مختلف اہل علم کے نام

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط

بنام : جناب مسعود احمد برکاتی

برادر مکرم و محترم جناب مسعود احمد برکاتی صاحب دامت برکاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا گرامی نامہ ( بحوالہ ھ۔ن۲۰۰۴،مورخہ ۲۷،جون ۲۰۰۴ء) بر وقت مل گیا تھا ۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت جواب نہ دے سکا ۔ امید ہے کہ آپ حسب سابق اس کوتاہی کو بھی معاف فرمائیں گے ۔

            میرا رشتہ بھی ہمدرد نونہال سے کم و بیش نصف صدی پرانا ہے ۔ میں نے بہت بچپن میں ، تقریباً چار سال کی عمر سے ، ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اپنے والد مرحوم کی زیر نگرانی تین ساڑھے تین سال کی عمر سے ہی گھر میں نوشت وخواند کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ شروع کے ایک دوسالوں میں نہ تو پورا سالہ سمجھ میں آتا تھا اور نہ میری یہ بساط تھی ، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چند سال کے اندر اندر نہ
صرف رسالے کے مضامین سمجھ میں آنے لگے بلکہ میرا اشتیاق بھی بڑھتا گیا۔ مزید دو ایک سال بعد میں نے تعلیم و تربیت بھی پڑھنا شروع کر دیا ، لیکن جو اشتیاق ہمدرد نونہال کے نئے شمارے کے لیے پورے مہینے رہتا تھا، وہ ابھی تک یاد ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمدرد نونہال کے مضامین میں بچوں کے مزاج اور نفسیات کا خاص لحاظ رکھا جاتا ہے ۔

            ہمدرد نونہال نے ایسی تربیت کر دی تھی کہ کوئی غیر سنجیدہ یا غیر معیاری تحریر پڑھنے کو کبھی دل نہیں چاہا۔ بچوں کے بہت سے رسالوں میں جنوں اور پریوں ، جادو اور ٹوٹکوں ، چوری اور ڈاکے جیسے تصورات پر مبنی کہانیاں کثرت سے چھپتی تھیں ، لیکن ان میں کبھی بھی میرا دل نہیں لگا۔ ہمدرد نونہال کے جو مضامین میں بہت شوق سے پڑھتا تھا ، ان میں مسلمانوں کے کارناموں پر مبنی تاریخی کہانیاں اور واقعات نمایا ں ہوتے تھے ۔ ہمدرد نونہال اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مولوی اسماعیل میرٹھی کی درسی کتابیں میرے والد مرحوم نے مجھے حفظ قرآن کے دوران ہی پڑھا دی تھیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد کی زندگی میں اردو زبان کبھی بھی مشکل مضمون معلوم نہ ہوئی ۔

            ہمدرد نونہال نے میری تعلیم اور تربیت دونوں میں حصہ لیا۔ آج اگر اردو لکھنے اور بولنے کا کوئی سلیقہ حاصل ہے تو اس کا ابتدائی بیج رکھنے میں ہمدرد نونہال ہی شامل ہے ۔

میری دعا ہے کہ یہ رسالہ اسی طرح قائم دائم رہے۔

والسلام

محمود احمد غازی

(بشکریہ یہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ ، نومبر ۲۰۰۴ء)

 

 

 

 

 

 

 

 

بنام : مولانا زاہد الراشدی

(۱)

برادر مکرم و محترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف و کرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں ۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتال اور توازن ہوتا ہے ، وہ گزشتہ کچھ عرصے (ہمارے ہاں ) کم ہوتا چلا جارہا ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔

زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا اس لیے ابتداء ًا خیال ہوا کہ شاید یا تو غلطی سے میرا نام چھپ گیا ہے یایہ میرے کسی ہم نام کی تحریر ہے ، لیکن جب اصل مضمون پڑھا تو اندازہ ہو اکہ عنوان آپ کا اور معنون اس نا چیز کا ۔ غالباً آپ نے میرا وہ لیکچر ملاحظہ فرمایا ہوگا جس سے یہ اقتباس لے کر شائع کیا گیا ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کرام اس پورے لیکچر کو بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں ۔ آپ کے عطا کردہ اس عنوان سے خیال ہوتا ہے کہ شاید میری کتاب ’خطبات بہاول پور‘ آپ کے لیے دلچسپی کا موضوع ہوگی ۔ پتہ نہیں آپ کویہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوایا نہیں ۔

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے مابین فکری مماثلتوں کے موضوع پر پروفیسر محمد یونس میو کا مضمون اچھا ہے ، لیکن بہت مختصر ۔ شاید ان کو یہ تجویز کرنا موزوں ہو کہ مولانا رومیؒ کے افکار اور پیغام کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے نظریا ت و خیالات کا تقابلی مطالعہ نہ صرف دلچسپ ہوگا بلکہ دونوں اکابر کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز مماثلتیں بھی اس کے ذریعے سامنے آئی گی۔ میری طرف سے پروفیسر محمد یونس صاحب کو مبارک باد پیش کردیں ۔

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی(الشریعہ، مئی ۲۰۰۲ء)

)

۱۷ ، اگست ۲۰۱۰ء

۶، رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ

برادر مکرم و محترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

            مجھے معلوم ہوا ہے کہ چند سال قبل آپ نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر کوئی مشاورت منعقد فرمائی تھی جس میں بہت سے اہل علم نے اپنی آراء کا اظہار فرمایا تھا ۔ کیا یہ آراء تحریری صورت میں دستیاب ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ؟ مزید بر آں غیر اہل حدیث اور گیر سلفی علماء میں کون کون سے حضرات طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے کے قائل رہے ہیں ؟ ایک درمیانی راستہ حضرت مفتی کفایۃ اللہ صاحب نے اختیار فرمایا تھا ۔کیا دوسرے اہل افتاء کے ہاں بھی یہ رجحان ملتا ہے ؟

