میلاد النبی اور تشبہ بالکفر

محرر سطور: محمد افتخار حسین اشرفی علیمی 

میلاد النبی اہل ایمان دنیا بھر میں عقیدت اور بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں. آج تک کسی نے بھی میلاد النبی کے انعقاد کو تشبہ بالکفر کے زمرے میں داخل نہیں کیا جمہور علماء نے زیادہ سے زیادہ اس کو بدعت مستحبہ یا حسنہ کہا.

لیکن فی زمانہ کچھ لوگ اسے تشبہ بالکفر کہ کر حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم کے زمرے میں داخل کرتے ہیں .

یہ حدیث مشکوۃ' کتاب اللباس

ابو داؤد' کتاب اللباس

میں آئی ہے  اس حدیث کے تحت ملا علی قاری فرماتے ہیں

ای من تشبہ نفسہ بالکفار مثلا فی اللباس وغیرہ او بالفساق او الفجار او باھل التصوف والصلحاء الابرار (فھو منھم) ای فی الاثم والخیر

یعنی جو کافروں یا فاسقوں 'فاجروں  یا صوفیاء اور صلحاء  کے ساتھ لباس وغیرہ میں مشابہت کرے( وہ ان میں سے ہے) یعنی نیکی اور گناہ میں.

(مرقاۃ المفاتیح ملا علی قاری حدیث نمبر 4347 کتاب اللباس جلد 7 صفحہ 2782  دار الفکر بیروت 2002 )

اسی میں آگے ملا علی قاری نے لکھا

بل الشعار ھو المراد لاغیر

 کہ اس سے مراد شعار میں مشابہت اختیار کرنا ہے نا کہ کسی اور چیز میں

(مرجع السابق)

اچھے کاموں میں موافقت کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ یہود کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھ کر اس کی وجہ پوچھی گئ تو انہوں نے کہا

 

اس دن موسی کو فرعون پر غلبہ عطا ہوا اور بنی اسرائیل کو اس سے نجات ملی تو ہم تعظیما اس کا روزہ رکھتے ہیں

نبی کریم ﷺنے فرمایا

نحن احق بموسی منکم فامر بصومہ

کہ ہم تم سے زیادہ موسی کے حقدار ہیں پھر آپ نے اس کے روزے کا حکم دیا

(صحیح مسلم  کتاب الصیام حدیث نمبر 1130 )

اگر ہر کام میں مشابہت کی ممانعت ہوتی تو پھر نبی پاک اس کام سے بھی روکتے.

عظیم محدث ملا علی قاری رحمہ اللہ نے میلاد کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے.

آپ اس کتاب میں علامہ الجزری کے حوالےسے لکھتے ہیں.

جب عیسائیوں نے اپنے نبی کی پیدائش کی رات کو بڑی عید بنا رکھا ہے تو اہل اسلام اپنے نبی کی تعظیم وتکریم کے زیادہ حق دار ہیں.

اس عبارت کو لکھ کر ملاعلی قاری فرماتے ہیں

 کہ اس پر ایک سوال وارد ہوتا ہے کہ ہمیں تو ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے شیخ نے اس سوال کا جواب نہیں دیا.

( المورد الروی مندرجہ رسائل میلاد مصطفی صفحہ 292 قادری رضوی کتب خانہ لاہور 2011 )

ملا علی قاری رحمہ اللہ نے یہ سوال بے شک قائم کیا لیکن میلاد کے عدم جواز کا حکم نہیں لگایا بلکہ اس کی تحسین پر یہ مکمل کتاب لکھی.

اسی طرح امام جزری کا اس کو بغیر انکار کے بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امام جزری کے نزدیک موافقت اہل کتاب فعل جائز میں ممنوع نہیں.

یہ تو ملا علی قاری رحمہ اللہ کے سوال کا ایک جواب تھا

اس سے پہلے ہم یہود کے عاشوراء  کے روزہ رکھنے کے حوالے سے مسلم کی حدیث بیان کر چکے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر نیک کام میں اہل کتاب کی موافقت اختیار کر بھی لی جائے تب بھی اس سے تشبہ بالکفر لازم نہیں آتا.

علامہ ابن تیمیہ نے میلاد کو منانے کے دو سبب لکھے ہیں

مضاھاۃ للنصاری

 یعنی عیسائیوں کی مشابہت

محبۃ للنبی وتعظیما لہ

یعنی نبی پاک کی محبت کو وجہ سے .

پھر لکھتے ہیں

واللہ قد یثیبھم علی ھذہ المحبۃ والاجتھاد

اللہ ان (میلاد منانے والوں )کو اس محبت اور اجتھاد پر ثواب عطا فرمائے گا.

(اقتضاء الصراط المستقیم صفحہ 294 دارالفکر بیروت)

اسی کتاب میں آگے علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں.

فتعظیم المولد واتخاذہ موسما قد یفعلہ بعض الناس ویکون لہ فیہ اجر عظیم لحسن قصدہ وتعظیمہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

میلاد کی تعظیم اور ہر سال اس کا انعقادجیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں اس میں بڑا ثواب ہے اچھی نیت اور ارادے اور تعظیم نبی پاک کی وجہ سے.

(اقتضاء الصراط المستقیم صفحہ 297 دارالفکر بیروت)

علامہ ابن تیمیہ کی اس عبارت سے بھی ملا علی قاری کے اشکال کا جواب مل جاتا ہے کہ یہ مشابہت بالکفر نہیں بلکہ نیکی اور باعث ثواب کام ہے.

رہی بات مشابہت کی تو یہ مشابہت نہیں بلکہ موافقت کی قبیل سے ہے

مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں

موافقت اور مشابہت میں بڑا فرق ہے کفار سے مشابہت بہر حال حرام ہے موافقت جائز ہے مگر جائز چیزوں میں.

(مراۃ المناجیح کتاب اللباس  جلد 6 صفحہ 130 )

یہ چند سطور ہمارے بہت اچھے دوست فاضل نوجوان مولانا وسیم علیمی صاحب کے اصرار پر رقم کی ہیں

اللہ ہدایت کا سبب بنائے.  آمین


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post