیقت بھی وابستہ ہے حدیث میں آیا ہے کہ سید الکونین  ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ فِي جَسَدِ آدَمَ لَمُضْغَةً لَوْ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَلَوْصَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلا وَهِي الْقلب أَلا وَهِي الْقلب ۔

"آدمی کے جسم میں ایک پارہ گوشت ہے۔ اگر اس میں فساد آیا تمام جسم میں فساد آیا اگر وہ اصلاح پذیر ہوا تمام جسم اصلاح پذیر ہوا۔ خبر دار ہو جاؤ وہ قلب ہے ہوشیار ہو جاؤ وہ قلب ہے۔ یہ قانون جو فرد کے وجود کے باب میں ہے۔ یہی ملّت وجود پر بھی صادق آتا ہے۔ اگر ملّت کا قلب صالح اور قوی ہوگا تو ملّت صالح اور قوی ہوگی اور اگر قلب فاسد اور ضعیف ہوگا تو ملّت فساد اور ضعف میں مبتلا ہو جائیگی ۔ آج ملّت اسلامیہ فساد اور ضعف میں مبتلا ہے ہر مجلس میں یہی فریاد اور ہر میدان میں شور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس فساد اور ضعف کے رفع کرنے کے سلسلہ میں عملی اقدام کی کیا صورت ہو؟ خیر القرون کے بعد ملّت سے تعمیر معاشرہ کے بعض امور میں ایسی کوتا ہیاں سرزد ہوئیں جو معاشرتی اضمحلال اور سیاسی زوال کا موجب بنیں ایک وقت تھا کہ مسلمان اخلاق و روحانیت علم و حکمت ،معیشت و سیاست، تجارت و صنعت فنون حرب اور نظام حکومت مختصر یہ کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دنیا کی تمام اقوام پر فوقیت رکھتے تھے ۔ پھر وہ وقت آیا جب بغداد اور قرطبہ (اسپین) میں اسلامی تہذیب کی تباہی کے بعد ملّت نے علمی جہاد کے میدان میں پسپائی اختیار کی۔ منصفانہ معیشت کی بجائے مسرفانہ معیشت کو اقتدار ملا۔ اعلاء کلمۃ اللہ کے بجائے مادی مقاصد نظروں کے سامنے جم گئے علما ءعلمی پسماندگی اور جمود کا اور امراء ہواء و ہوس کا شکار ہو گئے ۔ اسلامی تہذیب کا جو قلعہ سید الکونین ﷺ کے مقدس ہاتھوں نے تعمیر فرمایا تھا اس میں آہستہ آہستہ شگاف پیدا ہونے شروع ہوئے اور یہ شگاف بڑھتے گئے۔ حتی کہ وہ مغربی مسیحی قومیں جن کو مسلمانوں نے سائنس اور فلسفہ اور دیگر علوم سے روشناس کر کے ظلمت جہل وحرمان سے نکالا تھا، اپنی علمی،صنعتی، تنظیمی اور جمہوری برتری کے جھنڈے لہراتی ہو ئیں ان شگافوں میں سے ملّت اسلامیہ کے قلعہ میں چاروں طرف سے داخل ہو گئیں۔ مسلمان چونکہ علمی اور عمرانی دونوں قسم کے جہاد سے پہلے ہی کنارہ کش ہو چکے تھے ،تلوار کے جہاد میں بھی ناکام ہو گئے۔ اور انیسویں صدی میں تمام دنیائے اسلام بحر اوقیانوس سے بحرالکاہل تک اور بحرالہند سے سائبیریا کے کناروں تک باستثناء سلطنت ترکان عثمانی ، عیسائیوں کی غلام بن گئی۔ سلطنت ترکان عثمانی بھی بہر حال بیمار ہی تھی۔ اس کے بہت سے علاقے انیسویں صدی میں چھن گئے اور بعض بیسویں صدی میں برطانیہ اور فرانس کے زیر نگین آگئے۔ ملّت اسلامیہ پر آج سے سو سال قبل جو غلامی مسلط ہوئی وہ محض سیاسی ہی نہ تھی ۔ بلکہ اس کے ساتھ دو اور خوفناک اصناف غلامی بھی آئیں یعنی معاشی غلامی اور ذہنی غلامی ان تینوں اصناف غلامی نے مل کر ایک چوتھی غلامی کو جنم دیا جس کو معاشرتی غلامی کہنا چاہئیے ۔ سیاسی غلامی کا جہاں تک تعلق ہے رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ آج بحمد اللہ بہت سی آزاد مسلم مملکتیں قائم ہو چکی ہیں جن میں پاکستان کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ معاشی غلامی کے سلسلہ میں بھی ، جدید سائنس کی تعلیم اور جدید معاشی تنظیم کے زیر اثر ملّت اسلامیہ رفتہ رفتہ معاشی آزادی کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن جہاں تک ذہنی غلامی اور معاشرتی غلامی کا تعلق ہے ان کی گرفت مسلسل زیادہ شدید ہوتی چلی گئی ہے اور ہوتی جارہی ہے ان دونوں میں زیادہ اہم ذہنی غلامی ہے اس لئے وہی معاشرتی غلامی کا اصل سبب ہے دراصل اپنے دشمنوں کا ذہنی طور پر غلام بن جانا ایک ایسا قاتل زہر فراہم کرتا ہے جو کسی بھی ملّت کے وجود کوفنا کر سکتا ہے اس لئے کہ ایسا کرنا اپنی اقدار پر بے یقینی کے مترادف ہے اور بے یقینی سیاسی غلامی سے بدتر ہے ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

