ڈاکٹرمحمود احمد غازی اہل علم کی نظرمیں

 

علمی حلقوں میں ڈاکٹراحمد غازیؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ، علمی لحاظ سے موصوف کی شخصیت متنوع پہلوؤں سے عبارت ہے۔ قومی وبین الاقوامی فورم پر اسلام اورعالم اسلام کے موقف کی بھرپور تائید کی۔ ڈاکٹرموصوف ایک طرف تو دینی مدارس سے فارغ التحصیل تھے تودوسری طرف جدید عصری علوم پر بھی دسترس حاصل تھی۔ اپنے علمی کمال کے بل بوتے پر مختلف عہدوں پر فائز رہے، وفاقی وزیر ،شرعی عدالت کے جج، سپریم کورٹ کے شریعت بینچ کے ممبرہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پربھی آپ نے اپنی ذمہ داریاں کماحقہ انجام دیں ۔ اپنے کام کی وسعتوں کے پیش نظر آپ کا حلقہ احباب بھی وسیع تھا۔ اسلامی یونیورسٹی اورقطریونیورسٹی دوحہ میں تدریسی وانتظامی ذمہ داریاں انجام دینے کی وجہ سے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد فیض یاب ہوئی۔ عدل و انصاف کے شعبہ سے منسلک ہونے کی وجہ سے وکلاء اورجج صاحبان کے ساتھ بھی دوستانہ روابط قائم رہے۔

ڈاکٹرغازیؒ کی زندگی کے بارے میں شائع ہونے والے مختلف مضامین میں آپ کی نجی اورگھریلوسرگرمیوں کا ذکربھی ملتاہے، اہل خانہ کے ساتھ آپ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے ملازمین بھی آپ کے حسن سلوک کے معترف ہیں ، ان کے ساتھ آپ کا رویہ دوستانہ تھا۔ ایک زاوئیے سے دیکھا جائے توآپ کے گھریلو ملازمین آپ کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔

راقم الحروف کی یہ کوشش ہوگی کہ ان صفحات میں ڈاکٹر غازیؒ کے مختلف شخصیات کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کوواضح کرنے کےلیے ایک تحقیقی بحث شامل کی جائے ۔ اس مقصد کے لیے راقم نے سوالنامہ ،انٹرویوز اورمختلف رسائل وجرائد سے استفادہ کیا ہے۔

 

ڈاکٹرظفر اسحاق انصاری(ڈائریکٹر ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد)

ڈاکٹرمحمود احمد غازی کے بارے میں اپنی رائے کااظہاریوں کرتے ہیں :

"اسلامی تعلیمات ڈاکٹر غازی کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھی۔ دیانت،امانت اورتقویٰ میں ان کا کوئی ثانی نظرنہیں آتا۔ ڈاکٹرغازی نے اپنی ملازمت کے آخری دن دفترکی گاڑی استعمال نہ کی اوراس کا عذر یہ پیش کیا کہ میں اب صدر نہیں ہوں ۔ تاریخ ،سیرت،فقہ، حدیث،علم الکلام،فلسفہ، ادب اورشعر سب میں ان کو دلچسپی تھی۔ وہ وقت ضائع نہ کرتے تھے۔" ؂[1]

قاری محمد حنیف جالندھری (سیکرٹری جنرل وفاق المدارس،ملتان)

"ڈاکٹر غازی ایک عالمی، تاریخی ،انفرادی اورجامع شخصیت تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سے کمالات سے نوازاتھا ،وسعت مطالعہ میں اپناثانی نہیں رکھتے تھے ایک دفعہ رمضان المبارک میں مراکش کے سفرمیں ، میں ان کے ساتھ تھا۔ دروس حسنیہ میں شرکت کے بعد جب ہم بازارگئے تووہاں بھی ڈاکٹرصاحب نے کتابوں کی خریداری کی اورفرمایا کہ میں جہاں بھی جاتاہوں کتاب ضرورخریدتاہوں ۔ وزارت کے دنوں میں ڈاکٹرغازی کے ہمراہ فریضہ حج کی ادائیگی کاموقع ملا،آپ نے ہمارے ساتھ عام حاجیوں کی طرح وقت گزارا،کسی قسم کاپروٹوکول نہ تھا۔" ؂[2]