بہرحال اس موضوع پر جتنا مواد فراہم ہو سکے ، وہ مجھے ارسال فرمادیں ۔

رمضان المبارک کی نیک ساعتوں میں بھی یا د فرمائیے ۔

 

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

مخدوم و معظم جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب دامت برکاتکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے ، آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ کل آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ معلوم نہیں آپ کو یہ تاثر کیوں ہوا کہ اکیڈمی نے سندھی زبان میں لٹریچر کا منصوبہ ترک کر دیا ہے ۔ یہ تاثر غالبًا گزشتہ چند ماہ کی سست رفتاری سے پیدا ہوا ہے ۔ یہ سست رفتاری بعض انتظامی دقتوں اور دفتری طریقۂ کار کی طوالت اور پیچیدگی کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی ۔ تاہم ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ سندھی اسلامی ادبیات کے میدان میں جو کچھ ہم کر سکتے ہیں ، اس سے دریغ نہ کیا جائے ۔ اس ضمن میں آپ سے ماضی میں جو گفتگوئیں ہوتی رہی ہیں ، ان کی روشنی میں حتی المقدور کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ استاد محمد قطب کی کتاب ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ کے بارے میں دفتری کار روائی ایک ناگزیر انتظامی مشکل کی وجہ سے ہوگئی تھی جواب الحمد للہ دور ہوگئی ہے۔ اس ضمن میں جلد ہی آپ کو دفتری مراسلہ مل جائے گا۔

            سندھ نیشنل اکیڈمی کے ساتھ تعاون کی تجویز اچھی ہے ۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ اس پر آپ تفصیلی تجویز انگریزی میں ٹائپ کرا کر ہمیں بھیج سکیں ؟

            بائبل ، قرآن اور سائنس سندھ کے اہم اہل علم کو بھیجنے کے لیے آپ سے گزارش ہے کہ ایسے افراد کے پتے ہمیں ارسال فرمائیں ۔ ہم ایک ہفتے کے اندر اندر ان کو یہ کتاب ارسال کردیں گے ۔

اگر آپ جیسے مخلص اہل علم و فکر ہی کسی مایوسی یا غلط فہمی کا شکار ہوں گے تو ہم جیسوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔

دعاؤں میں یاد فرماتے رہنے کی درخواست ہے ۔

والسلام

محمود احمد غازی

(۲)

مؤرخہ:۳۰،اکتوبر۸۹ء

برادر مکرم و محترم جناب حافظ موسیٰ بھٹو صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا گرامی نامہ مؤرخہ ۲۵ ستمبر مجھے ایک غیر ملکی سفر سے واپسی پر ملا۔ اس کے ہمراہ پتوں کی فہرست بھی مل گئی ۔ ہم ان سب اہل علم کو سندھی زبان کی کتابیں بھیج رہے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ اب تک ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ کی کمپوزنگ مکمل ہو گئی ہو گی ۔ آپ سے گزارش ہے کہ جونہی پروف ریڈنگ اور تصحیح مکمل ہو،کتاب ہمیں ارسال کردیں ۔ یہ غالباً آپ کے ذہن میں ہوگا کہ اس کتاب کے مختلف ابواب الگ الگ کتابچوں کی شکل میں ضائع کیے جائیں گے اور ایک ہی پیش لفظ جو میری طرف سے ہے ہر کتاب میں شامل ہوگا۔

            آپ سے مسلسل دعاؤں میں یادرکھنے کی درخواست ہے ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

 

(۳)

برادر مکرم و محترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا گرامی نامہ کئی روز ہوئے مل گیا تھا ،لیکن میں مختلف مصروفیات کی بنا پر جواب ارسال نہ کر سکا۔

            آپ کی مرسلہ کتاب ’’السلام اور ہمارے مسائل ‘‘بروقت مل گئی تھی اور اس وقت اس سے استفادہ بھی کرنے کا موقع مل گیا تھا ۔ میں آپ کی تحریروں اور کتابوں کا ایک عرصہ سے مداح ہوں ۔ آپ کی ہر تحریر میں نہ صرف صحیح اسلامی خیالات پڑھنے کو ملتے ہیں بلکہ ملک و ملت کے مسائل پر آپ کا انداز فکر بڑا پختہ اور حقیقت پسندانہ ہوتا ہے ، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آپ کی ان فاضلانہ تحریروں کو وہ قبول عام حاصل نہیں ہوا جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے ۔

            آپ کے حسب ارشاد جناب عبد الغنی فاروق کی کتاب ’’ہم کیوں مسلمان ہوئے ‘‘کا کمپوز شدہ مواد ان شاء اللہ ارسال کر دیا جائے گا ۔ میں جلد ہی اس بارے مین آپ سے رابطہ قائم کروں گا۔

والسلام

مخلص

محمود احمد غازی

 

 

 

)

برادر مکرم و محترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔

            آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۸،اکتوبر موصول ہوا۔ آپ کے خطوط پڑھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے ، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم اپنے خطوط کا سلسلہ منقطع نہ فرمائیے ۔