یقین اللہ مستی خود گزینی                               یقین مثل خلیل آتش نشینی

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار                 غلامی سے ہی بد تر بے یقینی

آج یہ زہر مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک ملّت اسلامیہ کے جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں سرایت کر رہا ہے اور یہی نہیں بلکہ اس سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ افراد جو اسلاف کی تقلید کو غلامی کہہ کر اسلام میں قطع و برید کے درپے ہیں۔ مغرب کی ذہنی غلامی کو آزادی سمجھتے ہیں شر کو خیر سمجھنے کا مقام وہ ہے جہاں ملّتیں لُٹ جاتی ہیں ۔ مگر افسوس قلب کا رواں احساس زیاں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ملّت اسلامیہ کے ارباب علم جب افراد ملّت کی علمی ضروریات کے پورا کرنے میں کوتاہی کا شکار ہو گئے اور اغیار علوم انسانی کے اجارہ دار بن گئے تو یہ طبعی امر تھا کہ مسلمان ان علوم میں اغیار کے حلقہ بگوش ہو جا ئیں یہ دراصل ابتداء علمی جہاد کے میدان میں ہماری کوتا ہی تھی جو آج رنگ لا کر رہی۔ علمی میدان میں جس جامع جہاد کے لئے اسلام نے کلام اللہ اور حدیث الرسول ﷺ میں ہم کو دعوت دی تھی اگر ہم اس جہاد سے خصوصاً عمرانی اور سائنسی علوم کے میدان میں اپنے آپ کو صدیوں تک مسلسل محروم نہ رکھتے تو فلسفہ تاریخ کی روشنی میں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ملّت نہ ذہنی غلامی کا شکار ہوتی نہ سیاسی اور معاشی اور معاشرتی غلامی کا۔ ملّت کوئی سی بھی ہو جب وہ اپنے وجود میں دو متعارض اور معاند نظام ہائے فکر و عمل کو جگہ دیتی ہے تو اسکا نتیجہ شکست وریخت ہوتا ہے جس سے ایک جانب معتقدات میں تزلزل پیدا ہوتا ہے اور دوسری جانب کردار میں دورنگی آجاتی ہے۔ پھر یہ کہ اغیار کی ذہنی غلامی احساس کمتری پیدا کرتی ہے احساس کمتری مزاج میں وفائیت پیدا کرتا ہے اور نیچے فضائل اخلاق سے بیگانگی اور رذائل اخلاق سے وابستگی پیدا ہو جاتی ہے ۔ دنیائے اسلام کا حال کچھ ایسا ہی ہے ہم صرف سیاسی ، معاشی اور علمی اعتبارات سے ہی کمزور نہیں ہیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں جو نہایت ہی بھیانک ہے ہمارے معاشرہ کا ہر گوشہ ہماری اخلاقی ابتری سے متاثر ہے۔

دور حاضر میں اسلام کا کم زور علمی محاذ :