سید عزیزالرحمٰن ،مہتمم دارالعلم والتحقیق،کراچی

دارالعلم وتحقیق کاآغاز٢٠٠٧ء میں ہوا۔ ادارے کی افتتاحی تقریب میں ڈاکٹرغازیؒ کو دعوت دی گئی، اس موقع پر آپ نے "اسلام اورمغرب" کے موضوع پر خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے قبل سید عزیرالرحمٰن کوڈاکٹرموصوف کی تقاریر وخطبات سننے کا کئی بار اتفاق ہوا، جن سے آپ متاثر تھے، اس حقیقت کے پیش نظر ڈاکٹرغازیؒ کو دعوت دی گئی تھی۔ سید عزیزالرحمٰن ،ڈاکٹرغازیؒ کو عبقری شخصیت قراردیتے ہیں ۔ دارالعلم والتحقیق میں جب خطبات کا سلسلہ شروع کیاگیا تو یہ طے پایا کہ ہر سال یہ خطبہ ڈاکٹرغازیؒ فرمائیں گے۔ ڈاکٹرغازیؒ کے انداز تحریر کے بارے میں سید عزیزالرحمٰن رقمطرازہیں :

"ڈاکٹرصاحب کو اللہ تعالیٰ نے عجیب صلاحیتوں سے نوازاتھا۔ مسلسل انتہائی عالمانہ گفتگو کرنے کا ملکہ رکھتے تھے، آپ کی گفتگو انتہائی مربوط ہوتی، اس طرح کہ گویاکوئی لکھاہوامتن پڑھ رہے ہوں ۔ بہت سے مقامات پر آپ کی تقریر کے پورے پورے جملے تحری ہیں ، اسی طرح منتقل ہوجاتے ہیں جیسے گفتگو میں اداکیے گئے تھے۔ پھر نہایت دقیق،پیچیدہ اورفنی مباحث کوعام فہم اسلوب میں پیش کرنے کا ملکہ بھی بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، ڈاکٹرصاحب اس حیثیت سے ممتاز وفائق نظرآتے ہیں ۔ عالم اسلام پر جس قدرگہری نظران کی تھی ، کتابی دنیا سے تعلق رکھنے والے اوردرس وتدریس سے وابستہ افراد میں بھی یہ خوبی خال خال نظرآتی ہے۔

سید عزیزالرحمٰن نے اپنی گفتگو میں ڈاکٹرغازیؒ کی مختلف شعبوں میں خدمات کا تذکرہ بھی کیا۔ آپ کی نظرمیں ڈاکٹرغازیؒ ایک انتھک مجاہد کی طرح مختلف محاذوں پرسرگرم عمل رہے۔ جن حضرات نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کیا وہ بہت سے واقعات اورشواہد سے واقف ہوں گے۔ سید عزیزالرحمٰن کی رائے ہے کہ یہ تمام معلومات امانت ہیں اورلوگوں تک پہنچانا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔" ؂[3]

ڈاکٹرغازیؒ کے امتیازی خصائص کاتذکرہ کرتے ہوئے سید عزیزالرحمٰن کہتے ہیں کہ:

"ڈاکٹر صاحب نہایت جفاکش ،محنتی اوردل دردمند رکھنے والے محقق،عالم،مفکر،داعی اوررفیقہ تھے۔ انتہائی متدین اورحددرجہ متقی شخص تھے۔ برس ہابرس کامشاہدہ ہے کہ سرکاری دفتری ذمہ داریوں میں سرکاری مراعات سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھاتے۔" ؂[4]

ڈاکٹرصاحبزادہ ساجد الرحمن(ڈائریکٹر ،دعوہ اکیڈمی،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد)

ڈاکٹرغازیؒ ایک عرصہ تک دعوہ اکیڈمی سے وابستہ رہے اس لحاظ سے دونوں شخصیات ایک دوسرے سے خوب واقفیت رکھتی تھیں ،ڈاکٹرغازی کی صلاحیتوں کے بارے میں بتاتے ہیں :

"ڈاکٹرمحمود احمدغازی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ وہ ایک ہمہ جہت و ہمہ پہلوشخصیت تھے اورقدیم وجدید علوم کا حسین امتزاج تھے ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ علم دین کی ترویج واشاعت ،اقداراسلامیہ کے فروغ اورملک وملت کی بھلائی کے لیے صرف تھا۔" ؂[5]

ڈاکٹرصہیب حسن (صدرجمعیت اہل حدیث، برطانیہ)

"ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ایک عبقری شخصیت تھی۔ آپ نے پوری زندگی بغیرمسلکی تعصب کے علمی ودینی خدمات انجام دیں ، ڈاکٹرصاحب نے میرے والد مرحوم سے بھی اجازت حدیث حاصل کی تھی۔"؂[6]

پروفیسر ڈاکٹرابراہیم(شعبہ اردو،جامعہ ازہر،قاہرہ)

"ڈاکٹرغازیؒ عالم اسلام کے ایک مایہ ناز محقق اور فقیہ تھے ،ڈاکٹر غازیؒ جیسے معتدل فکر اور متوازن شخصیت کے مالک علماء اورمحققین کی موجودگی تمام عالم اسلام کے لیے باعث رحمت تھی۔"؂[7]