            آپ کو یاد ہوگا کہ کئی ماہ قبل میں نے یہ گزارش کی تھی کہ دور جدید میں دعوت دین ، اس کا فلسفہ اور اسلوب و منہاج کے عنوان سے ایک جامع کتاب اکیڈمی کے لیے مرتب کردیجئے جس میں آپ کی اب تک کی تحریروں کا خلاصہ آجائے ۔ہم اس کو اپنے پروگرام میں شائع کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کراسکیں ۔

            مجھے امید ہے کہ آپ کے پاس اکیڈمی کی تمام اردو، انگریزی اور سندھی مطبوعات موجود ہوں گی ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

(۵)

برادر مکرم و محترم جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۲۰ جنوری موصول ہوا جس کے ہمراہ آپ نے ماہنامہ بیداری میں شائع شدہ اپنے فاضلانہ مضامین کی ایک فہرست بھی ارسال فرمائی ہے ۔ ہم یقینا ان تحریرون سے استفادہ کریں گے اور وقتاً فوقتاً یہ تحریریں آپ سے منگواتے رہیں گے۔

            شاید آپ کے علم میں ہو کہ اکیڈمی نے ڈاکٹر رفیع الدین کی دو کتابیں شائع کی تھیں اور ان کو بڑے پیمارے پر اندرون و بیرون ملک علمی حلقوں میں پہنچایا تھا ۔ مولانا محمد تقی امینی کی کتابیں خالص فنی قسم کی ہیں اور وہ اکیڈمی کے موضوع سے براہ راست متعلق بھی نہیں ہیں ۔یوں بھی پاکستان میں کئی ادارے ان کی اشاعت کر رہے ہیں ۔ کبھی ملاقات ہو تو مخدوم و معظم جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خان دامت برکاتہم کی خدمت میں سلام عرض کر دیں ۔ ان سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا تھا ، لیکن مسلسل سفروں کی وجہ سے میں اس کو جاری نہ رکھ سکا۔

والسلام نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

 

۹۹۔۱۔۲۰

بنام :ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن

(۱)

اسلام آباد ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کے دونوں گرامی نامے بر وقت موصول ہوگئے تھے ۔؂[1] لیکن میں قبل ازیں جواب ارسال نہ کر سکا جس کے لیے دل سے معذرت خوہا ہوں ۔ حضرت مولانا سید فضل الرحمان صاحب از حد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ شش ماہی تحقیقی مجلہ السیرہ کا اجراء فرمار ہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائیں اور وسائل سے مالا مال فرمائیں ۔ رسالہ کا نکالنا تو آسان ، لیکن اس کا جاری رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شمارہ اس وقت شائع کیا جائے جب آئندہ تین چار تیار شمارے موجود ہوں ۔ مزید بر آں علمی اور تحقیقی رسائل معاشی طورپر viableنہیں ہوتے ۔ اکثر و بیشتر ان پر خرچ ہی کرنا پڑتا ہے ۔ ان کی فروخت سے یافت ہونا شاذ و نادر صورتوں میں ہی ممکن ہو پاتا ہے ۔ لہٰذا آئندہ تین چار شماروں کے مواد کے ساتھ ساتھ ان شماروں کے اخراجات کی فراہمی بھی ضروری ہے ۔علمی اور تحقیقی رسائل میں اشتہارات سے بھی زیادہ آمدنی نہیں ہو پاتی ، لہٰذا اس مد سے بھی کسی خاص مدد کی امید نہ رکھنی چاہئے ۔

            رسالہ کو محدود معنوں میں سیرت کے موضوعات تک محدود نہ رکھیے ، بلکہ اگر اس کا دائرہ کا رمعارف نبوت یا علوم نبوت یا پیغام سیرت رکھا جائے تو موزوں ہو۔

            محترم جناب سید معید احمد شاہ صاحب علیل تھے ، اب ٹھیک ہیں اور ہسپتال سے گھر آگئے ہیں ۔ ؂[2]

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

محترم جناب سید عزیز الرحمان صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۳۱ ، جنوری ،۲۰۰۱ء بنام ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب وفاقی وزیر مذہبی امور ، زکوٰۃ وعشر موصول ہوا۔

            ڈاکٹر غازی صاحب نے آپ کے مراسلے اور السیرۃ انٹر نیشنل کا شکریہ ادا فرمایا ہے ۔ ؂[3] آپ نے اپنے مکتوب میں جن دیگر امور کی جانب ڈاکٹر صاحب کی توجہ مبذول کروائی ہے ، اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے مجاز افسروں کو مناسب غورو خوض اور ضروری کاروائی کے لیے ہدایات جاری کردی ہیں ۔ ؂[4] اس سلسلے میں ہونے والی پیشرفت سے آپ کو جلد آگاہ کیا جائے گا ۔

والسلام

سید قمر مصطفیٰ شاہ

پرنسپل سٹاف آفیسر برائے وزیر محترم

 

 

 

 

 

)

اسلام آباد ، یکم اگست ۲۰۰۱ء

برادر مکرم ومحترم جناب سید عزیز الرحمان صاحب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبر کاتہ

            آپ کے متعدد گرامی نامے اور ششماہی عالمی السیرۃ کے شمارے موصول ہوئے ۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ وقتاً فوقتاً اپنے مفید مشوروں اور تجاویز سے رہنمائی فرماتے رہتے ہیں ۔

            سیرت کانفرنس کی بابت آپ نے جو امور تحریر فرمائے تھے ، ان پر غور و خوض کر کے اس سال سیرت کانفرنت کے انتظامات بہتر بنائے جارہے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ حسب سابق اپنے مفید مشورون سے نوازتے رہیں گے ۔