اس حقیقت کا اعلان بار بار ہوتارہا ہے کہ ملّت اسلامیہ کی تمام مشکلات کا حل اسلام پرعمل کرنے میں ہے لیکن یہ حقیقت اس وقت تک حیات انسانی میں نافذ نہیں کی جاسکتی جب تک  کہ افراد کی علمی او عملی تربیت اور پورے معاشرہ کی تنظیم اسلام کے مطابق نہ کی جائے ۔ہمارے سامنے اس وقت زیر بحث مسئلہ اسلام کا علمی محاذ ہے جس کے علمبردار ہمیشہ علما دین رہے ہیں اس برگزیدہ طبقہ نے اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں جو بیش بہا علمی خدمات انجام دی ہیں وہ محتاج بیان نہیں لیکن جوں جوں ملّت اسلامیہ کے احوال زوال کی جانب مائل ہوتے چلے گئے اس طبقہ میں انحطاط و زوال کے آثار نمودار ہوتے چلے گئے یا یہ کہنا غالباً زیادہ صحیح ہوگا کہ اس طبقہ میں جیسے جیسے فکرو عمل کی کوتاہیاں پیدا ہوتی چلی گئیں ملّت کے احوال رو بہ انحطاط ہوتے گئے علماء کا معیار علم وعمل  گرتا چلا گیا یہاں تک کہ آج نوبت یہاں پہنچ گئی کہ آج سے پچاس سال قبل بھی جس معیار علم و تقوی کے حامل افراد کثرت سے علما کی صفوں میں دکھائی دیتے تھے ان کے نمونے آج شاذ و نادر ہی ملتے ہیں ۔ اکثریت اب ایسے افراد کی ہے جن کی نہ علمی شخصیت پر وقار ہے نہ اخلاقی شخصیت ، بلکہ اب تو ظاہری شخصیت کو پر وقار رکھنے کی جانب سے بھی اکثر علما دین سے لا پرواہ ہو گئے ہیں اس میں شبہ نہیں کہ پچھلے سو سال کے دور ابتلاء میں علما دین جس ایثار اور ثابت قدمی کے ساتھ دین کو سینہ سے لگا رہے ہیں اور اسلام کے تحفظ و بقا کے لئے اپنی اپنی فہم و استعداد کے لحاظ سے جس طرح ساعی رہے ہیں وہ لائق صد ستائش ہے ۔فجزاهم الله خير الجزاء لیکن جو کمزوریاں ان کی صفوں میں داخل ہو گئی تھیں وہ بڑھتی چلی گئی ہیں یہاں تک کہ آج طبقہ علمائے دین کا وقار کافی حد تک مجروح ہو گیا ہے ۔ علما دین کے طبقہ کو طبقاتی کمزوریوں کے ابھرنے اور بڑھنے سے جو صدمہ پہنچا ہے ، اس سے طبعی طور پر اسلام کا اورنتیجۃً انسانیت کو شدید نقصان پہنچا ہے اس لئے کہ اسلام کا علم ملّت اسلامیہ کی غذا ہے جس سے اس ملّت کی بقا ہے اور اس غذا کے فراہم کرنے والے علماء اسلام ہیں اگر علما اسلام علمی اور عملی اعتبار سے قومی اور بلند معیار کے حامل نہ ہوں تو ملت کی  صلاح وفلاح کی توقع ہی بے بنیاد ہو جائے گی۔ اسلام میں عبادت کا تصور جس طرح دین و دنیا کی تفریق پر مبنی نہیں ہے اسی طرح اسلام علم کے سلسلہ میں دنیاوی علوم کو دینی تعلیم کے نصاب سے اس نہج پر خارج نہیں کرتا جو دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کی فکر میں پایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسلامی تہذیب کے دور عروج میں ملت اسلامیہ کا نظام تعلیم وحدانی (اول توحید پرمبنی) تھا جس میں دینی علوم دوسرے تمام متداول علوم (سائنس، ریاضی ، فلسفہ، وغیرہ) کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس دور کا ہر عالم جامع العلوم ہوتا تھا۔ پھر یہ کہ اس دور میں اندھا دھند سندیں نہیں دی جاتی تھیں بلکہ ہر طالب علم کو اس کی لیاقت کی مناسبت سے سند دی جاتی تھی ۔ جو معاشرہ میں اس کے مقام کو صحیح طور پر متعین کرتی تھی، مزید برآں یہ کہ تعلیم کے ساتھ تعمیر کردار کا بھی وقیع اورصحیح اہتمام تھا۔ اس طرح ذوق محنت اور تقوی کا صحیح ثمرہ ملتا تھا۔ لیکن انیسویں صدی میں جب دشمنان اسلام عالم کو اپنا غلام بنانے میں کامیاب ہو گئے تو انہوں نے اسلام کو فنا کرنے کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جن کے نتائج ملّت اسلامیہ کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوئے ۔ ان حربوں میں سے ایک نہایت ہی خوفناک حربہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک ایسا نظام تعلیم رائج کیا جس نے ملت اسلامیہ کی تعلیم کے کام کو اسلام کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ اس نظام تعلیم نے ایک جانب ملّت کو اسلام سے آہستہ آہستہ بیگانہ کیا اور صورت حال بد قسمتی سے مسلم ممالک کی سیاسی آزادی کے بعد بھی جاری ہے۔ دوسری جانب اس نے ملّت کو ذہنی غلامی اور معاشرتی غلامی اور معاشی غلامی میں مبتلا کیا۔ یہ غلامیاں سیاسی غلامی سے گلو خلاصی کے بعد بھی قائم ہیں بلکہ ذہنی غلامی اور معاشرتی غلامی روبہ ترقی ہے ۔ ان نتائج کے علاوہ ایک اور اندوہناک نتیجہ بھی مرتب ہوا یعنی زندگی کے بازار میں دینی تعلیم کی کوئی مادی قیمت نہ رہی یا اگر رہی تو بہت ہی حقیر رہ گئی اس کا انجام یہ ہوا کہ ذہین اور معاشرہ میں مادی اقتدار کے حامل افراد میں اس طرف آنے والوں کی تعداد الشاذ كالمعدوم رہ گئی اور دینی تعلیم پانے والوں میں کثرت ان افراد کی ہوگئی جومختلف اعتبارات سے پس ماندہ اور تہی مایہ تھے اس کا طبعی نتیجہ یہ تھا کہ دینی تعلیم کے نصاب کو ہلکا کردیا جائے اور دینی تربیت کے معیار میں نقصان واقع ہو صورت حال ان اعتبارات سے دن بدن زبوں سے زبوں تر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ آج طبقہ علمائے اسلام، تمام شعبہ ہائے فکر وعمل جدید مغربی تعلیم یافتہ افراد کے سپرد کر کے، مساجد میں محصور ہو گیا ہے جہاں اس طبقہ کی قیادت چند تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ  افراد تک محدود ہے۔ یقیناً آج بھی علماء دین کی صفوں میں وہ افراد موجود ہیں جن  کی عملی شخصیت اور بلندی کردار ملّت کے لئے موجب افتخار ہے مگر ایسے افراد بہت ہی کم ہیں اکثریت ان افراد کی ہے جو ایسی کمزوریوں میں گرفتار ہیں جن کی وجہ سے طبقہ علما دین اپنے صحیح مقام کوحاصل کرنے سے قاصر ہے اور یہ کمزوریاں علم کے اعتبار سے بھی ہیں اور کردار کے لحاظ سے بھی دینی تعلیم کے محاذ پر جو کمزوریاں ہیں ان کی ذمہ داری پوری ملّت اسلامیہ پر ہے اور یہ فرض ملّت پر ہی عائد ہوتا ہے کہ وہ ان کمزوریوں کو رفع کرے۔ دوسری جانب مغربی تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم یافتہ  طبقات میں جو تصادم پایا جاتا ہے وہ ملّت کے لئے انتہائی خطرناک ہے اور صحیح حل یہی ے کہ تمام مسلم ممالک ایک ایسا نظام تعلیم مرتب اور رائج کریں جس میں اسلامی شخصیت کی تعمیر پر اصرار ہو اور دینی علوم کو بحیثیت اساس وروح قائم کرتے ہوئے تمام متداول علوم پڑھائے جائیں۔ لیکن جب تک یہ کام انجام نہ پائے اشد ضروری ہے کہ

