احترام علم و حکمت

ڈاکٹر محمد فضل الرحمن الانصاری القادری

(بانی،صدر، ورلڈ فیڈ ریشن آف اسلامک مشنز)

"احترم علم وحکمت" کے موضوع کے سلسلے میں ابتدائی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا علم و حکمت کا عدم احترام ممکن ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ممکن ہے۔ اور یہ کیفیت تاریخ انسانی میں قدیم زمانے سے موجود رہی ہے۔ اس المیے کی داستان یہ ہے کہ ایک جانب انسانوں کے تمام گروہ ہمیشہ سے کسی نہ کسی نظام معتقدات کے پابند رہے ہیں اور دوسری جانب انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہمیشہ موجود رہا ہے کہ علمی تحقیق و تشخص کے راستے سے حقائق کا صحیح تر ادراک کیا جائے۔ اس طرح ایمان (FAITH) اور عقل (REASON) کے تصادم کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس مسئلہ کی نوعیت یہ ہے کہ اہل ایمان نے مجرد اًعلم کی نفی نہیں کی، مگر ان کے نزدیک علم کی جائز حدود صرف ان کے نظام معتقدات کے علم کے حصول تک تھی۔ یہ معتقدات ان کے لئے حقائق معلومہ تھے۔ اہل ایمان کا تصادم در اصل حقائق غیر معلومہ کے سلسلے میں ظہور پذیر ہوا۔ اسی تصادم کے نتیجے میں سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ اس تصادم کے نتیجے میں مسیحی کلیسا نے علم اور اہل علم پر بے پناہ مظالم ڈھائے لیکن جب اسلام کا انقلابی پیغام آیا تو اس نے صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ قرآن حکیم نے یہ تعلیم پیش کی کہ ایمان اور عقل اساسی اور اصولی طور پر ہرگز ہرگز متصادم نہیں ہیں بلکہ دونوں میں خوشگوار توافق قائم کرنا ہی انسانیت کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ اس طرح ایمان اور علم جن کی اساس وجدانی شعور اور عقلی شعور ہے ، دونوں واجب الاحترام ہیں۔ اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کے رفیق بن کر انسانی عظمت اور سر بلندی کی بنیاد ہیں۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا:

يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ [المجادلة:١١]

 یعنی رفع درجات تم میں سے ان کے لئے ہے جو ایمان اور علم دونوں کے حامل اور دونوں کی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ قرآن حکیم نے ابتداء آفرینش ہی میں انسان کی فضیلت کو علم سے وابستہ کر دیا ۔ ابوالبشر سید نا آدم علیہ السلام کواللہ تعالی کی جانب سے علم کی عطا اور پھر اس بنیاد پر فرشتوں کو حکم کہ وہ آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف کریں۔ اس پر دلیل قاطع ہے۔ علم کی بنیاد پر نوع انسانی تمام انواع مخلوق کے مقابلے میں واجب الاحترم قرار پائی۔ اس طرح قرآن حکیم کی رو سے علم بدرجہ امتیاز واجب الاحترام قرار پایا۔ پھر قرآن حکیم کی تعلیمات کی  روشنی میں علم کے حدود اربعہ کا اندازہ لگانا بھی ضروری ہے، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔ قرآن حکیم کے نزول سے قبل اہل ایمان مجرد علم کی نفی نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے نظام معتقدات سے متعلق علم کو واجب قرار دیتے تھے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا قرآن حکیم نے جب علم کو واجب الاحترام قرار دیا تو اس سے مراد محض دینی علم تھا؟ قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنے والے اس سے پوری طرح واقف ہیں کہ یہ بات حقیقت سے بہت دور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم کا ئنات کے راز ہائے سربستہ کے علم کے حصول کو ملت اسلامیہ کا مشن قرار دیتا ہے۔ اس پر دلیل وہ کثیر التعداد آیات ہیں جن میں

﴿ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا﴾  کا ذکر ہے اور ان پر فکر کی دعوت ہے۔ یہی نہیں بلکہ ﴿خشیۃ اللہ﴾ کے حصول کی شرط علم کو قرار دیا گیا ہے اور وہ بھی اس علم کو جس کی اساس طبعی علوم (PHYSICALSCIENCES)  ہیں۔ فرمایا گیا:

﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾(فاطر/28 ) خشیۃ اللہ کی صفت واجب الاحترام ہے۔ ایسے ہی وہ صفت یعنی علم جو اس کے لئے اساس ہو بدرجہ اولی واجب الاحترام ہے۔ انسان کی شخصیت دو صفات سے متصف ہے تقلیدی اور تخلیقی ۔ تقلیدی اعتبار سے وہ اطاعت و ایمان کا اہل ہے۔ تخلیقی اعتبار سے وہ علم و حکمت کے میدان میں کاوش کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم نے جہاں انسان سے ایمان واطاعت کا مطالبہ کیا ہے، وہاں اس کو خلیفہ اللہ کی حیثیت سے تصرف فی الامور اور خالقیت کا مشن بھی دیا ہے۔ اس طرح اگر وہ اپنی ذات کے تخلیقی جو ہر کو بروئے کار نہیں لاتا تو وہ اپنے رب کی ناشکری کا اور اپنی ذات کی تو ہین کا مجرم بنتا ہے۔ اس تخلیقی جو ہر کو بروئے کار لانا ہی علم و حکمت ہے ۔ لفظ خالقیت پر دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بدیع بھی ہے اور خالق بھی۔ انسان صرف خالق بننے کا اہل ہے۔ تعدد خالقین قرآن کریم سے ثابت ہے۔ ہم علم وحکمت کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ علم اور حکمت میں فرق یہ ہے کہ علم کثرت معلومات کا نام ہے اور حکمت اسی میدان میں دِقّت نظر سے متعلق ہے۔ قرآن حکیم نے دونوں کو مقام احترام دیا ہے۔ علم کے سلسلے میں ہم مختصر ا دیکھ چکے ہیں۔ حکمت کے متعلق ارشاد ہوا:

﴿وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ ﴾(البقرۃ/269 )

اسلام میں حکمت کے واجب الاحترام ہی نہیں بلکہ عظیم مقام کی حامل ہونے کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ تعلیم حکمت و سید الانبیاء ﷺ کے جلیل القدر منصب میں شامل فرمایا گیا ہے۔

﴿وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ﴾(البقرۃ/129 )

آج سب سے زیادہ قابل غور یہ حقیقت ہے کہ علم وحکمت کے میدان سے مسلم دنیا کنارہ کش ہوگئی اور اہل یورپ اس میں داخل ہو کر منزلیں طے کرتے چلے گئے ۔ نتیجہ آج سیاسی تفوق ہی نہیں بلکہ عملی زندگی میں ہر اعتبار سے تفوق ان کو حاصل ہے اور ہمارا ایمانی تفوق لالۂ صحرا ہے۔ ہماری نو خیز نسلوں کی نظر میں اغیار محترم اور مسلمان ذلیل شمار ہوتے ہیں۔ کیا علم وحکمت کے واجب الاحترام ہونے کا اس سے زیادہ قطعی ثبوت درکار ہے؟

( شام ہمدرد، ۲۱ ستمبر ۱۹۷۲ء ص: ۴۰۹)

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post