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

(۴)

اسلام آباد، ۹ ،جولائی،۲۰۰۲ء

محترم جناب سید عزیر الرحمان صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا وقیع رسالہ عالمی السیرۃ باقاعدگی سے ملتا رہتا ہے۔ اس کے عالمانہ مضامین اور تحقیقی مقالات نے اس رسالے کو بہت جلد ایک نمایاں مقام عطا کر دیا ہے ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ پروفیسر سید محمد سلیمؒ کے افکار و خیالات پر رسالہ تعمیر افکار کے تعاون سے ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کر رہے ہیں ۔ مجھے امید ہے کہ تعمیر افکار کا یہ خصوصی شمارہ ایک اہم تاریکی دستاویز ہوگا۔ پروفیسر سید محمد سلیم مرحوم کا علمی مقام اس بات کا متقاضی ہے کہ ان پر ایک نہیں ، بہت سے رسائل کے خصوصی شمارے شائع کیے جائیں ۔ انہوں نے علم و تحقیق کے مختلف میدانوں میں جتنا وقیع کام کیا ہے ، اس پر دیر تک اہل علم تحقیق کرتے رہیں گے ۔

            میں بڑے اشتیاق اور شدت سے رسالہ تعمیر افکار کے خصوصی شمارے کا منتظر ہوں ۔

والسلام

نیاز مند ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

(۵)

تاریخ :۱،۸،۲۰۰۶

برادر مکرم جناب مولانا حافظ سید عزیر الرحمان صاحب زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ کتابیں اور مقالہ ؂[5] سب ہدایا ایک ساتھ موصول ہوئے ۔ جزاکم اللہ ۔

مقالہ الحمد للہ بہت عالمانہ ہے ۔ جلد سے جلد اشاعت کا اہتمام فرمائیے ۔ عجیب تو ارد ہے کہ یہی موضوعات میرے ذہن میں بھی ہیں جو آخری تین خطبات میں زیر بحث آئیں ۔؂[6] توارد پر ایک لطیفہ ملاقات سناؤں گا۔

            محترم ڈاکٹرکشفی صاحب کا بھی دلی شکریہ اداکردیں ۔ ان سے ملاقات کی لذت ابھی تازہ ہے۔ ؂[7]

آج ان شاء اللہ خطبہ ہشتم ہے، ہفتہ تک بارہ خطبے ہوجائیں گے۔ جیسے ہی کسی خطبہ کی نقل تیار ہوئی،آپ کو ارسال کردوں گا۔؂[8]

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

 

 

 

 

دوحہ :قطر

۱۶،اکتوبر، ۲۰۰۹ء

جمعۃ المبارک

برادر مکرم جناب ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ عرصہ دراز سے ، غالبًا اگست کے اوائل کی ملاقات کے بعد سے آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، خدا کرے خیر ہی ہو۔

            اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلامی بنکاری والی تقریر پر نظر ثانی ہوگئی ہے ۔ ؂[9] لیکن اب بھی مزید نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اس لیے گزارش یہ ہے کہ ایک بار کھلا کھلا کمپوزر کرا کے مجھے واپس بھیج دیں ۔ انشا ء اللہ اس بار تاخیر نہ ہوگی۔

            پروفیسر عبد الجبار شاکر صاحب کے اچانک رخصت ہوجانے سے بہت صدمہ ہوا ۔ا للہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔ بہت مخلص اور متدین انسان تھے۔ ان کے اہل خانہ میں سے کسی سے رابطہ ہو تو میری طرف سے تعزیت بھی کر دیں اور ان کا نمبر وغیرہ بھیج دیں تاکہ میں براہ راست بھی رابطہ کر سکوں ۔

            ان کا ذاتی کتب خانہ بہت عالی شان اور وسیع تھا ۔ کتابوں کا واقعی بہت عالمانہ اور اچھا ذوق رکھتے تھے ۔ اللہ کرے کہ کتب خانہ سلامت اور یکجا رہے ۔ خالد اسحاق صاحب مرحوم کے کتب خانہ کی طرح تتر بتر نہ ہو ۔

            ’’اسلام اور مغرب ‘‘والے مقالات کا کیا ہوا؟ ؂[10] یہ صرف استفسار ہے ، اصرار نہیں ۔ دعوہ اکیڈمی ( کراچی مرکز ) کی سر گرمیاں کیسی چل رہی ہیں ؟ والد صاحب سے سلام عرض کر دیں ۔

والسلام

محمود احمد غازی

تاریخ :۱۶ ،ستمبر ۲۰۱۰

برادر مکرم جناب ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔

            کل کی زحمت دہی پر نادم اور شرمندہ ہوں ۔ بلا وجہ گرمی میں میں آپ کو ( محض اپنے ذاتی کام کے لیے ) پچاس میل سے سفر کی زحمت دی ۔؂[11] براہ کرم درگزر فرمائیے گا۔ کتابیں ( تاریخ الحرکۃ المجددیۃ ) کے نسخے مل گئے ، جزاکم اللہ ۔ قرآن نمبر کے لیے منتخب کردہ خطبہ پر سر سری نظر ثانی کر دی ہے ۔؂[12]

والسلام

نیاز مند و طالب دعا

محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

 

)

۹،اکتوبر ،۲۰۰۸

۲۰، شوال المکرم،۱۴۲۹ھ

دوحہ قطر

برادر مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

            وعدے کرنے میں بہت سخی واقع ہوا ہوں ،نبھانے کے معاملہ میں صفر ہوں ۔ اس شکل سے نکلنے کا واحد راستہ صبر ہی ہے ، لہذا صبر سے کام لیجئے۔