1.      ہماری دینی درسگا ہیں ایسا جامع نصاب تعلیم اختیار کریں جس کے ذریعہ سے علوم دینیہ کی معیاری تعلیم کے ساتھ طلباء کا تعارف افکار حاضرہ سے اس معیار علمی پر کیا جا سکے جس سے آراستہ ہو کر ہمارے علماء دین جدید وقدیم دونوں طبقوں کی رہنمائی کا کام بصیرت اور وقار کے ساتھ انجام دے سکیں۔

2.      تمام دینی درسگاہوں میں تزکیہ نفس تعمیر کردار اور تربیت خدمت خلق پر علوم کی تحصیل کے برابرہی وزن دیا جائے، تا کہ جوعلماء تیار ہوں وہ ایک جانب جامع العلوم ہوں اور دوسری جانب صحیح اور بلند پایہ اسلامی کردار و شخصیت کے حامل ہوں اور ان کا عمل نظر خدمت خلق ہو۔

3.      علماء دین کا جامع العلوم اور جامع علم و کردار ہونا ہی وہ پہلا قدم ہے جوملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی تعمیر نو میں سنگ بنیاد بن سکتا ہے۔ بغیر اس عملی اقدام کے تمام دوسری اصلاحی مساعی ناکام ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یوں تو ہمارے اسلاف میں جامع العلوم ہونا معمول بہ رہا ہے لیکن بے شمار عظیم المرتبت شخصیتوں کے اس منور قافلہ میں حضرت امام الغزالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ جنہوں نے جامع العلوم ہونے کی حیثیت سے یونانی اور ایرانی افکار کے حملوں سے پیدا شدہ مفاسد کا قلع قمع جس بے مثال انداز سے کیا وہ تاریخ اسلام کا ایک نہایت ہی درخشندہ علمی باب ہے۔ اسی طرح ہماری علمی تاریخ ایسی شخصیتوں سے لبریز ہے جو جامع علم و کردار بن کرمسند ارشاد پر فائز ہوئے اور جنہوں نے کفار کے مابین اور ملّت اسلامیہ کے مابین روحانی تربیت و تزکیہ کے کاموں کو ایک ممتازسطح پر اور نہایت شاندار انداز سے انجام دیا، اور اس طرح انسانی تاریخ میں اپنی عظمت کے نہ مٹنے والے نقوش ثبت فرما گئے ۔ یہاں مثال کے طور پر اس عظیم المرتبت ہستی کا ذکر مناسب ہوگا جن کو غوث الاعظم محی الدین سید عبد القادر الجیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام نامی سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آپ ایک بلند علمی مقام کے حامل ہیں ۔ لیکن اس سے زیادہ آپ تزکیہ نفس اور ارتقاء روحانی کے ایک نہایت بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔  اللہ تعالی نے آپ کے واسطہ سے ملّت اسلامیہ پر صلاح وفلاح کے عظیم احسانات فرمائے ہیں اور آپ کا روحانی فیض آج بھی اپنی پوری تابانی کے ساتھ جاری ہے ۔ آپ نے جو کارنامہ اپنی عظیم المرتبت روحانی شخصیت کے ذریعے سے تاریخ اسلام میں انجام دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح سلطان الہند قطب الاقطاب خواجہ معین الدین چشتی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم اور پاکیزہ شخصیت ہے۔ آپ جامع علم وکردار اور صاحب ارشاد تبلیغ ہونے کے اعتبار سے مقام رفیع پر فائز ہیں ۔ یہ آپ ہی کی روحانی شخصیت کی تلوار تھی جس نے ہندوستان میں کفر کے قلعہ کو فتح کر کے صدیوں پہلے پاکستان کا سنگ بنیاد رکھا۔ بیسویں صدی عیسویں کی شخصیتوں میں بھی علما کرام میں متعدد ہستیاں جامع العلوم اور جامع علم و کردار ہوئی ہیں۔ ان میں سے ہر ہستی اپنے دائرہ میں ان علما پر فائق رہی ہے جو جامع نہ تھے۔ اس کی ایک مثال مبلغ اسلام حضرت مولانا شاہ محمد عبدالعلیم الصدیقی القادری رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک اور جلیل القدر شخصیت ہے۔ آپ دینی علوم اور جدید افکار دونوں کے جامع تھے اور کردار کے اعتبار سے ایک بلند اسلامی روحانی شخصیت کے حامل تھے انہی صفات ستودہ کے ساتھ اللہ تعالی نے آپ کو دور حاضر کا سب سے ممتاز مبلغ اسلام بنایا اور آپ کے مبارک ہاتھوں سے اطراف وا کناف عالم میں دین متین کی وہ عظیم خدمات انجام پائیں جو پوری ملّت اسلامیہ کے لئے موجب افتخار ہیں۔

الجامعة العليمية الاسلامية کاقيام

او پر ہم نے تاریخی تجزیہ کرتے ہوئے جس فلسفہ تعلیم کو پیش کیا وہی فلسفہ تعلیم الجامعة العلیمۃ الاسلامیہ کی اساس ہے۔ راقم الحروف ان افکار کو پچھلے تیس سال سے ہندو پاکستان ،مشرقی وسطی اور جنوبی مشرقی ایشیا کے علماء اور دینی جامعات کے سامنے پیش کرتا رہا ہے ۔ مگر ان افکار کو عملی صورت دینا ایک بہت ہی کٹھن مرحلہ ہے۔ خصوصا اس وجہ سے کہ ہمارے علما دین کی صفوں میں ایسے افراد جو دینی علوم کے ساتھ عصری علوم (طبیعیات ، فلسفہ، عمرانیات وغیرہ) میں بھی دسترس رکھتے ہوں تقریباً مفقود ہیں ۔ بہر حال جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی تو اپنی بے بضاعتی کے با وجود اس عاجز نے اور اس کے رفقاء کار نے قدم بڑھایا اور اگست ۱۹۶۲ء میں جامعہ علیمیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا اس جامعہ میں تعمیر کردار اور تربیت خدمت خلق کے علاوہ جو درسی نصاب ہے وہ حسب ذیل فنون پر مشتمل ہے۔