ڈاکٹرمحمد الغزالی(جج وفاقی شرعی عدالت،اسلام آباد)

آپ ڈاکٹرغازی کے برادراصغر ہیں ۔ زندگی کا بیشتر حصہ ایک ساتھ گزرا ایک دوسرے کے ساتھ بے تکلفی تھی، ڈاکٹر غازی کے بارے میں گفتگوکرتے ہوئے بتاتے ہیں :

"ڈاکٹر غازی کو بچپن سے ہی حصولِ علم کا بہت ذوق وشوق تھا اورکبھی بچپن میں بھی کھیل کھلونے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ کتاب سے بہت زیادہ دلچسپی اورعلم کا حصول ان کی اولین ترجیح تھی۔"؂[8]

محمدموسیٰ بھٹو،مصنف"عصرحاضر کی شخصیات میری نظرمیں "

محمد موسیٰ بھٹو اپنی اس کتاب کی تالیف کے بارے میں بتاتے ہیں کہ برصغیر کی مختلف اہم شخصیات کے ساتھ میرے روابط رہے ہیں ، اسی وجہ سے مختلف اہلِ علم سے خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ ان حضرات کے خطوط کا بڑاذخیرہ میرے پاس موجود تھا، ان خطوط کی بنیاد پر ایک کتاب ترتیب دینے کاخیال آیا۔ کتاب کی تدوین کے بارے میں مولانا امینی اورڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ نے توجہ دلائی کہ عصرحاضر میں دعوت اسلامی اوردورجدید میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اورمفکرین کے عنوان پر کتاب لکھی جائے۔ چنانچہ اس تحریک کے پیش نظر اس موضوع پر قلم اٹھایا۔

محمد موسیٰ بھٹو نے مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ قد آور شخصیات کواپنی کتاب کی زینت بنایا ہے، ان میں سے ایک ڈاکٹرغازی ؒ بھی ہیں ۔ مصنف نے ڈاکٹرغازیؒ کو"اصحاب علم و دانش " کی فہرست میں ذکرکیا ہے۔ فاضل مصنف ڈاکٹرغازیؒ کوملک وملت کے لیے روشنی کی ایک کرن سمجھتے ہیں ، آپ کے بقول:

"ڈاکٹرمحمود احمدغازی ملک و ملت کا بڑاسرمایہ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے انہیں جن صلاحیتوں ،خوبیوں اورکمالات سے نوازا ہے انہیں دیکھ کر ملک و قوم کے بارے میں یہ حوصلہ بڑھتاہے کہ جس قوم میں اس طرح کی شخصیتیں موجود ہوں ان شاء اللہ وہ قوم سرسبز و آباد ہوگی۔"

ڈاکٹرغازیؒ کی ذات کے بارے میں مزید کہتے ہیں :

"ا ن کی ساری سعادتوں میں جہاں ان کے گہرے مطالعے ومشاہدے اورطویل تجربات کوعمل دخل ہے وہاں ان کی ایک خاص صفت کوبھی بنیادی عمل دخل حاصل ہے ۔ وہ صفت ان کے بڑے پَن سے دستبرداری ،چھوٹے پن کا مظاہرہ اورعاجزی وخاکساری کا رویہ ہے۔"؂[9]

پرویز مشرف دور میں ڈاکٹرغازیؒ کا سرکاری عہدے پر فائز ہونا بعض لوگوں کی رائے کے مطابق درست فیصلہ نہ تھا۔ محمد موسیٰ بھٹو نے اس حوالہ سے تنقیدی شذرہ تحریرکیا ہے۔

ڈاکٹرغازی کی یہ حکمت سمجھ نہ آسکی کہ وہ ریاستی اداروں کے ذریعہ علمی اوردعوتی خدمات سرانجام دینے اوراپنی زندگی اورصلاحیتوں کوخالص علمی اوردعوتی سرگرمیوں میں صَرف کرنے بجائے حکمرانوں سے قرب اوران کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعہ کے طورپر کیوں استعمال ہونے لگے۔ حکمرانوں سے قرب اوروزارت کا عہدہ بجائے خود غلط نہیں ۔لیکن ایسے حالات میں جہاں ہمارے حکمران عالمی طاقت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اورذہنی طورپرسیکولرہوں ، اس طرح کی حکومت کی وزارت میں کارہائے نمایاں سرانجام دینا تو درکنار،اپنی علمی اوردعوتی حیثیت اورزندگی بھر کی ریاضتوں وجدوجہد سے قائم اپنی امتیازی شان کوبرقراررکھنا ہی دشوار ہے۔"؂[10]

اپنے اس تاثراتی نوٹ میں مصنف نے ڈاکٹر غازیؒ سے معذرت بھی ، مصنف کا مقصود نہ توتنقید ہے اورنہ ہی خودنمائی۔

