حکیم الامت علامہ محمد اقبال

 

گر دلم آئینۂ بی جوہر است

ور بحرفم غیر قرآن مضمر است

ای فروغت صبح اعصار و دہور

چشم تو بینندۂ ما فی الصدور

پردۂ ناموس فکرم چاک کن

این خیابان را ز خارم پاک کن

تنگ کن رخت حیات اندر برم

اہل ملت را نگہدار از شرم

سبز کشت نابسامانم مکن

بہرہ گیر از ابر نیسانم مکن

خشک گردان بادہ در انگور من

زہر ریز اندر مے کافور من

روز محشر خوار و رسوا کن مرا

بی نصیب از بوسۂ پا کن مرا

اردوترجمہ

اگر میرے دل کا آئینہ جو ہروں سے خالی ہے، اگر میری باتوں میں قرآن مجید کے سوا بھی کچھ ہے تو حضورﷺ! آپ کی  روشنی تمام زمانوں کے لیے صبح کا سر و سامان ہے اور آپ کی آنکھ سینے کے اندر کی سب چیزیں دیکھ رہی ہے۔ آپ میری فکر کی عزت و حرمت کا پردہ چاک کر دیکھے اور ایسا انتظام فرمایئے کہ میرے کانٹے سے پھولوں کی یہ کیاری پاک ہوجائے۔ زندگی کا لباس میرے جسم پر تنگ کر دیجئے اور ملت کو میری برائیوں سے بچایئے، میرے بے سروسامان کھیت کو سر سبز نہ ہونےدیجیے، اور اسے اپنے ابر بہاراں سے فیض نہ  بخشیئے، میرے انگور کی رگوں میں شراب خشک کر دیجئے (میری باتوں کو بے اثر کر دیجئے) میری کا فوری شراب میں زہر ڈال دیجئے۔ قیامت کے دن مجھے ذلیل و رسوا ہونے دیجئے اور اپنے پاؤں کے بوسے سے بے نصیب رکھئیے۔

Be lusterless the mirror of my heart,

Or be my words by aught but the Koran

Informed, O thou whose splendour is the dawn

Of every age and time, whose vision sees

All that is in men’s breasts, rend now the veil

Of my thought’s shame; sweep clean the avenue

Of my offending thorns; choke in my breast

The narrow breath of life; thy people guard

Against the mischief of my wickedness;

Nurse not to verdure my untimely seed,

Grant me no portion of spring’s fecund showers,

Wither the vintage in my swelling grapes

And scatter poison in my sparkling wine;

Disgrace me on the Day of Reckoning,


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post