(۱)۔ عربی زبان وادب ، انگریزی زبان وادب ، ایک اور زبان ۔ (۲)۔اصول تفسیر ، اصول حدیث ، اصول فقه (۳)۔ تفسیر، حدیث، فقہ، افتاء (۴) - سيرة الرسول ، تاریخ اسلام، تاریخ عالم (۵) ۔ تصوف سیرت سازی ، خدمت خلق (۶) منطق ، کلام و فلسفہ ، نفسیات (۷) فلسفہ مذہب، فلسفہ اخلاق ، عمرانی فلسفہ (۸) تقابل ادیان، تقابلی فلسفہ، فِرق اسلامی تعلیمات کا تقابلی مطالعہ (۹)۔ تجوید ، تقریر، انشاء ، مناظرہ۔ ان مضامین کو پڑھانے کے لئے تدریجی نصاب تجویز کیا گیا ہے پورے نصاب کے لئے ان افراد کے واسطے جو میٹرک تک عمومی تعلیم حاصل کر چکے ہوں سات سال کی مدت مقرر کی گئی ہے۔ سات سال کا ہی نصاب تین منزلوں میں منقسم ہے یعنی ادنیٰ ، اوسط ، اعلیٰ ۔ ادنیٰ کی تکمیل کے لئے تین سال، اوسط کی تکمیل کے لئے پانچ سال اور اعلیٰ کی تکمیل کے لئے سات سال کی مدت درکار ہوگی۔ ہم نے قلت وسائل اور دینی مسائل کی جانب سے بیشتر دولت مند حضرات کی دردناک بے تو جہی کے باوجود یہ عظیم اقدام کیا ہے اور صرف اس لئے اس راہ کی تمام صعوبتیں مول لی ہیں کہ یہ مقدس فریضہ ہے اور احیاء دین نیز علما اسلام کی قیادت کو صحیح مقام عطا کرنے کے لئے یہ اقدام ناگزیر ہے حقیقت یہ ہے کہ اگر دینی تعلیم کے لئے ایسا جامع نصاب جودور حاضر کے معاند ماحول میں صحیح اور قوی اسلامی قیادت فراہم کر سکے اور جدید علم الکلام کی تدوین جو دور حاضر کے علمی چیلنج کا دندان شکن جواب پیش کر سکے۔ یہ ایسے دو فرائض ہیں کہ انکی ادائیگی کے سلسلہ میں مزید تغافل ملی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس نئے منصو بہ کو عملی شکل دینا مذاق نہیں ہے اس کے لئے اہل علم اور اہل مال دونوں کی جانب سے عظیم الشان تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ ہم اپنی کم مائیگی کے معترف ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہم نے اس کے بھروسہ پر قدم بڑھایا ہے وہی ہمیں تمام وسائل عطا فرمائے گا جن کی ہمیں ضرورت ہے اور وہی اس منصوبہ کی تکمیل فرمائے گا۔

والله المستعان وعليه التكلان

(ماہنامہ منزل مئی ۱۹۶۴ء، جلد نمبر: شمارہ نمبر : اص: ۵تا۹)

الوفاق العالمي للدعوة الاسلاميه کی دینی تحریک کے اغراض و مقاصد

1۔ ایسے صاحبان بصیرت و کردار علماء دین تیار کرنا جو دینی علوم اور افکارِ حاضرہ کے جامع بن کر اور اسلاف صالحین کے نقش قدم پر چل کر دور حاضر کے تقاضوں کی روشنی میں اسلام کی ہدایت کو اطراف واکناف عالم میں اور مشرقی اور مغربی زبانوں میں پیش کر سکیں۔ اس مقصد کے اصول کے لئے الجامعة العليمية الاسلامية قائم کیا گیا ہے جو ۱۹۶۴ء سے منظم اسلوب پر دینی تعلیم کا مقدس فریضہ انجام دے رہا ہے۔ اس ادارہ میں نہ صرف پاکستان بلکہ براعظم افریقہ، جنوبی امریکہ، جزائر غرب الہند، شمالی امریکہ ، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، فلپائن ، لنکا، ماریشس، کوریا اور جزائر فیجی وغیرہ کے طلباء زیر تعلیم رہے ہیں۔ طلباء میں مستحق افراد کو ماہانہ فی کسی / ۱۴۰ روپے وظیفہ دیا جاتا ہے۔ اس کارِ خیر میں آپ کی اعانت مطلوب ہے۔