بینکاری والی تقریر میں معاملہ صفر سے ذرا آگے بڑھا ہے ۔ ثبوت کے طور پر یہ آدھی تقریر ارسال خدمت ہے ۔بقیہ بھی جلد ہی پیش کر دوں گا ۔ گزارش یہ ہے کہ تصحیحات کے بعد تین گناہ spaceپر ٹائپ کرائیے گا، اس لیے کہ ایک بار مزید اصلاح ہو گی تو یہ بے سرو پا گفت گو قابل اشاعت ہو سکے گی۔

بقیہ وعدوں کے ایفا کی رفتار کا اندازہ آپ کو ہوگیا ہوگا۔

 

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

۲۵ ،اکتوبر، ۲۰۰۸،

۲۶، شوال المکرم ،۱۴۲۹ھ

برادر مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے!

آج اپنے کاغذات میں یہ مقالہ نظر پڑا۔ یہ میں نے مکہ مکرمہ کی کانفرنس(جون۲۰۰۸) میں پڑھا تھا۔ یاد آیا کہ آپ نے اس کی نقل بھیجنے کو کہا تھا ۔ تاخیر ہی سے سہی ،مگر تعمیل ارشاد کی سعادت ہوگئی۔

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

 

(۱۰)

برادرم مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمٰن صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مزاج گرامی!

            اسلامی بینکاری والی تقریر کا آخری حصہ ارسال خدمت ہے ۔ اس میں کم از کم دوبار مزید اصلاح و ترمیم کرنا ہوگی، جب جاکر یہ قابل طباعت ہو سکے گی۔ دوبارہ جب بھیجیں تو تین گنا spaceپر ٹائپ کرائیے گا تاکہ اصلاح میں آسانی رہے۔

 

والسلام

نیاز مند

ڈاکٹر محمود احمد غازی

۲۳ اکتوبر ،۲۰۰۸

(معاف کیجئے گاکہ علم اور ہمت کے ساتھ ساتھ قلم نے بھی جواب دے دیا ہے ۔)

 

 

 

 

بنام : حافظ صفوان محمد چوہان

مورخہ ،۱۴، ۴،۲۰۰۵ء

برادر مکرم و محترم جناب حافظ صفوان محمد چوہان زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا گرامی نامہ چند روز قبل ملا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت جواب ارسال نہ کر سکا۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کمپیوٹر اور انٹرنیت جیسے شعبوں سے وابستہ رہتے ہوئے( جو خالص فنی اور سائنسی نوعیت کے ہیں ) دینی اور ملی موضوعات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس ذوق میں برکت عطافرمائے اور آپ کو زیادہ سے زیادہ دینی اور ملی کاموں میں تعمیری حصہ لینے کی مزید توفیق عطا فرمائے ۔

            میری ناچیز گفتگو کو آپ نے پسند فرمایا۔ ممنون ہوں ۔ یہ زبانی اور فی البدیہہ گفتگو تھی جس میں مرتب خیالات اور پختہ نتائج پیش کرنا آسان نہیں (کم از کم میرے لیے ) ۔ اب خیال ہو رہا ہے کہ اس transcriptionکو سامنے رکھ کر اس میں تفصیلی نظر ثانی اور حک و اضافہ کروں تاکہ جو باتیں وہاں زیادہ تفصیل سے عرض نہیں کیا جاسکیں ، وہ تفصیل سے سامنے آجائیں ۔

            ’’الشریعہ‘‘ کے بارے میں میرے تاثرات بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں ۔ اس کا ساراکریڈٹ مولانا زاہد الراشدی صاحب کو جاتا ہے ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

بنام : ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی

مکرمی جناب ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی صاحب

السلام علیکم

آپ کا ارسال کردہ سہ ماہی الزبیر موصول ہوا۔ اس سے قبل بھی ایک دو شمارے پڑھنے کا موقعہ ملا تھا۔ ایک انتہائی خوشگوار حیرت اس سے ہوئی کہ بہاول پور کا یہ رسالہ علم و ادب کے بڑے بڑے مراکز سے نکلنے والے بھاری بھر کم رسالوں سے کم نہیں ۔ زیر نظر شمارے میں مشفق خواجہ مرحوم کے نام جو گوشہ مختص کیا گیا ہے وہ بھی خاصے کی چیز ہے ۔

            میری ناچیز تحریریں عموماً دینی اور فقہی موضوعات پر مشتمل ہوتی ہیں جو شاید آپ کے رسالے کے لیے غیر موزوں ہوں ۔ البتہ کبھی کبھی عربی یا فارسی میں کچھ اشعار نظم ہو جاتے ہیں جن کی حیثیت معنوی اعتبار سے صرف ذاتی احساسات اور لفظی اعتبار سے محض تک بندی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یوں یہ بھی آپ کے معیار سے فروتر سمجھی جائے گی۔

            البتہ ایک گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ وہ یہ کہ عموماً اہل دین اور اہل تقویٰ کی ادبی کاوشوں کو اہل ادب کی بارگاہ میں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی ۔ اس دربار میں وہی لوگ باریاب ہو سکتے ہیں جو اخلاقیات اور روحانیات کے لباس سے یا تو عملاً عاری ہوں یا کم از کم نظری طور پر عاری ہونے کے دعوے دار ہوں ۔ اگر سہ ماہی الزبیر اس رجحان کی اصلاح کی کوشش کرے تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی ۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور شاعر محسن کا کوروی کا کلام کسی بھی اعتبار سے اردو کے بڑے بڑے اساتذہ کے کلام سے کم نہیں ، لیکن ہماری ادبی تاریخیں اور تنقیدی تحریریں ان کے ذکر سے کالی ملتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے لوگ جن کی شعری کاوشیں بہت پست معیار رکھتی ہیں ، ادیبوں اور نقادوں کے ہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں ۔؂[13]

