صبر کی قوت

انسان کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی جو قوت عطا کی ہوئی ہے ، وہ اس قوت کو اَوہام کی وادیوں میں پراگندہ نہ کر دے تو یہ اُسے ہر مصیبت کے مقابلے میں کافی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس پر وہم و غفلت نے اتنے دبیز پردے تان دیے ہیں کہ یہ اس فانی زندگی کو دائمی سمجھتا ہوا اپنی قوت صبر کو ماضی اور مستقبل کی راہوں میں بکھیر دیتا ہے۔ اور یوں حال میں پائی جانے والی مصیبت کے مقابلے میں اِس کے پاس چونکہ کچھ بھی نہیں رہتا ہے،چونکہ صبر کافی نہیں رہتا اس لیے وہ شکوے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ نعوذ باللہ انسان کے سامنے اللہ کی شکایتیں شروع کر دیتاہے۔

   پھر غیر منصفانہ انداز میں پاگلوں کی طرح شکوہ کر کے اپنی بے صبری کا اظہارکرتا ہے، جبکہ جو دن گزر گیا اس کی مصیبت گئی اور راحت باقی رہ گئی، اس کا درد و الَم گیا اور لذت باقی رہ گئی اور گلو گیری و دلگیری گئی اور اجرو ثواب باقی رہ گیا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس حالت سے لذت گیر ہو کر شکر ادا کیا جائے نہ کہ شکوہ شکایت۔ اور یہ بھی ضروری ہوا کہ اُن ایّام کے ساتھ محبت کی جائے نہ کہ اُن پر غصّے اور نفرت کا اظہار کیا جائے؛ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُس کی گزری ہوئی فانی عمر اس مصیبت کی وجہ سے ایک سعادت مند اور باقی رہنے والی عمر کا رُوپ دھار جائے گی، اس لیے اُس میں پائے جانے والے مصائب و آلام کے تصوُّر میں گم رہنا اور اس وہم کی بنا پر اپنے صبر کا کچھ حصہ ان کی بھینٹ چڑھا دینا پاگل پن ہے۔ رہے آنے والے دن، تو وہ ابھی تک آئے نہیں، اس لیے آنے والے دنوں میں پیش آنے والے مرض اور مصیبت کا تصوّر کر کے بے صبری کا اظہار کرنا اور شکوہ شکایت کرنا حماقت ہے۔ چنانچہ جس طرح یہ بات حماقت بھرا جنون ہو گی کہ ایک انسان محض اس خدشے سے مسلسل کھانا پینا شروع کر دے کہ کل اور پرسوں مجھے بھوک اور پیاس لگے گی، اسی طرح یہ بات بھی سراپا حماقت اور جنون ہو گی کہ انسان کل کلاں آنے والے اُن آلام و مصائب کے بارے میں سوچتا رہے اور اُن سے دُکھ اُٹھاتا رہے؛ اور ان کی وجہ سے پریشان اور مصروفِ آہ و فغاں رہے جن کا آج وجود ہی نہیں ہے۔ ایسی رَوشِ اختیار کر کے اپنی جان پر بغیر کسی مجبوری کے خود ظلم کرنا ایک ایسی بیوقوفی ہے جس کی وجہ سے ایسا آدمی کسی شفقت و رحمت کا مستحق نہیں رہتا ہے۔

   حاصل یہ ہے کہ جس طرح شکر نعمت میں اضافے کا باعث بنتا ہے اس طرح شکوہ مصیبت میں اضافہ کرتا ہے اور ایسے شکایت کے خو گر نا شکرے انسان سے شفقت و رحمت کا استحقاق چھین لیتا ہے۔

   شہرمیں ایک نیک آدمی کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو گیا۔یہ پہلی جنگ عظیم کے پہلے سال کی بات ہے۔میں اُس کی تیمار داری کے لیے گیا تو اُس نے مجھے کہا: '' پچھلی سو راتوں سے میں تکیے پر سر بھی نہیں رکھ سکا ، یعنی بالکل سو نہیں سکا ہوں—'' اور یوں اُس نے درد ناک قسم کا شکوہ کیا۔ مجھے اُس کی اس حالت سے بہت تکلیف ہوئی پھر اچانک میرے دل میں ایک بات آئی اور میں نے اسے کہا:

   میرے بھائی! تمہارے گزرے ہوئے درد بھرے سو دن اب خوشی بھرے سو دنوں کے حکم میں ہیں، اس لیے انہیں یاد کر کے حرفِ شکایت زبان پر مت لاؤ بلکہ اُن کے گزر جانے کا شکر ادا کرو۔ رہے آنے والے دِن، تو و ہ ابھی آئے نہیں اس لیے ان کے بارے میں اپنے رحمان و رحیم پروردگار کی رحمت پر بھر و سہ رکھو۔ مار پڑے بغیر رونے پر آمادہ نہ رہو۔ جو چیز ہے ہی نہیں اُس سے ڈرو نہیں، اور عدم کو وجود کا رنگ نہ دو اور صرف موجودہ گھڑی کو ذہن میں رکھو۔ اور موجودہ گھڑی سے نپٹنے کے لیے تمہاری قوت صبر کافی ہے۔ اور اُس پاگل کمانڈر کا کردار مت ادا کرو جس نے اپنے مرکز کی قوت کو عین اُس وقت دائیں بائیں منتشر کر دیا جبکہ دشمن کا بایاں دستہ اس کے دائیں دستے سے آملا اور یوں دائیں دستے کی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ لیکن یہ دایاں دستہ ابھی حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اب اس کمانڈر نے یہ کیا کہ اپنے مرکز کی قوت کو دائیں بائیں بھیج کر مرکز کو کمزور کر دیا دشمن نے اس صورتحال سے فائدہ اُٹھایا اور معمولی سے حملے کے ساتھ اس کے مرکز کو تہس نہس کر دیا۔

   اس لیے تم اے میرے بھائی، اس کمانڈر جیسے مت بنو، اپنی تمام قوت کو لمحۂ موجود کے لیے جمع کرو اور اللہ کی رحمت اور آخرت کے اجر کو نگاہ میں رکھو، اور یہ بات ذہن نشیں کر لو کہ تمہارا یہ مرض تمہاری چھوٹی سی اور فانی عمر کو ایک لمبی اور باقی عمر میں تبدیل کر دیتا ہے؛ اس لیے اس دَرد بھرے شکوے شکایت کی بجائے خوشی کا اِظہار کرتے ہوئے باری تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔

   میری اس گفتگو سے وہ آدمی بہت خوش ہوا اور کہنے لگا: الحمد للہ، میرا مرض صرف دس حصوں میں سے گِر کر ایک حصہ رہ گیا ہے۔

 تحریر : طالب نور

رسائل نور میں سے ماخوذ

بشکریہ علامہ حبیب الرحمن علیمی

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post