دور حاضر کے فلسفہ سائنسی علوم اور عمرانی علوم کی جانب سے جو نئے مسائل افق انسانیت پر ابھرے ہیں، ان کو کتاب و سنت اور افکار اسلاف صالحین کی روشنی میں حل کرنا اور بصورت مطبوعات نشر کرنا۔ اس مقدس مقصد کے لئے ادارہ تحقیق و مطبوعات اسلامی قائم کیا گیا ہے۔ الحمد للہ ، ہماری بلند پایہ تبلیغی کتاب میں جو بیشتر انگریزی زبان میں ہیں، دنیا میں عظیم مقبولیت حاصل کر چکی ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کے تراجم ہو کر ان کی اشاعت ہو رہی ہے۔ اردو میں دینی مطبوعات مزید برآں ہیں ۔

3۔ عوام کی ذہنی و اخلاقی تربیت کے لئے انگریزی زبان میں ۱۹۶۴ ء سے ایک تبلیغی ماہنامہ THE MINARET (المنار) شائع ہو رہا ہے جو دنیا کے ملکوں میں اسلام کا پیغام پہنچارہا ہے۔

4۔ طالبان علم کی خدمت کے لئے المرکز الاسلامی میں ایک قادریہ دار المطالعہ و کتب خانہ قائم کیا گیا ہے جس میں عربی، اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں دینی اور متعلقہ کتب فراہم کی گئی ہیں۔ نیز ۵۰ سے زائد روزنامے، ہفتہ وار اخبار، ماہنامے اور سالنامے مہیا کئے جاتے ہیں۔

5۔بیرونی ممالک کے طلباء کے لئے ایک نہایت عمدہ دار الاقامہ ۱۹۶۵ء میں تعمیر ہو کر جاری  ہے۔ وہاں مقیم طلباء کے لئے ہر طرح کی سہولت کے علاوہ طبی امداد بھی مفت دی جاتی ہے۔

6۔ بچوں کی قرآن کریم اور ضروری دینی مسائل کی تعلیم کے لئے "دار القرآن" ۱۹۶۱ء سے خدمت انجام دے رہا ہے۔

7۔ شام کے اوقات میں عام لوگوں کو عربی زبان و ادب ، اردو زبان اور انگریزی زبان و غیره پڑھانے کا انتظام بھی شامل منصوبہ ہے۔

8۔ نوجوانوں کی دینی اور خدمت خلق کی تربیت کے لئے عالمی جمعیت نوجوانان اسلام متعدد ممالک میں مراکز کے ساتھ قائم ہے۔

 ۹۔ خواتین کی دینی تربیت اور تنظیم کے لئے "عالمی جمعیت خواتین اسلام" قائم کی گئی ہے۔ اس کے مراکز دنیا کے مختلف ملکوں میں ہیں۔

10۔ تمام مقامی منصوبے المرکز الاسلامی، کراچی میں واقع ہیں۔ اس کی شاندار عمارتوں کی جن میں مسجد بھی شامل ہے ۱۹۶۲ء سے تعمیر جاری ہے۔ اس عظیم کام میں آپ کی اعانت کی ضرورت ہے۔

( یہ اغراض و مقاصد آپ کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ منزل میں تواتر سے شائع ہوتے رہے ہیں )


شارع عبدالعلیم صدیقی و شارع المرکز الاسلامی،

بی بلاک، شمالی ناظم آباد، کراچی۔33۔(پاکستان)

Abdul Aleem Siddiqui and Islamic Centre Road,

B Block, North Nazimabad Karach-33, Pakistan

عزیز دینی بھائی بہن ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ تعالیٰ و برکاتہ

آپ کے علم میں ہے کہ تحریک المرکز الاسلامی (الوفاق العالمي للدعوة الاسلامیہ ) ورلڈ فیڈ ریشن آف اسلامک مشنز نے ملّت اسلامیہ کی خدمت کے لئے دینی تعلیمی اور رفاہی منصوبوں کو عملی شکل دے کر مندرجہ ذیل ادارے المرکز الاسلامی شمالی ناظم آباد، بی بلاک نزد اسٹیٹ بینک کوارٹرز میں قائم کئے ہیں ۔

(۱) جامعہ علیمیہ  اسلامیہ                               (۲) بیرونی و مقامی طلباء کا دار الاقامہ

(۳) دار القرآن                                        (۴) دار المطالعہ

(۵) قادریہ لائبریری                                  (6) تبلیغی ماہنامہ "مناریٹ" (انگریزی)