اس خط کے جواب میں بندہ نے اپنے والد صاحب کا مضمون :

 ’’محسن کاکوری کی نعتیہ شاعری‘‘الزبیر میں بھجوایا جو شمارہ ۴، ۲۰۰۶ء میں چھپا۔ اس پر غازی صاحب کا خط شاید شمارہ ۔۱، ۲۰۰۷ء میں چھپا ہوگا لیکن یہ رسالہ مجھے فی الوقت نہیں مل رہا۔(حافظ صفوان محمد)

بنام : شہزاد چنا صاحب

(۱)

مورخہ ۴، جنوری ،۲۰۰۶ء

برادرم جناب شہزاد چنا صاحب

آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ اس کے ہمراہ’’قرآن : ایک تعارف‘‘ کے سندھی ترجمے کی پہلی قسط بھی موصول ہوئی ۔ جزاکم اللہ ۔

سندھی زبان میں لٹریچر کی تیاری کے لیے بہتر مشورہ اور رہنمائی مولانا امیر الدین مہر صاحب ہی دے سکتے ہیں ۔

والسلام

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

 

 

(۲)

مورخہ ۲۲ مارچ، ۲۰۰۶ء

برادر مکرم و محترم جناب شہزاد چنا صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آپ کا گرامی نامہ مورخہ ،۱۳،مارچ،۲۰۰۶ء موصول ہوا۔ ’’الفاروق‘‘اور ’’وینجھار ‘‘کے تازہ شمارے بھی مل گئے ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ ’’الفاروق‘‘ کے ایڈیٹر مولانا محمد حسین شاد نے بھی اس کاوش کو پسند کیا ہے ۔ عربی لفظ’’نجماً نجماً‘‘ کا ترجمہ ’’تھوڑا تھوڑا‘‘ٹھیک ہے۔ مفسرین کرام نے آیت قرآن کے لیے ’’تھوڑا تھوڑا‘‘ کا لفظ خلاف ادب سمجھا، اس لیے اس کے بجائے ’’نجماً نجماً‘‘کی اصطلاح استعمال کی جن کے لغوی معنی’’ستارہ ستارہ‘‘ کے ہیں ۔ گویا قرآن مجید رشد و ہدایت کی ایک کہکشاں ہے جس کے ستارے ایک ایک کر کے اتر رہے تھے اور کہکشاں کی تکمیل کر رہے تھے۔ اس لفظ میں جو معنویت اور خوبصورتی ہے ، وہ کسی اور لفظ میں ممکن نہیں ۔ جس صاحب ذوق اور صاحب دل مفسر نے پہلی بار یہ اصطلاح استعمال کی، اس کے ذوق کو سلام کرنا چاہئے ۔

والسلام

ڈاکٹر محمود احمد غازی

 

 

 

 

)

مورخہ ۳۱، جنوری ۲۰۰۶ء

برادر مکرم ومحترم جناب شہزاد چنا صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ مورخہ ۲۵، جنوری ، ۲۰۰۶ء موصول ہوا۔ ’’قرآن پاک: ایک تعارف‘‘کے سندھی ترجمہ کی دوسری قسط بھی موصول ہوئی ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ مولانا امیر الدین مہر صاحب اس ترجمہ پر نظر ثانی فرما رہے ہیں ۔ اگر مولانا کی رائے میں اس کتابچے کے سندھی ترجمہ کی اشاعت مفید ہو تو اس کے مکمل ہو نے پر ایک کتابچے کی شکل میں شائع کرنے پر غور کریں اور مشورہ دیں ۔

            اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا ہے ۔ اب دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا مرحل درپیش ہے ۔ چونکہ مولانا امیر الدین مہر صاحب اس کو ساتھ ساتھ ملاحظہ بھی فرمار رہے ہیں ، اس لیے ان سے درخواست کریں کہ کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں جو ترامیم، اضافے اور اصلاحات ضروری ہوں ، ان کی نشان دہی فرمادیں ۔

            میری طرف سے مرکز کے تمام احباب اور مولانا امیر الدین مہر صاحب کو سلام عرض کردیں ۔

والسلام

محمود احمد غازی

 

 

بنام : محمد عمار خان ناصر

(۱)

03/8/06

برادر مکرم و محترم جناب مولانا عمار ناصر صاحب ، مدیر الشریعہ گوجرانوالہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ مسجد اقصیٰ کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ کا فاضلانہ مقالہ بر وقت مل گیا تھا ۔ میرے لیے اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا تو دشوار ہے ، اس لیے کہ میں نے مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ مطالعہ کیا تھا ، اس پر خاصی مدت گزر چکی ہے ۔ اب از سر نو مطالعہ تازہ کرنے کے لیے کتابوں کی ورق گردانی ناگزیر ہے جس کی سردست فرصت نہیں ۔ تا ہم اگر آپ چاہیں تو علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب احکام اہل الذمہ کا مطالعہ فرمائیں جس میں انہوں نے شروط عمریہ پر تفصیل سے بحث کی ہے ۔ میری ناچیز رائے میں شروط عمریہ ہی اس معاملہ میں مسلمانوں کے موقف کی فقہی اور آئینی بنیاد فراہم کرتی ہیں ۔