حیران خٹک:

حیران خٹک ،ماہنامہ دعوۃ،دعوۃ اکیڈمی،اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد کی مجلس مشاورت کے رکن ہیں ۔ ڈاکٹرغازی چونکہ اسلامی یونیورسٹی سے ایک عرصہ تک منسلک رہے ہیں ، اوردعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کے طورپر خدمات سرانجام دیں ۔ حیران خٹک کی دعوۃ اکیڈمی میں تعیناتی کا سبب بھی ڈاکٹرغازیؒ ہیں ، ڈاکٹر موصوف کے ساتھ اپنے تعلقات کی نوعیت کوبیان کرتے ہوئے حیران خٹک رقمطراز ہیں :

"ڈاکٹرغازیؒ درویش صفت انسان تھے، اگرچہ وہ ملنے ملانے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہارنہیں کرتے تھے، لیکن میں عادت کے مطابق آپ کے ساتھ بے تکلفی برتتا، کبھی کبھی یہ بے تکلفی بے ادبی کی حدود کوبھی چھولیتی تھی، لیکن ڈاکٹرصاحب میرے مزاج سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میری باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے۔"

ڈاکٹر محمود غازیؒ ایک انسان تھے، اورانسان معصوم عن الخطاء نہیں ہوسکتا،لیکن امانت ودیانت کے لحاظ سے ڈاکٹر صاحب جن بلندیوں پرفائز تھے اس کا اس دورمیں تصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ غازی صاحب اس لحاظ سے گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے، اور انہوں نے عملی طورپر یہ بات سمجھائی کہ امانت و دیانت کسے کہتے ہیں ۔"؂[11]

حیران خٹک کو ڈاکٹرغازیؒ کی صحبت طویل عرصہ تک حاصل رہی ، آپ کی رائے ان کے ذاتی تجربات ومشاہدات پرمبنی ہے۔

آغارفیق احمد خان:

عزت مآب جناب آغارفیق احمد خان ،وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ہیں اور ڈاکٹرغازیؒ آپ کی رفاقت میں شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے کام کرتے رہے، اس حوالہ سے آغارفیق احمد خان آپ کی صلاحیتوں سے بخوبی واقفیت رکھتے تھے۔ ڈاکٹرغازیؒ کی تعلیمی خدمات کاتذکرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ان الفاظ کااستعمال کیا:

"ڈاکٹرغازیؒ نے تعلیمی،تحقیقی اورقانون کے شعبہ میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں ۔ قرآن،حدیث،سنت،فقہ سمیت اسلامی معیشت پر ان کی کتب ، اسلامی ادب میں قابل قدر اضافہ ہیں ۔ انہوں نے اسلام کے سیاسی اورمعاشی نظام پر تحقیقی کام کیا، ان کے پیش نظر ملک میں متوازن سیاسی اور اقتصادی نظام رائج کرنے کی ابتداء کرناتھی۔"؂[12]

مولانازاہد الراشدی:

ڈاکٹرغازی کے علمی مقام و مرتبہ کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

"میری نظر میں برصغیر میں دوایسی شخصیات ہیں جو مغرب کو آج کے دورکی زبان میں حجۃ اللہ البالغہ پڑھاسکتے ہیں اورامام شاہ ولی اللہؒ کافلسفہ سمجھاسکتے ہیں ، ان میں اول شخصیت مولانامفتی تقی عثمانی اوردوسری ڈاکٹرمحمواحمدغازیؒ ہیں ۔"؂[13]

 

 

 

 

 

 



؂[1] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٦٨

؂[2] ۔ انٹرویوبذریعہ ٹیلی فون مورخہ ١٠ اپریل،٢٠١٣ء

؂[3] ۔ ڈاکٹرغازی،محموداحمد۔خطبات کراچی،ص٨

؂[4] ۔ ششماہی السیرۃ عالمی فروری٢٠١١ء،زواراکیڈمی پبلی کیشنز ،کراچی ،ص٣٨٨

؂[5] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٦٨

؂[6] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٨٣

؂[7] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٧٩

؂[8] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص٥٨٠

؂[9] ۔ عہدحاضرکی شخصیات میری نظرمیں ،ص٣٨٥

؂[10] ۔ عہدحاضرکی شخصیات میری نظرمیں ،ص٣٨٨

؂[11] ۔ ماہنامہ دعوۃ،دعوۃ اکیڈمی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد،ص١٦٨

؂[12] ۔ روزنامہ جنگ راولپنڈی،٢٨ ستمبر٢٠١٠ء

؂[13] ۔ ماہنامہ الشریعہ ،جنوری فروری،٢٠١١ء،ص١٢٣

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post