(۷) ادارہ تحقیق و مطبوعات                         (۸) ایک وسیع اور شاندار جامع مسجد (زیر تعمیر)

 آج تک جن اہل علم اور اہل قلم نفوس،مخیّر حضرات ہمدردان اور رفاہی خدمت کا ذوق وشوق رکھنے والے کارکنان نے اپنے علم ، اپنے مال اور اپنی اعزازی خدمات سے ان اداروں کو کامیابی سے چلانے میں ہمارے ساتھ تعاون فرمایا ہے۔ میں اور کارکنان ادارہ ان کا دلی شکر یہ ادا کرنے کے ساتھ دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے ۔ آمین

 المرکز اسلامی میں قائم شدہ جامعہ علیمیہ اسلامیہ میں سالہائے گزشتہ میں پاکستان ، کوریا، فلپائن، فیجی، آسٹریلیا، تھائی لینڈ ، انڈونیشیا، سنگا پور، سیلون، ماریشس، کینیا، تنزانیہ، موزمبیق ، جنوبی افریقہ، جنوبی یمن، جرمنی، کناڈا، سر ینام وغیرہ کے طلباء نے تعلیم کے مختلف مدارج کی تحصیل کی ۔ اس وقت اس ادارہ میں سرینام ، گیانا (جنوبی امریکہ ) ، ویسٹ انڈیز ، گھانا، جزائرفیجی، انڈونیشیا، سیشلز ( بحرالہند)، جنوبی افریقہ اور مغربی و مشرقی پاکستان کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔ مستحق طلباء کوزکوةاور صدقات سے وظائف دئیے جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ ہمارے پاس دنیا کے مختلف ممالک سے جو درخواستیں داخلہ کے لئے آئی ہیں اور جس پیمانہ پر دنیا کی متعدد اسلامی انجمنیں طلباء کو ہمارے پاس بھیجنے پر متوجہ ہیں، اس سے ہمیں توقع ہے کہ آنے والے تعلیمی سال میں وظائف کی احتیاج رکھنے والے مختلف ممالک کے کم از کم پندرہ تا  بیس طلباء داخل ہوں گے ۔ بشرطیکہ ہمارے پاس ان کو وظائف دینے کے لئے رقم مہیا ہو جائے۔ المرکز الاسلامی میں وظیفہ کی مقدار ایک سو پچاس روپے ماہانہ فی کس ہے اور تخصص کے طلباء کے لئے دوسوروپے ماہانہ دئے جاتے ہیں۔ زکوۃ سے حاصل ہونے والی رقم صرف ان طلباء پر صرف ہوگی جو اس کے شرعا مستحق ہیں۔

دینی اور عصری علوم کے جامع علماء اسلام کی تیاری کے سلسلہ میں جامعہ علیمیہ اسلامیہ کا جلیل القدر تبلیغی منصوبہ جس عظیم مقصد کا حامل ہے، ہمیں یقین ہے کہ آپ اس پر نظر فرماتے ہوئے زکوۃ وصدقات المرکز الاسلامی کے مستحق طلباء کی اعانت کے لئے عطا فرمائیں گے۔ نیز غیر زکوة کی مدات میں فی الحال ماہانہ =/5000 روپے سے زائد عطیات کی شدید ضرورت ہے تا کہ اساتذہ اور دیگر کارکنان کی تنخواہ وغیرہ ادا کی جاسکیں۔ اس لئے آپ سے خصوصی درخواست ہے کہ  عند اللہ آپ ماہانہ کچھ رقم مستقل طور پر عطیہ دیں یا اور دلوادیں۔ جزاکم اللہ خیر الجزاء

 زکوۃ وعطیات کی نقد رقم ورلڈ فیڈریشن آف اسلامک مشنز کے نام مذکورہ بالا پتہ پر روانہ فرمائی جائیں۔ تحریک المرکز الاسلامی غیر سیاسی ، دینی تبلیغی تحریک ہے اور رضا کارانہ قومی اعانت ، اخلاص و محبت پر قائم ہے۔ دعا ہے کہ آپ کا تعاون و توجہ اسلام کی سربلندی اور اللہ کی رضامندی کا ذریعہ بن جائے ۔ والسلام

(ڈاکٹر مولانا محمد فضل الرحمٰن الانصاری القادری)

ایم اے۔ پی ایچ ڈی

صدر، ورلڈ فیڈ ریشن آف اسلامک مشنز

(اس پمفلیٹ کی اصل المرکز الاسلامی کی لائبریری المکتبۃ القادریہ الماری نمبر ۶۲ میں موجود ہے۔)


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post