            تاہم یہ غور ضرور کر لیں کہ کیا موجودہ حالات میں یہ بحث اٹھانا مفید ہوگا! میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اور بے شمار مسائل در پیش ہیں ۔ اس صورت حال میں ایک نئی اختلافی بحث کھڑی کر دینا مناسب نہیں ۔ علم اور خاص طور پر علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاں ایک بڑا اعزاز ہے ، وہاں ایک مقدس امانت بھی ہے ۔ اس کو استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا چاہئے ۔ اگر ہم میں سے کسی کے علم کا استعمال اس انداز سے ہو کہ امت مسلمہ کو اس کا نقصان یا پاداش برداشت کرنا پڑے تو شاید یہ علم کا بہتر استعمال نہیں ۔ مزید مشورہ برادر مکرم جناب مولانا زاہد الراشدیا ور اپنے جد محترم سے فرمالیں ۔

والسلام

ڈاکٹر محمود احمد غازی

نائب رئیس الجامعہ

(٢)

۱۶، اگست، ۲۰۱۰ء

برادر عزیز و مکرم جناب مولانا محمد عمار خان صاحب ناصر

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ مورخہ ۲۶ جولائی کل سفر حرمین سے واپسی پر دیکھا۔ دعوت کا شکریہ۔ جزا کم اللہ

۳۰ ستمبر کو جمعرات ہے اور عدالتی مصروفیت کا دن ہے ۔ میں اتوار کے روز صبح کے وقت دستیاب ہو سکتا ہوں ۔آپ ستمبر /شوال کے مہینہ میں کوئی سا اتوار رکھ لیں ۔

            والد مکرم کی خدمت میں سلام عرض کر دیں ۔ آپ کی تحریر بابت تو لیت بیت المقدس کیا الگ سے بھی چھپی ہے ؟

اس کی ایک نقل درکار ہے ۔

والسلام مخلص

محمود احمد غازی

 

 

 

 

بنام : محمد رضا تیمور

۱۹، اکتوبر، ۲۰۰۷ء

برادر مکرم جناب محمد رضا تیمور ایم فل

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ ملا۔ ممنون ہوا۔ جزا کم اللہ !

            اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کو محاضرات کا یہ سلسلہ پسند آیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کو قارئین کے لیے نافع اور ناچیز مولف کے لیے تو شہ آخرت بنا ئے ۔

            آپ شوق سے ان کی تلخیص کیجئے ۔مناسب یہ ہوگا کہ پہلے کسی رسالہ میں ایک ایک محاضرہ شائع کرتے رہیے۔ قارئین کے تبصرہ اور رد عمل سے افادیت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ اس کام کیلیے گوجرانوالہ کا الشریعہ موزوں معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے لیے پہلے مولانا زاہد الراشدی سے استمزاج کر لیں ۔

والسلام

 

 

 

 

بنام : شبیر احمد خان میواتی

۰۰۔۹۔۴

برادر مکرم جناب مولانا شبیر احمد خان صاحب میواتی زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            گرام نامہ مورخہ ،۱۷،۸،۲۰۰۰ء موصول ہوا۔ جزاکم اللہ ۔ آپ نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے ، ان کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنی دعوات صالحہ میں یاد فرماتے رہیں ۔

            حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے لیے میرے بھی وہی احساسات ہیں جن کا آپ نے اظہار فرمایا ہے ۔ اللہ کرے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔

والسلام

مخلص

محمود احمد غازی

 

 

 

 

بنام : مولانا حیدر علی مینوی

برادر مکرم و محترم جناب مولانا حیدر علی مینوی صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ میں ایک عرصہ دراز سے آپ کو یہ عریضہ ارسال کرنے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن میرے پاس آپ کا پتہ نہ تھا۔

اگر بہ سہولت ممکن ہو تو استاذ جلیل حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مینوی رحمہ اللہ کی تالیف جواہر الاصول کے نسخے ارسال فرمادیں ۔

میں یہاں اگست کے اوائل تک مقیم ہوں ۔ پھر قطر واپس جانا ہے جہاں میں آج کل مقیم ہوں ۔

والسلام

نیاز مند

محمود احمد غازی

 

 

 

 

بنام : نعمت اللہ سومرو

مورخہ ،۲،اکتوبر ، ۱۹۹۱ء

برادر مکرم و محترمجناب نعمت اللہ سومرو صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے ۔ آپ کا خط مورخہ ۲۱ ، ستمبر موصول ہوا کہ آپ کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہت خراب ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد از ہماری ان مشکلات کو دور فرمادے ۔

            یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ لوگ شاہ عبد اللطیف لائبریری کے اہتمام میں بہت سے دینی پروگرام منعقد کر رہے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی یہ تعمیری کوششیں بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوں گی اور آپ اسلام کے پیغام امن و مساوات کو عام کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ اس سلسلے میں اکیڈمی اپنے وسائل کے مطابق آپ کی ہر خدمت کے لیے تیار ہے ۔

            قطر ٹیلی ویژن کے جس پروگرام کا آپ نے ذکر کیا ہے ، وہ پہلے سے اکیڈمی میں موجود ہے اور اس کو اردو میں منتقل کرانے کی تجویز زیر غور ہے ۔

والسلام مخلص

محمود احمد غازی

 

 



