تصّوف کی اِنتہائی سادہ Definition

پروفیسر احمد رفیق اختر

 

اِشفاق احمد نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا  تصّوف کی اِنتہائی سادہ Definition ہے؟

 میں نے اُن سے کہا تھا کہ

مناسب وقت میں مناسب قوتوں کے ساتھ اگر کوئی شخص اللہ کو اپنی ترجیحِ اوّل قرار دے تو وہ صوفی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے مقام تک پہنچے۔ یہ ضروری نہیں خواجہ ابو الحسن شاذلیؒ ہو جائے، یہ ضروری نہیں کہ قطبِ ہند ہو جائے۔ اِن عہدوں کی یہ تمام خواہشات غیر معقول ہیں۔ اگر آپ صوفی بننا چاہتے ہو تو سادہ سی خواہش ہے کہ تم اپنی زندگی میں اللہ کو وہ چیز نہ دو جو اُسے پسند نہیں۔ ۔۔۔۔ یہ سبق آپکی عمر کے لحاظ سے ہے۔ بڑھاپا اللہ کا وقت نہیں۔۔۔۔۔

اللہ کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا! اگر آپ یہ کہو کہ ساری زندگی دُنیا کی شہوات، تملّق اور تمرّر میں گزار کر زین للناس حب الشھوٰت یعنی آپ ساری زندگی Lesser priorities میں گزار کر خدا کو طلب کرو اور خدا آپ کے پاس دوڑتا ہوا آئے گا؟ یہ نہیں ہو سکتا! This is insult، اگر آج کسی کو خدا نہیں مِلتا تو اُسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ خدا کی بحیثیت ترجیحِ اوّل کبھی تلاش نہیں کرتے۔ آپ اُسکو اپنے غموں کے لیے استعمال کرتے ہو۔ اپنے محبوب کی جدائی اور مال و دولت و اسباب کے لیے استعمال کر رہے ہو۔ کئی نوجوانوں نے مجھ سے کہا پروفیسر صاحب اگر فلاں مجھے مِل جائے تو میں تہجّد شروع کر دوں گا۔ کس لیے؟

She is more important than God.

 کیا تمہاری زندگی کی ایک چھوٹی سی ترقی خدا نہیں بن جاتی؟ تم خدا کو اُسکے لیے استعمال کرنا چاہتے ہو۔ آپ سمجھتے ہو کہ خدا سے مکر اور مکاری چل سکتی ہے۔ وہ جو دِلوں کو جھانکنے والا ہے۔ "وہ یہ بھی جانتا ہے، جو تمہارے دِلوں میں ہے اور وہ بھی جو تم اُس سے چھپاتے ہو۔" اس نے آپکو بنایا ہے تخلیق کیا ہے۔ تخلیق کا ایک Pattern ہے۔ خالق کبھی تخلیق کی سطح پر Available نہیں ہو سکتا۔ اپ کو ایک ذہنی اِصلاح کرنی پڑے گی۔ میں ربِ کعبہ کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر اِس کو چھ ارب اِنسان چاہیں تو وہ اُن کو مِل سکتا ہے مگر جب آپکی ترجیحات ٹھیک نہیں ہونگی، وہ ایک اِنسان کو بھی نہیں مِل پائے گا۔

You have to set out this solution for yourself.

 اگر تم اللہ کو جوانی نہیں دیتے تو کم از کم بلوغتِ فِکر، دانِشوری اور سوچنے سمجھنے کی عمر تو دے دو مگر ہماری ابتدائی زندگی Priorities میں اللہ کی تلاش کہیں نہیں ہوتی اور ایک بات یاد رکھیئے کہ ہمارا تمام اِضطراب صِرف ایک وجہ سے ہے۔

 اللہ کہتا ہے کہ مجھے کسی کو عذاب دینے کی کیا پڑی ہے۔ دیکھا کیا بے نیازی ہے۔ ایک دم مخلوقات غلبے سے نِکل رہی ہیں جیسے کہ عذاب اُنکو دینا ہی نہیں ہے۔ تمہیں کِس نے کہا ہے کہ عذاب کرتا ہوں۔ اگر تم میرا شکر ادا کرنے اور مجھ پر ایمان لانے والے ہو تو "وکان اللہ شاکرا علما(النساء، آیت ۱۴۷) میں شکر قبول کرنے والا ہوں۔" میں جانتا اور مانتا ہوں کہ کون مجھے دِل سے قبول کرنے والا ہے۔ تمام اِضطراب اور مسائل ختم ہو جاتے ہیں۔ آپکا اللہ سے تصّادم اِختتام پذیر ہو جاتا ہے۔

You have done your job, let Allah do his job.

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post