؂[1] ۔ ۱۹۹۹ء میں شش ماہی السیرۃ کے اجرا کے موقع پر اہل علم کو خطوط لکھے گئے تھے ۔ بعض حضرات کو یاد دہانی کے لیے اس کی نقل مکرر روانہ کی گئی تھی۔ یہ خط اس کے جواب ہی موصول ہوا تھا۔

؂[2] ۔ سید سعید احمد شاہ صاحب ادارہ تحقیقات اسلامی میں ناظم مطبوعات تھے۔ یونیورسٹی کی نہایت قابل احترام بزرگ شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ دادا جان مولانا سید زوار حسین شاہؒ سے بیعت تھے۔ اسی نسبت سے ڈاکٹر صاحب نے خط میں ا ن کا تذکرہ کیا تھا۔

؂[3] ۔ ان دنوں السیرۃ کا چوتھا شمارہ شائع ہوا تھا جو ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ارسال کیا گیا تھا۔

؂[4] ۔ حج کے معاملات اور وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام ہر سال منعقد ہونے والی سیرت کا نفرنس کے بعض امور کی جانب ڈاکٹر صاحب کی توجہ دلائی تھی۔ اس کے جواب میں ان کے دفتر سے یہ خط موصول ہوا۔

؂[5] ۔ راقم نے ایک تقریب میں سیرت نگاری پر ایک گفتگو کی تھی جو اس وقت شائع نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریک پریہ مضمون شائع آنے کی ہمت ہوئی اور یہ مضمون ’’مطالعہ سیرت کی وسعت، بر اعظم پاک و ہند‘‘ کے عنوان سے شش ماہی السیرۃ کے شمارہ نمبر ۱۸ میں شائع ہوا ہے۔

؂[6] ۔ ان محاضرات کے عنوانات ہیں : مطالعہ سیرت پاک و ہند میں ۔ مطالعہ سیرت دور جدید میں ۔ مطالعہ سیرت مستقبل کی ممکنہ جہتیں ۔ یہ مجموعہ محاضرات سیرت کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے ۔

؂[7] ۔ ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام میں کراچی تشریف لائے تو ڈاکٹر سید محمد ابو الخیر کشفیؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔پھر راقم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کشفی صاحب کے ہاں حاضر ہوا تھا۔ اس کا ذکر ہے ۔

؂[8] ۔ ان دنوں ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کے محاضرات سیرت جاری تھے ، اس کاذکر ہے۔

؂[9] ۔ تقریر جامعۃ الرشید کراچی کی گئی تھی اور اپنے موضوع پر نہایت مفصل تقریر تھی۔ یہ پہلے دو اقساط میں ماہنامہ تعمیر افکار کراچی کے جنوری ، فروری۲۰۱۰ء کے شماروں میں شائع ہوئی تھی۔ بعد میں اسے کتابی شکل میں ’’اسلامی بینکاری ۔ ایک تعارف ‘‘ کے عنوان سے دارالعلم و لتحقیق کی طرف سے شائع کیا گیا۔(صفحات۱۱۱۔ مارچ۲۰۱۰ء)

؂[10] ۔ ڈاکٹر صاحب کے یہ چھے محاضرات راقم نے مرتب کیے تھے ۔ ان کی اشاعت میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ مجموعہ’’اسلام اور مغرب تعلقات‘‘ کے عنوان سے دسمبر ۲۰۰۹ء میں دارالعلم و التحقیق سے شائع ہوا۔(صفحات ۲۲۱)

؂[11] ۔ یہ خط راقم کے نام ڈاکٹر صاحب کا آخری خط ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی کتاب تاریخ الحرکۃ المجدیۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اسکے کچھ نسخے ذاتی طور پر خریدنے کا عندیہ ظاہر کیا تو راقم نے دو نسخے حاصل کر کے ارسال کر دئیے تھے ۔ ان کی رقم کی ادائیگی کے لیے ڈاکٹر صاحب مصر تھے۔ راقم نے عرض کیا کہ عند الملاقات وصول کر لوں گا، اس کی فکر نہ فرمائیں ۔ ۱۴ ، ستمبر کو ڈاکٹر صاحب اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈو ائزی ورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے تشریف لائے ۔ یہ میٹنگ ۱۵، ستمبر کو تھی۔ اسی روز وہاں سے فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحب کی ائیر پورٹ روانگی تھی۔ ان کا حکم ہوا کہ میں اسٹیٹ بنک میں ہی مل لو ۔ اس لیے وہاں جانا ہوں جس کا خط میں ذکر ہے اور راقم کو رقم کی ادائیگی وہ ذاتی کام تھا جس پر ڈاکٹر صاحب معذرت کر رہے ہیں ۔ اللہ اکبر!

؂[12] ۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ خطبہ ان کی سلسلہ محاضرات کی آخری کتاب ’’محاضرات معیشت و تجارت‘‘کا ابتدائی خطبہ ہے جس میں معیشت کی قرآنی ہدایات پر گفتگو کی گئی ہے ۔ راقم نے ان میں چند حوالوں کا اضافہ کر کے اسی ملاقات ہی میں مضمون ڈاکٹر صاحب کو پیش کیا تھا تاکہ وہ ایک نظر اسے ملاحظہ فرمالیں ۔ یہ خطبرہ ان شاء اللہ ماہ نامہ تعمیر افکار کے قرآن نمبر میں شائع ہوگا۔

؂[13] ۔ بشکریہ سہ ماہی الزبیر، بہاولپور، شمارہ ۳، ۲۰۰۶ء، ص۲۸۹

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post